Express News:
2025-11-23@22:34:10 GMT

فلور انڈسٹری میں تنظیمی تقسیم؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند روز قبل اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ ’’پنجاب پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہے‘‘،مریم بی بی نے یہ جملہ پنجاب میں گندم کی بڑی کاشت اور پیداوار کے تناظر میں بولاہے کیونکہ گندم آٹا پاکستان کی بنیادی غذا ہے اور پنجاب70 فیصد کے لگ بھگ گندم پیدا کرتا ہے ۔پنجاب میں تقریبا40 برس تک گندم کی سرکاری خریدوفروخت کا نظام لاگو رہا ہے ۔خوشہ گندم کے کھیت سے دوکان تک سفر کا ہر سنگ میل کرپشن اورمنافقت کے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔

اس اذیت ناک سفرمیں سب سے زیادہ ’’SUFFER ‘‘کسان اور صارف نے کیا ہے۔  ماسوائے چند برس کے جن میں کسان کو کچھ بہتر قیمت مل گئی ورنہ کسان کو اپنے کھیت میں اپنی فصل کی منصفانہ منافع بخش قیمت نہیں مل سکی ہے،بیوپاریوں نے ہمیشہ اس کا استحصال کیا ہے،جب کبھی کسان نے براہ راست گندم محکمہ خوراک کو فروخت کرنے کی کوشش کی تو کبھی اسے ’’باردانہ بوری‘‘ کے حصول کے لیے علاقہ پٹواری سے گرداوری بنوانے کے لیے رشوت دینی پڑی، کبھی فوڈ سینٹر والے کی جیب گرم کرنا پڑی، باردانہ میں گندم بھر کر سینٹر پر گیا تو ’’کوالٹی اور نمی‘‘ کا اعتراض لگا کر ایک سو کلو گرام گندم پر ایک کلو یا اس سے زیادہ گندم بطور’’بھتہ‘‘ دینا پڑی ،کسی اصول پسند کسان نے بھتہ دینے سے انکار کیا تو اس کی ٹرالی سینٹر کے باہر کئی دنوں تک روک کر ’’سزا‘‘ دی گئی اور پھر ’’جرمانہ‘‘ بھی دوگنا وصول کیا گیا ۔

فلورملز کو سرکاری گندم اجراء کا وقت آیا تو فوڈ والے ’’استادوں‘‘ نے دن دوگنی رات چوگنی کمائی کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا، کبھی گندم کی بوریوں میں ریت مٹی کی ملاوٹ اور کبھی ’’مصنوعی بارش‘‘ برسا کر آمدن بڑھائی گئی لیکن محدود تعداد میں فلورملز کو چھوڑ کر باقی سب مل مالکان نے اپنے گھاٹے پورا کرنے کے طریقے نکال رکھے تھے۔

سیکڑوں ایسی فلورملز ہیں جو محکمہ خوراک کی گندم لے کر اسے اوپن مارکیٹ میں فعال فلورملز کو فروخت کرکے ’’خالص منافع‘‘ کماتی تھیں ،نہ بجلی کا بل، نہ ملازمین کی تنخواہوں کا خرچہ۔سرکاری گندم کی فروخت میں تو انڈسٹری کے بعض اہم ترین گروپ لیڈرز بھی ملوث رہے ہیں لیکن چونکہ اس وقت محکمہ خوراک ان سب کا ’’کانا‘‘ ہوا کرتا تھا اس لیے سب کچھ جانتے دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کر لی جاتی تھیں،سرکاری طور پر مقرر کردہ پسائی کی شرح پر مکمل عملدرآمد کرنے کا تو رواج ہی نہیں تھا، رمضان پیکیج کے نام پر سرکاری محکموں، ضلعی انتظامیہ اور فلورملز کو’’بونس کرپشن‘‘ کا موقع مل جاتا تھا۔ پنجاب حکومت کی سبسڈی والے آٹا کے سبز تھیلے دن کو جمع کر کے ری پیکنگ کے بعد خیبر پختونخوا کو بھیج کر ایک ہی رات میں کروڑوں روپے کما لیے جاتے تھے ۔

ہمارے آٹا ڈیلرز اور دوکانداروں نے بھی خوب مزے لوٹے، اوورچارنگ تو عام تھی لیکن جب کبھی مصنوعی قلت ہوتی تو ان سب کی دن کے وقت بھی چاند رات ہو جاتی تھی ۔یہی وہ لوٹ مار تھی جس نے پنجاب میں ضرورت نہ ہونے کے باوجود فلورملز کی تعداد میں سیکڑوں کا اضافہ کیا تھا ۔فلورملز ایسوسی ایشن آج بند پڑی فلورملز کی ’’وکالت‘‘ میں انھیں کاروبار کا موقع دینے کا مطالبہ کر رہی ہے مگرعام آدمی یہ سوال کر رہا ہے کہ ان ملز نے اپنے مالی نظام کے تحت بزنس ماڈل کیوں نہیں بنایا، جیسے ہی سرکاری کوٹہ کی بہار ختم ہوئی ان سیکڑوں ملز پر خزاں کیوں چھا گئی ۔اگر حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں تو پھر حکومت کا یہ بھی کام نہیں کہ سرکاری وسائل کے سہارے کسی کو کاروبار کروانے کا بندوبست کرے اور وہ بھی ایسے لوگوں کو جنھوں نے ماضی میں سرکاری وسائل کو گدھ کی مانند نوچا ہو۔

پنجاب میں اس وقت فلورملز کی مجموعی تعداد 1200کے لگ بھگ ہے اور ان کی گندم پسائی کی استعداد آیندہ 50 برس کے لیے وافر ہے۔فلورملنگ انڈسٹری کے قائدین میں شمار ہونے والے عاصم رضا متعدد انٹرویوز اور تقاریب میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ فلورملز ضرورت سے زیادہ لگائی گئیں مگر کاش کسی مراسلے کے ذریعے وفاق اور پنجاب حکومت کو ملز کی اس غیر فطری بڑھوتری پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی جاتی۔

ان دنوں تو فلورملز انڈسٹری کے رہنماؤں کو خوشی ہوا کرتی تھی کہ زیادہ تعداد میں فلورملز لگیں تاکہ ان کے ووٹ بن سکیں اور فلورملز ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ’’بلا مقابلہ‘‘ فتح کو جاری رکھا جا سکے لیکن کسی رہنما نے اپنی انڈسٹری کو مستقبل میں پیش آنے والے مسائل اور چیلنجز کا ادراک کیا نہ ہی کسی نے قومی وسائل کے ضیاع کی پرواہ کی اور نہ کسی رہنما نے یہ سوچاکہ جس دن سرکاری کوٹہ کی خیرات بٹنا بند ہوگئی تو کوٹہ کے سہارے چلنے والے مل مالکان کشکول لے کر کہاں جائیں گے۔عالمی مالیاتی ادارے کی تین سال قبل نشاندہی کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے طے کر لیا تھا کہ گندم کی سرکاری خریدو فروخت کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا کیونکہ یہ نظام ماسوائے کرپشن، لوٹ مار، بے قاعدگیوں اور ہیرا پھیریوں کے کچھ نہیں۔

سرکاری خریداری تو دو سال سے ختم کردی گئی ہے اور نجی شعبے کے اشتراک سے ایک نیا خریداری نظام آیندہ برس متعارف کروایا جائے گا جو کسانوں کو اپنی گندم’’ہولڈ‘‘ کر کے وہ قیمت مہیا کر نے کا ذریعہ بنے گا جو بڑے بیوپاری یا بڑی فلورملز سستی گندم خریدکر چند ماہ بعد کماتے ہیں۔اس وقت پنجاب میں محکمہ خوراک کے پاس ساڑھے آٹھ لاکھ ٹن سرکاری گندم موجود ہے جس کا باضابطہ اجراء آیندہ ماہ ہوگا جب کہ اس وقت محکمہ خوراک ان نجی کمپنیوں کے پاس موجود نجی گندم فعال فلورملز کو3225 روپے فی من قیمت پر دلوا رہا ہے جو کہ ان کمپنیوں نے کسانوں سے سستے داموں خرید کر اس امید پر ذخیرہ کی ہوئی ہے تاکہ چارہزار میں بیچ سکیں۔ نجی گندم فراہمی درحقیقت وہ تنازعہ ہے جس نے ایک جانب فلورملز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں اور حکومت کے درمیان ایک سرد جنگ شروع کر رکھی ہے تو دوسری جانب پنجاب کی فلورملنگ انڈسٹری ’’فعال‘‘ اور’’غیر فعال‘‘ کے دھڑوں میں واضح تقسیم ہو چکی ہے۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز تو بہت اٹل ارادہ کر چکی ہیں کہ کوٹہ گروپ کے کسی دباؤ اور بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گی اسی لیے انھوں نے سیکریٹری پرائس کنٹرول ڈاکٹر کرن خورشید اور ڈی جی امجد حفیظ کو ’’فری ہینڈ‘‘ دے رکھا ہے اور انھیں بھی ہدایت کی ہے کہ کسی دباؤ میں کوئی عوام دشمن یا قومی خزانہ دشمن پالیسی نہ بنائی جائے۔ جہاں تک فلورملنگ انڈسٹری کی تقسیم کا معاملہ ہے تو وہ بہت سنجیدہ رخ اختیار کر رہا ہے۔یہ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ فلورملز ایسوسی ایشن کا پلیٹ فارم اس وقت عملی طور پر غیر فعال فلورملز کو ’’موقع‘‘ دلوانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے جب کہ فعال ملز کے حق کی بات نہیں ہو رہی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلورملز ایسوسی ایشن محکمہ خوراک فلورملز کو گندم کی کے لیے ملز کی رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

خالد خورشید کی وجہ سے گلگت بلتستان سے تحریک انصاف فارغ ہوگئی، گلبر خان

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اڑھائی سالہ دور اقتدار میں گلگت بلتستان کے ایسے دیرینہ اور بڑے مسائل جو سابق حکومتیں حل کرنے میں ناکام ہوئیں، ہم نے مستقل بنیادوں پر حل کر دیئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ اڑھائی سالہ دور اقتدار میں گلگت بلتستان کے ایسے دیرینہ اور بڑے مسائل جو سابق حکومتیں حل کرنے میں ناکام ہوئیں، ہم نے مستقل بنیادوں پر حل کر دیئے ہیں، ہم اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرکے فارغ ہو رہے ہیں اور جس طرح محشر میں ہم نے حساب دینا ہے، اسی طرح ہم نے عوام کو حساب دینا ہے۔ انہوں نے اسمبلی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کا مسئلہ گذشتہ 15 سالوں سے چل رہا تھا، ہم نے اس مسئلے کو حل کر دیا اور لینڈ ریفارم ایکٹ کے تحت سب سے چھوٹے گاؤں کے لوگوں کو بھی اربوں کھربوں کا فائدہ ہوگا۔ گذشتہ ستر سالوں سے عوام اپنی جائیداد کے مالک نہیں تھے، ہم نے تاریخ میں پہلی بار عوام کو ان کی جائیداد کا مالک بنا دیا، اسی طرح گندم کا مسئلہ ہر سال کھڑا ہوتا تھا اور سالانہ گندم کے مسئلے پر ہر حکومت میں احتجاج ہوتا تھا، جو بھی حکومت اقتدار ہوتی تو گندم کا مسئلہ سامنے ہوتا تھا، ہم نے دو ماہ عوام کے درمیان بیٹھ کر گندم کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کر دیا اور 12 لاکھ بوری گندم کے کوٹے کو اضافہ کرکے پندرہ لاکھ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ خالد خورشید کے دور حکومت میں گندم سبسڈی کی مد میں ساڑھے 9 ارب روپے ملتے تھے، اب 20 ارب روپے ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف گندم کے کوٹے میں اضافہ نہیں کیا بلکہ اسے سسٹم میں بھی لائے ہیں اور گندم مافیا کے تمام تر دبائو کے باوجود تمام سسٹم کو ڈیجیٹل کرکے گندم کی چوری کو روک دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سوست میں تاجروں کا مسئلہ بھی کافی عرصے سے چل رہا تھا، اس مسئلے کو بھی ہم نے مستقل بنیادوں پر حل کر دیا۔ ایک لحاظ سے ہم نے علاقے کو ٹیکس فری زون قرار دلوایا، 4 ارب کے ٹیکس فری کا مطلب یہ ہے کہ ہم سالانہ (30) تیس ارب تک کا سامان چین سے گلگت بلتستان لا سکتے ہیں۔ اس سے غریب لوگوں کو بڑا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کا مسئلہ 15 سالوں سے حل طلب تھا، اسے بھی ہم نے حل کیا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 5 سال کے عرصے میں ہم نے جو ترقیاتی منصوبے دیئے ہیں، وہ گذشتہ دس سال کے عرصے میں بھی کسی نے نہیں دیئے۔

انہوں نے کہا کہ 2010ء میں جب میں وزیر صحت تھا تو ڈی ایچ کیو ہسپتال گلگت کا دورہ کیا تو اس وقت وہاں کل 9 ڈاکٹر تھے، آج ایک ایک شعبے میں نو، نو ڈاکٹر ہیں۔ وزہر اعلیٰ گلگت بلتستان نے مزید کہا کہ پاکستان کے دیگر صوبوں اور آزاد کشمیر میں حکومتیں تبدیل کرنے کیلئے جو کچھ ہوتا ہے، وہ اب تک گلگت بلتستان میں نہیں ہوا۔ پہلے دن سے خالد خورشید کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں شروع ہوئی تھیں اور اس وقت کابینہ کے ممبران کو خریدنے کیلئے کروڑوں روپے کی آفر کی گئی، مگر اس کے باوجود ہمارے غریب ممبران نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ یہ گلگت بلتستان کے عوام کیلئے فخر کی بات ہے۔ جب خالد خورشید کی ڈگری جعلی نکلی تو یہاں پر کسی نہ کسی نے وزیراعلیٰ بننا تھا۔ اس وقت خالد خورشید مشاورت کرتے تو تحریک انصاف تقسیم نہ ہوتی، مگر خالد خورشید کی وجہ سے گلگت بلتستان سے تحریک انصاف فارغ ہوگئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پارٹی انفارمیشن ونگ کا پی ٹی آئی آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے کوئی تعلق نہیں، شیخ وقاص اکرم
  • چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے 42 برس گزر گئے
  • فلور ملز میں کام کرنے والے شہری کے اغواء اور قتل کا معمہ حل، اہم انکشاف
  • نئے صوبے بنانے سے ملک مزید تقسیم کا شکار ہو گا: مریم نواز
  • خالد خورشید کی وجہ سے گلگت بلتستان سے تحریک انصاف فارغ ہوگئی، گلبر خان
  • خالد خورشید کی وجہ سے گلگت بلتستان سے تحریک انصاف فارغ ہو گئی، گلبر خان
  • پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں کینسر کی ادویات نایاب، مریض پریشانی میں
  • میڈیا انڈسٹری اور اکیڈیمیا میں رابطہ اور صحافت کا مستقبل
  • والدین اورطلبا کیلئے اہم خبر! پنجاب بھر کےاسکول صرف 2 گھنٹے کھلیں گے