PCEMکی فیصل آباد میں بوائلر دھماکے کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
فیصل آباد میں گلو بنانے والی فیکٹری میں ہونے والا المناک بوائلر دھماکہ، جس میں مبینہ طور پر 21 مزدور شہید اور متعدد زخمی ہوئے، پاکستان کے صنعتی شعبے میں حفاظتی اقدامات کی ناکامی، بوائلر معائنے کے ناقص نظام، اور ریاستی نگرانی کی کمزوری کا دل دہلا دینے والا ثبوت ہے۔ یہ سانحہ ناقابلِ برداشت نقصان ہے اور ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کی زندگیاں بدستور خطرے میں ہیں۔
جنرل سیکرٹری عمران علی، چیئرمین راجہ منیر احمد، صدر محمد سلیم اور ڈپٹی جنرل سیکرٹری غلام مرتضیٰ ساتھ ہی جوائنٹ سیکرٹری فیصل نواز اور انفارمیشن سیکرٹری رحیم خان آفریدی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ سانحہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ایسی تباہی ہے جسے روکا جا سکتا تھا۔اگر آجروں اور متعلقہ اداروں نے قانون کے مطابق حفاظتی اقدامات کیے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ 21 مزدوروں کی شہادت دراصل 21 خاندانوں کی بربادی ہے، جو اس مجرمانہ غفلت کے باعث ہمیشہ کے لیے دکھ میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی بیشتر فیکٹریاں آج بھی سوشل سیکورٹی، EOBI رجسٹریشن، بوائلر معائنہ، حفاظتی تربیت اور مشینری کی بروقت دیکھ بھال جیسے لازمی قانونی تقاضوں پر عمل نہیں کرتیں، جس کے باعث ورک پلیسز جان لیوا خطرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ صورتحال صنعتی ترقی نہیں بلکہ مزدور دشمن طرزِ حکمرانی کی عکاسی کرتی ہے۔
رہنماؤں نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک:
n قانون پر عملدرآمد سختی سے نہیں ہوگا
n لیبر انسپکشن مؤثر نہیں بنے گی
n بوائلر انسپکشن نظام شفاف نہیں ہوگا
n ورکرز کو سوشل پروٹیکشن کی حقیقی ضمانت نہیں ملے گی۔
اس طرح کے سانحات رْکنے والے نہیں
PCEM مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت فوری طور پر:
-1 سانحے کی غیر جانبدار جوڈیشل/فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کرائے۔
-2 غفلت کے مرتکب فیکٹری مالکان اور متعلقہ سرکاری افسران کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے۔
-3 ملک بھر کے صنعتی اداروں کا ہنگامی حفاظتی آڈٹ اور بوائلر معائنہ کیا جائے،
-4 ہر مزدور کی سوشل سیکورٹی اور EOBI میں لازمی رجسٹریشن یقینی بنائی جائے۔
-5 فیکٹریوں میں ورکرز کی نمائندگی کے ساتھ فعال سیفٹی کمیٹیاں فوری بحال کی جائیں۔
-6 متاثرہ خاندانوں کو فوری معاوضہ، علاج اور مستقل مالی معاونت فراہم کی جائے۔
PCEM اس سانحے کو مزدوروں کے بنیادی انسانی حقوق زندگی کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ مزدوروں کی جانوں پر سمجھوتہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
فیڈریشن متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کی شریک ہے اور پاکستان کے ہر مزدور کے لیے محفوظ، باوقار اور ماحول دوست کام کی جگہ کے قیام تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہراتی ہے۔
ویب ڈیسک
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
80 فیصد عمارتیں فائر سیفٹی اور دیگر حفاظتی آلات سے محروم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)کراچی میں 80 فی صد عمارتوں میں حفاظتی آلات کا نظام موجود نہیں ہے، اور عمارتوں میں آتش زدگی اور اموات معمول بن چکے ہیں۔ جب کہ متعلقہ ادارے مروجہ قوانین کی خلاف وزیوں پر اقدامات لینے کو تیار نہیں۔دنیا بھر میں عمارات کی تعمیر حفاظتی قوانین کے ساتھ کی جاتی ہیں، جب کہ شہر کراچی میں اسّی فیصد تعمیرات حفاظتی آلات کے نظام سے محروم ہیں۔ متعلقہ ادارے تعمیرات کے ابتدائی قواعد و ضوابط تو پورے کرواتے ہیں مگر بعد مین ان کو جانچنے کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے، اور نہ ہی فیکٹری، شاپنگ مالز اور رہائشی فلیٹس کی انتظامیہ حفاظتی نظام کو فعال رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ شدید تنقید کے بعد کراچی میں ٹریفک سائن بورڈ نصب ہونا شروع ریسکیو 1122 ذرائع کے مطابق نومبر 2024 سے اب تک کراچی میں 1700 سے زائد آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر کی وجہ شارٹ سرکٹ اور ناقص وائرنگ ہے۔کراچی میں سالانہ ہزاروں بلند عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں، جن کی اکثریت میں حفاظتی آلات کا فقدان ہوتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدعنوانی، غفلت اور قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث عمارتوں میں حادثات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔