شہرِ اقتدار میں ادب کے خزانے
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
اوائل نومبر میں اپنے پیارے دوست، سیاح اور فوٹوگرافر طلحہ ظفر کی شادی میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا پڑا تو میرے پاس ایک دن بالکل خالی تھا۔ میں نے سوچا کہ اس بار پہاڑوں اور ٹریلز کی بجائے اسلام آباد کے ادبی چہرے کو کھوجا جائے۔
خوش قسمتی سے واٹس ایپ اسٹیٹس کے ذریعے معلوم ہوا کہ احسان لالا بھی اسلام آباد میں ہیں تو سوچا اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور ان سے ملاقات کی جائے کیوںکہ حالات و واقعات کی وجہ سے ان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان تو نہ جانے کب جانا ہو۔
باتوں سے خوشبو آئے
احسان لالا عرف احسان لاشاری، ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سیاح، افسانہ نگار اور ریڈیو پریزینٹر ہونے کے علاوہ شوقیہ طور پہ موسم کا حال بھی بتاتے ہیں۔ ادب کا بہترین ذوق رکھتے ہیں اور قریبی دوستوں کوتو قسمت کا حال بھی بتاتے پائے گئے ہیں۔
لگ بھگ چار یا پانچ سال سے آپ ہمارے سوشل میڈیائی دوست ہیں لیکن اس سے پہلے میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی حالانکہ ہمارے مزاج کافی حد تک ملتے ہیں۔
ان کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ ان کا گرویدہ بنایا وہ ان کا سرائیکی بولنے کا انداز اور لب و لہجہ ہے۔ زبان تو بہت لوگ بول لیتے ہیں لیکن اسے برتتا کوئی کوئی ہے۔
احسان بھائی سے پاکستان اکادمی ادویات میں ملاقات طے ہوئی اور ہم یعنی میں اور میرا دوست احمد صبح گیارہ بجے وہاں جا پہنچے۔ ہماری ملاقات کی بھلا اس سے اچھی جگہ اور کیا ہوسکتی تھی؟
وہ ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں کچھ عرصے سے یہاں مقیم ہیں۔
ایک پرجوش سی جپھی کے بعد گرما گرم چائے پر ڈھیر ساری باتیں ہوئیں جن میں سیروسیاحت، ادب، زبان دانی، سرائیکی ثقافت اور کھانے، ڈیرہ اسماعیل خان میں امن و امان کی صورت حال، پاکستان کا تاریخی ورثہ، مذہبی سیاحت اور احسان لالا کا ہمارے پسندیدہ سیاح، سید مہدی بخاری کے ساتھ حال ہی میں کیا گیا شمال کا خزاں ٹور شامل تھا۔
گپ شپ کے بعد انہیں اپنی کتاب شاہنامہ پیش کی اور ان کی معیت میں وہاں موجود پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر کا دورہ کیا۔
پھر انہوں نے وہاں مشہور شاعروں اور ادیبوں کی یاد میں بنائے گئے حال آف فیم کا کمرا دکھایا جس کے بعد ہم نے ان سے اجازت چاہی۔
اس وعدے پر کہ زندگی رہی تو دور کسی وادی یا صحرا کی خاک مل کے چھانیں گے۔
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکیں اگر تو آئے
اکادمی ادبیات پاکستان
اکادمی ادبیات پاکستان ادب کی اشاعت اور پاکستانی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم شدہ ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں پطرس بخاری روڈ پر واقع ہے۔
یہ ادارہ، محکمۂ اطلاعات، نشریات اور قومی ورثہ کے ماتحت کام کرتا ہے، جِسے جولائی 1976 میں پاکستان کے نامور ادیبوں، شاعروں مضمون نگاروں، ڈرامہ نگاروں اور مترجمین کے ایک گروپ نے اکیڈمی فرانس سے متاثر ہو کر بنایا تھا جس کا افتتاح اس وقت کے صدر پاکستان، جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہوا۔
ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان میں ادب کا پرچار، ادب سے متعلق مباحثوں کا فروغ اور مختلف زبانوں میں ادبی کام کی اشاعت تھا۔ اکادمی ادبیات کی موجودہ صدر پروفیسر نجیبہ عارف صاحبہ ہیں۔
اکادمی نے اب تک ادب کے فروغ کے سلسلے میں مختلف موضوعات پر بہت سی ادبی اور تحقیقی کتب شائع کی ہیں ترجمہ شدہ کتب اس کے علاوہ ہیں جن میں پاکستان اور پاکستان سے باہر رہنے والے بہت سے ادیبوں کا تحقیقی اور تخلیقی کام شامل ہے۔
یہاں کا کتب خانہ 40 ہزار سے زائد ذخیرۂ کتب پر مشتمل ہے۔
پاکستان اکادمی ادبیات کی عمارت میں بہت سی زبردست جگہیں واقع ہیں جن میں پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر، ادیبوں کا ہال آف فیم، میٹنگ روم، کانفرنس ہال، دفاتر، دالان اور خوب صورت لان شامل ہیں۔ کتاب سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے یہ جگہ ایک جنت سے کم نہیں ہے۔
مشہور شاعر احمد فراز اس ادارے کے سب سے پہلے ڈائریکٹر تھے۔
اردو کے علاوہ ادارے میں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچی، انگریزی اور دوسری پاکستانی زبانوں کے حوالے سے بھی مختلف ادبی و تحقیقی کام کیا جاتا ہے۔
اکادمی ادویات پاکستان کے تحت ہر سال مختلف ایوارڈز بھی دیے جاتے ہیں جنہیں ’’قومی ادبی ایوارڈز‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ایوارڈز پاکستان کی تمام مرکزی زبانوں میں لکھی گئی مختلف کتابوں کو دیے جاتے ہیں جس میں مصنف کے لیئے ایک لاکھ روپے کی انعامی رقم بھی شامل ہے (جسے 2016 میں بڑھا کر دو لاکھ تک کر دیا گیا ہے)۔
ادارے کا ایک اور مرکزی ایوارڈ ’’کمالِ فن ایوارڈ‘‘ ہے جسے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے 1997 میں لانچ کیا گیا تھا جس کی انعامی رقم پانچ لاکھ روپیتھی (جسے 2016 میں بڑھا کر 10 لاکھ روپے تک کر دیا گیا ہے)۔
اس ادارے کی خدمات کے پیش نظر 24 ستمبر 2023 میں پاکستان پوسٹ نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی شائع کیا تھا۔
ملک پاکستان میں ادب کی بقاء اور مصنفین کی فلاح و بہبود کے لیے اس ادارے کی مضبوطی اور مزید ایسے اداروں کا قیام بہت ضروری ہے۔
اس ادارے میں کچھ دل چسپ جگہیں ہیں آئینے دیکھتے ہیں۔
چِنگ ہو یا حرف و صوت
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چِنگ ہو یا حرف و صوت
علامہ محمد اقبال کا یہ شعر اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر دفتر میں بڑی خوب صورتی سے لکھا گیا ہے، اس طرح کہ چھجے کی چھت پہ لکھے شعر کا سایہ دھوپ میں زمین پر پڑتا ہے۔
یہ ان کی نظم مَسجدِ قُرطبہ سے لیا گیا ہے جو ہسپانیہ کی سرزمین، بالخصوص مشہور شہر قرطبہ میں لِکھّی گئی تھی۔
مکمل نظم تو کافی طویل ہے اس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں؛
عشق خود اک سَیل ہے، سَیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِرواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مِضراب سے نغمۂ تارِحیات
عشق سے نُورحیات، عشق سے نارِحیات
اے حَرمِ قُرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چِنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خُونِ جگر سے نمود
ہال آف فیم
اکادمی کے اندر ایک اور دل چسپ جگہ ہال آف فیم ہے جہاں ایک روشنی سے نہائے ہال میں مختلف مصنفوں، افسانہ نگاروں اور شاعروں کا تعارف ان کی تصاویر کے ساتھ لگایا گیا ہے۔
یہاں چند ایک ادیب ایسے ہیں جو ابھی حیات ہیں جبکہ بیشتر اب ہم میں نہیں رہے۔
ہال آف فیم میں آپ بلوچستان، خیبر پختون خواہ، سندھ اور پنجاب سمیت وفاقی دارالحکومت سے تعلق رکھنے والے مشہور ادیبوں کا کام دیکھ سکتے ہیں ان میں سے کچھ گمنام بھی ہیں جنہیں آج کی نسل نہیں جانتی۔
ان مشاہیر میں جوش ملیح آبادی، بانو قدسیہ، منیر نیازی، حفیظ جالندھری، ناصر کاظمی، امجد اسلام امجد، بپسی سِدھوا، حبیب جالب، استاد دامن، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، عبداللّہ جان جمالدینی، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، عبداللّہ حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، مختار مسعود، پروین شاکر، امیر حمزہ خان شنواری، ن م راشد، شیخ ایاز، احمد فراز، میر گل خان نصیر، انتظار حسین، خان عبدالغنی خان، فہمیدہ ریاض، افتخارعارف، مشتاق احمد یوسفی، منیر احمد بادینی، سوبھوگیان چندانی، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض اور علامہ محمد اقبال جیسی ہستیاں شامل ہیں۔
نئی نسل اور طباء کو اپنے ادیبوں اور مشاہیر سے لوگوں کو روشناس کرانے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر
اکادمی ادبیات کے دفتر میں پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر کا بورڈ دیکھ کے میری تو باچھیں کھل گئیں۔ زبانوں کے بارے پڑھنا مجھے شروع سے ہی پسند رہا ہے اور ایسے کسی عجائب گھر کا تو میں پاکستان میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس طرح کے کسی عجائب گھر کی وطنِ عزیز کو اشد ضرورت تھی۔
پاکستان کی چھوٹی اور معدوم ہوتی زبانوں پر میں نے بہت پہلے کام کیا تھا جو 2018 میں شائع ہونے والی میری کتاب شاہنامہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
احسان لالہ ہمیں لے کر عمارت کے تہہ خانے میں پہنچے جہاں ایک کانفرنس ہال کو پار کرنے کے بعد گلاس ڈور دھکیل کر ہم اس دنیا میں داخل ہو گئے جہاں مختلف زبانیں، اپنے بولنے والوں کی طرح دست و گریباں نہیں تھیں بلکہ باہم شیر و شکر ایک چھت تلے محبت سے رہ رہی تھیں۔
زبانوں کے اس عجائب گھر میں ہر وہ زبان موجود تھی جو پاکستان کے کسی نا کسی علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، براہوی اور اردو کا یہاں ہونا تو عام سی بات تھی۔۔۔۔ زیادہ خوشی مجھے تب ہوئی جب ان میں کئی ایسی چھوٹی مقامی زبانیں شامل تھیں جن کا ذکر میری کتاب میں موجود ہے جیسے پالولہ، یدغا، وخئی، کالاشہ، سانسی، انڈس کوہستانی، گجراتی۔
لیکن وہیں کچھ ایسی زبانیں بھی تھیں جن کا نام بھی میں پہلی بار سن رہا تھا۔ ان میں مدک لشٹی، لوارکی، گاؤری، کتہ وری، جنڈاوڑہ، بشگالی وار، چلیسو، ودھیاری کولی، کمویری اور دیواری شامل تھیں۔
یہاں مختلف بورڈز پر تمام بڑی چھوٹی زبانوں کا تعارف، تاریخ، خِطہ اور اردو و انگریزی سمیت ان زبانوں کے اپنے رسم الخط (جن کا رسم الخط موجود ہے) میں پیش کیا گیا تھا۔
اس عجائب گھر کا افتتاح بھی ’’مادری زبانوں کے عالمی دن‘‘ یعنی 12 فروری 2025 کو کیا گیا تھا۔
احسان لاشاری صاحب نے اس عجائب گھر کے حوالے سے بتایا کہ اس پراجیکٹ پر 2024 سے کام چل رہا تھا اور عجائب گھر کے لیے انگریزی سمیت پاکستان میں بولنے والی چوہتر زبانوں کی نمائندگی یہاں موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے اسکالر و طلباء یہاں آتے ہیں جن میں سے چند ایک نے ہمیں کچھ نئی زبانوں کا بھی بتایا ہے جو اس ذخیرے میں شامل کی جا سکتی ہیں لیکن زبانوں کے لیے ہمارے کچھ اصول ہیں۔
جیسے وہ زبان جس کی نمائندگی یہاں ہے وہ کسی مخصوص علاقے میں بولی جاتی ہو، بولنے والوں کی ایک واضح تعداد ہو، اس کا رسم الخط ہو یا نہیں ہے تو اس زبان میں لکھی کوئی کتاب (یا تحریر) ضرور موجود ہو۔ تو ان پر جو زبان پوری اترتی ہے وہ یہاں موجود ہے لیکن پھر بھی یہ فہرست حتمی نہیں ہے، اس میں اضافے کے امکانات موجود ہیں۔
زبانوں سے محبت کرنے والوں کو میری کتاب اور اس عجائب گھر دونوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ پاکستان کے وسیع اور زرخیز ثقافت سے ہوسکیں۔
یہاں سے نکلے تو احمد اپنے ایک پروفیسر سے ملنے چلا گیا جب کہ میں اسی سڑک پہ آگے کو چل دیا۔ کچھ آگے ادارہ فروغ قومی زبان کا بورڈ نظر آیا تو میں نے اس کا دورہ کرنے کا سوچا اور ادارے کے اندر چلا گیا۔
ادارہ فروغ قومی زبان
مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد میں واقع ایک خودمختار ادارہ ہے جو حکومت پاکستان کابینہ ڈویژن کے زیرانتظام 4 اکتوبر 1979 کو نفاذِاردو کی ضروری تیاری کے لیے وجود میں آیا۔
اس ادارے کی ذمے داری قومی زبان کے نفاذ کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرنا اور ساتھ ہی قومی زبان کو انگریزی کی جگہ لینے کے لیے تیار کرنا ہے۔
ادارے کی موجودہ عمارت کا سنگِ بنیاد 1992 میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے رکھا جبکہ چوبیس مارچ 1998 کو ادارے کے دفاتر اس عمارت میں منتقل کردیے گئے۔ ادارے میں ایک کتب خانہ، چند دفاتر، خطاطی سکھانے کی جگہ اور ایک کتاب گھر ہے جہاں سے آپ ادارے کی مطبوعات انتہائی سستے داموں خرید سکتے ہیں۔
زبان دانی پر یہاں بہت سی کتب موجود تھیں جن میں سے میں نے اپنی پسند کی کتب خریدیں۔ سستی قیمت کے باوجود بل کی کل رقم پر بھی33 فی صد رعایت دی گئی۔ اساتذہ و طلباء کے لیے رعایت کی شرع پچاس فیصد ہے۔
یہ ادارہ نفاذ اردو کی کوششوں کے علاوہ مندرجہ ذیل شعبوں میں خدمات انجام دے رہا ہے۔
دار الترجمہ دستاویزات
یہ شعبہ اردو میں قواعد و ضوابط اور قوانین کے ترجمے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
دارالترجمہ لغات و اصطلاحات:
یہ شعبہ لغات کی ترتیب و تدوین اور علم اصطلاحات سازی میں جدید تحقیق کو سامنے لانے کا کام انجام دیتا ہے۔
درسیات
یہ شعبہ جامعاتی سطح پر ایم اے، ایم ایس سی کے طلبہ کے لیے اہم موضوعات پر درسی کتب کی تیاری کا کام انجام دے رہا ہے۔
دارالتصنیف:
یہ شعبہ قومی زبان کے فروغ اور اس سے متعلق مطالعاتی مواد۔
کی تصنیف و تالیف کے سلسلے میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
ادارے نے اپنے مقاصد کی بجا آوری کے لیے اب تک سات سو کے قریب عنوانات پر کتب شائع کی ہیں جن میں ایک سو سے زائد لغات، فراہنگ اور کشاف شامل ہیں۔
قومی انگریزی اردو لغت، قانونی انگریزی اردو لغت، فرہنگ تلفظ، اردو چینی لغت وغیرہ قابل ذکر مذکورہ لغات کے علاوہ چار درجن سے زائد کتابیں ادارے کی ویب سائیٹ پر آن لائن موجود ہیں۔
یہ ادارہ 1981 ء سے ایک جریدہ بھی شائع کرتا آ رہا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر اس ادارے کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ہیں۔
یہاں سے خریدی گئی کتب کا بوجھ اٹھائے میں نے اِن ڈرائیو بُک کی اور لوک ورثہ کے پاس کیفے 1969 کو چل دیا جہاں ایک قیمتی ہستی میرے انتظار میں تھیں۔
1969 کیفے
کیفے پہنچا تو جناب پروفیسر جاوید صاحب کو اندر ہال میں اپنا منتظر پایا۔ ان سے بغل گیر ہوا تو مانو برسوں کی ’’مونجھ‘‘ اتر گئی۔
شکرپڑیاں میں واقع 1969 ریستوراں ایک منفرد جگہ ہے جو پاکستان میں 60 کی دہائی کے سنہری دور کی یادگار ہے۔
اس کیفے میں داخل ہونے سے آپ کو اس کے تاریخی ماحول کا جادو محسوس ہوتا ہے۔ مسحورکن ذوق ساتھ دلکش سجاوٹ اور پرانی لالی وڈ فلموں کے پوسٹر دیکھ کے یوں لگتا ہے جیسے یہ کسی سنیما گھر کا حصہ ہے۔
یہ ریستوراں 2010 میں قائم کیا گیا تھا جس کا بیرونی حصہ قدیم پتھروں سے بنی نایاب عمارت جیسا لگتا ہے۔
اپنی بناوٹ اور سروس کی وجہ سے یہ جگہ بہت مشہور ہے لیکن ساتھ ساتھ جیب پر بھاری بھی ہے۔
پروفیسر جاوید حیدر سید صاحب قائد اعظم یونیورسٹی سے بطور تاریخ کے پروفیسر ریٹائر ہوئے اور اب اسلام آباد میں ہی قیام پذیر ہیں۔ بنیادی تعلق پاکپتن جبکہ ابتدائی تعلیم مخدوم پور پہوڑاں اور ملتان سے ہے۔
دہائیوں سے پاکستان اسٹڈیز اور تاریخ پڑھا رہے ہیں۔ جامعہ بلوچستان کوئٹہ میں شعبئہ تاریخ کی بنیاد آپ ہی نے رکھی تھی۔ پروفیسر اقبال چاولہ جیسے سنیئر ترین اساتذہ آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں۔
اس عمر میں تیز یادداشت کے ساتھ آپ ایک بہت ہی عاجز اور مہربان انسان ہیں اور اللہ کا اس سے زیادہ کیا کرم ہو گا مجھ پر کہ ناچیز کی تحریریں آپ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔
میں نے انہیں اپنی پہلی کتاب شاہنامہ پیش کی کیوںکہ وہ تاریخ، جغرافیہ، فن اور سفر کے دلدادہ ہیں اور دعاؤں کے ساتھ ان سے رُخصت چاہی۔
لوک ورثہ پر احمد نیدوبارہ جوائن کیا اور ہم نے وہاں سے کچھ سندھی دست کاریوں کی خریداری کی۔ گرما گرم چائے کے بعد ہم نے اس جگہ کو خیرباد کہا اور میں نے رات کو خان پور کا لمبا سفر کرنے کے لیے خود کو تیار کیا، کہ اگلے دن نوکری پر بھی جانا تھا۔۔۔۔آہ یہ ملازمت کی بیڑیاں۔۔۔۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی زبانوں اسلام ا باد میں ادبی عجائب گھر اکادمی ادبیات عجائب گھر کا اس عجائب گھر میں پاکستان پاکستان میں کیا گیا تھا پاکستان کے ہال ا ف فیم ہیں جن میں زبانوں کا زبانوں کے ادارے کے موجود ہے شامل ہیں کے علاوہ ادارے کی کے ساتھ یہ شعبہ ہیں اور رہا ہے کے لیے گیا ہے کے بعد
پڑھیں:
جماعت اسلامی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251121-05-1
جماعت اسلامی کا تاریخی اجتماع آج سے لاہور میں شروع ہورہا ہے ۔ یہ اجتماع نہ صرف یہ کہ اجتماع عام کی تاریخ کا تسلسل ہے بلکہ اس اجتماع کو ’’بدل دو نظام‘‘ کا عنوان دے کر مولانا مودودیؒ کی انقلابی فکر سے بھی مربوط کردیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس وقت برصغیر میں وطن پرستی کی لہر آئی ہوئی تھی مولانا مودودیؒ نے اسلام مرکز تحریک برپا کرکے پورے منظر نامے کو بدل دیا۔
جماعت اسلامی خطے کی واحد اسلامی تحریک اور سیاسی پارٹی ہے جس کے کارکنان اور پورا نظم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پاکستان، بھارت، مقبوضہ اور آزاد کشمیر اور بنگلادیش اور خطے کے دیگر ممالک میں کسی نہ کسی نام سے موجود ہے.
جماعت اسلامی پاکستان یا جے آئی ملک کی سب سے بڑی اور پرانی نظریاتی اسلامی احیائی تحریک ہے جس کا آغاز بیسویں صدی سے ہوا، جو عصر حاضر میں اسلام کے احیاء کی جدوجہد کے مرکزی کردار مانے جاتے ہیں، نے قیام پاکستان سے قبل3 شعبان 1360 ھ (26اگست 1941ء ) کو لاہور میں کیا تھا۔ سید ابولاعلیٰ مودودی اور دیگر 74 افراد نے ملک میں اسلامی انقلاب لانے کی مشترکہ جدوجہد کے لیے اس کی بنیاد رکھی۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ اس کی وکالت کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا سیاست اور ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا چاہیے۔
جماعت اسلامی پاکستان نصف صدی سے زائد عرصہ سے دنیا بھر میں اسلامی احیاء کے لیے پر امن طور پر کوشاں چند عالمی اسلامی تحریکوں میں شمار کی جاتی ہے۔جماعت اسلامی، پاکستان کی بہترین منظم سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی واحد سیاسی و مذہبی جماعت ہے جو اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔جماعت میں اہم ذمہ داران اور شوری کا چنائو بذریعہ انتخاب کیا جاتا ہے جس میں صرف اراکین جماعت حصہ لیتے ہیں جبکہ دیگر ذمہ داریاں استصواب رائے کے ذریعے طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت میں موروثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جماعت اپنے اندر نظم و ضبط، کارکنوں کے اخلاص، جمہوری اقدار اور بدعنوانی سے پاک ہونے کی شہرت رکھنے کے باعث دیگر جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے
جماعت اسلامی کے قیام کی ضرورت کیوں سامنے آئی ہے اس دور میں سیاسی اور وطن پرست سیاسی جماعت اسلامی نظام کے بجائے عالمی سیاسی نظام کی بنیاد ہر پاکستان بنانا چاہتی تھی روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں اس اجتماع کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اجتماع مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒکی دعوت پر لاہورمیں۲۵اگست ۱۹۴۱ء (یکم شعبان ۱۳۶۰ھ) کو منعقد ہوا۔ میاں طفیل محمد مرحوم اس اجتماع میں شریک تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ:”یہ اجتماع اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفر اقبال صاحب کی کوٹھی فصیح منزل سے متصل مسجد کے سامنے، مولانا مودودی صاحب کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ یہ اجتماع ۲۵۲۶اگست ۱۹۴۱ء مطابق یکم و ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ، دو دن جاری رہا۔ پہلے دن تو جماعت کے لیے مجوزہ دستوری خاکے پر بحث ہوتی رہی۔ شرکاء نے بعض ترامیم پیش کیں۔یہ دستور ساز کمیٹی آٹھ دس آدمیوں پر مشتمل تھی، اس پہلے اجتماع میں شریک جن لوگوں کی یاد ذہن میں محفوظ ہے، ان میں سید عبدالعزیز شرقی صاحب، مولانا جعفر شاہ پھلواری صاحب، مولانا محمد منظور نعمانی صاحب، نعیم صدیقی صاحب، حافظ فتح اللہ صاحب، شیخ فقیر حسین صاحب، مستری محمد صدیق صاحب، چودھری عبدالرحمن صاحب، ماسٹر عزیز الدین صاحب وغیرہ شامل تھے۔“ (مشاہدات، مطبوعہ ادارہ معارف اسلامی، لاہور)اس میں تمام مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔
روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں اس اجتماع کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے:”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم“میں اسلامی تحریک کی تشریح اور اس کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت کی ضرورت ظاہر کی جاچکی تھی اور اس مطلوبہ جماعت کی تشکیل کا نقشہ بھی پیش کردیا گیا تھا، اس کی اشاعت کے بعد ”ترجمان القرآن“ ماہِ صفر ۶۰ ھ میں عام الناس کو دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریہ کو قبول کرکے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، وہ دفتر کو مطلع کریں۔ پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہوگئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے لوگوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے، جو ”جماعتِ اسلامی“ کی تشکیل اور اس کے قیام و بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہیں۔ چنانچہ یہ طے کرلیا گیا کہ ان تمام حضرات کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ایک جماعتی شکل بنائی جائے اور پھر اسلامی تحریک کو باقاعدہ اٹھانے کی تدابیرسوچی جائیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۵اگست ۱۹۴۱ء ) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی۔ جن لوگوں نے جماعتِ اسلامی میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، ان سب کو ہدایت کردی گئی کہ جہاں ابتدائی جماعتیں بن گئی ہیں، وہاں سے صرف منتخب نمائندے آئیں اور جہاں لوگ ابھی انفرادی صورت میں ہیں وہاں سے حتی الامکان ہر شخص آجائے۔
اب سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ اس سوال کا جواب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تقریروں میں دیا ہے۔
جماعت اسلامی کا مقصد
مئی ۱۹۴۷ء میں جماعت اسلامی کا ایک عام اجتماع دارالاسلام پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا۔ اس میں جماعت کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے امیر جماعت مولانا مودودی نے کہا:
”ہماری یہ جماعت جس غرض کے لیے اٹھی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں اور آغازِ کار کے طور پر اس ملک میں ایک ایسی سوسائٹی منظم کی جائے جو اسلام کے اصلی اصولوں پر شعور و اخلاص کے ساتھ خود عامل ہو، دنیا کے سامنے اپنے قول و عمل سے اس کی صحیح نمائندگی کرے۔ اور بالاآخر جہاں جہاں بھی اس کو موقع ملے وہاں کے افکار، اخلاق، تمدن، معاشرت، سیاست اور معیشت کے نظام کو موجودہ دہریت و مادہ پرستی کی بنیادوں سے ہٹا کر سچی خدا پرستی یعنی توحید کی بنیاد پر قائم کردے۔“ (جماعت اسلامی کی دعوت)
اس اجتماع سے قبل ایک اور موقع پر اپنی تقریر میں مولانا مودودیؒ نے کہا:
”دنیا میں ہم جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق و فجار کی امامت و قیادت کا نظام ختم ہوکر امامتِ صالحہ کا نظام قائم ہو۔ اسی سعی و جہد کو ہم دنیا وآخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔“(تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)
امتِ مسلمہ کو فرضِ منصبی کی یاد دہانی
جماعت اسلامی قائم کرنے کا ایک قوی محرک یہ احساس تھا کہ امتِ مسلمہ اپنے فرضِ منصبی سے غافل ہے۔ مولانا مودودیؒنے اپنی ایک تقریر میں اس احساس کو بیان کیا ہے۔ یہ تقریر جماعت کے قیام کے ۲۹ سال بعد ۱۹۸۰ء میں (پاکستان میں) کی گئی۔ اور پروفیسر خورشید احمد کی مرتب کردہ کتاب ”تحریکِ اسلامی- ایک تاریخ، ایک داستان“ میں درج ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس تقریر میں کہا:
”۱۹۳۹ء کا دور آیا تو (غیر منقسم ہندوستان میں) مسلم لیگ کی تحریک نے زور پکڑا۔ پاکستان کی تحریک اٹھنی شروع ہوئی جس نے آخر کار ۱۹۴۰ء میں قرار داد پاکستان کی شکل اختیار کی۔ اس زمانے میں جو بات میرے نزدیک اہم تھی وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ تم محض ایک قوم نہیں اور تمہارا مقصود بھی (پاکستان کی صورت میں) محض ایک قومی حکومت کا قیام نہیں ہونا چاہیے۔ تم ایک مبلغ قوم ہو، تم ایک مشنری قوم ہو، تم اپنے مشن کو کبھی نہ بھولو۔۔۔۔۔
لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری آواز، صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے، تو پھر دوسرا قدم جو میری سمجھ میں آیا یہ تھا کہ اپنی طرف سے ایک ایسی جماعت منظم کی جائے جو صاحبِ کردار لوگوں پر مشتمل ہو اور ان فتنوں کا مقابلہ کرسکے جو آگے آتے نظر آرہے تھے (اور جن کی زد میں ہندوستانی مسلمان تھے)۔“
(بہ حوالہ” تحریک اسلامی، ایک تاریخ، ایک داستان“، مطبوعہ منشورات، نئی دہلی)
جماعت اسلامی قائم کرنے کی وجہ مذکورہ بالا تقریر میں مولانا مودودیؒنے مزید کہا:
”(اس وقت ۱۹۳۹ء میں میرے سامنے) تین مسئلے درپیش تھے۔ (پاکستان کی تحریک شروع ہوچکی تھی، لیکن یہ یقینی نہ تھا کہ وہ کامیاب ہوجائے گی، چنانچہ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ) اگر ملک تقسیم نہ ہو تو مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟ (دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر) ملک تقسیم ہوجائے تو جو مسلمان، ہندوستان میں رہ جائیں گے، ا ن کے لیے کیا کیا جائے؟ (پھر تیسرا سوال یہ درپیش تھا کہ) جو ملک (پاکستان) مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا، اس کو مسلمانوں کی کافرانہ حکومت بننے سے کیسے بچایا جائے اور اسے اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے؟ یہ موقع تھا جب میں نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کرلیا کہ جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت قائم کی جائے۔
میرے دماغ میں یہ تصور پوری طرح مستحکم ہوچکا تھا کہ مسلمانوں کا اصل نصب العین، اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے۔ … اسی کو ہم نے جماعت اسلامی کا نصب العین قرار دیا۔ اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام اقامتِ دین ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔“
(کتابِ مذکور)
اقامتِ دین کا مفہوم
۱۹۵۲ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہنمائی میں، جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا نیا دستور بنایا۔ اس کی دفعہ ۴ میں جماعت اسلامی کے نصب العین اقامتِ دین کی تشریح ان الفاظ میں درج کی گئی:
”اقامتِ دین سے مقصود، دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزے اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے، پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے و تقسیم کے بغیر، قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق، افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطورِ خود، اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام، اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے اجتماعی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی، رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین، اقامتِ دین — اور حقیقی نصب العین، وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔“
(کتابِ مذکور)
محض سیاسی تغیر مقصود نہیں
۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کے اجتماع منعقد دارالاسلام میں ”دعوت اسلامی اور اس کا طریقِ کار“ کے عنوان پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں مولانا نے کہا:
”ہمارے پیشِ نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے، بلکہ ہم چاہتے ہیںکہ پوری انسانی زندگی انفرادی اور اجتماع میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہو جو اسلام رونما کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیاء کو مبعوث کیا تھا، اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیا علیہم السلام کی امامت و رہنمائی میں امتِ مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔۔۔۔۔
۱- ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص، اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- جو شخص بھی اسلام قبول کرلے، یا اس کے ماننے کا دعویٰ اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے، اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔
۳- زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی میں چل رہا ہے، اور معاملاتِ دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے، مومنین صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔“ (کتابِ مذکور)
ایک نئی جماعت کے قیام کی غرض
(تقسیم سے قبل) مولانا مودودیؒ نے ایک اور تقریر میں جماعت اسلامی کے قیام کی غرض اس طرح بیان کی ہے:
”اب میں مختصراً آپ کو بتائوں گا کہ ہم کس غرض کے لیے اٹھے ہیں۔ ہم ان سب لوگوں کو جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں، یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اس کو انفرادی طور پر اپنی زندگیوں میں اور اجتماعی طور پر اپنے گھروں میں، اپنے خاندان میں، اپنی سوسائٹی میں، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملا ت میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں اور بحیثیت مجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً قائم کریں اور اپنے قول اور عمل سے دنیا کے سامنے اس کی سچی گواہی دیں۔
ہم ان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اقامتِ دین اور شہادتِ حق تمہاری زندگی کا اصل مقصد ہے، اس لیے تمہاری تمام سعی و عمل کا مرکز و محور اسی چیزکو ہونا چاہیے۔ ہر اس بات اور کام سے دست کش ہوجائو، جو اس کی ضد ہو اورجس سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہو۔ اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویے پر نظر ثانی کرو۔ اور اپنی تمام کوششیں اس راہ میں لگادو کہ دین پورا کا پورا عملاً قائم ہو جائے۔ اس کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا ہو اور اس کی طرف دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جو اتمامِ حجت کے لیے کافی ہو۔ یہ ہے جماعت اسلامی کے قیام کی واحد غرض۔“ (شہادتِ حق)
مولانا مودودیؒ نے یہ بات بھی واضح کی کہ اگر مسلمانوں کی کوئی (موجود) جماعت، شہادتِ حق کے فریضے کو انجام دینے کے لیے تیار ہوجاتی تو وہ ایک نئی جماعت نہ بناتے بلکہ ا سی (موجود) جماعت میں شامل ہوجاتے۔ مولانا نے کہا:
”سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے میں برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو! یہ تم کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صَرف کررہے ہو، تمہارے کرنے کا اصل کام تو یہ (شہادتِ حق) ہے، اس پر اپنی تمام مساعی کو مرکوز کرو۔یہ دعوت اگر (ملک کے) سارے مسلمان قبول کرلیتے تو کہنا ہی کیا تھا، مسلمانوں میں ایک جماعت بننے کے بجائے، مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندوستان کی حد تک وہ ”الجماعت“ ہوتی، جس کی موجودگی میں کوئی دوسری جماعت بنانا شرعاً حرام ہوتا۔ یہ بھی نہ ہوتا تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں سے کوئی ایک ہی ا سے (یعنی شہادتِ حق کے مقصد کو) مان لیتی، تب بھی ہم راضی تھے۔ ہم بہ خوشی اس میں شامل ہوجاتے۔مگر جب پکار پکار کر ہم تھک گئے اور کسی نے سن کر نہ دیا تب ہم نے مجبوراً یہ فیصلہ کیا کہ وہ سب لوگ جو اس کام (شہادتِ حق) کو حق اور فرض سمجھ چکے ہیں، خود ہی مجتمع ہوں اور اس کے لیے اجتماعی سعی کریں۔“ (شہادتِ حق)
امید ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مندرجہ بالا تصریحات سے اس سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ ”جماعت اسلامی قائم کرنے کی بنیادی وجہ کیا تھی؟“ بقیہ سوالات پر اظہارِ خیال آئندہ کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
پارٹی منشور
اسلامی انقلاب اسلامی فلاحی ملک اتحاد بین المسلمین کرپشن سے پاک ملک جمہوریت
انتخابات 1970
سال 1970 میں جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی 4 جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ایک، ایک نشست حاصل کی۔
انتخابات 1977
1977 میں جماعت اسلامی نے پاکستان نیشنل الائنس کا حصہ بن کر انتخابات لڑے جس نے قومی اسمبلی کی 36 نشستیں جیتیں۔
انتخابات 1990
1990 میں پارٹی نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن کر انتخابات لڑے لیکن یہ اتحاد کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکا اور مشکل سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کی۔
انتخابات 1993
1993 میں جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 3، پنجاب کی 2 اور خیبر پختونخوا کی 4 نشستیں جیتیں۔
انتخابات 1997
1997 میں پارٹی نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا انتخاب کرتے ہوئے حکمرانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔
انتخابات 2002
سال 2002 میں جماعت اسلامی، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ تھی جس نے قومی اسمبلی کی 45 نشستیں سمیٹیں۔ اس اتحاد نے خیبر پختونخوا میں 48 نشستیں حاصل کرکے حکومت قائم کی۔
انتخابات 2008
2008 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کا حصہ بننے کا انتخاب کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔
اللہ اور اس کے رسول کے بتائے پر عمل کر رضائے الٰہی احصول جماعتِ اسلامی کی دعوت کا محور اور مرکزتھا ہے اور رہے گا طریقہ ِ میں تبدیلی ہو سکتی ہے
جماعت اسلامی لوگوں کو اپنی پوری زندگی میں اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت اور منافقت، شرک چھوڑنے کی تلقین کرتی ہے۔ مزید جماعت سیاست میں خدا سے پھرے لوگوں کی بجائے زمام کار مومنین و صالحین کو سونپنے کا کہتی ہے۔ تا کہ نظام سیاست کے ذریعے خیر پھیل سکے اور لوگ اسلامی طریقہ پر آزادانہ چل سکیں اور اس کی خیر وبرکت سے مستفید ہو سکیں۔جماعت اسلامی کے انتخابی نتائج دیکھ کر یہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے اس تنظیم کا انتخابی سیاست میں کو کارنامہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ملک کی تما پایسی میں جماعت ِاسلامی کا کردار کلیدی ہے اور اسی طرح مستقبل میں برقرار رہے گا لیکن اس کے لیے جماعت ِاسلامی کو بھی اپنے کارکنان کو بھی ساتجو ¿ھ رکھنا ہو گا۔یہ ایک عالمی تاریخ ہے کہ وہ تنظیم ہمیشہ زندہ رہتی ہے جس کے کارکنان تنظیم کے مشکل وقت میںاس کے ساتھ کھڑے رہتے ہو اور جماعت ِاسلامی کو یہ اعزاز حاصل اس کے کارکنان ہر وقت اس کے ساتھ تھے اور ہیں۔