Jasarat News:
2025-11-21@03:16:07 GMT

جماعت اسلامی

اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251121-05-1
جماعت اسلامی کا تاریخی اجتماع آج سے لاہور میں شروع ہورہا ہے ۔ یہ اجتماع نہ صرف یہ کہ اجتماع عام کی تاریخ کا تسلسل ہے بلکہ اس اجتماع کو ’’بدل دو نظام‘‘ کا عنوان دے کر مولانا مودودیؒ کی انقلابی فکر سے بھی مربوط کردیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس وقت برصغیر میں وطن پرستی کی لہر آئی ہوئی تھی مولانا مودودیؒ نے اسلام مرکز تحریک برپا کرکے پورے منظر نامے کو بدل دیا۔
جماعت اسلامی خطے کی واحد اسلامی تحریک اور سیاسی پارٹی ہے جس کے کارکنان اور پورا نظم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پاکستان، بھارت، مقبوضہ اور آزاد کشمیر اور بنگلادیش اور خطے کے دیگر ممالک میں کسی نہ کسی نام سے موجود ہے.

جماعت اسلامی پاکستان یا جے آئی ملک کی سب سے بڑی اور پرانی نظریاتی اسلامی احیائی تحریک ہے جس کا آغاز بیسویں صدی سے ہوا، جو عصر حاضر میں اسلام کے احیاء کی جدوجہد کے مرکزی کردار مانے جاتے ہیں، نے قیام پاکستان سے قبل3 شعبان 1360 ھ (26اگست 1941ء ) کو لاہور میں کیا تھا۔ سید ابولاعلیٰ مودودی اور دیگر 74 افراد نے ملک میں اسلامی انقلاب لانے کی مشترکہ جدوجہد کے لیے اس کی بنیاد رکھی۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ اس کی وکالت کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا سیاست اور ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا چاہیے۔
جماعت اسلامی پاکستان نصف صدی سے زائد عرصہ سے دنیا بھر میں اسلامی احیاء کے لیے پر امن طور پر کوشاں چند عالمی اسلامی تحریکوں میں شمار کی جاتی ہے۔جماعت اسلامی، پاکستان کی بہترین منظم سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی واحد سیاسی و مذہبی جماعت ہے جو اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔جماعت میں اہم ذمہ داران اور شوری کا چنائو بذریعہ انتخاب کیا جاتا ہے جس میں صرف اراکین جماعت حصہ لیتے ہیں جبکہ دیگر ذمہ داریاں استصواب رائے کے ذریعے طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت میں موروثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جماعت اپنے اندر نظم و ضبط، کارکنوں کے اخلاص، جمہوری اقدار اور بدعنوانی سے پاک ہونے کی شہرت رکھنے کے باعث دیگر جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے

جماعت اسلامی کے قیام کی ضرورت کیوں سامنے آئی ہے اس دور میں سیاسی اور وطن پرست سیاسی جماعت اسلامی نظام کے بجائے عالمی سیاسی نظام کی بنیاد ہر پاکستان بنانا چاہتی تھی روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں اس اجتماع کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اجتماع مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒکی دعوت پر لاہورمیں۲۵اگست ۱۹۴۱ء (یکم شعبان ۱۳۶۰ھ) کو منعقد ہوا۔ میاں طفیل محمد مرحوم اس اجتماع میں شریک تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ:”یہ اجتماع اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفر اقبال صاحب کی کوٹھی فصیح منزل سے متصل مسجد کے سامنے، مولانا مودودی صاحب کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ یہ اجتماع ۲۵۲۶اگست ۱۹۴۱ء مطابق یکم و ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ، دو دن جاری رہا۔ پہلے دن تو جماعت کے لیے مجوزہ دستوری خاکے پر بحث ہوتی رہی۔ شرکاء نے بعض ترامیم پیش کیں۔یہ دستور ساز کمیٹی آٹھ دس آدمیوں پر مشتمل تھی، اس پہلے اجتماع میں شریک جن لوگوں کی یاد ذہن میں محفوظ ہے، ان میں سید عبدالعزیز شرقی صاحب، مولانا جعفر شاہ پھلواری صاحب، مولانا محمد منظور نعمانی صاحب، نعیم صدیقی صاحب، حافظ فتح اللہ صاحب، شیخ فقیر حسین صاحب، مستری محمد صدیق صاحب، چودھری عبدالرحمن صاحب، ماسٹر عزیز الدین صاحب وغیرہ شامل تھے۔“ (مشاہدات، مطبوعہ ادارہ معارف اسلامی، لاہور)اس میں تمام مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔

روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں اس اجتماع کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے:”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم“میں اسلامی تحریک کی تشریح اور اس کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت کی ضرورت ظاہر کی جاچکی تھی اور اس مطلوبہ جماعت کی تشکیل کا نقشہ بھی پیش کردیا گیا تھا، اس کی اشاعت کے بعد ”ترجمان القرآن“ ماہِ صفر ۶۰ ھ میں عام الناس کو دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریہ کو قبول کرکے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، وہ دفتر کو مطلع کریں۔ پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہوگئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے لوگوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے، جو ”جماعتِ اسلامی“ کی تشکیل اور اس کے قیام و بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہیں۔ چنانچہ یہ طے کرلیا گیا کہ ان تمام حضرات کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ایک جماعتی شکل بنائی جائے اور پھر اسلامی تحریک کو باقاعدہ اٹھانے کی تدابیرسوچی جائیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۵اگست ۱۹۴۱ء ) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی۔ جن لوگوں نے جماعتِ اسلامی میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، ان سب کو ہدایت کردی گئی کہ جہاں ابتدائی جماعتیں بن گئی ہیں، وہاں سے صرف منتخب نمائندے آئیں اور جہاں لوگ ابھی انفرادی صورت میں ہیں وہاں سے حتی الامکان ہر شخص آجائے۔
اب سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ اس سوال کا جواب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تقریروں میں دیا ہے۔

جماعت اسلامی کا مقصد
مئی ۱۹۴۷ء میں جماعت اسلامی کا ایک عام اجتماع دارالاسلام پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا۔ اس میں جماعت کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے امیر جماعت مولانا مودودی نے کہا:
”ہماری یہ جماعت جس غرض کے لیے اٹھی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں اور آغازِ کار کے طور پر اس ملک میں ایک ایسی سوسائٹی منظم کی جائے جو اسلام کے اصلی اصولوں پر شعور و اخلاص کے ساتھ خود عامل ہو، دنیا کے سامنے اپنے قول و عمل سے اس کی صحیح نمائندگی کرے۔ اور بالاآخر جہاں جہاں بھی اس کو موقع ملے وہاں کے افکار، اخلاق، تمدن، معاشرت، سیاست اور معیشت کے نظام کو موجودہ دہریت و مادہ پرستی کی بنیادوں سے ہٹا کر سچی خدا پرستی یعنی توحید کی بنیاد پر قائم کردے۔“ (جماعت اسلامی کی دعوت)
اس اجتماع سے قبل ایک اور موقع پر اپنی تقریر میں مولانا مودودیؒ نے کہا:
”دنیا میں ہم جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق و فجار کی امامت و قیادت کا نظام ختم ہوکر امامتِ صالحہ کا نظام قائم ہو۔ اسی سعی و جہد کو ہم دنیا وآخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔“(تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)

امتِ مسلمہ کو فرضِ منصبی کی یاد دہانی
جماعت اسلامی قائم کرنے کا ایک قوی محرک یہ احساس تھا کہ امتِ مسلمہ اپنے فرضِ منصبی سے غافل ہے۔ مولانا مودودیؒنے اپنی ایک تقریر میں اس احساس کو بیان کیا ہے۔ یہ تقریر جماعت کے قیام کے ۲۹ سال بعد ۱۹۸۰ء میں (پاکستان میں) کی گئی۔ اور پروفیسر خورشید احمد کی مرتب کردہ کتاب ”تحریکِ اسلامی- ایک تاریخ، ایک داستان“ میں درج ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس تقریر میں کہا:
”۱۹۳۹ء کا دور آیا تو (غیر منقسم ہندوستان میں) مسلم لیگ کی تحریک نے زور پکڑا۔ پاکستان کی تحریک اٹھنی شروع ہوئی جس نے آخر کار ۱۹۴۰ء میں قرار داد پاکستان کی شکل اختیار کی۔ اس زمانے میں جو بات میرے نزدیک اہم تھی وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ تم محض ایک قوم نہیں اور تمہارا مقصود بھی (پاکستان کی صورت میں) محض ایک قومی حکومت کا قیام نہیں ہونا چاہیے۔ تم ایک مبلغ قوم ہو، تم ایک مشنری قوم ہو، تم اپنے مشن کو کبھی نہ بھولو۔۔۔۔۔

لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری آواز، صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے، تو پھر دوسرا قدم جو میری سمجھ میں آیا یہ تھا کہ اپنی طرف سے ایک ایسی جماعت منظم کی جائے جو صاحبِ کردار لوگوں پر مشتمل ہو اور ان فتنوں کا مقابلہ کرسکے جو آگے آتے نظر آرہے تھے (اور جن کی زد میں ہندوستانی مسلمان تھے)۔“
(بہ حوالہ” تحریک اسلامی، ایک تاریخ، ایک داستان“، مطبوعہ منشورات، نئی دہلی)
جماعت اسلامی قائم کرنے کی وجہ مذکورہ بالا تقریر میں مولانا مودودیؒنے مزید کہا:
”(اس وقت ۱۹۳۹ء میں میرے سامنے) تین مسئلے درپیش تھے۔ (پاکستان کی تحریک شروع ہوچکی تھی، لیکن یہ یقینی نہ تھا کہ وہ کامیاب ہوجائے گی، چنانچہ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ) اگر ملک تقسیم نہ ہو تو مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟ (دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر) ملک تقسیم ہوجائے تو جو مسلمان، ہندوستان میں رہ جائیں گے، ا ن کے لیے کیا کیا جائے؟ (پھر تیسرا سوال یہ درپیش تھا کہ) جو ملک (پاکستان) مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا، اس کو مسلمانوں کی کافرانہ حکومت بننے سے کیسے بچایا جائے اور اسے اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے؟ یہ موقع تھا جب میں نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کرلیا کہ جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت قائم کی جائے۔
میرے دماغ میں یہ تصور پوری طرح مستحکم ہوچکا تھا کہ مسلمانوں کا اصل نصب العین، اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے۔ … اسی کو ہم نے جماعت اسلامی کا نصب العین قرار دیا۔ اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام اقامتِ دین ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔“
(کتابِ مذکور)

اقامتِ دین کا مفہوم
۱۹۵۲ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہنمائی میں، جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا نیا دستور بنایا۔ اس کی دفعہ ۴ میں جماعت اسلامی کے نصب العین اقامتِ دین کی تشریح ان الفاظ میں درج کی گئی:
”اقامتِ دین سے مقصود، دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزے اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے، پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے و تقسیم کے بغیر، قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق، افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطورِ خود، اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام، اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے اجتماعی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی، رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین، اقامتِ دین — اور حقیقی نصب العین، وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔“
(کتابِ مذکور)

محض سیاسی تغیر مقصود نہیں
۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کے اجتماع منعقد دارالاسلام میں ”دعوت اسلامی اور اس کا طریقِ کار“ کے عنوان پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں مولانا نے کہا:
”ہمارے پیشِ نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے، بلکہ ہم چاہتے ہیںکہ پوری انسانی زندگی انفرادی اور اجتماع میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہو جو اسلام رونما کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیاء کو مبعوث کیا تھا، اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیا علیہم السلام کی امامت و رہنمائی میں امتِ مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔۔۔۔۔
۱- ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص، اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- جو شخص بھی اسلام قبول کرلے، یا اس کے ماننے کا دعویٰ اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے، اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔
۳- زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی میں چل رہا ہے، اور معاملاتِ دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے، مومنین صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔“ (کتابِ مذکور)

ایک نئی جماعت کے قیام کی غرض
(تقسیم سے قبل) مولانا مودودیؒ نے ایک اور تقریر میں جماعت اسلامی کے قیام کی غرض اس طرح بیان کی ہے:
”اب میں مختصراً آپ کو بتائوں گا کہ ہم کس غرض کے لیے اٹھے ہیں۔ ہم ان سب لوگوں کو جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں، یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اس کو انفرادی طور پر اپنی زندگیوں میں اور اجتماعی طور پر اپنے گھروں میں، اپنے خاندان میں، اپنی سوسائٹی میں، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملا ت میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں اور بحیثیت مجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً قائم کریں اور اپنے قول اور عمل سے دنیا کے سامنے اس کی سچی گواہی دیں۔
ہم ان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اقامتِ دین اور شہادتِ حق تمہاری زندگی کا اصل مقصد ہے، اس لیے تمہاری تمام سعی و عمل کا مرکز و محور اسی چیزکو ہونا چاہیے۔ ہر اس بات اور کام سے دست کش ہوجائو، جو اس کی ضد ہو اورجس سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہو۔ اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویے پر نظر ثانی کرو۔ اور اپنی تمام کوششیں اس راہ میں لگادو کہ دین پورا کا پورا عملاً قائم ہو جائے۔ اس کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا ہو اور اس کی طرف دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جو اتمامِ حجت کے لیے کافی ہو۔ یہ ہے جماعت اسلامی کے قیام کی واحد غرض۔“ (شہادتِ حق)
مولانا مودودیؒ نے یہ بات بھی واضح کی کہ اگر مسلمانوں کی کوئی (موجود) جماعت، شہادتِ حق کے فریضے کو انجام دینے کے لیے تیار ہوجاتی تو وہ ایک نئی جماعت نہ بناتے بلکہ ا سی (موجود) جماعت میں شامل ہوجاتے۔ مولانا نے کہا:
”سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے میں برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو! یہ تم کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صَرف کررہے ہو، تمہارے کرنے کا اصل کام تو یہ (شہادتِ حق) ہے، اس پر اپنی تمام مساعی کو مرکوز کرو۔یہ دعوت اگر (ملک کے) سارے مسلمان قبول کرلیتے تو کہنا ہی کیا تھا، مسلمانوں میں ایک جماعت بننے کے بجائے، مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندوستان کی حد تک وہ ”الجماعت“ ہوتی، جس کی موجودگی میں کوئی دوسری جماعت بنانا شرعاً حرام ہوتا۔ یہ بھی نہ ہوتا تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں سے کوئی ایک ہی ا سے (یعنی شہادتِ حق کے مقصد کو) مان لیتی، تب بھی ہم راضی تھے۔ ہم بہ خوشی اس میں شامل ہوجاتے۔مگر جب پکار پکار کر ہم تھک گئے اور کسی نے سن کر نہ دیا تب ہم نے مجبوراً یہ فیصلہ کیا کہ وہ سب لوگ جو اس کام (شہادتِ حق) کو حق اور فرض سمجھ چکے ہیں، خود ہی مجتمع ہوں اور اس کے لیے اجتماعی سعی کریں۔“ (شہادتِ حق)
امید ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مندرجہ بالا تصریحات سے اس سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ ”جماعت اسلامی قائم کرنے کی بنیادی وجہ کیا تھی؟“ بقیہ سوالات پر اظہارِ خیال آئندہ کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!

پارٹی منشور
اسلامی انقلاب اسلامی فلاحی ملک اتحاد بین المسلمین کرپشن سے پاک ملک جمہوریت
انتخابات 1970
سال 1970 میں جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی 4 جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ایک، ایک نشست حاصل کی۔
انتخابات 1977
1977 میں جماعت اسلامی نے پاکستان نیشنل الائنس کا حصہ بن کر انتخابات لڑے جس نے قومی اسمبلی کی 36 نشستیں جیتیں۔
انتخابات 1990
1990 میں پارٹی نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن کر انتخابات لڑے لیکن یہ اتحاد کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکا اور مشکل سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کی۔
انتخابات 1993
1993 میں جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 3، پنجاب کی 2 اور خیبر پختونخوا کی 4 نشستیں جیتیں۔
انتخابات 1997
1997 میں پارٹی نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا انتخاب کرتے ہوئے حکمرانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔
انتخابات 2002
سال 2002 میں جماعت اسلامی، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ تھی جس نے قومی اسمبلی کی 45 نشستیں سمیٹیں۔ اس اتحاد نے خیبر پختونخوا میں 48 نشستیں حاصل کرکے حکومت قائم کی۔

انتخابات 2008
2008 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کا حصہ بننے کا انتخاب کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔
اللہ اور اس کے رسول کے بتائے پر عمل کر رضائے الٰہی احصول جماعتِ اسلامی کی دعوت کا محور اور مرکزتھا ہے اور رہے گا طریقہ ِ میں تبدیلی ہو سکتی ہے
جماعت اسلامی لوگوں کو اپنی پوری زندگی میں اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت اور منافقت، شرک چھوڑنے کی تلقین کرتی ہے۔ مزید جماعت سیاست میں خدا سے پھرے لوگوں کی بجائے زمام کار مومنین و صالحین کو سونپنے کا کہتی ہے۔ تا کہ نظام سیاست کے ذریعے خیر پھیل سکے اور لوگ اسلامی طریقہ پر آزادانہ چل سکیں اور اس کی خیر وبرکت سے مستفید ہو سکیں۔جماعت اسلامی کے انتخابی نتائج دیکھ کر یہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے اس تنظیم کا انتخابی سیاست میں کو کارنامہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ملک کی تما پایسی میں جماعت ِاسلامی کا کردار کلیدی ہے اور اسی طرح مستقبل میں برقرار رہے گا لیکن اس کے لیے جماعت ِاسلامی کو بھی اپنے کارکنان کو بھی ساتجو ¿ھ رکھنا ہو گا۔یہ ایک عالمی تاریخ ہے کہ وہ تنظیم ہمیشہ زندہ رہتی ہے جس کے کارکنان تنظیم کے مشکل وقت میںاس کے ساتھ کھڑے رہتے ہو اور جماعت ِاسلامی کو یہ اعزاز حاصل اس کے کارکنان ہر وقت اس کے ساتھ تھے اور ہیں۔

قاضی جاوید گلزار

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مولانا سید ابوالاعلی جماعت اسلامی کے قیام میں جماعت اسلامی نے ہے جماعت اسلامی جماعت اسلامی کا قومی اسمبلی کی مولانا مودودی دعوت دیتے ہیں اسلامی تحریک قائم کرنے کی مسلمانوں کی رضائے ال ہی پاکستان کی میں مولانا کے قیام کی کہ مسلمان نصب العین میں اسلام ایک جماعت یہ اجتماع اسلامی کی اس کے لیے اور اس کے جماعت کے یہ ہے کہ ہے کہ اس کے ساتھ نہیں ہے کا قیام کیا تھا کی دعوت کی جائے کا حصہ کا اصل نے کہا ہو اور تھا کہ ہیں کہ

پڑھیں:

جماعت اسلامی کو مینار پاکستان پر’’اجتماع عام‘‘ کی اجازت مل گئی

لاہور: محکمہ داخلہ پنجاب نے ضلعی انتظامیہ کی سفارش پر مینار پاکستان پر دینی، دعوتی اور اصلاحی اجتماع کی اجازت دے دی۔

جماعت اسلامی نے 21 سے 23 نومبر تک دینی، دعوتی، اصلاحی اجتماع کیلئے این او سی کی درخواست کی تھی، ضلعی انٹیلی جنس کمیٹی نے دفعہ 144 کے حکمنامے میں مخصوص نرمی کی سفارش کی۔

ڈپٹی کمشنر لاہور کی سفارش پر دفعہ 144 میں مخصوص نرمی کا فیصلہ کیا گیا، مخصوص اور محدود اجازت کو دفعہ 144 کے حکم نامے کا حصہ بنا دیا گیا۔

یاد رہے کہ ضلعی انتظامیہ نے اصلاحی اجتماع کیلئے 20 اکتوبر کو این او سی جاری کیا تھا جس کی توثیق کیلئے درخواست کی گئی، اجتماع کی اجازت سخت شرائط و ضوابط کے ساتھ مشروط قرار دی گئی ہے۔

اجازت نامہ کے مطابق منتظمین کو ضلعی انتظامیہ کے جاری کردہ قواعد و ضوابط پر من و عن عملدرآمد کرنا ہوگا، اجتماع کی اجازت منتظمین کے حلف نامے اور ذمہ داری قبول کرنے کی بنیاد پر دی گئی، انتظامیہ سٹیج سکیورٹی، خواتین و حضرات کیلئے علیحدہ انکلوژرز اور ہنگامی راستوں کی ذمہ دار ہوگی۔

انتظامیہ ہجوم اور بھگدڑ سے بچاؤ کیلئے مناسب پارکنگ اور رضاکار فراہم کرے گی، تمام سکیورٹی ضروریات اسپیشل برانچ کے آڈٹ کے مطابق پوری کی جائیں گی، اجتماع کے دوران ساؤنڈ سسٹم صرف گراؤنڈ کے اندر اور کم والیوم پر استعمال ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلامی انقلاب کی نوید… اجتماع عام
  • اجتماع پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا، جاوید قصوری
  • ’’بدل دو نظام اجتماع عام‘‘ سے چہرے نہیں نظام بدلے گا،نزہت بھٹی
  • جماعت اسلامی کو مینار پاکستان پر’’اجتماع عام‘‘ کی اجازت مل گئی
  • جماعت اسلامی کا اجتماع عام امید کے نئے چراغ روشن کرے گا: حافظ نعیم
  • جماعت اسلامی کا اجتماع عام خیر کا سبب بنے گا، علامہ ہشام الٰہی ظہیر
  • جماعت اسلامی اجتماع، بدل دو نظام
  • اجتماع عام نظام کو بدلنے کی تحریک کا آغاز ہوگا ،مولانا حزب اللہ جکھرو
  • جماعت اسلامی کی تحریک ملک کو شفاف حکمرانی کی طرف لے جائے گی، حافظ نعیم