جماعت اسلامی اجتماع، بدل دو نظام
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
ہر سطح پر یہ حقیقت دیکھی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے عوام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ پاکستان کے موجودہ نظام سے انتہائی غیر مطمئن ہیں اور تبدیلی کا کوئی سرا نہ دیکھ کر مایوسی کا شکار ہیں۔ دیکھنے والی بات ہے کہ یہ نظام کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟ معاشرے اور اس کے افراد سے کس طرح مخاطب ہے؟ اور کس طرح ان کا استحصال کرتا ہے؟ یہ سوالات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
1947میں تین چیزیں ایسی تھیں، جو پاکستان کے قیام کی کامیاب جدوجہد کا اصل محرک بنیں: ایک، انگریزوں کی غلامی، دوسرا، ہندو برہمن سامراج کی عیاری اور انگریز سے سازباز کرکے مسلمانوں کو حقارت، غلامی اور بے بسی کی بھینٹ چڑھانااور تیسرا، مسلمانوں کی تہذیبی، سماجی، سیاسی اور دینی شناخت ہندو تہذیب، ثقافت اور سماج میں خلط ملط ہو کر رفتہ رفتہ مٹ جانے کا شدید احساس۔ متحدہ ہندی قومیت کے شوشے نے محض ہندو ہی نہیں، جدید تعلیم یافتہ مسلم اشرافیہ، حتیٰ کہ بعض جید علمائے اسلام کو بھی اس سحر میں جکڑ لیا۔
اس تصور کو علامہ اقبال اور سید ابوالا علیٰ مودودی نے مسترد ہی نہیں کیا بلکہ دو قومی نظریے کا طاقت ور تصور پیش کیا، جو پاکستان کے قیام کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا۔تحریک پاکستان کی اصل طاقت ہے پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ۔ یہ محض نعرہ نہیں تھا بلکہ تاریخ کا تسلسل اور روشن مستقبل کی امید تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یوپی سمیت مشرقی بنگال کے سوا ہندوستان کے ان علاقوں میں بھی پاکستان کی خواہش اور تحریک زیادہ کامیابی سے چلی، جو مسلم اکثریتی علاقے نہیں تھے اور جنھیں پاکستان میں شامل بھی نہیں ہونا تھا، پھر ان کی بڑی تعداد کو سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنا اور قربانیاں دینا پڑیں، کیونکہ ان کی واحد امید ایک مضبوط،مستحکم اور اسلام کے عادلانہ نظام اور معاشرے پر مبنی پاکستان کا خواب تھا۔ پاکستان کی تشکیل واقعی ان معنوں میں دنیا کی تاریخ کا بڑا انوکھا واقعہ ہے۔ تحریک پاکستان کی قیادت اگر اس دوران ایک مرتبہ بھی یہ کہتی کہ پاکستان میں انگریزوں والا نظام ہی چلے گا یا اسلامی نظام عدل کے بجائے سیکولر بنیادوں پر اسے چلایا جائے گا، تو شاید ایک فرد بھی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوتا۔
اس لیے پاکستان کو جوڑ کر رکھنے والی ایک ہی چیز ہو سکتی تھی، صرف اسلام۔وہ ’اسلام‘ نہیں جس کی، اور جتنی آزادی انگریز دیتا تھا بلکہ اسلام کا وہ نظام جس کی بنیاد عدل اور مشاورت پر ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب تک دستور سازی کا عمل مکمل نہیں ہوا تو عارضی طور پر پرانا نظام چلانے کی کراہت کو مانتے ہوئے جلد از جلد اسے تبدیل کرنے پر اتفاق پایا گیا۔ اسی لیے قیام پاکستان کے چار ماہ بعد قائد اعظم کی زندگی میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کی ریڈیو پاکستان سے اسلام کے نظام حیات پر نشری تقریریں اور علامہ اسد سے اسلامی نظام کا خاکہ تیار کرانے کے منصوبے پاکستان کے قیام کے ادھورے ایجنڈے کی تکمیل تھے۔بد قسمتی سے قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ عمل رک گیا۔
جماعت اسلامی اور بعض جید اور قابلِ احترام دینی شخصیات نے یہ سبق یاد دلایا اور اسے دستوری زبان میں بانیان پاکستان پر مشتمل دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد کی صورت میں منظور کیا۔ لیکن اللہ کی حاکمیت کے اعلان کرنے کے باوجود ریاست کے پالیسی بیان پر بدقسمتی سے کوئی عمل نہ ہوا۔آج پاکستان کے قیام کو 78 برس گزر چکے ہیں، لیکن نظام تبدیل نہیں ہوا۔ سول اور غیر سول بیورو کر یسی، بڑی بڑی جاگیروں والے وڈیرے، خان، سردار، طاقت اور دولت کے سہارے معاشی نظام پر کنٹرول کرنے والے مافیاز اور انھی طبقات کے نمایندے، سیاستدان، پاکستان کو پاکستان نہیں بنا سکے اور عوام کے حالات سدھار نہیں سکے۔اللہ کی سب نعمتوں کے ہونے کے باوجود ملکِ عزیز کو قرضوں میں جکڑ دیا، سود کی لعنت میں مفلوج کر دیا۔ نظام تعلیم طبقاتی تقسیم پر رکھا، جس میں غریب اور متوسط طبقے کو مقابلے سے باہر کر دیا گیا، عدالتی نظام، عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا، پولیس کا ادارہ عوام کو تحفظ دینے کے بجائے جرائم اور جرائم پیشہ افراد کا پشت پناہ بن گیا، انتخابی نظام کے نام پر عوام کی رائے پر قبضہ کر لیا گیا، مزدوروں اور کسانوں کو نسل در نسل غلام رکھے جانے کا نظام سخت سے سخت تر بنا دیا گیا۔ تین فیصد جاگیردار پورے زرعی نظام کے بادشاہ اور 97 فیصد عام کسان اور کاشتکار آمدن سے زیادہ اخراجات کرکے فصل اگانے کی وجہ سے قرضوں میں جکڑے گئے ہیں۔
خواتین اپنے تحفظ اور باعزت روزگار کی متلاشی رہیں۔ نوجوانوں کے لیے کوئی امید کا پیغام نہیں دیا گیا۔آئی پی پیز مافیا،چینی مافیا، آٹا مافیا، رئیل اسٹیٹ مافیا اور قبضہ مافیا طاقت ور ترین قوتیں بن کر قوم کا خون چوستی چلی آ رہی ہیں۔ اس منظرنامے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ نظام صرف چند فیصد اشرافیہ کا سفاک اور ظالمانہ نظام ہے۔ سول،غیر سول افسر شاہی کی حکمرانی ہے، جس کا ذہنی سانچا انگریز نے بنایا تھا، اور اس کے ذریعے پورے برصغیر پر کنٹرول کیا تھا۔ یہی ذہنیت آج بھی انھیں آقا اور قوم کو غلام بنانے کی روش پر قائم ہے۔
آزادی کی تحریکوں کو کچلنے اور سماجی اور سیاسی شکنجہ کسنے کے لیے انگریزوں نے جن نوابوں، سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو زمینوں اور راجواڑہ گردی سے نوازا تھا، انھی کی اولادیں آج بھی حاکم و مقتدر اور سیاہ و سفید کی مالک ہیں۔
چنانچہ 78سال کا سبق یہ ہے کہ اس گلے سڑے نظام میں پیوند کاری سے نہ قوم چل سکتی ہے اور نہ زندگی کی گزر بسر ہو سکتی ہے بلکہ پورے انتظام کو بدلنا ہوگا، ظلم وجبر کے اس شجر خبیث کو جڑسے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔لیکن کیسے؟ محض نعروں اور دعووں سے؟ خاندانوں اور شخصیات کی پرستش کرنے والی سیاست سے؟ بین الاقوامی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر کے مصنوعی اقتدار حاصل کرنے سے؟ نہیں ہرگز نہیں۔
نظام کی تبدیلی کی تحریک کا تقاضا ہے پرامن سیاسی مزاحمت، جس کی علمی بنیادیں ہوں، جو منظم ہو، واضح نظریے کے ماتحت ہو، اپنی دینی تہذیبی، سیاسی اساس پرمشتمل ہو، مخلص اور دیانت دار قیادت میں ہو، منظم ہو اور عوام کو جوڑنے اور انھیں مثبت طریقے سے انقلابی دھارے میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ بِکھرے اور منتشر ہجوم کو منظم کرکے فرسودہ نظام اور اس کے چلانے والوں کو بدلنے کے تصور کے ساتھ حقیقی معنوں میں ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ بنا کر کھڑا کر دے، تاکہ نظام بدلے، چہرے نہ بدلیں، سسک سسک کر غلامی کے تسمے باندھنے کے بجائے ظلم کی زنجیریں ٹوٹیں، اور ظلمت کے اندھیروں کے بجائے امید اور روشنی کے چراغ جھلملائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے قیام پاکستان کی کے بجائے اور اس
پڑھیں:
جماعت اسلامی کا اجتماع عام خیر کا سبب بنے گا، علامہ ہشام الٰہی ظہیر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور/اسلام آباد/کراچی(نمائندگان جسارت+اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی پاکستان کے تحت ہونے والے مینار پاکستان میں اجتماع پر گفتگو کرتے ہوئے جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سربراہ علامہ ڈاکٹر ہشام الٰہی ظہیر نے کہا ہے کہ اس طرح کے دعوتی، تربیتی وتعمیری اصلاحی اجتماعات امت کے لیے خیر کا سب ہوتے ہیں ۔انہوں نے مینار پاکستان پر 21.22.23کو ہونے والے جماعت اسلامی کے اجتماع کو خوش آئند قرار دیا امید ظاہر کی یہ اجتماع لوگوں میں اچھے اثرات مرتب کرے گا۔علاوہ ازیں مسلم لیگ ق کے کراچی کے صدر جمیل احمد خان نے کہا ہے کہ لاہور میں ہونے والے جماعت اسلامی کے عظیم الشان اجتماع کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔کراچی سکرٹریٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ اس اجتماع کا لوگوں کو مقصد اسلامی فکر دینا ہے ،مسلم لیگ ق اور چودھری شجاعت حسین ہمیشہ ملک میں ہر خیر کے کام میں اپنا تعاون پیش کرتے ہیں ،ہم امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کو اس اجتماع پر اپنی جانب سے مکمل تعاون یقین دلاتے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ امید کرتے ہیں اس اجتماع سے لوگوں کوخیر کی باتیں حاصل ہوںگی ۔مزید برآں ممتاز کالم نگار اہلحدیث رہنما عمران احمد سلفی نے امیر جماعت اسلامی منعم ظفر اور مسلم پرویز سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے اجتماع عام کو اہل پاکستان کے لیے سنگ میل قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ دینی اجتماعات سے لوگوں میں ایمانی جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔عمران احمد سلفی نے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کے لیے اپنے خصوصی پیغام میں کہاکہ ہمارا مکمل تعاون حاصل ہوگا اور اس اجتماع میں لاہور سے اہلحدیث سے وابستہ افراد بھی بھر پور شرکت کریںگے، نیکی بھلائی کے امور میں ہمارا بھرپور تعاون حاصل ہوگا ۔