Jasarat News:
2025-11-23@06:42:28 GMT

کیا پاکستان عظیم مملکت ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251123-09-5
قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو قوم بھی عروج کی طرف جاتی ہے اور جب صحافت زوال آمادہ ہوجاتی ہے تو قوم بھی زوال آمادہ ہوجاتی ہے۔ 1930ء اور 1940ء کی دہائی میں برصغیر کی مسلم صحافت زندہ و بیدار تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں برصغیر کی ملت اسلامیہ بھی زندہ و بیدار تھی۔ وہ انگریزوں کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی تھی اور ہندوئوں کو للکار رہی تھی۔ مگر 1958ء کے بعد پاکستانی صحافت جرنیلوں اور ان کے پالتو سیاست دانوں کا آلہ ٔ کار بن گئی۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ 1971ء میں جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا اور پاکستان کے جرنیل پاکستان بنانے والے بنگالیوں کو کچل رہے تھے تو ملک کے ممتاز صحافی الطاف حسن قریشی اردو ڈائجسٹ کے اداریے میں فرما رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ جھوٹ کی دو اقسام ہیں جھوٹ اور حد سے بڑھا ہوا مبالغہ۔ جھوٹ کی مثال تو الطاف حسن قریشی ہیں۔ حد سے بڑھے ہوئے مبالغے کی مثال محمود شام ہیں۔ ان کے حد سے بڑھے ہوئے مبالغے کا ثبوت ان کا ایک حالیہ کالم ہے جس میں انہوں نے بچے کھچے اور جرنیلوں کے بوٹوں سے روندے ہوئے پاکستان کو ’’عظیم مملکت‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔

’’کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی تا کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا، حالانکہ وہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور زمین میں نشانات بنانے کے اعتبار سے بہت بڑھ کر تھے تو جو کچھ وہ کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آیا۔ (مضامین قرآن حکیم۔ مرتبہ زاہد ملک۔ صفحہ 627۔ سورۃ المومن آیت 82)

تاریخ برہم ہے۔ جغرافیہ دانتوں میں زبان دبائے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے ہوئے ہے۔ ہم شروع سے یہ تجزیہ کرتے آئے ہیں کہ قائداعظم صرف ایک سال زندہ رہے۔ اس لیے پاکستان مستحکم نہیں ہوسکا۔ بہت سی مشکلات سر اُٹھاتی رہیں۔ ان کے دست راست قائد ملت لیاقت علی خان بھی تین سال بعد قتل کردیے گئے۔ اس لیے حالات بہتر نہ ہوسکے۔ ہم شخصیات پر اعتبار کرتے ہیں۔ فراموش کردیتے ہیں کہ شخصیات تو سب فانی ہیں، آنی جانی ہیں۔ ہر ایک کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کوئی بھی آخری امید نہیں ہوسکتی۔ نہ جانے کتنی آخری امیدیں منوں مٹی تلے دبی ابدی نیند سورہی ہیں۔ پھر بھی یہ عظیم مملکت چل رہی ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 13 نومبر 2025ء)

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے پاکستان ایک ’’عظیم مملکت‘‘ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس پر اللہ کا سایہ تھا۔ انسانی تاریخ میں صرف دو ریاستیں اسلام کے نام پر وجود میں آئی تھیں۔ ایک ریاست مدینہ اور دوسری پاکستان۔ چنانچہ پاکستان جب صرف ایک تصور تھا تو بھی اس پر خدائے ذوالجلال کا سایہ تھا۔ پاکستان تو 1947ء میں تخلیق ہوا مگر اقبال سے بھی بہت پہلے اللہ تعالیٰ پاکستان کا خیال ممتاز ناول نگار عبدالحلیم شرر کے قلب پر القا کرچکا تھا۔ یہ 1890ء کی بات ہے جب عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’’دلگداز‘‘ میں برصغیر کے اندر ایک علٰیحدہ اسلامی ریاست کا خیال پیش کیا۔ یہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے 40 سال پہلے کی بات ہے۔ مگر عبدالحلیم شرر کا یہ خیال لوگوں کی توجہ حاصل نہ کرسکا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کا خیال 1917ء میں یوپی کے خیری برادران کے قلب پر القا کیا اور انہوں نے برصغیر میں ایک الگ اسلامی ریاست کا خیال پیش کیا۔ لیکن اس مرتبہ بھی یہ خیال عوامی تخّیل یا Public Imagination کا حصہ نہ بن سکا۔ یہاں تک کہ 1930ء آگیا اور اقبال نے یوپی کے شہر الٰہ آباد میں جا کر اپنے خطبہ الٰہ آباد میں برصغیر کے اندر ایک الگ اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا۔ اب قیام پاکستان کا وقت چونکہ قریب آچکا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ اقبال کے تصور کو عوام کے تخیّل کا حصہ بنادیا بلکہ اس تصور نے خود ’’قوم پرست‘‘ اقبال کو ’’اسلام پرست‘‘ اقبال میں ڈھال دیا۔ دوسری طرف اس تصور نے ایک قومی نظریے کے علمبردار ’’محمد علی جناح‘‘ کو ’’دوقومی نظریے کا ترجمان‘‘ بنا کر ’’قائداعظم‘‘ میں ڈھال دیا۔ چنانچہ پاکستان کا نظریہ بھی عظیم تھا۔ پاکستان کا تصور بھی عظیم تھا۔ پاکستان کا قائد بھی عظیم تھا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد بھی عظیم تھی۔ یہاں تک پاکستان کے عظیم مملکت ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔

20 ویں صدی میں نظریے کی طاقت بے پناہ تھی۔ ایک طرف نظریے نے پاکستان کے نام دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کی۔ دوسری طرف اس سے پہلے سوشلزم کے نظریے نے روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔ تیسری جانب اسی نظریے نے چین کو بھی سوشلسٹ انقلاب سے ہمکنار کیا۔ روسی انقلاب صرف روس تک محدود نہ رہا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس انقلاب نے پوری زندگی کو بدل ڈالا۔ روس اور چین میں کوئی بیروزگار نہ رہا۔ کوئی بے گھر نہ رہا۔ اس نظریے نے روس چین کے پورے معاشرے کو مفت تعلیم فراہم کی۔ مفت علاج کی سہولتیں مہیا کیں۔ روس کے انقلاب نے روس کو سوویت یونین میں ڈھال کر دنیا کی دوسری سپر پاور بنادیا۔ اسی طرح چینی انقلاب نے آج چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی صورت دے دی ہے۔

پاکستان کا نظریہ روس اور چین کے نظریے سے ایک کروڑ گنا بڑا تھا اور یہ نظریہ پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنا سکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پالتو سیاست دانوں نے ملک کے بنیادی نظریے سے غداری کی اور اس نظریے کو ریاست اور معاشرے پر حاکم نہ بنے دیا۔ اس کے برعکس جنرل ایوب نے پاکستان پر سیکولر ازم تھوپ دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن سے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دلوا دیا۔ انہوں نے معاشرے پر ایسے عائلی قوانین مسلط کردیے جو اسلام کی ضد تھے۔ انہوں نے اس تصور ہی کو پنپنے نہ دیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی ایجاد تھے۔ وہ سیاست میں آئے تو انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ تخلیق کر ڈالا۔ حالانکہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی۔ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ جنرل پرویز مشرف لبرل تھے انہوں نے پاکستان کو لبرل بنانے کی کوشش کی۔ جنرل ضیا الحق کا اسلام صرف سیاسی فائدے کے لیے تھا اور اس نے معاشرے کے باطن پر رّتی برابر بھی اثر نہ ڈالا۔ میاں نواز شریف اور ان کے خانوادے کا نظریہ اسلام تو کیا سیکولر ازم بھی نہیں ہے۔ یہ پورا خاندان ’’پنجابیت‘‘ میں ڈوبا ہوا ہے۔ میاں نواز شریف نے اسلامی جمہوریہ اتحاد کے زمانے میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ آج مریم نواز خود کو ’’اسلام کی بیٹی‘‘ یا ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کے بجائے ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کہلانا پسند کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی بھٹو کے زمانے سے آج تک کبھی ’’سندھیت‘‘ سے بلند نہیں ہوسکی۔ چنانچہ نظریۂ پاکستان ملک و قوم کے لیے کوئی ’’تخلیقی قوت‘‘ یا قوم کے اتحاد و یگانگت کا آلہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مملکت کو عظیم کہا جاسکتا ہے جو اپنے نظریے ہی سے بیگانہ ہوگئی ہو؟

قائداعظم نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑ کر پاکستان بنایا تھا۔ چنانچہ پاکستانی قوم کو ایک ’’آزاد قوم‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مگر جرنیلوں اور ان کے آلہ ٔ کار سیاست دانوں نے 1958ء سے آج تک پاکستان کو امریکا کا غلام بنایا ہوا ہے۔ جنرل ایوب نے پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنایا۔ انہوں نے امریکا کو ’’بڈھ بیر‘‘ میں ایسا ہوائی اڈا فراہم کیا جہاں سے امریکا سوویت یونین کی نگرانی کرتا تھا۔ جنرل ایوب نے پاکستان کی معیشت کو عالمی بینک کی غلامی میں دینے کے عمل کا آغاز کیا۔ جنرل پرویز نے نائن الیون کے بعد پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ آج بھی پاکستان امریکی Dictation پر چل رہا ہے۔ ہماری معیشت 130 ارب ڈالر سے زیادہ قرضوں کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ کیا ایسے ملک اور ایسی معیشت کو آزاد قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پاکستان کو ’’عظیم مملکت‘‘ کیونکر کہا جاسکتا ہے؟

یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ چین نے 40 برسوں میں 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے۔ بھارت نے 40 سال میں 25 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے اور روس نے 30 کروڑ کی نئی مڈل کلاس پیدا کی ہے۔ مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے قوم کا یہ حال کیا ہوا ہے کہ 10 کروڑ افراد خط ِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ مڈل کلاس پھیلنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔ آبادی کے 80 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں۔ معاشرے کے 80 فی صد لوگ بیمار پڑتے ہیں تو انہیں کوئی ماہر ڈاکٹر فراہم نہیں ہوپاتا۔ 40 فی صد آبادی ناخواندہ ہے، پونے تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مملکت کو ’’عظیم‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟

ہمارے زمانے میں جمہوریت کو معاشرے کی ’’صحت‘‘ کا بیرومیٹر کہا جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں جمہوری سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی ’’جمہوری پارٹی‘‘ موجود نہیں۔ آزاد معاشروں میں آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں کوئی انتخاب بھی آزادانہ نہیں ہوا۔ 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی مگر جرنیلوں نے فارم 47 کے ذریعے پی ٹی آئی کو ہرا دیا اور نواز لیگ اور ایم کیو ایم کو جتا دیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کامیاب ہوگئی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کو ہرا کر کراچی پر پیپلز پارٹی کا میئر مسلط کردیا۔ صحافت کی آزادی کا یہ حال ہے کہ جنرل عاصم منیر کے خلاف کہیں ایک تنقیدی جملہ نہ شائع ہوسکتا ہے نہ نشر ہوسکتا ہے۔ محمود شام اس کے باوجود فرما رہے ہیں کہ پاکستان عظیم مملکت ہے؟۔

شاہنواز فاروقی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامی ریاست نے پاکستان پاکستان کی عظیم مملکت پاکستان کو پاکستان کے پاکستان کا جنرل ایوب جاسکتا ہے اور ان کے بھی عظیم نظریے نے انہوں نے میں کوئی کا خیال ہیں کہ

پڑھیں:

وفاق ، آئین اور وحدتیں

آئین ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جو مخصوص زمانوں میں اور مخصوص حالات میں بنتا ہے۔ پاکستان میں جو آئین 1947 میں بننا تھا، وہ 1971 کے حالات کے پس ِ منظرمیں بنا،اگر یہ آئین 1947میں بن جاتا تو یہ ملک دو لخت نہ ہوتا۔

ہندوستان کے آئین میں صوبائی خود مختاری یا یوں کہیے کہ وحدتوں کا اختیار اتنا واضح نہیں ہے۔ ہندوستان کے آئینی ماہر بی، این، باسو اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کی وحدتیں اپنا جدا گانہ تشخص اور تاریخ رکھتی ہیںجب کہ موجودہ ہندوستان کی ریاستیں صدیوں سے ایک سلطنت ہیں اور مسلسل ساتھ ساتھ رہی ہیں۔

ہندوستان کے ماہر قانون امبیدکر کے سامنے ہندوستان کی تاریخ اور حقیقتیں تھیں اوراسی طرح جب ہمارے آئین کی بنیاد رکھی گئی تو یہی حقیقت ہمارے آئینی ماہرین کے سامنے تھی۔1940 قرارداد پاکستان کا پس منظر کیا تھا؟

کیا وجہ تھی کہ شیر بنگال فضل حق اور قائد اعظم نے ایک ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ 1940 کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔ خاکسار جماعت کے جتھوں نے دونوں کو سلامی دی تھی۔ہمار ا آئین 1973 میںتشکیل پایا لیکن اس آئین نے 1940 کی قرارداد پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ جو آپ نے مانا وہ آئین ہوگیا مگر جو آئین کا بین الاقوامی معیار ہے، وہ آئین کا حصہ ہو جیسا کہ بنیادی حق۔آئین ، ملک میں تمام بسنے والی اقوام ، ان کی ثقافت، زبان ،تاریخی تشخص کا ترجمان ہے اور یہ آئین ان تمام اقوام کے درمیان افہام و تفہیم اور رضامندی سے تحریر کیا جاتا ہے جس کو انگریزی میں Consensus Document  کہا جاتا ہے۔

آئین کی ترامیم وقتی تقاضوں کے مطابق کی جاتی ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ترامیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہی ہلا دیا جائے۔آئین بنانا اور ترامیم کرنا دونوں ہی الگ الگ حقیقتیں ہیں۔نہ ہی 1956کے آئین نے پاکستان کو وفاق مانا تھا اور نہ ہی1962 کے آئین نے۔

1973 کے آئین پاکستان کی تاریخی حیثیت ظاہر کی اور پاکستان کو وفاق مانا۔وفاق کے معنی کیا ہیں؟ جب مختلف اقوام تاریخی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت سے دستبردار ہو کر ، ایک ساتھ اور جڑ کر ایک ملک بنائیں۔

1947 میں ہندوستا ن بنا نہیں تھا بلکہ آزاد ہوا تھا جب کہ پاکستان بنا تھا۔ پاکستان کی بنیاد وہ ریاستیں بنیں جو ہندوستان سے الگ ہوئیں۔یعنی 1947 ہم بھی آزاد ہوئے تھے اور ہم سب نے مل کر ایک آزاد ملک بنایا اور ہندوستان ایک ملک تھا جو 1947 میں آزاد ہوا۔

اکبر بادشاہ کے دور میں سندھ اور بنگال کو فتح کر کے ہندوستان کا حصہ بنایا گیا اور پنجاب پہلے سے ہی حصہ تھا۔ان ادوار میں مغل ، ترخان ، ترک اور ارغون حملہ آور درہ خیبر سے داخل ہو تے تھے، پانی پت کے میدانوں میں جنگیں ہوتی تھیں اور جو فاتح ہوتا، دہلی کا تخت نشین ہوجاتا تھا۔

اورنگزیب بادشاہ کے دور حکومت میں جب دلی کی حکومت کمزور ہوئی تو سندھ اور پنجاب نے اپنا آزادانہ تشخص دوبارہ بحال کیا۔ رنجیت سنگھ نے کشمیر، شمال مغربی علاقے اور پنجاب و پشاور تک کے علاقوں کو اکٹھا کرکے ایک سلطنت قائم کردی۔

نیچے خان آف قلات نے ڈیرہ ٖ غازی خان کا علاقہ فتح کیا۔انگریزوں کے تقسیم کے وقت ان تمام علاقوں کی حدود کو ایسے ہی برقرار رکھا سوائے فرنٹیئر کے جس کو انھوں نے NWFP قرار دیا۔

اسی لیے ہمارا 1973 وفاق کے معاملے میں انتہائی حساس ہے،جو بھی ترامیم آئین میں کی جائیں گی اس کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے مگر کوئی نیا صوبہ بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کی دوتہائی اکثریت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہمارا آئین کہتا ہے۔

ہندوستان کے آئین میں ایسی شقیں موجود نہیں،اس کی وجوہات ڈاکٹر باسو اور بہت سے آئینی و تاریخی ریسرچرز اور اسکالرز سمجھا سکتے ہیں۔بنگال کی تاریخی حقیقتیں ہمارے سامنے ہیں جب پاکستان کے ابتدائی حکمرانوں نے بنگالی قوم پر اردو زبان مسلط کرنا چاہی تو، اس کے نتائج کیا نکلے؟ وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔

پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) وفاقی جماعتیں نہ سہی لیکن بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ان تینوں پارٹیوں کی تین صوبوں میںمضبوط بنیادیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں، پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں، پیپلز پارٹی کی سندھ میں مگر تینوں ہی پارٹیاں وفاق میں سیاست کرتی ہیں بلکہ اقتدار کی سیاست کرتی ہیں۔

پی ٹی آئی اس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے،یہ جنگ پی ٹی آئی اپنی ضد اور غیر دانستگی کے باعث تیزی سے ہار بھی رہی ہے،وہ اس لیے کہ 2024 میں خیبر پختونخوا میں ہونے والے انتخابات شفاف نہ تھے، مگرمسلسل دوحکومتیں خان صاحب کے پاس رہیں۔

مگر خیبر پختونخوا میں قوم پرستوں کی حمایت خان صاحب کو حاصل نہ تھی ۔ ان کو پنجاب میں مقبولیت حاصل تھی۔ چاروں صوبوں میں سے اگر کسی صوبے میں علیحدگی پسند تحریک ہے تو وہ بلوچستان میں ہے مگر وہ بھی گمراہ کن ہے جو خود بلوچ قوم کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔

خیبر پختونخوا میں طالبان یا پھر اثر و رسوخ رکھنے والے افغانی لوگ کارروائیاں کرتے ہیں۔ان تمام حالات میں اگر ہم نئے صوبے یا پھر اٹھارہویں ترمیم کی بات کرتے ہیں جس میں آئین کے طریقہ کار کے مطابق صوبائی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت درکار ہے وہ ناممکن ہے۔

فروغ نسیم صاحب، جب ایم کیو ایم میں شمولیت رکھتے تھے ، تو وہ یہ ترمیم اسمبلی میں لے کر آئے تھے کہ الگ صوبے بنائے جائیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 39 میں طریقہ کار موجود ہے اس میں تبدیل لائی جائے۔وہ اس بات کا نعم البدل لائے تھے کراچی میں ریفرنڈم کر وایا جائے کہ کیا لوگ نیا صوبہ چاہتے ہیں؟

اگر اس بات پر غورو فکر کیا جائے تو چاروں صوبوں میں نئے صوبے بنانے کی بازگشت موجودہے۔ پنجاب میں سرائیکی صوبہ، بلوچستا ن میں پشتو بیلٹ کا نیا صوبہ، سندھ میں مہاجروں کا نیا صوبہ اور خیبرپختونخوا میں میں ہزارہ ، ہند کواور گوجری بولنے والوں کا نیا صوبہ۔اگر یہ تمام صوبے بن جائیں تو کیا سینیٹ میں ان کو برابری کے تناسب سے نشستیں میسر ہوںگی؟


صوبے کا ہونا وحدت نہیں ہوتا۔افغانستان میں کئی صوبے ہیں اور ان کے گورنر مقرر ہیں یہ اور بات ہے کہ افغانستان میں کبھی کسی آئین کا وجود نہ تھا اور اگر تھا بھی تو کیا وہ آئین کے وضع کردہ پیمانوں پر کبھی پورے اترے جو کہ مہذب دنیا میں مروج ہیں۔

افغانستان میں صوبے محض انتظامی ہیں، نہ وہ وحدتیں ہیں اور نہ ہی Federating Units  ہیں۔وہاں ڈویژن کو صوبہ کہا جاتا ہے۔جب کہ ہمارے آئین میں صوبہ معنی وحدت جو پاکستان بننے سے پہلے اور ہزاروں سال سے اپنا تشخص رکھتے تھے۔

ان تمام وحدتوں نے مل کر پاکستان بنایا۔جب اس ملک کو آئین دے پائے تو اس کا اثر بلآخر وفاق پر پڑا۔پھر آئین کی تشکیل کے بعد دو دہائیوں تک آمریتوں کا راج رہا، وہ اس آئین کو ختم نہیں کر سکے اور وہ کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ یہ آئین 1956 کے آئین کی طرح کسی افسر شاہی نے ترتیب نہیں دیا تھا بلکہ یہ عوام کے نمائندوں کا متفقہ دستور تھا۔ 

مگر انھوں نے ترامیم کے ذریعے آئین میں بگاڑ پیدا کیا،آج جس تیزی سے آئین میں ترامیم لائی جا رہی ہیں مجھے پھر سے ایک پنڈورا باکس کھلتا ہوا نظر آ رہا ہے،جس کے ذریعے اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کیا جائے گا اور اگر اس طرح کا کوئی ایڈوینچر کیا جاتا ہے تو یہ ایڈوینچر وفاق کو نقصان پہنچائے گا۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی اور افغانستان
  • وفاق ، آئین اور وحدتیں
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر پاکستان کی ضرورت ہیں، فرح عظیم شاہ
  • خوارج کے خلاف مربوط کارروائیاں قومی سلامتی کو مزید مضبوط بنا رہی ہیں؛ صدرِ مملکت
  • صدرِ مملکت کا بنوں میں مشترکہ انٹیلی جنس آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کی خبریں، صدر مملکت نے سرفراز بگٹی سے ملاقات سے انکار کر دیا
  • صدر آصف علی زرداری کا لبنان کے یومِ آزادی پر پیغام، لبنانی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عزم کا اعادہ
  • 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ججز نے سپریم کورٹ  میں درخواست دائرکرنےکی کوشش کی جو  صحیح  فورم نہیں، وزیر مملکت برائے قانون
  • سلطنت عمان کا قومی دن، صدر مملکت کا سلطان ہیثم کے نام اہم پیغام