وفاق ، آئین اور وحدتیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
آئین ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جو مخصوص زمانوں میں اور مخصوص حالات میں بنتا ہے۔ پاکستان میں جو آئین 1947 میں بننا تھا، وہ 1971 کے حالات کے پس ِ منظرمیں بنا،اگر یہ آئین 1947میں بن جاتا تو یہ ملک دو لخت نہ ہوتا۔
ہندوستان کے آئین میں صوبائی خود مختاری یا یوں کہیے کہ وحدتوں کا اختیار اتنا واضح نہیں ہے۔ ہندوستان کے آئینی ماہر بی، این، باسو اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کی وحدتیں اپنا جدا گانہ تشخص اور تاریخ رکھتی ہیںجب کہ موجودہ ہندوستان کی ریاستیں صدیوں سے ایک سلطنت ہیں اور مسلسل ساتھ ساتھ رہی ہیں۔
ہندوستان کے ماہر قانون امبیدکر کے سامنے ہندوستان کی تاریخ اور حقیقتیں تھیں اوراسی طرح جب ہمارے آئین کی بنیاد رکھی گئی تو یہی حقیقت ہمارے آئینی ماہرین کے سامنے تھی۔1940 قرارداد پاکستان کا پس منظر کیا تھا؟
کیا وجہ تھی کہ شیر بنگال فضل حق اور قائد اعظم نے ایک ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ 1940 کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔ خاکسار جماعت کے جتھوں نے دونوں کو سلامی دی تھی۔ہمار ا آئین 1973 میںتشکیل پایا لیکن اس آئین نے 1940 کی قرارداد پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ جو آپ نے مانا وہ آئین ہوگیا مگر جو آئین کا بین الاقوامی معیار ہے، وہ آئین کا حصہ ہو جیسا کہ بنیادی حق۔آئین ، ملک میں تمام بسنے والی اقوام ، ان کی ثقافت، زبان ،تاریخی تشخص کا ترجمان ہے اور یہ آئین ان تمام اقوام کے درمیان افہام و تفہیم اور رضامندی سے تحریر کیا جاتا ہے جس کو انگریزی میں Consensus Document کہا جاتا ہے۔
آئین کی ترامیم وقتی تقاضوں کے مطابق کی جاتی ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ترامیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہی ہلا دیا جائے۔آئین بنانا اور ترامیم کرنا دونوں ہی الگ الگ حقیقتیں ہیں۔نہ ہی 1956کے آئین نے پاکستان کو وفاق مانا تھا اور نہ ہی1962 کے آئین نے۔
1973 کے آئین پاکستان کی تاریخی حیثیت ظاہر کی اور پاکستان کو وفاق مانا۔وفاق کے معنی کیا ہیں؟ جب مختلف اقوام تاریخی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت سے دستبردار ہو کر ، ایک ساتھ اور جڑ کر ایک ملک بنائیں۔
1947 میں ہندوستا ن بنا نہیں تھا بلکہ آزاد ہوا تھا جب کہ پاکستان بنا تھا۔ پاکستان کی بنیاد وہ ریاستیں بنیں جو ہندوستان سے الگ ہوئیں۔یعنی 1947 ہم بھی آزاد ہوئے تھے اور ہم سب نے مل کر ایک آزاد ملک بنایا اور ہندوستان ایک ملک تھا جو 1947 میں آزاد ہوا۔
اکبر بادشاہ کے دور میں سندھ اور بنگال کو فتح کر کے ہندوستان کا حصہ بنایا گیا اور پنجاب پہلے سے ہی حصہ تھا۔ان ادوار میں مغل ، ترخان ، ترک اور ارغون حملہ آور درہ خیبر سے داخل ہو تے تھے، پانی پت کے میدانوں میں جنگیں ہوتی تھیں اور جو فاتح ہوتا، دہلی کا تخت نشین ہوجاتا تھا۔
اورنگزیب بادشاہ کے دور حکومت میں جب دلی کی حکومت کمزور ہوئی تو سندھ اور پنجاب نے اپنا آزادانہ تشخص دوبارہ بحال کیا۔ رنجیت سنگھ نے کشمیر، شمال مغربی علاقے اور پنجاب و پشاور تک کے علاقوں کو اکٹھا کرکے ایک سلطنت قائم کردی۔
نیچے خان آف قلات نے ڈیرہ ٖ غازی خان کا علاقہ فتح کیا۔انگریزوں کے تقسیم کے وقت ان تمام علاقوں کی حدود کو ایسے ہی برقرار رکھا سوائے فرنٹیئر کے جس کو انھوں نے NWFP قرار دیا۔
اسی لیے ہمارا 1973 وفاق کے معاملے میں انتہائی حساس ہے،جو بھی ترامیم آئین میں کی جائیں گی اس کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے مگر کوئی نیا صوبہ بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کی دوتہائی اکثریت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہمارا آئین کہتا ہے۔
ہندوستان کے آئین میں ایسی شقیں موجود نہیں،اس کی وجوہات ڈاکٹر باسو اور بہت سے آئینی و تاریخی ریسرچرز اور اسکالرز سمجھا سکتے ہیں۔بنگال کی تاریخی حقیقتیں ہمارے سامنے ہیں جب پاکستان کے ابتدائی حکمرانوں نے بنگالی قوم پر اردو زبان مسلط کرنا چاہی تو، اس کے نتائج کیا نکلے؟ وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔
پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) وفاقی جماعتیں نہ سہی لیکن بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ان تینوں پارٹیوں کی تین صوبوں میںمضبوط بنیادیں ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں، پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں، پیپلز پارٹی کی سندھ میں مگر تینوں ہی پارٹیاں وفاق میں سیاست کرتی ہیں بلکہ اقتدار کی سیاست کرتی ہیں۔
پی ٹی آئی اس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے،یہ جنگ پی ٹی آئی اپنی ضد اور غیر دانستگی کے باعث تیزی سے ہار بھی رہی ہے،وہ اس لیے کہ 2024 میں خیبر پختونخوا میں ہونے والے انتخابات شفاف نہ تھے، مگرمسلسل دوحکومتیں خان صاحب کے پاس رہیں۔
مگر خیبر پختونخوا میں قوم پرستوں کی حمایت خان صاحب کو حاصل نہ تھی ۔ ان کو پنجاب میں مقبولیت حاصل تھی۔ چاروں صوبوں میں سے اگر کسی صوبے میں علیحدگی پسند تحریک ہے تو وہ بلوچستان میں ہے مگر وہ بھی گمراہ کن ہے جو خود بلوچ قوم کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
خیبر پختونخوا میں طالبان یا پھر اثر و رسوخ رکھنے والے افغانی لوگ کارروائیاں کرتے ہیں۔ان تمام حالات میں اگر ہم نئے صوبے یا پھر اٹھارہویں ترمیم کی بات کرتے ہیں جس میں آئین کے طریقہ کار کے مطابق صوبائی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت درکار ہے وہ ناممکن ہے۔
فروغ نسیم صاحب، جب ایم کیو ایم میں شمولیت رکھتے تھے ، تو وہ یہ ترمیم اسمبلی میں لے کر آئے تھے کہ الگ صوبے بنائے جائیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 39 میں طریقہ کار موجود ہے اس میں تبدیل لائی جائے۔وہ اس بات کا نعم البدل لائے تھے کراچی میں ریفرنڈم کر وایا جائے کہ کیا لوگ نیا صوبہ چاہتے ہیں؟
اگر اس بات پر غورو فکر کیا جائے تو چاروں صوبوں میں نئے صوبے بنانے کی بازگشت موجودہے۔ پنجاب میں سرائیکی صوبہ، بلوچستا ن میں پشتو بیلٹ کا نیا صوبہ، سندھ میں مہاجروں کا نیا صوبہ اور خیبرپختونخوا میں میں ہزارہ ، ہند کواور گوجری بولنے والوں کا نیا صوبہ۔اگر یہ تمام صوبے بن جائیں تو کیا سینیٹ میں ان کو برابری کے تناسب سے نشستیں میسر ہوںگی؟
صوبے کا ہونا وحدت نہیں ہوتا۔افغانستان میں کئی صوبے ہیں اور ان کے گورنر مقرر ہیں یہ اور بات ہے کہ افغانستان میں کبھی کسی آئین کا وجود نہ تھا اور اگر تھا بھی تو کیا وہ آئین کے وضع کردہ پیمانوں پر کبھی پورے اترے جو کہ مہذب دنیا میں مروج ہیں۔
افغانستان میں صوبے محض انتظامی ہیں، نہ وہ وحدتیں ہیں اور نہ ہی Federating Units ہیں۔وہاں ڈویژن کو صوبہ کہا جاتا ہے۔جب کہ ہمارے آئین میں صوبہ معنی وحدت جو پاکستان بننے سے پہلے اور ہزاروں سال سے اپنا تشخص رکھتے تھے۔
ان تمام وحدتوں نے مل کر پاکستان بنایا۔جب اس ملک کو آئین دے پائے تو اس کا اثر بلآخر وفاق پر پڑا۔پھر آئین کی تشکیل کے بعد دو دہائیوں تک آمریتوں کا راج رہا، وہ اس آئین کو ختم نہیں کر سکے اور وہ کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ یہ آئین 1956 کے آئین کی طرح کسی افسر شاہی نے ترتیب نہیں دیا تھا بلکہ یہ عوام کے نمائندوں کا متفقہ دستور تھا۔
مگر انھوں نے ترامیم کے ذریعے آئین میں بگاڑ پیدا کیا،آج جس تیزی سے آئین میں ترامیم لائی جا رہی ہیں مجھے پھر سے ایک پنڈورا باکس کھلتا ہوا نظر آ رہا ہے،جس کے ذریعے اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کیا جائے گا اور اگر اس طرح کا کوئی ایڈوینچر کیا جاتا ہے تو یہ ایڈوینچر وفاق کو نقصان پہنچائے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا میں ہندوستان کے پاکستان کی پی ٹی ا ئی نیا صوبہ ا ئین کے کے ا ئین ا ئین کی جاتا ہے
پڑھیں:
وفاق کی زمین کچی آبادی کو کیسے الاٹ کر دی، ریلوے آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا: جسٹس حسن رضوی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ریلوے اراضی پر تجاوزات کیس میں وفاقی آئینی عدالت کے جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ تجاوزات بن رہی تھی، قبضہ ہو رہا تھا اور ریلوے آنکھیں بند کرکے بیٹھا تھا، زمین کی واگزاری کے لیے کسی نے ریلوے کے ہاتھ نہیں باندھ رکھے۔ جسٹس حسن رضوی جسٹس اور کے کے آغا پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ریلوے نے ملکیتی زمین کی واپسی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے؟ ریلوے اراضی پر تجاوزات و قبضہ کے ذمہ داران آفیشل کے خلاف ریلوے نے کیا کارروائی کی؟ تفصیلی رپورٹ دی جائے۔جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے کہ ریلوے ملکیتی زمین پر قبضہ و تجاوزات کو روکنے والا کوئی ہے یا نہیں، ریلوے کی زمین قوم کی امانت ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کتنی ٹرینیں چلتی تھیں، آج ریلوے کی ٹرینوں اور پٹڑیوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کے بہترین کلب اور اسپتال تھے لیکن وہ بھی ختم ہوگئے، ریلوے کی زمین پر کچی آبادیاں انڈسٹری اور گوٹھ بن گئے ہیں۔ کیا ریلوے کو تجاوزات اور قبضے کے لیے زمین دی گئی تھی۔ریلوے وکیل سے جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ریلوے کی زمین کو زیر استعمال لانے کا کوئی پلان ہے؟ ریلوے کو ساری زمین واپس مل جائے تو کیا کریں گے۔ آئینی عدالت کا یہ مطلب نہیں غیر آئینی چیزوں میں چلے جائیں۔وکیل ریلوے شاہ خاور نے بتایا کہ پنڈی میں ریلوے کی 1359 کنال اراضی پنجاب حکومت نے کچی آبادی کو دی تھی اور پنڈی کا ریلوے اسٹیشن بھی اسی اراضی میں شامل تھا، پنجاب نے غلطی تسلیم کر لی ہے اور 1288 کنال اراضی واپس ریلوے کے نام منتقل ہو چکی ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کے افسران ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں، افسران اے سی روم میں بیٹھے رہیں گے تو زمینوں پر قبضہ ہی ہوگا۔ صوبائی حکومت نے وفاق کی زمین کچی آبادی کو کیسے الاٹ کر دی، ریلوے کو تجاوزات کے خاتمے سے کس نے روکا ہے، تجاوزات و قبضے کے خلاف ریلوے ایکشن کیوں نہیں لیتی۔وفاقی آئینی عدالت نے ریلوے اراضی پر تجاوزات و قبضہ کی رپورٹ طلب کرلی۔