پاکستان، چین اور امریکا ایک مثلث
اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT
ایک انگریزی کہاوت ہے کہ ’’ عمل کی آواز الفاظ کی جھنکار سے زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ اب اگر اس کہاوت کو سامنے رکھ کر پاکستان اور چین کی دوستی کو بیان کیا جائے کہ یہ دوستی ’’ ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے‘‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عمل یا کارروائی کو دیکھا جائے تو انگریزی کہاوت پر یقین آجاتا ہے۔
دنیا اس وقت نہایت تیزی سے ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پرانی دوستیاں ٹوٹ رہی ہے اور نئے رشتے استوار کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان اور عرب دنیا کی اسرائیل کی جانب بالواسطہ یا بلاواسطہ جو موجودہ حکمت عملی ہے، آج سے صرف چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی محال تھا۔
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو سزائے موت، یہ حسینہ واجد اور بھارت کے لیے یکساں پیغام ہے اور تو اور نیپال نے بھی بھارتی کیمپ سے نکلنے کے لیے کمر کس لی ہے۔
بدقسمتی سے تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستان ابہام کا شکار نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور روس اس بات پر متفق ہے کہ اب امریکا کو ایشیا سے نکلنا ہوگا۔
امریکا ویسے بھی ایک بجھتا ہوا چراغ ہے اور وہ اس وقت اپنے سپر پاور رہنے کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور ہمارے خطے میں اس وقت اس کے اتحادی عرب ممالک اور پاکستان ہیں۔
عرب ممالک کو خوف ہے کہ اگر انھوں نے امریکا کا ساتھ نہ دیا، تو ان کی بادشاہت ختم کردی جائے گی۔ اس تناظر میں آپ عرب ممالک کی امریکا میں سرمایہ کاری کے اعلانات کو دیکھیں تو ساری بات سمجھ میں آتی ہے۔
یہ خطرہ صرف بادشاہت کو ہی نہیں بلکہ کچھ ایسا ہی خوف جمہوری حکومتوں کو بھی ہوتا ہے کہ جس میں ہم بھی نہ صرف شامل ہیں بلکہ اس کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو سپر پاور کے درمیان تقسیم ہوگئی تھی، ایک امریکا اور دوسرا سوویت یونین۔
1962 کی ہندوستان اور چین کی جنگ کے بعد چین نے خود کو سوویت یونین کے بعد ایشیا کی دوسری بڑی عسکری قوت کے طور پر تسلیم کروایا تھا لیکن ہندوستان یہ ماننے کو تیار نہیں، کیونکہ اس خطے کا ایک ہی ’’چوہدری‘‘ ہوسکتا ہے اور وہ ہندوستان بننا چاہتا ہے۔
سوویت یونین اپنی پے در پے حماقتوں اور سازشوں کے نتیجے میں ٹوٹ گیا اور چین کے لیے میدان کھل گیا۔ آج چین ہر زاویے سے امریکا کے علاوہ دنیا کی دوسری سپر پاور ہے کہ جس کو روس نے بھی قبول کر لیا ہے اور اسی لیے اب چین امریکا کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
اب یہاں سے ہندوستان کے کردار کا آغاز ہوتا ہے۔ امریکا چین کو ہندوستان کے ذریعے قابو میں رکھنا چاہتا ہے اور ان کے درمیان براہ راست تصادم اس کی دیرینہ ترجیح ہے۔ اس کی اس خواہش کے درمیان پاکستان رکاوٹ ہے۔
سب کو پتہ ہے کہ پاکستان چین کی پہلی دفاعی لکیر ہے، اس لیے چین پاکستان کے دفاع سے غافل ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم نے اس صورتحال میں چین کے ساتھ یارانہ اور امریکا کے ساتھ بھی دوستانہ حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے جو نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
ویسے بھی دو کشتیوں کے سوار کے لیے درسی کتابوں میں کچھ اچھا نہیں لکھا ہوا ہے۔ ہمیں یہ ماننا اور سمجھنا ہوگا کہ حقیقی جنگ امریکا اور چین کے درمیان ہے اور اس میں ہم دونوں کے حلیف نہیں ہوسکتے۔
ہماری اس حکمت عملی سے کبھی کبھی چین کی جانب سے دبے الفاظ میں تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چین نے متبادل حکمت عملی پر کام بھی شروع کردیا ہے۔
بنگلہ دیش اور نیپال میں تبدیلی اسی عالمی بلواسطہ جنگ کا حصہ ہے کہ جس میں اگر ضرورت پڑی تو آگے چل کر ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ جن کو سات بہنیں ان کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے کہتے ہیں۔
افغانستان نے ایک وقت میں چین کے کہنے پر پاکستان سے مفاہمت کا آغاز کیا تھا جو آج بری طرح مجروح ہوگیا ہے اور ہم افغانستان کے ساتھ قریب قریب جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
امریکا کی حکمت عملی دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے چین مخالف ہی رہے گی اور اس لیے ہندوستان امریکا کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے اور اسی مجبوری نے پچھلے دروازے کی سفارت کاری کے ذریعے ان کے تعلقات بہتر کیے ہیں۔
ہندوستان نے سمجھ لیا ہے کہ چینی اسلحے کا مقابلہ صرف امریکی اسلحے سے ہی کیا جاسکتا ہے اور روس اس میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یورپ نقد مانگتا ہے کیونکہ اس کا چین سے براہ راست کوئی تصادم نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ایک امریکا ہی بچتا ہے جو اس پر سرمایہ کاری کرے گا کیونکہ اس میں اس کا بھی مفاد ہے۔
ہندوستان امریکا سے F35 اسٹیلتھ جہاز اور دیگر جدید جنگی ساز و سامان اور سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی لینا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت اعلیٰ درجے کی سفارت کاری اور مدبر قیادت کی ضرورت ہے۔ دنیا ہم سے اپنی غلاظت صاف کروانا چاہتی ہے اور ماضی میں بھی دوسروں کی جنگیں لڑنے میں ہمارا کردار کوئی قابل ستائش نہیں رہا ہے۔
اس لیے ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اپنے کارڈز کیسے کھیلے گا؟ ہر چند کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت ہمیں بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں بھی کالی بھیڑوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
آنے والا وقت غیر یقینی ہی نہیں، بلکہ مشکل بھی ہوگا اور اس مثلث میں ہم کیا کردار ادا کرتے ہیں وہ ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ اللہ اس مشکل وقت میں پاکستان کا حامی و ناصر ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکمت عملی کے درمیان اور چین کے ساتھ کے لیے چین کے چین کی اور اس ہے اور
پڑھیں:
جبری مشقت کے خاتمے اور ماحول دوست بھٹہ نظام پر امریکی قانون سازوں کا مریم نواز کو خراجِ تحسین
امریکی کانگریس کے اراکین نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے نام خصوصی خط میں اینٹوں کے بھٹوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حکومتی اقدام کی تعریف کی ہے، جسے وہ ماحول دوست مستقبل اور جبری مشقت کے خاتمے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب: ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ڈرون سے بھٹوں کی نگرانی کا نیا نظام نافذ
میڈیا رپورٹ کے مطابق ’کانگریشنل پاکستان کاکس‘ نے اپنے خط میں کہا کہ پنجاب حکومت کی یہ اصلاحات نہ صرف بھٹہ انڈسٹری میں کام کرنے والے ساڑھے 4 ملین سے زائد مزدوروں کی حالت بہتر بنائیں گی بلکہ جنوبی ایشیا میں صدیوں سے جاری غیر منصفانہ پیشگی مزدوری کے نظام کو ختم کرنے میں بھی مددگار ہوں گی۔
خط میں مزید کہا گیا کہ انہیں مائیک برکلے اور ڈاکٹر روبینہ فیروز کی جانب سے پنجاب حکومت کے اس انقلابی فیصلے سے متعلق بریفنگ دی گئی، جس کے مطابق بھٹوں کی جدت عالمی ذمہ داریوں، خصوصاً جبری مشقت کے خاتمے کے اہداف کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔
کانگریس ارکان نے اس اقدام کو پاکستان اور امریکا کے درمیان معاشی تعلقات میں بہتری کا ذریعہ بھی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب میں سیٹلائٹ سے منسلک ماحولیاتی نگرانی کا آغاز، 2 فیکٹریاں سیل
ان کے مطابق بھٹہ انڈسٹری میں شفاف اور جدید نظام متعارف ہونے سے پنجاب بیرونی سرمایہ کاری اور امریکی کاروباری اداروں کے لیے زیادہ سازگار خطہ بن جائے گا۔
خط میں یہ بھی کہا گیا کہ صوبہ پنجاب اس منصوبے کا پائلٹ بن چکا ہے اور بھٹوں کی جدت سے انسانی حقوق کے عالمی معیارات میں بہتری آئے گی، ساتھ ہی یہ پیش رفت پاک–امریکا پارٹنرشپ کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
’کانگریشنل پاکستان کاکس‘ نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ وہ جبری مشقت کے خلاف پاکستان کے اقدامات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور توقع ہے کہ یہ اصلاحات پاک–امریکا اقتصادی تعاون کو نئی سطح پر لے جائیں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی کانگریس بھٹہ بھٹہ مزدور ماحولیات مریم نواز وزیراعلٰی پنجاب