یہ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT
ہر بچے کی شخصیت سازی میں اُس کے اسکول کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کا درجہ حاصل ہے لیکن جدید دور کے بچے عمومی طور پر ماں کی گود والی درسگاہ سے محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کوئی بچہ بڑے ہوکر کیسا انسان بنے گا، اس بات کا تعین دراصل اُس کے تعلیمی ادارے کا معیار کرتا ہے۔معاشرے کو مہذب بنانا اور وہاں بسنے والے افراد کی تعلیم و ترتیب کا خیال رکھنا ایک مکتب کا اولین فرض ہے لیکن پیسا فرائض کو بھلانے کی طاقت باخوبی رکھتا ہے۔
تعلیم فراہم کرنا ایک مقدس فعل ہے مگر علم کی سودے بازی ہرگز قابل ِ قبول عمل تصور نہیں کی جاسکتی ہے۔ ایک ماں کی نظر میں جس طرح اُس کے تمام بچے برابر ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی استاد کے لیے بھی اُس کے سارے طالبِ علم برابر ہونے چاہئیں کیونکہ کسی بھی استاد کی جانب سے طالب علموں کے درمیان بھید بھاؤ کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔
دور حاضر میں تقریباً تمام اسکولوں کا ایک خاص چلن بن چکا ہے کہ اپنے ادارے کے ذہین بچوں پر خاص توجہ مرکوز کرنا اور اوسط درجے والے طالبِ علموں کو اپنے دست شفقت سے محروم رکھنا۔
یہ سارا کھیل دراصل نمبروں کا ہے، چھوٹی جماعتوں سے ہی تیز ذہن رکھنے والے طلباء و طالبات کی ایک فوج اس مقصد سے تیار کی جا رہی ہوتی ہے کہ وہ وقت آنے پر بورڈ کے امتحانات میں شاندار نمبروں سے کامیابی حاصل کرکے اپنے اسکول کو شہر کا بہترین تعلیمی ادارہ ہونے کا اعزاز دلوانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
جس کو بھرپور طریقے سے استعمال کرکے ہمارے معاشرے کے اُن والدین کی توجہ اپنے ادارے کی جانب مبذول کروائی جاسکے جو اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے کافی فکرمند ہیں۔
جب والدین کسی تعلیمی ادارے کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہونگے تو اُن کا بچہ ظاہر ہے اُسی ادارے کا حصہ بنے گا اور پھر وہ بچہ اپنے ہمراہ کئی اور بچے لے کر آئے گا جس کے باعث اُس اسکول کی چاندنی ہو جائے گی اور اسکول کے مالکان پر پیسوں کی بارش۔
عقل و فہم کے حوالے سے مالا مال طالب علموں پر استاد کی تھوڑی توجہ بھی بہت کام کرتی ہے جب کہ اصل توجہ کی ضرورت کمزور ذہن والے بچوں کو ہوتی ہے مگر بڑوں کی لالچ نے بچوں کے ذہنوں کو چھوٹی عمر سے ہی برتری اور کمتری کے احساس سے متعارف کروا دیا ہے۔
استاد کی شخصیت اُس کے شاگرد کے لیے مثالی ہوتی ہے اور جب وہی مثالی شخصیت اپنے مخصوص طالب علموں پر فریفتہ ہوگی تو خاص توجہ پانے والے طالبِ علم خود کو اعلیٰ تصور کرنے لگیں گے جب کہ نظر انداز ہونے والے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں گے اور یہ بات دونوں طرح کے بچوں کی تربیت کے عمل کو بری طرح متاثر کرنے کے لیے کافی ہے۔
آج کی دنیا جہاں بیشمار مسائل سے دوچار ہے وہیں ذہنی بیماریوں کا وار بھی انسانوں پر تیزی سے جاری و ساری ہے۔ ہم یہ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمانہ حال بہت سارے حوالوں سے انسان کی ذہنی نشوونما کو متاثر کررہا ہے مگر ساتھ ہم اُن عوامل کو دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں جو ہمارے ذہنوں پر مسلسل بوجھ بڑھا رہے ہیں۔
انسان کے اندر ذہنی الجھنوں کے بیج اُس کے بچپن کے ناقابلِ فراموش واقعات و حادثات پیدا کرتے ہیں جو اُس کے جسم میں عمر کے ساتھ ساتھ بیج سے پودے اور پودے سے تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
کسی فرد کی انجانے میں کی جانے والی معمولی حرکت سامنے والے کے لیے کتنی بڑی اذیت ثابت ہو رہی ہوتی ہے اس کا علم شاید ہی اُس فرد کو ہوتا ہو مگر سامنے والے کا کرب اُس کی زندگی میں آنے والی خوشیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ باآسانی بن سکتا ہے۔
تعلیم کا ذکر ہمیشہ تربیت کے ہمراہ ہوتا ہے کیونکہ ایک کے بغیر دوسرا بالکل ادھورا سمجھا جاتا ہے، موجودہ دور کی تعلیم ہر لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں جدید اور بہترین ہے مگر تربیت کا اس میں شدید فقدان پایا جاتا ہے جو اس کی شان کو گھٹا کر بے مول کر دیتا ہے۔
یہ کوئی پچھلی صدی کی بات نہیں ہے جب درسگاہیں اپنے طالبِ علموں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ اُنھیں معاشرے میں اٹھنے، بیٹھنے اور بول چال کے آداب سکھانے کے علاؤہ ہنرمند بھی بناتی تھیں۔
آج کے ماڈرن والدین اپنے بچوں کو بااخلاق بنانے کی ذمے داری مہنگے اور اعلٰی معیار والے اسکولوں پر لگا کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں اور اسکول والوں کی نظر میں بچے کا باآدب ہونا ثانوی حیثیت رکھتا ہے اُن کو مطلب صرف اپنے ادارے میں زیرِ تعلیم بچوں کے قابلِ تحسین رزلٹ اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے مختلف طریقے ایجاد کرنے سے ہے۔
بچہ اگر اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑ رہا ہو اور فرفر انگریزی بول رہا ہو تو پھر وہ تمیز دار ہو یا بدتمیز اُس کے والدین اور اسکول کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے مگر معاشرے کو اُس کی تربیت سے بے انتہا فرق پڑتا ہے۔
بچپن میں سیکھی ہوئی اچھی، بری باتیں انسان کی شخصیت کے مثبت یا منفی ہونے پر مختص ہوتی ہیں۔ وقت رہتے اگر بچوں کو سیدھی راہ نہ دکھائی جائے اور اُن کو اچھے، برے کی پہچان نہ کروائی جائے تو اس کا خمیازہ صرف ایک فرد یا گھرانے کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے۔
آج کل ہم اپنے اردگرد جس طرح پڑھے، لکھے گھرانوں کے ہونہار سپوتوں کو عجیب و غریب قسم کی کوئی مخلوق بنتے دیکھ رہے ہیں اُس کی واحد وجہ تربیت کے بغیر تعلیم کا حصول ہے۔ کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کا دارومدار اُس کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر مبنی ہوتا ہے۔
جس قوم کی درسگاہیں بِنا تفریق اپنا کام سچی لگن سے انجام دیں گی وہاں کے معاشروں کی باگ ڈور تعلیم و تربیت کی چاشنی سے تیار نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہوگی جو کہ دنیا کے ہر کونے میں لازوال ترقی کی شرط تصور کی جاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتی ہے ہوتا ہے ہے مگر کے لیے
پڑھیں:
عالمی یومِ اطفال 2025: صدرِ مملکت اور وزیراعظم کا بچوں کے حقوق کے تحفظ اور معیاری تعلیم کی فراہمی پر زور
عالمی یومِ اطفال کے موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اپنے علیحدہ پیغامات میں بچوں کے حقوق، تحفظ اور معیاری تعلیم کی قومی و عالمی اہمیت اجاگر کی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان دنیا کے ساتھ مل کر بچوں کی فلاح و بہبود، حقوق اور تعلیم کے فروغ کے عزم کا اعادہ کر رہا ہے۔ اس سال یومِ اطفال ’میرا دن، میرے حقوق‘ کے عنوان سے منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد بچوں کے انفرادی و اجتماعی مسائل اور ان کے حقوق کی مؤثر تکمیل پر توجہ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوموں کے مستقبل کا انحصار بچوں کی بہتر نشوونما اور تعلیم پر ہے اور اس مقصد کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ تعاون ناگزیر ہے۔
وزیراعظم نے بتایاکہ حکومت پاکستان بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما، تحفظ اور معیاری تعلیم کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کر رہی ہے۔
No child should work at the expense of their dreams. ✨
???????? ???????? ???????? ???????? ???????????????? ???????? ????????????????????????
Let’s #EndChildLabour! #WorldChildrensDay
ℹ️ https://t.co/Kn4G4yHrEY pic.twitter.com/pAF4liAN9X
— International Labour Organization (@ilo) November 20, 2025
دانش سکول پراجیکٹ کی رفتار، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بچوں کی نشوونما میں معاونت اور تعلیمی وظائف کو قابلِ تعریف قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مزید ہم آہنگی اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اسی لیے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے تاکہ ہر بچے کا سکول تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ بچوں کے حقوق کا تحفظ قانونی ہی نہیں بلکہ اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ صدرِ مملکت نے والدین، سول سوسائٹی اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ مل کر بچوں کا مستقبل محفوظ اور روشن بنانے میں کردار ادا کریں۔
انہوں نے عالمی یومِ اطفال کو دنیا بھر میں بچوں کی فلاح و بہبود کا دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ طفل کا پابند ہے، جب کہ آئینِ پاکستان بھی بچوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
This #WorldChildrensDay, we’re calling for a renewed commitment to build the future children deserve, and that is enshrined in their rights.
Let’s listen to children’s voices, and ensure their rights are not only heard, but upheld. pic.twitter.com/mVUqadl171
— Catherine Russell (@unicefchief) November 20, 2025
صدر زرداری نے کہا کہ “My Day, My Rights” کا عالمی موضوع بچوں کی آواز کو نمایاں کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے استحصال کی روک تھام ریاست اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اور حکومت نے اس مقصد کے لیے مضبوط قوانین، چائلڈ پروٹیکشن یونٹس اور سروس ڈلیوری مراکز قائم کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بچوں کی فلاح کے لیے بین الاقوامی معاہدوں کا پابند ہے اور ان کی زندگی کو متاثر کرنے والے فیصلوں میں بچوں کی شمولیت بھی ضروری ہے۔
دونوں رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بچوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے لیے بہتر مستقبل کی فراہمی قومی ترجیح ہے اور اس کے لیے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
world children's day 2025 آصف زرداری بچوں کا عالمی دن شہباز شریف