بہت سوچا کہ بس اپنا منہ بند رکھوں ، خاموش رہوں مگر پھر خیال آیا کہ کسی بھی عمل پر چپ رہنا بھی تو اس عمل پر نیم رضا مندی ہی سمجھی جاتی ہے ، میں بھلا اپنی اقدار و روایات اور تہذیب وتمدن کو کیسے ترک کر سکتا ہوں۔
مجھے بار بار میرا ماضی کچو کے لگاتا ہے کہ جس منظر نامہ میں اب تم زندہ ہو ، خود کو مردہ ہی سمجھو کیونکہ اصل زندگی تو وہی تھی جو تمہارا ماضی تھا اپنے کمرہ میں بند جب گھنٹوں تصورات کی دنیا میں گم رہتا ہوں تو ایک جاندار مووی دیکھنے کو ملتی ہے۔
میں بچپن سے لڑکپن اور شباب کے بعد اب اس حال پر نظر ڈالتا ہوں تو نسیم سحری کے پْر لطف جھونکے میرا استقبال کرنے لگتے ہیں، صبح کا منظر ، بابا کی گرجدار آواز ، بیٹا اٹھو، نماز فجر کا وقت ہوا چاہتا ہے ، امی جی کا وہ نیم گرم پانی سے ہمیں وضو کرانا ، سر پر ہلکی سفید ٹوپی پہنے ہم بھی بابا کی انگلی پکڑے مسجد کی جانب چل پڑتے۔
کم سن اتنے تھے کہ ابھی نماز پوری نہیں آتی تھی مگر پھر بھی نمازیوں کی صف میں بابا کے ساتھ کہیں دبک کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے ، واپسی پر امی لکڑی کی آگ پر پراٹھے اور وہ بھی خالص دیسی گھی میں پکا کر کھلاتیں۔
مکھن کی ڈلی، شہد اور دودھ کا گرما گرم گلاس ہمارا روز کا معمول ہوا کرتا تھا ، سرکاری اسکول اور ایک جیسا ملیشیاکا کالا سوٹ سب کا یونیفارم ہوا کرتا تھا ، استاد ذی وقار خود سرکنڈے سے قلم گھڑتے اور تختی پر خوشخط لکھنا سکھاتے تھے۔
اسکول سے کالج اورکالج سے یونیورسٹی تک کا سفر انتہائی آسانی اور ذوق و شوق سے گزر گیا۔ بچپن اور لڑکپن میں ہم بچے بچیاں اکٹھے کھیل کود میں مصروف رہتے ، بہن بھائی کا سا پیار ہوا کرتا تھا، یوں فحاشی، بے حیائی اور بے غیرتی نہ تھی جو آج عام ہو چکی ہے۔
ہمارے بچپن کی لڑکیاں جو اب تین چار یا اس سے بھی زیادہ بچوں کی مائیں بن چکی ہیں کہیں سر راہ یا کسی تقریب میں مل جائیں تو بہنوں جیسا رویہ ہوتا ہے ان کا ، خوشی سے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں، یہ تھا تیقن، بھروسہ اور اعتماد جو آج تک قائم ہے۔
زندگی ایک سفر کی مانند چلتی رہتی ہے مگر اپنی حسین یادیں چھوڑ جاتی ہے یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو واحد تفریح، اطلاعات اور تازہ ترین خبروں کا ذریعہ تھا ، بابا علی الصبح نماز فجر اور قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت کے بعد ریڈیو پاکستان پر ممتاز نعت خواں جناب محمد اعظم چشتی کی آواز میں نعت رسول مقبول سننے کی سعادت حاصل کرتے اور پھر بی بی سی کا شہرہ آفاق پروگرام "سیربین" سنتے ۔
65 کی جنگ ستمبر کے دوران میں لگ بھگ پانچ برس کا تھا مگر وہ جنوں وہ جذبہ وہ عزم اور ولولہ یاد ہے ملکہ ترنم کے گائے ہوئے ملی نغمات نے پاک فوج کا مورال بلند کیا ، "اے وطن کے سجیلے جوانو" میرے نغمے تمہارے لیے ہیں" اور نسیم بیگم کے گائے ہوئے اس گیت نے تو سماں ہی باندھ دیا تھا کہ
اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
جب ہم جواں سال تھے تو ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان کی پہلی آواز بن کر ابھرے ، خواتین میں پہلی آواز ڈیرہ کی خاتون ذی وقار سیدہ آمنہ نقوی کی تھی ، یہ وہ دور تھا جب ریڈیو پر ہر حرف اور ہر لفظ کے تلفظ کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔
لوگ ریڈیو سے اپنی گھڑیوں کا وقت ملایا کرتے تھے ، کمپیئرنگ ، اناؤنسمنٹ،ڈرامہ ، دینی و سماجی پروگرام سب کچھ بڑا ہی معیاری ہوا کرتا تھا کیونکہ اس دور کے ریڈیو پروڈیوسر ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے۔
بہت قابل ، ذہین و فطین، مکمل پروفیشنل ، میں اگر اس دور کے ریڈیو پروگراموں اور پروڈیوسرز کی اہلیت و صلاحیت پر بات کروں تو کم از کم دس تصانیف رقم کر سکتا ہوں۔ اس دور کے موسیقار، گلوکار، کمپوزر، گیت نگار اور ہر فیلڈ کا عملہ اوصاف اورفن میں اپنی مثال آپ تھا۔ پھر ٹیلی وژن کا دور آیا۔
بڑے بڑے کمال مہارت رکھنے والے پروڈیوسرز نے ٹی وی کی زلفیں سنواریں، وارث، پیاس، تنہائیاں، ففٹی ففٹی، اندھیرا اجالا اور ایسے بے شمار ٹی وی ڈراموں نے برصغیر میں دھوم مچا دی، یہ ڈرامے جب ٹیلی کاسٹ ہوتے تو ہمسایہ ممالک میں بھی بازار بند ہو جایا کرتے تھے۔
ہماری فلم انڈسٹری بھی مثالی فلمیں بناتی رہی،اداکار اداکاری کا حق ہی ادا کر دیتے تھے ، فلمسٹار محمد علی ، وحید مراد، ندیم، مصطفی قریشی اور ایسے ہی عظیم فنکار طالش ، علاؤالدین ، ڈراموں میں قوی خان، عابد علی ، فردوس جمال ، محمد شفیع ، معین اختر ، عمر شریف ، ننھا، کمال احمد رضوی ، اطہر شاہ خان اورلہری جیسے لیجنڈز پھر زمانہ پیدا نہ کر سکا۔
امن و امان کی صورتحال ایسی کہ رات گئے تک لوگ آزادانہ گھومتے پھرتے، محافل و مجالس عروج پر تھیں کہ اچانک ایسی زہریلی ہوا چلی کہ سب کچھ غارت ہو گیا ، ہم ماضی کو ڈھونڈتے اور پکارتے رہ گئے مگر وہ تو شاید کوسوں دور ہم سے روٹھ کرکہیں دوسرے جہاں جا چکا تھا۔
آج ایک عمر رسیدہ بابے سے ملاقات ہوئی، اوڑھنی لپیٹے گلیوں کی خاک چھانتا پھر رہا تھا ہم اسے قریبی ڈھابے پر لے گئے' چائے کا ایک کپ پیش کیااور پھر خوب گپ شپ رہی 'دوران گفتگو وہ اور میں جی کھول کر روئے ، کیسے چپ رہا جاسکتا ہے۔
یہ بدامنی، یہ نفرتیں اور کدورتیں، یہ مظلوم لوگوں کا خون نا حق، آئے روز رہزنی ، ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں ، اداروں میں نکمے ، رشوت خور اور لالچی لوگوں کی بھرمار، بازاروں میں اشیاء خورونوش کے خود ساختہ نرخ، ناجائز منافع خوری ، ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اوررہی سہی کسر بھتہ خوری اور سود خوری نے پوری کر دی ہے۔
کس کس بات کا رونا روئیں، اس سردی میں ننگے پیر، دریدہ پیرہن لوگ دو وقت نان جویں تک کو ترستے نظر آتے ہیں، دم گھٹتا ہے اس ماحول میں، اس زہریلی ہوا میں سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے ، بابے نے کہا ارے صاحب ! ہم تو واللہ اپنے ماضی میں ہی ابھی تک زندہ ہیں۔
حال کو تو کبھی دل سے قبول ہی نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔ حال کے آئینے میں مستقبل کو سوچتے ہیں تو وہ بھی کوئی اچھا نظر نہیں آتا ، وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے سچے دین مبین اسلام سے ہٹ کر دیگر مذاہب کے لوگوں کی عادات و اطوار اپنا چکے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوا کرتا تھا
پڑھیں:
بھارتی جنگی طیارہ تیجس کیسے تباہ ہوا؟ عینی شاہدین کے اہم بیانات سامنے آگئے
دبئی میں جاری ایئرشو کے دوران بھارت کا جنگی طیارہ تیجس گر کر تباہ ہوگیا اور پائلٹ ہلاک ہوگیا، حادثے کے سبب بھارتی فضائیہ کو ایک بار پھر عالمی سطح پر رسوائی کا سامنا ہے جب کہ عینی شاہدین نے بھی حادثےسے متعلق اپنے مشاہدات بتادیے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دبئی میں انٹرنیشنل ایئرشو جاری ہے جس میں مختلف ممالک کے طیارے اور دیگر آلات پیش کیے گئے۔
شو میں فضائی کرتب دکھاتے ہوئے بھارت کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا، طیارے کو حادثہ ایئرشو کے آخری روز پیش آیا جس کے فوری بعد ریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا۔
خبررساں ادارے کے مطابق ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہوا، حادثے کے بعد ایئر شو کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا، گرنے والے طیارے کا پائلٹ ہلاک ہوگیا۔
خبر ایجنسی کے مطابق کچھ دن قبل تیجس طیارے کا آئل بھی لیک ہوا تھا جس کی ویڈیو سامنے آئی تھی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی فضائیہ نے تیجس کے حادثے اور پائلٹ کی ہلاکت کی تصدیق کردی، طیارے کو حادثہ مقامی وقت کے مطابق 2 بج کر 10 منٹ پر پیش آیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دبئی کے آلمکتوم انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہونے والے اس حادثے کے عینی شاہد میجر منوج کمار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ یہ طیارہ ’نیگیٹو جی کرتب دکھا رہا تھا۔ وہ (پائلٹ) پہلے ہی بہت نیچے پرواز کر رہے تھے۔ پھر وہ کچھ دیر کے لیے سنھبلے اور سیدھا زمین سے جا ٹکرائے۔‘
انڈین فوج سے وابستہ میجر منوج کمار نے کہا کہ ’پھر بالکل خاموشی تھی اور میرا خیال ہے کہ لوگوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ آگ کا بڑا گولہ تھا اور یہ بہت ہی حیران کن ہے۔ میں نے زندگی میں ایسے جذبات کبھی محسوس نہیں کیے۔‘
دبئی ایئر شو 2025 کی ویب سائٹ کے مطابق اس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد اور 1500 کمپنیوں نے شرکت کی ہے۔
جگدیش احمد بھی اہلخانہ کے ساتھ ایئر شو دیکھنے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔
جگدیش وریا نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ اس حہاز نے 8 یا نو منٹ سے زیادہ پرواز نہیں کی اور صرف دو سے تین چکر لگائے تھے کہ یہ زمین کی جانب آنے لگا۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب جہاز زمین سے ٹکرایا تو تین مختلف طرح کے آگ کے گولے بنے۔ تمام تماشائی کھڑے ہو گئے اور پھر تین سکینڈ کے اند اندر کریشن کی جگہ پر ایمرجنسی کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔‘
ایئر شو کے دوران فضائی کرتب دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین ایئرپورٹ پر موجود تھے۔