معیاری غذا نہ صرف صحت بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال دنیا میں تقریباً 60 کروڑ افراد آلودہ خوراک کے استعمال کی وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں اور لاکھوں اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔
پاکستان کی بات کریں تو ہر پانچ میں سے ایک فرد آلودہ خوراک کے استعمال سے متاثر ہے، جو عالمی اوسط سے دو گنا زیادہ ہے۔ اس لیے فوڈ سیفٹی کے اقدامات، تحقیق اور آگاہی کو عملی شکل دینا بے حد ضروری ہے۔
غذائی قلت کی بنیادی وجہ غربت ہے، مگر صاف پانی کی کمی، صفائی کے مسائل، معاشی مشکلات، اور غذائی شعور کی کمی جیسے دیگر عوامل بھی اسے مزید سنگین بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح غذائی قلت بچوں اور خواتین کی جسمانی و ذہنی صحت پر بھی براہِ راست اثر ڈال رہی ہے۔
2018 کے قومی سروے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 40 فیصد بچوں میں سٹنٹنگ، 28 فیصد میں کم وزنی، اور 18 فیصد میں ویسٹنگ کی بیماریاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اگر ہم وٹامنز اور منرلز کی بات کریں تو 63 فیصد بچے وٹامن ڈی، 54 فیصد آئرن جبکہ 19 فیصد بچے زنک کی کمی میں مبتلا ہیں۔
پاکستان میں ہر دوسری عورت آئرن کی کمی کا شکار ہے، خصوصاً دیہی علاقوں میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہے۔ یہ مسئلہ حاملہ خواتین میں قبل از وقت پیدائش کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، غذائی قلت کی وجہ سے بچوں میں جسمانی نشوونما، ذہنی ترقی اور قوتِ مدافعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ چونکہ صحت مند بچے اور صحتمند معاشرے کی بنیاد ماں کی اچھی صحت ہے، اسی لیے یہ صورتحال تشویشناک ہے۔
غذا کی کمی نوجوانوں اور بڑوں کی جسمانی و ذہنی کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان میں غذائی قلت کی وجہ سے ہر سال تقریباً 17 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں، فوڈ فورٹیفیکیشن (Food Fortification) غذائی قلت کا سب سے موثر اور کم خرچ حل ہے۔
اس کے تحت روزمرہ استعمال ہونے والی غذاوں مثلاً گندم، نمک، خوردنی تیل اور دودھ میں وٹامنز اور منرلز شامل کیے جاتے ہیں۔ گندم میں آئرن، فولک ایسڈ اور وٹامن ڈی، دودھ میں کیلشیم و وٹامن ڈی، نمک میں آیوڈین اور تیل میں وٹامن اے و ڈی شامل کیے جاتے ہیں۔
دنیا کے 147 ممالک میں یہ طریقہ کامیابی سے اپنایا جا چکا ہے اور پاکستان میں بھی صوبہ پنجاب میں فوڈ فورٹیفیکیشن پر موثر انداز میں کام جاری ہے۔ یہ طریقہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بہت سے لوگ صحت مند خوراک خرید سکتے ہیں مگر صحیح غذائی انتخاب نہیں کرتے، جبکہ بعض لوگ اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔
یونیسیف (UNICEF) جیسے عالمی ادارے بھی PFA کے ان اقدامات کی حمایت کر چکے ہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی (PFA) خوراک کی حفاظت اور معیار کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے۔ اتھارٹی خوراک کی پروسیسنگ فیکٹریوں کا معائنہ، اجزاء کی لیبارٹری ٹیسٹنگ، صفائی، درجہ حرارت، اسٹوریج، اور اسٹاف کی صحت کی جانچ کرتی ہے۔
خوراک کی صحیح لیبلنگ اور تاریخ کی درستگی بھی یقینی بنائی جاتی ہے تاکہ صارفین ملاوٹ شدہ اور غیر معیاری خوراک سے محفوظ رہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں غذائی قلت لمحہ فکریہ ہے۔ PFA نے بچوں اور خواتین کے لیے اسکول نیوٹریشن پروگرام، آگاہی مہمات، سیمینارز، کیمپس اور فری ہیلپ لائنز کا آغاز کیا ہے۔
ہر ماہ مختلف اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نیوٹریشن ڈے کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں طلبہ و طالبات کو غذائیت، صحت اور خوراک کے صحیح استعمال کے بارے میں لیکچر دیے جاتے ہیں۔ PFA اس وقت 70 اسکولوں میں اسکول میل پروگرام کامیابی سے چلا رہی ہے۔
بچوں میں غذائی آگاہی بڑھانے کے لیے صحت مند غذا پر مبنی کارٹون سیریز بھی تیار کی گئی ہے۔ PFA نے محکمہ صحت کے تعاون سے مختلف اسکولوں میں 600 بچوں کی غذائی اسکریننگ بھی کی، اور مزید اسکریننگ کی اشد ضرورت ہے۔
آخرمیں یہی کہا جا سکتا ہے کہ صحت مند معاشرہ تب ہی ممکن ہے جب ہر فرد کو محفوظ، معیاری اور غذائیت سے بھرپور خوراک دستیاب ہو۔ غذائی قلت کا خاتمہ، فوڈ سیفٹی اور فوڈ فورٹیفیکیشن کی پالیسیوں پر مضبوط عمل درآمد، اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کے جاری اقدامات ہی ایک مضبوط، صحت مند اور ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان میں غذائی قلت جاتے ہیں کے لیے کی کمی رہی ہے
پڑھیں:
حیدرآباد: چیئرمین ٹریفک اینڈ روڈ سیفٹی فائونڈیشن کے سیکریٹری جاوید اقبال کی جانب سے دیے گئے اعزازیے میں شرکاء کا گروپ فوٹو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">