Express News:
2025-11-22@21:38:18 GMT

قبضہ مافیا

اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT

یہ خبر حیران کن تھی لیکن مصدقہ تھی۔ سولجر بازار کراچی میں واقع جفلرسٹ گرلز سیکنڈری اسکول کی عمارت کو مخدوش قرار دے کر اس پر تالے ڈال دیے گئے۔ یہ تالے محکمہ تعلیم کی اجازت سے یا ان کو مطلع کیے بنا ہی پڑ گئے حیران کن بات یہ بھی ہے کہ جب ہفتے کی صبح اساتذہ اور طالبات اسکول پہنچیں تو اسکول میں تالے لگے ہوئے تھے، لہٰذا اسکول کے باہر ہی اسمبلی لگائی گئی اور سب اپنے گھروں کو چلے گئے۔

سولجر بازار کے اس علاقے میں واقع مکینوں کا کہنا تھا کہ جمعہ کی رات آٹھ بجے اسکول سیل کر دیا گیا تھا۔ اس خبر کے مطابق اسکول مخدوش تھا جب کہ اسکول کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس سلسلے میں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا تھا جب کہ عمارت بھی اتنی مخدوش نہ تھی کہ سیل کیا جاتا۔

اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اسکول کی عمارت پر کئی برسوں سے قبضے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، ایک خبر یہ بھی سرگرم ہے کہ کے بی سی اے ایس اس عمل میں حصہ لیتے ہوئے بچوں کو کہیں اور منتقل کرانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے اور اسکول کی کروڑوں کی زمین لینڈ مافیا کے بڑے سے پیٹ کے حوالے۔

یہ اسکول 1931 میں قائم کیا گیا تھا، ایک پرانی خبر کے مطابق اس اسکول کو تاریخی ورثہ قرار دیا گیا تھا لیکن 2017 کے اپریل کے مہینے میں نو سے دس تاریخ کی درمیانی شب کو قبضہ مافیا نے اس کے دو کمرے گرا دیے تھے اس خبر کو میڈیا نے نشرکیا اور وزیر اعلیٰ سندھ نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور اس وقت کے ایس ایچ او سولجر بازار کو اسی سلسلے میں معطل بھی کر دیا گیا تھا، یہ کوئی عام خبر نہیں تھی بلکہ بہت بڑا سوالیہ نشان تھا کہ ہمارے شہر کراچی میں آخر ہو کیا رہا ہے؟

سولجر بازار سے ملحقہ علاقوں میں بھی عجیب و غریب سرگرمیاں نظر آتی ہیں جو خاص کر ان قدیم عمارات سے متعلق ہیں جن کا والی وارث کوئی نہیں یا جنھیں اس زمانے کے امیر حضرات بند کر کے بیرون ملک جا چکے ہیں۔

اب انھیں کیا خبر کہ شہر کی مصروف سڑک کے کنارے جس گھر کو وہ تالا لگا کر اپنے تئیں بند کر کے چلے گئے ہیں کہ یہ گھر تو ان کا ہی ہے اس کے کاغذات میں بھی ان کا نام ہی درج ہے کہ اپنا ملک اور اپنی زمین، پر وہ بھول بیٹھے کہ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ 

ان کے گھر کے تالے ٹوٹ چکے ہیں جہاں کبھی پرانی کار کھڑی ہوتی تھی وہاں اب پرانی بدصورت بس کھڑی ہے، کون جانے کہ سڑک سے گزرتے کس کو پڑی ہے کہ وہ معلومات حاصل کرے کہ جناب آپ کون ہیں؟ جو اس گھر میں اچانک سے ٹپک پڑے ہیں یا دھیرے دھیرے آکاس بیل کی مانند جکڑ رہے ہیں۔

یہ زمین شہر کے بیچوں بیچ انتہائی اہمیت کی حامل ہے جہاں کروڑوں کا ایک اپارٹمنٹ دستیاب ہے، پر لالچ اور مافیا۔۔۔۔ جو کسی بھی صورت میں کسی بھی معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔

ہمارے یہاں قبضہ گروپ نے پورے ملک میں اپنے شکنجے کس کر رکھے ہیں چاہے لاہور ہو یا کراچی، سکھر ہو یا شیخوپورہ ان کے قصے ہم اخبارات اور سوشل میڈیا پر سنتے رہتے ہیں۔

اسکول ہوں یا قبرستان کوئی جگہ ان کے قبضے سے محفوظ نہیں۔ لیکن یہ کس طرح اپنے ملک اور معاشرے میں منفی تاثرات ابھار رہے ہیں۔ لوگوں میں بدامنی اور بے اعتمادی کی فضا نے اداروں پر سے اپنا اعتماد اٹھا دیا۔

ہمارے یہاں قبضہ مافیا نے مختلف قسم کے روپ اختیار کر رکھے ہیں۔ کوئی غنڈہ مافیا کے ماتحت چلتے ہیں تو کچھ غریب بن کر جھونپڑیاں ڈال لیتے ہیں۔ بظاہر کچی آبادی لیکن اصل حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

یہ صورت حال اسکیم 33 جو کراچی کی ایک بڑی رہائشی اسکیم ہے جہاں مختلف اداروں اور کمیونٹیز کی ہاؤسنگ اسکیمز ہیں لیکن کئی ادارے جن میں خاص کر پوسٹ آفس سوسائٹی قابل ذکر ہے قبضہ مافیا کی جکڑ میں ہے۔ اس کی قیمتی زمین جن میں سیکٹر 25A اور 26A شامل ہے ناجائز تجاوزات کی نظر ہے۔

2005 میں آنے والے سیلاب سے اندرون سندھ کے جو علاقے متاثر ہوئے تب کراچی کی جانب رخ کرنے والے لوگوں نے اس خالی جگہ پر اپنا ڈیرہ ڈالا وہیں ان کی آڑ میں بااثر لوگوں نے پراسرار انداز میں ناجائز تجاوزات کا جال بچھانا شروع کر دیا۔

آج ان سیکٹرز میں اگر کچی آبادی نظر آتی ہے تو وہیں دیگر سوسائٹیوں کے نام نظر آتے ہیں جو قطعاً ناجائز ہیں۔ اس طرح بے وقوف اور لٹنے والی عوام ہی نشانہ بنتی ہے ایک وہ جن کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے دوسرے وہ جو بڑے جعلی سوسائٹیوں کے نام میں اپنے سرمائے کو پار لگاتے ہیں۔ گویا ایک زمین کو دو بار بیچا جاتا ہے لیکن کون ہے جو اس طرح کے ناجائز قبضے سے ہمارے ملک کی قیمتی زمینوں کو واگزار کرائے۔


ہم مسلمان ہیں اور سینہ تان کر اپنے حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ناجائز کسی دوسرے کے حقوق کو ضبط کرنے کے سلسلے میں بھول جاتے ہیں کہ ہم دنیا اور آخرت میں اپنے لیے کیا خرید رہے ہیں، وقتی طور پر مادی خوشی حاصل کرنے کے چکر میں ایک عمرکا عذاب خرید لیتے ہیں۔

یہ گناہ کبیرہ ہے لیکن ہم اسے اپنے طاقت اور تکبر کے زعم میں نظرانداز کر دیتے ہیں۔
کراچی اس قبضہ مافیا کے حوالے سے خاصا بدنام ہے جہاں قبرستان اور پہاڑ بھی محفوظ نہیں ہیں بلکہ نالوں پر بھی ان مافیا کے قبضے تھے۔

لیکن حالیہ چند سالوں میں اس سلسلے میں خاص کارروائیاں دیکھنے میں آئی تھیں جو شہر کراچی کے پوش علاقوں کے نالوں سے بنگلے، ریسٹورنٹ، شورومز سے سب خالی کرکے ان کی اصل صورت میں واپس لوٹایا گیا جو شہر کے انفرا اسٹرکچر کی بڑی کمزوری کو ظاہرکرتا ہے یہاں تک کہ اب بھی بہت سے علاقے توجہ طلب ہیں جہاں اس قسم کی کارگزاریوں سے علاقے کی نہ صرف ہیئت بلکہ امن و عامہ کے حوالے سے ایشوز پیدا ہوئے ہیں۔

کراچی کے بہت سے پارکس اورگلیاں بھی ان قبضہ مافیا کے پیٹ کی خوراک بن چکے ہیں۔ ایک سے دو بنانے کے چکر کو ایک سے گیارہ بنانے کے عمل نے نہایت تکلیف دہ حد تک سفاک کر دیا ہے۔

حکومت کے اداروں کی جانب سے جعلی سوسائٹیوں کے بارے میں خبریں چلتی رہتی ہیں لیکن کم سے کم پیسوں میں اپنا گھر کا جو خواب دکھایا جاتا ہے ایسے بڑے بڑے پراجیکٹس تیس پچیس سالوں سے زائد گزر جانے کے باوجود ادھورے پڑے ہیں جس میں غریب عوام کا لاکھوں کروڑوں روپیہ سرد پڑا ہے لیکن لوٹنے والے اس پیسے سے اپنی زمینوں اور پراجیکٹس کے بچے کے بچے بھی پیدا کر چکے ہیں۔

ایسی بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیاں جو سرکار کی جانب سے بین کی زد میں ہیں 2022 سے لگے اس بین کی حالیہ صورت حال کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی نیب نے ایسے جعل ساز سوسائٹی مافیا کے خلاف بھی عوام الناس سے درخواستیں وصول کی تھیں لیکن تاحال ان درخواستوں پر کارروائی منتظر ہے۔

امید تو ہے کہ کراچی میں ایسے جعل ساز بلڈرز اور سوسائٹی کے علاوہ قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی تو ہوگی۔ غریبوں کی آڑ میں بڑا کھیل کھیلنے والوں کے لیے بھی یقینا کچھ نہ کچھ ضرور حکمت عملی اختیار کی جائے گی، اس کے لیے ماڈرن اور تکنیکی امور اور آلات کے ذریعے زمین پر حق دار کے حق کو جانچنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

زمین اپنا حق نہیں چھوڑتی وہ چلا چلا کر کہتی ہے کہ وہ صرف اپنے اندر دفن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لہٰذا اس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کی جائیں کہ یہ صرف چند دنوں کی خوشی اور سکون فراہم کرنے کے لیے ہیں اور اس کے بعد دہکتی آگ۔

لہٰذا قبرستانوں، اسکولوں، خالی قدیم گھروں، پہاڑوں اور غریبوں کے حق حلال کی کمائی سے خریدی گئی زمینوں پر ناجائز قبضے سے گریز کریں کہ پھر سنبھلنے کا موقعہ نہیں ملے گا۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سولجر بازار قبضہ مافیا سلسلے میں مافیا کے اسکول کی چکے ہیں گیا تھا کر دیا کے لیے

پڑھیں:

غزہ کا مسئلہ کیا ہوا؟

اسلام ٹائمز: اسلامی ممالک میں پہلے ہی کون سی آواز بلند ہو رہی تھی، سوائے دو چار ممالک کے۔ ان میں ایک وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہے جہاں کی عوام نے روز اول سے اپنے قائد یعنی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کو صرف دل میں بسا کر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ میدان عمل میں ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسرائیل کے نا جائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لئے چلنے والی ہر تحریک کا آخری ممکنہ حد تک ساتھ دیں گے۔ تحریر: علامہ سید حسن ظفر نقوی

غزه امن معاہدے پر خوب خوب دکانیں چمکائی گئیں، سارا مغربی میڈیا اور اس کے اتباع میں ہمارے بھی کچھ نادان دوست اور فریب خوردہ تجزیہ نگار اس دھارے میں بہہ نکلے اور ہر طرف خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے، ہر کوئی اپنے سر خود ہی سہرا سجانے لگا۔ ایسا تاثر دیا جانے لگا کہ اب غزہ میں امن و چین کے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اب سارے اسلامی ممالک غزہ کی تعمیر نو کے لئے جوش و خروش سے آگے بڑھیں گے اور ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے درماندہ لوگوں کے زخموں کا کچھ نہ کچھ مداوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی زعم میں ان آوازوں کو بھی خاموش کرنے کے لئے سخت اقدامات شروع کر دیئے گئے جو غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں اٹھ رہی تھیں، کہا گیا کہ غزہ کے لوگ جشن منا رہے ہیں اور یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ حالانکہ اسرائیل نے نہ تو اس معاہدے پر دستخط کئے اور نہ ہی اس کی پابندی کی۔ معاہدے کے دن سے لے کر آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب غزہ اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں سے محفوظ رہا ہو۔ مگر مظلوموں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازیں یا تو خاموش کر دی گئیں یا کمزور کر دی گئیں۔ اس منصوبے کے پیچھے بہت سے دیگر اہداف کے علاوہ ایک ہدف مغربی ممالک میں اٹھنے والی وہاں کی عوام کی وہ تحریکیں تھیں جن میں رفتہ رفتہ احتجاجی جلسوں جلوسوں سے بڑھ کر شدت پیدا ہوتی جا رہی تھی، جو مغربی نظام اور حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بنتی جا رہی تھی۔

اس ہی لئے ایک طرف اپنی عوام کو رام کرنے کے لئے ایک فریبی معاہدے کی ضرورت تھی اور دوسری طرف اسلامی ممالک کو اپنے عوام کی آواز دبانے کے لئے جواز فراہم کرنا تھا اور اس سازش میں استعمار کامیاب رہا۔ اسلامی ممالک میں پہلے ہی کون سی آواز بلند ہو رہی تھی، سوائے دو چار ممالک کے۔ ان میں ایک وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہے جہاں کی عوام نے روز اول سے اپنے قائد یعنی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کو صرف دل میں بسا کر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ میدان عمل میں ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسرائیل کے نا جائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لئے چلنے والی ہر تحریک کا آخری ممکنہ حد تک ساتھ دیں گے۔

ہمارا وطن عزیز اگرچہ اس وقت خود اندرونی اور بیرونی دہشتگردی کا نشانہ بنا ہوا ہے، ہم شمال مغربی سرحد پر جنگ کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں، اور مشرقی سرحد پر بھی کشیدہ صورتحال ہے۔ بھارت اور افغانستان کا ہمارے خلاف گٹھ جوڑ کوئی نیا نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پاک بھارت جنگ کو ایک کال پر بند کرانے کا دعوی کرنے والے اب کیوں مزے سے تماشا دیکھ رہے ہیں؟ کوئی بھولا بادشاہ ہی ہوگا جو یہ بات نہ جانتا ہو کہ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں اور اسرائیل کس کے سہارے ساری کاروائیاں انجام دیتا ہے، ایسے میں صاف نظر آرہا ہے کہ افغانستان سے ہونے والی کاروائیوں کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے۔

پاکستان نے گزشتہ مہینوں میں خطے میں جو اپنی دھاک بٹھائی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارا کھیل اس دھاک کو ختم کرنے کے لئے کھیلا جا رہا ہو۔ کیونکہ بالآخر اسرائیل نے جو اپنے اہداف ساری دنیا کے سامنے رکھے ہیں ان میں پاکستان کی ایٹمی قوت کو بھی اپنے نشانے پر رکھا ہے۔ گھوم پھر کر بات وہیں آجاتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشتگردی کی کاروائیاں اور سرحدوں پر چھیڑ خانی نہ تو مقامی مسئلہ ہے اور نہ ہی علاقائی بلکہ اس کے تانے بانے گلوبل گیم سے ملتے ہیں، جس کی ابتدا فلسطین سے کی گئی ہے۔ نہیں معلوم کہ ہمارے ارباب اختیار کا طائر تخیل کہاں تک پرواز کرتا ہے، ابھی تو ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ ایڈہاک ہیں یعنی عبوری بنیاد پر ہی چل ہے۔ آج کا دن گزارو کل کی کل دیکھی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • سکردو میں زمینوں کا برا حال ہے، ہزاروں کنال اراضٰ قبضہ مافیا کے پاس ہے، جمیل احمد
  • خالد خورشید قابل اور دلیر تھا لیکن خود کو نقصان پہنچایا، رحمت خالق
  • ابوظہبی ٹی 10لیگ ؛معین علی کی شاندار اننگز نے میچ کا پانسہ پلٹ دیا
  • غزہ کا مسئلہ کیا ہوا؟
  • بچوں کے حقوق پر مؤثر قانون سازی کی ہے لیکن عملدرآمد پر مسائل ہیں: مراد علی شاہ
  • ریلوے زمین پر قبضہ روکنے والا کوئی ہے یا نہیں؟آئینی عدالت کے ریمارکس،ریلوے اراضی پر تجاوزات اور قبضہ کی رپورٹ طلب کرلی
  • گھریلو ملازمائیں مافیا کا روپ دھارگئیں
  • دلہا کیساتھ رقص اور شادی کی رسومات لیکن رخصتی کے وقت دلہن بھاگ گئی
  • کراچی پر 17 سالہ قبضہ اب ختم ہونا چاہیے: خالد مقبول صدیقی