اسلام ٹائمز: اسلامی ممالک میں پہلے ہی کون سی آواز بلند ہو رہی تھی، سوائے دو چار ممالک کے۔ ان میں ایک وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہے جہاں کی عوام نے روز اول سے اپنے قائد یعنی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کو صرف دل میں بسا کر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ میدان عمل میں ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسرائیل کے نا جائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لئے چلنے والی ہر تحریک کا آخری ممکنہ حد تک ساتھ دیں گے۔ تحریر: علامہ سید حسن ظفر نقوی
غزه امن معاہدے پر خوب خوب دکانیں چمکائی گئیں، سارا مغربی میڈیا اور اس کے اتباع میں ہمارے بھی کچھ نادان دوست اور فریب خوردہ تجزیہ نگار اس دھارے میں بہہ نکلے اور ہر طرف خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے، ہر کوئی اپنے سر خود ہی سہرا سجانے لگا۔ ایسا تاثر دیا جانے لگا کہ اب غزہ میں امن و چین کے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اب سارے اسلامی ممالک غزہ کی تعمیر نو کے لئے جوش و خروش سے آگے بڑھیں گے اور ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے درماندہ لوگوں کے زخموں کا کچھ نہ کچھ مداوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی زعم میں ان آوازوں کو بھی خاموش کرنے کے لئے سخت اقدامات شروع کر دیئے گئے جو غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں اٹھ رہی تھیں، کہا گیا کہ غزہ کے لوگ جشن منا رہے ہیں اور یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ حالانکہ اسرائیل نے نہ تو اس معاہدے پر دستخط کئے اور نہ ہی اس کی پابندی کی۔ معاہدے کے دن سے لے کر آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب غزہ اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں سے محفوظ رہا ہو۔ مگر مظلوموں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازیں یا تو خاموش کر دی گئیں یا کمزور کر دی گئیں۔ اس منصوبے کے پیچھے بہت سے دیگر اہداف کے علاوہ ایک ہدف مغربی ممالک میں اٹھنے والی وہاں کی عوام کی وہ تحریکیں تھیں جن میں رفتہ رفتہ احتجاجی جلسوں جلوسوں سے بڑھ کر شدت پیدا ہوتی جا رہی تھی، جو مغربی نظام اور حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بنتی جا رہی تھی۔
اس ہی لئے ایک طرف اپنی عوام کو رام کرنے کے لئے ایک فریبی معاہدے کی ضرورت تھی اور دوسری طرف اسلامی ممالک کو اپنے عوام کی آواز دبانے کے لئے جواز فراہم کرنا تھا اور اس سازش میں استعمار کامیاب رہا۔ اسلامی ممالک میں پہلے ہی کون سی آواز بلند ہو رہی تھی، سوائے دو چار ممالک کے۔ ان میں ایک وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہے جہاں کی عوام نے روز اول سے اپنے قائد یعنی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کو صرف دل میں بسا کر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ میدان عمل میں ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسرائیل کے نا جائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لئے چلنے والی ہر تحریک کا آخری ممکنہ حد تک ساتھ دیں گے۔
ہمارا وطن عزیز اگرچہ اس وقت خود اندرونی اور بیرونی دہشتگردی کا نشانہ بنا ہوا ہے، ہم شمال مغربی سرحد پر جنگ کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں، اور مشرقی سرحد پر بھی کشیدہ صورتحال ہے۔ بھارت اور افغانستان کا ہمارے خلاف گٹھ جوڑ کوئی نیا نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پاک بھارت جنگ کو ایک کال پر بند کرانے کا دعوی کرنے والے اب کیوں مزے سے تماشا دیکھ رہے ہیں؟ کوئی بھولا بادشاہ ہی ہوگا جو یہ بات نہ جانتا ہو کہ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں اور اسرائیل کس کے سہارے ساری کاروائیاں انجام دیتا ہے، ایسے میں صاف نظر آرہا ہے کہ افغانستان سے ہونے والی کاروائیوں کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے۔
پاکستان نے گزشتہ مہینوں میں خطے میں جو اپنی دھاک بٹھائی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارا کھیل اس دھاک کو ختم کرنے کے لئے کھیلا جا رہا ہو۔ کیونکہ بالآخر اسرائیل نے جو اپنے اہداف ساری دنیا کے سامنے رکھے ہیں ان میں پاکستان کی ایٹمی قوت کو بھی اپنے نشانے پر رکھا ہے۔ گھوم پھر کر بات وہیں آجاتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشتگردی کی کاروائیاں اور سرحدوں پر چھیڑ خانی نہ تو مقامی مسئلہ ہے اور نہ ہی علاقائی بلکہ اس کے تانے بانے گلوبل گیم سے ملتے ہیں، جس کی ابتدا فلسطین سے کی گئی ہے۔ نہیں معلوم کہ ہمارے ارباب اختیار کا طائر تخیل کہاں تک پرواز کرتا ہے، ابھی تو ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ ایڈہاک ہیں یعنی عبوری بنیاد پر ہی چل ہے۔ آج کا دن گزارو کل کی کل دیکھی جائے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی ممالک رہی تھی کے لئے
پڑھیں:
اپنے آپ کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے!
اونچ نیچ
۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
فلپائن کی مصنفہC.Joy Bell.C نے لکھا ہے، ”میں مشعلیں اور موم بتیاں جلائے ہوئے اپنے تاریک ترین علاقوں میں داخل ہوگیا ہوں۔ میں نے اپنی ذات کے ہر اکیلے غار میں ایک جلتا ہوا چراغ چھوڑا ہے۔ میں نے اپنے ذہن کی ہر دلدل میں گلاب کے پھول لگائے ہیں۔ میں نے اپنے دل کی تمام راتوں میں ستارے جلائے ہیں۔ میں نے اپنی روح میں چلنے کے لیے اپنے آپ کو آگ میں جلایا ہے۔ میں اپنے چاند کی طرح چمکا ہوں جب میرے اندر چاند نہیں تھا۔ میں نے وہ سب کیا جو ضروری تھا۔ اب مجھے روشنی بنتے دیکھو، مجھے روشنی بنتے دیکھو، مجھے روشنی کے اندر روشنی بنتے دیکھو، مجھے روشنی بن کر ابھرتے دیکھو۔ آپ نے میرا یہ ورژن پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔” 20 ویں صدی میں، دونوں عالمی جنگوں نے فرد کے وجود کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر خطرے میں ڈال دیا۔ اس لیے انسان کو دریافت کرنے کی کوششیں نئے سرے سے شروع ہوئیں۔ جدید دور میں اس کام کا سہرا سگمنڈ فرائیڈ اور ولہیم ونڈٹ کو جاتا ہے۔ لیکن ان سے صدیوں پہلے انسان کو دریافت کرنے کی کوششیں مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہیں۔
یونانی فلاسفر تھیلس آف میلٹس، جو سقراط سے پہلے کے سات حکیموں میں شمار ہوتے ہیں، نے کہا تھا کہ دنیا میں سب سے مشکل کام اپنے آپ کو جاننا ہے۔ پائتھاگورس پہلا شخص تھا جس نے نیکی پر بحث کی۔ نروان حاصل کرنے کے بعد، گوتم بدھ نے سوچا کہ یہ بصیرت دوسرے انسانوں تک بھی پہنچنی چاہیے۔ چنانچہ اس نے پیروکار بنائے کیونکہ اس نے وہ راستہ دیکھا تھا جو تمام مصائب کے خاتمے اور نجات اور نروان کی طرف لے جاتا تھا۔ وہ ہندوستان کے اتر پردیش میں سارناتھ گئے اور ہرن کے پارک میں اپنا پہلا خطبہ دیا: ”اے راہب دنیا میں دو انتہاؤں سے بچنا چاہئے ـ ایک خواہشات کے پیچھے بھاگنا اور نفسانی لذتوں میں کھو جانا اور دوسرا سخت سادگی اور خود پرستی۔ اذیتیں” اس نے ایک درمیانی راستہ تجویز کیا جو کہ ان دو انتہاؤں سے بچ کر صاف سوچ اور بصیرت کی طرف لے جائے۔ بدھ نے اپنی فکری عمارت کی بنیاد انسانی مصائب کی حقیقت پر رکھی۔ کنفیوشس کا سماجی فلسفہ بنیادی طور پر بھائی چارے یا دوسروں کے لیے محبت کے تصور کے گرد گھومتا ہے۔ یونانی فلسفی ہراکلیٹس کے مطابق انسانوں کی ایک بڑی اکثریت سمجھ بوجھ سے عاری ہے۔ اکثر لوگ خوابوں کی دنیا میں زندگی کا سفر کرتے ہیں اور انہیں اپنے اردگرد کے حالات کا ادراک نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ تمام چیزیں فانی ہیں اور کوئی چیز مستقل نہیں۔ سقراط کا خیال تھا کہ تمام برائیاں جہالت اور نادانی کا نتیجہ ہیں اور کوئی بھی اپنی مرضی سے برا نہیں بنتا۔ اس لیے نیکی علم ہے اور جو شخص حق کا علم رکھتا ہے وہ صحیح رویہ اختیار کرے گا۔ ایپیکورس کے مطابق علم کا مقصد انسان کو جہالت اور توہمات، دیوتاؤں اور موت کے خوف سے نجات دلانا ہے، جس کے بغیر خوشی حاصل نہیں ہو سکتی۔ پلاٹینس سوچتا ہے، ”ہم خود شناسی میں خوبصورت اور جہالت میں بدصورت ہیں۔” تھامس ہوبز کہتے ہیں، ”ہمیں اپنا تجزیہ کرنا چاہیے، اپنے اندر جھانکنا چاہیے اور اپنے خیالات اور احساسات کا جائزہ لینا چاہیے، جو تمام انسانی اعمال کی بنیاد ہیں۔” Rene Descartes کے مطابق، اگر آپ سچائی کے سچے متلاشی ہیں، تو آپ کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ہر چیز پر جتنا ممکن ہو شک کرنا چاہیے۔ فلسفہ اور نفسیات میں جتنا چاہیں سفر کریں لیکن آخر میں انسان کو جاننے کے جواب میں آپ خود کو نامکمل پائیں گے۔ میں کون ہوں؟ یہ دنیا کا سب سے مشکل سوال ہے۔
ہر دور کے تمام دانشور، فلسفی اور ماہر نفسیات اس ایک سوال کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن کوئی بھی ایسا جامع جواب نہیں ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ لیکن سب ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ زندگی کا مقصد ایک بامقصد زندگی ہونی چاہیے۔ لیکن ہم ساری زندگی اپنے ساتھ رہتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کون ہیں، ہم کس کے لیے ہیں، اور ہم کس کے لیے ہیں۔ اس لیے اپنے آپ کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے، میلوں کا سفر طے کر کے، اور اس وقت تک تلاش کرتے رہیں جب تک کوئی اپنے آپ کو نہ پا لیں۔ فریڈرک نطشے نے کہا ہے؛ لیکن بدترین دشمن جس سے آپ مل سکتے ہیں وہ ہمیشہ آپ ہی ہوں گے۔ تم غاروں اور جنگلوں میں اپنے انتظار میں پڑے رہتے ہو۔ اکیلا، تم اپنے آپ کی طرف جا رہے ہو! اور آپ کا راستہ خود سے گزرتا ہے، اور آپ کے سات شیطانوں سے گزر جاتا ہے! آپ اپنے آپ سے بدعتی اور جادوگر اور کاہن اور احمق اور شک کرنے والے اور ناپاک اور ولن ہوں گے۔ آپ کو خود کو اپنے شعلے میں جلانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ تم نئے سرے سے کیسے اٹھ سکتے ہو اگر تم پہلے راکھ نہیں بنے؟”۔
یونان کی قدیم تاریخ کے حوالے سے ”گاڈ آف ڈیلفی ”میں اپالو کے معبد پر یہ معروف فقرہ تحریر تھا کہ ” اپنے آپ کو پہچانو ” ایک دفعہ سقراط نے ایک نوجوان کو اصلاح نفس کی طرف راغب کرتے ہوئے اس سے پوچھا کیا تم کبھی ڈیلفی گئے ہو نوجوان یو تھا ئیڈ یمس نے جواب میں کہا جی میں تو دوبار جا چکا ہوں سقراط، اچھا تو کیا وہاں یہ الفا ظ لکھے ہوئے دیکھے تھے کہ ” اپنے آپ کو پہچا نو ” یو تھا ئیڈ یمس : بالکل میں نے پڑھے تھے سقراط: صرف پڑھنا ہی تو کافی نہیں ہے کیا اس پر غور کیا تھا کیا تمہیں اس کی فکر بھی ہوئی کہ اپنے بارے میں یہ جاننے کی کو شش کرو کہ تم ہو کیا ۔ یو تھا ئیڈیمس : یہ تو میں پہلے ہی سے جانتا ہوں اس لیے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی ۔ سقراط: اپنے آپ کو جاننے کے لیے اپنا نا ما جاننا تو کافی نہیں ہے ایک شخص جو گھوڑا خریدنا چاہتا ہو جب تک اس پر سواری کرکے یہ نہ دیکھ لے کہ وہ سدھا یا ہوا ہے یا سر کش ، مضبوط ہے کمزور ،تیز رفتار ہے یا سست اور ایسی ہر اچھی بری چیز کا اس میں جائزہ نہ لے لے تب تک وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ میں نے اس گھوڑے کو اچھی طرح جان لیا ہے اسی طرح ہمارے لیے یہ مناسب نہیںہے کہ اپنے آپ کو جاننے کا دعویٰ کریں جب کہ ہم اپنے اندر موجود صلاحیتوں سے بے خبر ہوں اور ان فرائض سے نا آشنا ہوں جو بحیثیت انسان ہم پر عائد ہوتے ہیں : آئیں ہم اپنی بات کرتے ہیں پہلے بات تو یہ ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے اور اپنے آپ پر ظلم یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور تیسری یہ کہ ہم کچھ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں۔
٭٭٭