آئینی عدالتوں میں دائرہ اختیار کا مسئلہ درپیش رہتا، جسٹس کیانی
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاہور اور بہاولپور سے کم سن بچیوں اور والدہ کے اغوا کے مقدمے میں لطیف کھوسہ کا کیس27 نومبر کو ملتوی کرنے کی استدعا پر ریمارکس دیے کہ27 کو نہیں معلوم میں یہاں ہونگا کہ نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سابق چیف ایگزیکٹو افسر پی آئی اے مشرف رسول کا وقاص احمد، سہیل علیم کیساتھ لین دین کے تنازعے پر وقاص احمد اور سہیل علیم کیخلاف درج مقدمات خارج کرنے کے کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے ایف آئی اے کو تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے، ایف آئی اے اپنی تحقیقات کرکے کوئی فائنل آرڈر جاری نہ کرے اسی کیس میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ معطل کر دیا ہے اسکے مطابق چلیں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد، پنجاب پولیس کے اقدامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 5 جعلی مقدمے کرواکے بچیوں اور عورت کو اغواء کیا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے، پٹیشنر کوئی صاف آدمی نہیں ہے جس نے اکتیس کروڑ کی جائیداد بیچ دی، ماتحت پولیس اہلکاروں کے ساتھ سیٔنیرز بھی مل جاتے ہیں یہ حیران کن ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کہیں یہ کیس بھی آئینی عدالت کا تو نہیں بنتا؟ کیونکہ دنیا میں جہاں جہاں آئینی عدالت قائم ہے وہاں ابتداء میں دائرہ اختیار کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔
جب کیس مقرر ہوگا تو یہاں والے کہیں گے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ہے ، پھر جب آپ جائیں گے سپریم کورٹ تو وہ کہیں گے آئینی عدالت کا دائرہ کار ہے، نئی ترمیم کی روشنی میں وکلاء اور ججز کو بھی ان معلومات کا فقدان ہے، نئی ترمیم کو سمجھنے اور عملدرآمد کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا، عدالت نے سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے ا ئینی عدالت ریمارکس دیے
پڑھیں:
ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ہاشم کاکڑ کا ایک کیس کی سماعت کے دوران ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر ملک جمیل ظفر سے اہم مکالمہ ہوا جب کہ جسٹس ہاشم کاکڑ کے ہلکے پھلکے انداز میں دیے گئے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے وکیل شاہ خاور عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ فیصل آباد کی ایک ٹرائل کورٹ میں فوجداری مقدمہ زیر سماعت تھا، ٹرائل کورٹ نے گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
شاہ خاور نے کہا کہ میرے موکل اس وقت ایس پی تھے، انکے خلاف ٹرائل کورٹ نے آرڈر میں آبزرویشنز دیں، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ صرف لوگوں کو جیل میں ڈالنا نہیں ہوتا، عدالتوں میں گواہان کو پیش بھی کرنا ہوتا ہے، ٹرائل کورٹ کے جج صاحب خود جاکر گواہان کو لا تو نہیں سکتے تھے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ شاہ خاور صاحب یہ تو آپکے ساتھ پولیس والا کھڑا ہے، کیا یہی ڈی آئی جی ہے،شاہ خاور نے جواب دیا کہ جی مائی لارڈ یہی ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں ریمارکس دیے کہ یہ دیکھیں یہ یہاں کھڑا ہمیں ڈرا رہا ہے، ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔
جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے جب کہ عدالت عظمٰ نے معاملہ ہائیکورٹ بجھوا دیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ نے پولیس افسر کیخلاف آبزرویشنز دیں، لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے چیمبر میں فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز برقرار رکھیں، ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کی اپیل بحال کی جاتی ہے، ہائی کورٹ میرٹس پر کیس کا دو ماہ میں سن کر فیصلہ کرے، وکیل درخواست گزار نے کہا بغیر سنے فیصلہ دیا گیا۔