Daily Mumtaz:
2025-11-20@16:58:21 GMT

ہائیکورٹ ججز کی 27ویں ترمیم کیخلاف درخواست پر اعتراض عائد

اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT

ہائیکورٹ ججز کی 27ویں ترمیم کیخلاف درخواست پر اعتراض عائد

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ہائیکورٹ کے 4 ججز کی 27ویں ترمیم کےخلاف سپریم کورٹ میں درخواست پر دائری برانچ نے اعتراض لگا دیا جب کہ برانچ درخواست وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چار ججز نے 27 ویں ترمیم سپریم کورٹ چیلنج کی تھی۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ دائری برانچ نے درخواست پر اعتراض لگا دیا، دائری برانچ نے درخواست وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بنتا یہ آئینی معاملہ ہے۔

علاوہ ازیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 27ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ مجوزہ ترمیم کی آئینی اور قانونی حیثیت کا تعین کرنے کا خصوصی اختیار اپنے پاس برقرار رکھے۔

اس سے قبل، 27 ویں آئینی ترمیم 2025 کو لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا، درخواست میں وزیراعظم کو بذریعہ سیکرٹری سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے خلاف ہے ،صوبوں کی مشاورت کے بغیر ترمیم سے آئینی ڈھانچہ متاثر ہوا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس بابر ستار جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان چیلنج کرنے والوں میں شامل ہیں۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 27ویں ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری نے 27 ویں آئینی ترمیمی بل پر دستخط کردیے جس کے بعد 27ویں ترمیم آئین کا حصہ بن گئی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ویں ا ئینی ترمیم سپریم کورٹ ویں ترمیم کورٹ میں

پڑھیں:

سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث، اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا

سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بلائے گئے اہم فل کورٹ اجلاس میں ججوں نے ترمیم کے اثرات اور عدلیہ کے ادارہ جاتی ردِعمل پر تفصیلی غور کیا، تاہم اجلاس کے دوران پیش کی گئی اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق رائے سامنے نہ آسکا۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے باعث سپریم کورٹ کے اختیارات کم ہو گئے اور اس کے اگلے ہی دن ایک درجن سے زیادہ جج چیف جسٹس کے چیمبر میں جمع ہوئے تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔

گفتگو کے دوران جب ترمیم کے خلاف احتجاج میں سب کے اجتماعی استعفے دینے کی تجویز پیش کی گئی تو جج خاموش رہے اور کوئی اس پر راضی نظر نہ آیا۔

فل کورٹ کا یہ اجلاس 14 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوا، اس وقت چار ججوں کو وفاقی آئینی عدالت میں بھیجنے کی تیاری ہو رہی تھی اور یہ اجلاس دو ججوں، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ، کے استعفے کے ایک دن بعد بلایا گیا تھا۔

ان دو ججوں کے علاوہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ کر 27ویں ترمیم پر بات کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی، تاکہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کی جا سکے۔

اجلاس کے بارے میں ایک ذریعے نے بتایا کہ چیف جسٹس کے چیمبر میں ماحول کافی تناؤ کا شکار تھا اور سینئر جج اس صورتحال کو بہت افسوسناک دن قرار دے رہے تھے۔

اجلاس کا ماحول اس وقت مزید سنجیدہ ہو گیا جب ایک جج نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو قانون سازی یا آئینی ترمیم کرنے سے روک سکے؟

ترمیم کے اثرات پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے افسوس ظاہر کیا کہ ججوں نے ان سے سیدھی بات کرنے کے بجائے خط لکھنا بہتر سمجھا، حالانکہ وہ ہمیشہ ملنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

فل کورٹ اجلاس میں کم از کم 13 جج موجود تھے، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ اے ملک اجلاس میں نہیں آئے، جب کہ جسٹس مسرت ہلالی بیماری کے باعث شامل نہیں ہو سکیں۔

چار جج، امین الدین خان، حسن اظہر رضوی، عامر فاروق اور علی باقر نجافی کو پہلے ہی وفاقی آئینی عدالت کے لیے منتخب کیا جا چکا تھا۔

مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل
اجلاس میں ججوں نے اپنے دو ساتھیوں کے استعفوں پر افسوس کا اظہار کیا اور زور دیا کہ عدلیہ کو مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل سامنے لانا چاہیے۔

جب کچھ ججوں نے حکومت کو رسمی طور پر خط لکھنے کی تجویز دی تو چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ ججوں کو خط لکھنے کے بجائے پہلے ان سے براہِ راست بات کرنی چاہیے تھی۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی نظرِ ثانی کا اختیار موجود ہے تاکہ قانون سازی کی آئینی حیثیت کا جائزہ لیا جا سکے، لیکن یہ اختیار قانون بننے کے بعد استعمال ہوتا ہے، پہلے نہیں، لہٰذا عدالت پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روک سکتی۔

جب ایک مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل پر اصرار کیا گیا تو ایک جج نے یہ تجویز دی کہ اگر جج عملی اور مؤثر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں جو آئینی طریقہ کار سے ہٹ کر ہو تو انہیں، حتیٰ کہ چیف جسٹس سمیت اجتماعی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

تاہم، یہ تجویز خاموشی کی نذر ہو گئی، جو اس بات کا اشارہ تھی کہ شرکا اس سے متفق نہیں تھے، چنانچہ اجلاس کسی متفقہ فیصلے کے بغیر ختم ہو گیا۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم پر عدالتی کارروائی، 4 ججز سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کو تیار
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 4ججز نے 27 ویںترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 4 ججز کا 27ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے 4 ججز کا 27ویں ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث، اجتماعی استعفے کی تجویز پر کوئی اتفاق نہ ہو سکا
  • لاہور ہائیکورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستیں سماعت کے لیے مقرر  
  • لاہور ہائیکورٹ: 27ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
  • 27 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کیلیے فل بینچ تشکیل
  • 27ویں آئینی ترمیم: سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل