Express News:
2025-11-18@04:36:23 GMT

ذرا بند قبا دیکھ!

اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT

صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم اب آئین پاکستان کا حصہ بن چکی ہے۔ اس ترمیم کے تحت ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آئینی عدالت قائم کر دی گئی ہے، جسٹس امین الدین جو یکم دسمبر کو ریٹائرڈ ہونے والے تھے انھیں آئینی عدالت کا سربراہ بنا کر مدت ملازمت میں تین سال کا اضافہ کر دیا گیا ہے، یعنی ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 کے بجائے 68 سال کر دی گئی ہے، جسٹس امین الدین اب مزید 3 سال آئینی عدالت کے سربراہ کی حیثیت سے کام کریں گے۔

مزید 6 ججوں کی آئینی عدالت میں تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے، جن میں تین نے حلف بھی اٹھا لیا ہے، کل تعداد 13 ہوگی۔ پاکستان کی پہلی آئینی عدالت کے محترم ججز کی تقریب حلف برداری میں حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ کے کسی جج نے شرکت نہیں کی بلکہ دو سینئر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے 27 ویں ترمیم کی منظوری پر بطور احتجاج استعفے دے دیے اور صدر مملکت نے انھیں فوراً منظور بھی کر لیا، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں جن تحفظات کا اظہارکیا ہے، ان میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ 27 ویں آئینی ترمیم سے سپریم کورٹ کی سابقہ حیثیت پر زد پڑی ہے۔ اس کی طاقت اور اختیارات تقسیم ہو گئے۔

اہم ترین آئینی مباحث اب آئینی عدالت میں سنے جائیں گے۔ آئینی و قانونی ماہرین اور وکلا برادری بھی 27 ویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔ کراچی کے وکلا نے 27 ویں آئینی ترمیم کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم پر عدالت عظمیٰ میں کیس زیر سماعت ہے اور آئینی بینچ اس کو سن رہا ہے، اب 26 ویں ترمیم پر عدالتی فیصلہ نہیں آیا، لیکن اب یہ کیس نئی آئینی عدالت میں سنا جائے گا۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم جلد بازی میں رات کے اندھیرے میں منظور کرا لی گئی تھی۔ بعینہ 27 ویں ترمیم کی عجلت میں منظوری ہوئی۔

27 ویں آئینی ترمیم سے ایک ادارے کو کمزور تو دوسرے ادارے کو طاقت ور بنا دیا گیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف ہی اب چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا، جب کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ پانچ سال کے لیے ہوگا اور نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اس مدت ملازمت کا آغاز ہوگا۔ گویا فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اب نومبر 2030 تک چیف آف ڈیفنس فورسز کے منصب پر برقرار رہیں گے۔

27 ویں آئینی ترمیم پر اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے محمود خان اچکزئی کی زیر صدارت اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں ملک بھر میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا آغاز جمعہ کو یوم سیاہ منانے سے شروع ہوگا۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ 26 اور 27 ویں آئینی ترامیم آئین کی بنیادی روح اور جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ ترامیم عدلیہ کے اختیارات کو محدود کر کے سپریم کورٹ کو انتظامیہ کے ماتحت کر دیتی ہیں اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے، لہٰذا ان ترامیم کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا، عوام اور وکلا برادری کو بھی متحرک کرکے احتجاج میں شرکت کریں گے۔

اپوزیشن کے موقف میں موجود وزن کو ناقابل فہم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اکابرین حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ آج وہ قومی مفاد کے نام پر پارلیمنٹ کو استعمال کرکے جو آئینی ترامیم منظور کرا کے اداروں کو منقسم کرکے ان پر اپنی حاکمیت مسلط کرنا چاہ رہے ہیں تو کل جب وہ اقتدار میں نہیں ہوں گے تو ان اقدامات کا ازالہ کیسے اور کیوں کر ممکن ہو سکے گا۔ کل جب وہ عوام کی عدالت میں جائیں گے تو کیا جواب دیں گے؟ (ن) لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کے بقول استعفوں کا سلسلہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر مخالف کو پکڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے ملک دشمن قرار دیا جا سکتا ہے۔ دشمنوں میں گھرا نیوکلیئر پاکستان آخر کب تک اندرونی محاذ آرائی کا متحمل ہوگا؟ انھوں نے بجا طور پر کہا کہ دیرینہ تنازعات کے حل کے لیے نئے تنازعات کو جنم دینا دانش مندی نہیں۔

27 ویں آئینی ترمیم پر نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرون وطن بھی ذرایع ابلاغ میں تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ نیویارک ٹائم کے مطابق ترمیم کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ گارڈین کے مطابق ترمیم سپریم کورٹ کی آزادی کو محدود کرسکتی ہے۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں بھی 27 ویں ترمیم پر تحفظات کا اظہار سامنے آ رہا ہے، جب کہ حکمران، وزرا اور مشیران تک سب ترمیم کو ادارہ جاتی ہم آہنگی اور قومی استحکام کے لیے مثبت قرار رہے ہیں۔ حقیقت تو سب پر عیاں ہے بس جرأت اظہار کی ضرورت ہے۔ بقول شاعر:

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ویں آئینی ترمیم پر آئینی عدالت سپریم کورٹ عدالت میں ویں ترمیم دیا گیا چیف آف کر دیا کے بعد

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے وراثت سے متعلق کیس کا فیصلہ جاری کردیا

سپریم کورٹ نے وراثت سے متعلق فیصلہ جاری کرتے ہوئے درخواست گزار عابد حسین کی اپیل خارج اور سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 7 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا، جو جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے سے قبل تحریر کیا تھا۔عدالت نے ورثا کو ان کے حقِ وراثت سے تاخیر سے محروم رکھنے پر عابد حسین پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا ہے، جو 7 دن کے اندر رجسٹرار سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا، عدالت کے مطابق یہ رقم ورثا میں تقسیم کی جائے گی۔فیصلے میں کہا گیا کہ عابد حسین جائیداد کو تحفہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، جب کہ وراثت کا حق خدائی حکم ہے اور عورتوں کو محروم کرنا آئین اور اسلام کی واضح تعلیمات کے منافی ہے۔عدالت نے ریاست کی یہ ذمہ داری بھی واضح کی کہ خواتین کو بلا تاخیر، خوف یا طویل عدالتی کارروائی کے بغیر وراثتی حقوق دلائے جائیں، جبکہ وراثت سے محروم کرنے والوں کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جائے۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جائیداد کی ملکیت مالک کی وفات کے فوراً بعد ورثا کو منتقل ہو جاتی ہے۔

واضح رہے کہ 20 مارچ 2025 کو وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے اپنے تاریخی فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی رسم، جس کی بنیاد پر کسی خاندان کی کسی بھی خاتون رکن کو اس کے وراثت کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔چیف جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جسٹس خادم حسین ایم شیخ اور جسٹس امیر محمد خان پر مشتمل 4 رکنی بینچ نے 21 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ ضلع بنوں کے کچھ حصوں میں رائج چادر یا پرچی کے رواج کے خلاف دائر درخواست پر سنایا، جس میں خواتین کو قرآن و سنت کے ذریعے دیے گئے وراثت کے حق سے محروم رکھا گیا تھا، یا انہیں جرگوں کے ذریعے اپنی وراثت سے کم قیمت کا حصہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں آئینی ترمیم،تحریک تحفظ آئین پاکستان کا سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ کا خواتین کے حق وراثت سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری
  • سپریم کورٹ کا ہراسانی کیس میں فیصلہ: سزا اور جرمانہ برقرار
  • سپریم کورٹ نے وراثت سے متعلق کیس کا فیصلہ جاری کردیا
  • لاہور ہائیکورٹ میں ستائیسویں آئینی ترامیم کیخلاف درخواست، جج نے سننے سے معذرت کرلی
  • 27ویں ترمیم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر
  • آئینی عدالت بننے سے جوڈیشل مداخلت کا دروازہ بند ہوگیا، احسن اقبال
  • 27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شمش محمود مرزا بھی مستعفی
  • 27 ویں آئینی ترمیم سے اختلاف؛ سپریم کورٹ کے 2 ججز کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جج بھی مستعفی