’کیا پتا27 کو میں یہاں ہونگا کہ نہیں‘،جسٹس محسن اختر کیانی کے آئینی عدالت سے متعلق اہم ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پولیس تفتیش اور اخراج مقدمہ کے کیس کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے اہم ریمارکس دیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال اٹھایا کہ کہیں یہ کیس بھی آئینی عدالت کا تو نہیں بنتا ؟، کیونکہ دنیا میں جہاں جہاں آئینی عدالت قائم ہے وہاں ابتداء میں دائرہ اختیار کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ شروع شروع میں آئینی عدالت کے دائرہ کار کا یہاں بھی مسئلہ رہے گا، جب کیس مقرر ہوگا تو یہاں والے کہیں گے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ہے ، پھر جب آپ جائیں گے سپریم کورٹ تو وہ کہیں گے آئینی عدالت کا دائرہ کار ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نئی ترمیم کی روشنی میں وکلاء اور ججز کو بھی ان معلومات کا فقدان ہے، نئی ترمیم کو سمجھنے اور عمل درآمد کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاہور اور بہاولپور سے کم سن بچیوں اور والدہ کے اغوا، سابق چیف ایگزیکٹو افسر پی آئی اے مشرف رسول کے وقاص احمد، سہیل علیم کے ساتھ لین دین کا تنازعے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
وقاص احمد اور سہیل علیم کیخلاف درج مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایف آئی اے کو تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایف آئی اے اپنی تحقیقات کرکے کوئی فائنل آرڈر جاری نہ کرے ، اسی کیس میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ معطل کردیا ہے اسکے مطابق چلیں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت تک سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کاروائی آگے بڑھائیں گے، سپریم کورٹ نے جہاں سے ہمیں روکا ہے اسکو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی اسلام آباد ، پنجاب پولیس کے اقدامات پر برہم ہوئے اور کہا کہ پانچ جعلی مقدمے کرواکے بچیوں اور عورت کو اغواہ کیا جائے کہاں کا انصاف ہے، مدعی کو آج تک کسی نے دیکھا نہیں جو جعلی پرچے کروا رہا ہے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ پنجاب پولیس کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا معاملہ وزیر اعلی پنجاب کو بھیجا تھا، اس کیس میں کم سن بچیاں اور عورت کو اغوا کیا گیا ، وزیر اعلیٰ پنجاب بھی عورت ہیں، معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس لیے بھیجا تاکہ انھیں پتہ ہو انکی پولیس عورت کے اغوا میں ملوث ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جعلی اور جھوٹے پرچے کرواکے پیسے ریکور نہیں ہوسکتے، جو پرچے آپ نے کروائے ہیں وہ ٹرائل میں دس منٹ میں بھی برقرار نہیں رہ سکیں گے، جرح کے دوران اپنے جعلی پرچے فارغ ہو جائیں گے ، ایسے نہ کریں، جس عورت کو اغوا کیا گیا اسی کے گھر سے سامان چوری کرکے ریکوری ڈال دی گئی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پٹشنر کوئی صاف آدمی نہیں ہے جس نے اکتیس کروڑ کی جائیداد بیچ دی، ماتحت پولیس اہلکاروں کے ساتھ سینئرز بھی مل جاتے ہیں یہ حیران کن ہے، اس عدالت نے واضح کیا تھا کہ بچیوں اور عورت کا اغوا غلط ہوا ہے، ہمیں پٹشنر سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ اگرقصور وار ہے تو اسے سزا ملے گی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم نے معاملہ ایف آئی اے کو تحقیقات کے لیے بھیجا تھا،
کسی کو سپورٹ کرنے کا حق میں نہیں جو غیر قانونی کام کرتا ہوں، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہمارا کام ہے کسی کو انوسٹی گیشن سے نہیں روک سکتا، جہاں سے عورت اور بچے اغواہ ہوئے اس جگہ کو دیکھیں اور رپورٹ دیں۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ آپ دونوں حضرات سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی دیکھ لیں، جب تک وہاں سے کوئی فیصلہ نہیں آتا ہم بھی کوئی فیصلہ نہیں دینگے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئندہ سماعت 27 تاریخ کو رکھ لیں ، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ 27 کو کیا پتہ میں یہاں ہونگا بھی کہ نہیں۔
عدالت نے ہدایات کے ساتھ سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی، سہیل علیم کی اہلیہ اور تین بچیوں کی لاہور سے خلاف ضابطہ گرفتاری کی گئی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے آئینی عدالت سپریم کورٹ اسلام آباد نے کہا کہ آئی اے
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کے ہلکے پھلکے انداز میں دیے گئے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کے ہلکے پھلکے انداز میں دیے گئے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے ،ان کا کہنا تھا کہ "ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا"
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ہاشم کاکڑ کا ایک کیس کی سماعت کے دوران ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر ملک جمیل ظفر سے اہم مکالمہ ہوا .سپریم کورٹ میں فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ کے پولیس افسر کیخلاف دی گئی آبزرویشنز کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے وکیل شاہ خاور عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ فیصل آباد کی ایک ٹرائل کورٹ میں فوجداری مقدمہ زیر سماعت تھا، ٹرائل کورٹ نے گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
مدینہ بس حادثہ: بھارتی شہری نے خاندان کے 18 افراد کھودیے، آخری ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی؟
شاہ خاور نے کہا کہ میرے موکل اس وقت ایس پی تھے، انکے خلاف ٹرائل کورٹ نے آرڈر میں آبزرویشنز دیں، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ صرف لوگوں کو جیل میں ڈالنا نہیں ہوتا، عدالتوں میں گواہان کو پیش بھی کرنا ہوتا ہے، ٹرائل کورٹ کے جج صاحب خود جاکر گواہان کو لا تو نہیں سکتے تھے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ شاہ خاور صاحب یہ جو آپکے ساتھ پولیس والا کھڑا ہے، کیا یہی ڈی آئی جی ہے،شاہ خاور نے جواب دیا کہ جی مائی لارڈ یہی ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں ریمارکس دیے کہ یہ دیکھیں یہ یہاں کھڑا ہمیں ڈرا رہا ہے، ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے جب کہ عدالت عظمٰی نے معاملہ ہائیکورٹ بجھوا دیا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ نے پولیس افسر کیخلاف آبزرویشنز دیں، لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے چیمبر میں فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز برقرار رکھیں، ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا: جسٹس ہاشم کاکڑ
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کی اپیل بحال کی جاتی ہے، ہائی کورٹ میرٹس پر کیس کا دو ماہ میں سن کر فیصلہ کرے۔