انٹرویوز کے بھاری معاوضے پرعاطف اسلم کا موقف سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT
عالمی شہرت یافتہ پاکستانی گلوکار عاطف اسلم بلاشبہ اپنے سوشل میڈیا پر غیر معمولی مقبولیت رکھتے ہیں تاہم گلوکار کے لیے یہ بھی مشہور ہے کہ وہ انٹرویوز کے لیے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حال ہی میں گلوکار و اداکار نے صحافی ملیحہ رحمٰن کو انٹرویو دیا، جہاں انہوں نے اپنے کیریئر، ذاتی زندگی، اسٹارڈم سمیت مختلف امور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دوران انٹرویو عاطف اسلم نے صحافی کے سوال پر کہا کہ میں اب اس مقام پر پہنچ گیا ہوں جہاں مجھے معلوم ہے کہ مجھے ہر شو میں جا کر بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ایسا کوئی کہتا ہے کہ میں بھاری رقم لیتا ہوں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ مجھے بلانا چاہتا ہے اور شاید وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دنیا اس کے بارے میں جان لے۔ انہوں نے کہا کہ اللّٰہ نے مجھے بے پناہ عزت دی ہے، شاید کبھی کبھی میں اپنے مصروف شیڈول کی وجہ سے ان کے شو میں نہیں جا پاتا، لیکن پھر بھی میرے بارے میں ایسا کہا جاتا ہے جس سے میں واقف ہوں اور میں اس پر بالکل معذرت خواہ نہیں ہوں اور نہ ہی اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ گلوکار نے کہا کہ میں سب کو اچھی طرح جانتا ہوں، وہ تب تک اچھے رہتے ہیں جب تک ان کا شو یا انٹرویو نہ ہو جائے۔ یہ ہمیشہ تکبّر کی بات نہیں ہوتی، تکبّر انسان پر نہیں جچتا۔ کامیابی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عاطف اسلم نے کہا کہ میں نے صرف 18 برس کی عمر میں دنیا کو فتح کرنا سیکھا اور کیا بھی، میرے حیرت انگیز مداح ہیں، جب آپ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے کچھ مخصوص گول ہوتے ہیں کہ زندگی میں یہ حاصل کرنا ہے وہ حاصل کرنا ہے اور جب وہ سب مل جاتا تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ زندگی میں ایک وقت ایسا آیا جب مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ سب کبھی کافی نہیں ہوگا، کہیں رکنا ہوگا، ورنہ اسی دوڑ میں لگا رہوں گا اور جو کمایا ہے اس کا لطف حاصل نہیں کرسکوں گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
غزہ کا مسئلہ کیا ہوا؟
اسلام ٹائمز: اسلامی ممالک میں پہلے ہی کون سی آواز بلند ہو رہی تھی، سوائے دو چار ممالک کے۔ ان میں ایک وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہے جہاں کی عوام نے روز اول سے اپنے قائد یعنی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کو صرف دل میں بسا کر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ میدان عمل میں ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسرائیل کے نا جائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لئے چلنے والی ہر تحریک کا آخری ممکنہ حد تک ساتھ دیں گے۔ تحریر: علامہ سید حسن ظفر نقوی
غزه امن معاہدے پر خوب خوب دکانیں چمکائی گئیں، سارا مغربی میڈیا اور اس کے اتباع میں ہمارے بھی کچھ نادان دوست اور فریب خوردہ تجزیہ نگار اس دھارے میں بہہ نکلے اور ہر طرف خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے، ہر کوئی اپنے سر خود ہی سہرا سجانے لگا۔ ایسا تاثر دیا جانے لگا کہ اب غزہ میں امن و چین کے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اب سارے اسلامی ممالک غزہ کی تعمیر نو کے لئے جوش و خروش سے آگے بڑھیں گے اور ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے درماندہ لوگوں کے زخموں کا کچھ نہ کچھ مداوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی زعم میں ان آوازوں کو بھی خاموش کرنے کے لئے سخت اقدامات شروع کر دیئے گئے جو غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں اٹھ رہی تھیں، کہا گیا کہ غزہ کے لوگ جشن منا رہے ہیں اور یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ حالانکہ اسرائیل نے نہ تو اس معاہدے پر دستخط کئے اور نہ ہی اس کی پابندی کی۔ معاہدے کے دن سے لے کر آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب غزہ اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں سے محفوظ رہا ہو۔ مگر مظلوموں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازیں یا تو خاموش کر دی گئیں یا کمزور کر دی گئیں۔ اس منصوبے کے پیچھے بہت سے دیگر اہداف کے علاوہ ایک ہدف مغربی ممالک میں اٹھنے والی وہاں کی عوام کی وہ تحریکیں تھیں جن میں رفتہ رفتہ احتجاجی جلسوں جلوسوں سے بڑھ کر شدت پیدا ہوتی جا رہی تھی، جو مغربی نظام اور حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بنتی جا رہی تھی۔
اس ہی لئے ایک طرف اپنی عوام کو رام کرنے کے لئے ایک فریبی معاہدے کی ضرورت تھی اور دوسری طرف اسلامی ممالک کو اپنے عوام کی آواز دبانے کے لئے جواز فراہم کرنا تھا اور اس سازش میں استعمار کامیاب رہا۔ اسلامی ممالک میں پہلے ہی کون سی آواز بلند ہو رہی تھی، سوائے دو چار ممالک کے۔ ان میں ایک وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہے جہاں کی عوام نے روز اول سے اپنے قائد یعنی بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کو صرف دل میں بسا کر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ میدان عمل میں ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اسرائیل کے نا جائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لئے چلنے والی ہر تحریک کا آخری ممکنہ حد تک ساتھ دیں گے۔
ہمارا وطن عزیز اگرچہ اس وقت خود اندرونی اور بیرونی دہشتگردی کا نشانہ بنا ہوا ہے، ہم شمال مغربی سرحد پر جنگ کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں، اور مشرقی سرحد پر بھی کشیدہ صورتحال ہے۔ بھارت اور افغانستان کا ہمارے خلاف گٹھ جوڑ کوئی نیا نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پاک بھارت جنگ کو ایک کال پر بند کرانے کا دعوی کرنے والے اب کیوں مزے سے تماشا دیکھ رہے ہیں؟ کوئی بھولا بادشاہ ہی ہوگا جو یہ بات نہ جانتا ہو کہ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں اور اسرائیل کس کے سہارے ساری کاروائیاں انجام دیتا ہے، ایسے میں صاف نظر آرہا ہے کہ افغانستان سے ہونے والی کاروائیوں کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے۔
پاکستان نے گزشتہ مہینوں میں خطے میں جو اپنی دھاک بٹھائی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارا کھیل اس دھاک کو ختم کرنے کے لئے کھیلا جا رہا ہو۔ کیونکہ بالآخر اسرائیل نے جو اپنے اہداف ساری دنیا کے سامنے رکھے ہیں ان میں پاکستان کی ایٹمی قوت کو بھی اپنے نشانے پر رکھا ہے۔ گھوم پھر کر بات وہیں آجاتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشتگردی کی کاروائیاں اور سرحدوں پر چھیڑ خانی نہ تو مقامی مسئلہ ہے اور نہ ہی علاقائی بلکہ اس کے تانے بانے گلوبل گیم سے ملتے ہیں، جس کی ابتدا فلسطین سے کی گئی ہے۔ نہیں معلوم کہ ہمارے ارباب اختیار کا طائر تخیل کہاں تک پرواز کرتا ہے، ابھی تو ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ ایڈہاک ہیں یعنی عبوری بنیاد پر ہی چل ہے۔ آج کا دن گزارو کل کی کل دیکھی جائے گی۔