تین چار دن پہلے ہی کی بات ہے… خاندان میں ایک فوتگی ہو گئی، جانا تھا ہمیں چکلالہ اسکیم ٹو میں۔ راولپنڈی میں تو آج کل کہیں جانا یوں بھی سزا بنا ہوا ہے، کچہری چوک جو کہ شہر کی شہ رگ جیسی جگہ ہے، اس کی تعمیر نو کا کام ہو رہا ہے اور جہاں پہلے بیس منٹ میں پہنچا جا سکتا تھا، اب وہاں دو گھنٹے اور بیس منٹ میں بھی پہنچ جائیں تو لگتا ہے کہ کوئی جنگ جیت لی ہو۔
ذرا سا کام یاد آتا تھا تو چل پڑتے تھے ،گاڑی کی چابی اٹھا کر، اب تو کوئی نام لے کر راولپنڈی کے کسی بھی علاقے میں جانے کا کہے تو لگتا ہے کہ اس نے سزا تجویز کر دی ہو، اور جب کہیں میت ہو تو جانا پڑتا ہے، اس وقت کوئی عذر کام نہیں کرتا۔
منٹوں کے سفر کو گھنٹوں میں طے کر کے عین جنازے کے وقت پہنچ گئے، شکر کیا اور بعد از جنازہ عازم واپسی ہوئے، چکلالہ اسکیم ٹو سے نکل کر راول روڈ کی طرف سے ہوتے ہوئے، پرانے ائیر پورٹ والے راستے سے اسلام آباد ہائی وے پر پہنچ کر وہاں سے روات کی سمت واپس مڑتے اور منزل کے قریب پہنچ جاتے۔
راول روڈ پہنچے تو ٹریفک جام نظر آیا۔ لوگ گاڑیوں کے انجن بند کر کے باہر نکل کر دھوپ سینک رہے تھے۔ ’’ آگے کیا مسئلہ ہے؟‘‘ گاڑی کا شیشہ اتار کر ایک سفید داڑھی والے بابے سے سوال کیا، وہ بھی اپنی بائیک بند کر کے اس کے پاس ہی کھڑے تھے۔
’’ آنٹی… آج بجلی والی بسوں کا افتتاح ہے نا!!‘‘ اس نے انتہائی مودب لہجے میں جواب دیا۔
’’ شکریہ بیٹا!‘‘ کہہ کرمیں نے گاڑی کا شیشہ بند کر لیا۔’’خالہ گاڑی میں کچھ کھانے کو ہے؟‘‘ چھوٹی سی بھانجی نے سوال کیا، ’’ بھوک بھی لگ رہی ہے اور پیاس بھی‘‘
’’ پچھلی سیٹوں پر دیکھو بیٹا!‘‘ میں نے اسے کہا تو اس نے دیکھ بھال کر بتایا کہ کچھ بھی وہاں نہ تھا۔ ارد گرد بھی کوئی دکان یا کھوکھا نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایک تو ان بچوں کے ساتھ یہ بھی بڑا مسئلہ ہے کہ سویرے اٹھ کر ناشتہ نہیں کرتے اور… اور کیا، کسے معلوم کہ کس وقت کہاں کس نوعیت کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے-
’’ اچھا میں گاڑی کی ڈکی میں دیکھتی ہوں‘‘۔ میں نے احتیاط سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکلی۔ باہر تو مکھیوں کی طرح مانگنے والے تھے، چمٹ ہی جاتے ہیں، انھی کی دعاؤں کی وجہ سے روٹ لگتے ہیں۔
میں نے ان سے معذرت کرتے کرتے ڈکی کھولی اور اس میں سے ایک لفافہ نکال کر لائی جو ایسے ہی ہنگامی حالات کے لیے رکھا ہوتا ہے۔
اس میں چپس کے دو تین پیکٹ اور ایک سیون اپ کی بوتل بھی تھی۔ واپس گاڑی میں بیٹھنا بھی ایک مرحلہ تھا، دائرے میں گھیرے ہوئے بھکاریوں سے بچتے بچاتے گاڑی میں داخل ہو جانا بھی کمال کا تھا۔
بھانجی کو پیکٹ پکڑائے، اس نے پہلا بڑا سا پیکٹ کھولا، جس میں ہوا کے ساتھ دس بارہ چپس بھی تھے، باقی دو پیکٹ ہم باقی لوگوں نے آپس میں مل بانٹ کر کھائے اور جتنے چپس ان میں ہوتے ہیں، ا س کے مطابق تین تین چپس سب کو مل ہی گئے۔
ہمیں اس ایک ہی مقام پر گاڑی بند کرکے بیٹھے ہوئے پچاس منٹ ہو گئے تھے۔ اسکولوں سے چھٹی کا وقت بھی ہو گیا تھااور اس ٹریفک جام میں اضافہ کرنے کو کتنی ہی مزید گاڑیاں شامل ہو گئی تھیں۔ ’’ شکر ہے کہ ہم جاتے ہوئے اس قسم کے ٹریفک جام میں نہیں پھنسے ورنہ جنازے پر نہ پہنچ پاتے‘‘ ۔
اس مصیبت میں بھی کسی کے ذہن میں یہ مثبت نکتہ آیا تھا۔ یہ تو واقعی اچھا ہوا تھا، سمدھیانے کا معاملہ تھا، اگر نہ پہنچ پاتے تو جانے وہ کیاسوچتے۔ اس رش میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ماسوائے گاڑیوں کے ہارن کے، صرف آوازیں ہی نہیں ۔ شہری ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے تھے ۔
ایک ماہ پہلے ہی تو ہماری بہو کی نانی کی وفات ہوئی اور وہ دن تھا جس دن جی ٹی روڈ اورلاہور اور اسلام آباد والی موٹر وے کے جانے اور آنے کے راستے بند تھے۔
ایسی بدقسمتی کہ ان کے تین بھائیوں میں سے کوئی بھی نہ پہنچ سکا اور نہ ہی ہماری بہو اور بیٹا۔ کیا کمال ہے کہ عام رکشہ اور گاڑی تک چلانے کے لیے آدھا شہرسڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے بند ہے۔
کہاں چلیں گی یہ برقی بسیں اور شہر کی سڑکوں کی تعمیر کا کام مکمل ہو جانے کے بعد اس منصوبے کا افتتاح ہوتا تو شاید بات دل کو لگتی بھی۔ ویسے بھی پروٹوکول والے اگر اپنی ایک گاڑی میں بیٹھ کر خاموشی سے نکل جائیں تو انھیں کیا ہو جائے گا؟
آپ نے بھی اس بادشاہ کی کہانی سنی ہو گی کہ جسے عوام پر ظلم کرنے کا اور اپنی حکومت مضبوط کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے اپنے عوام کو اتنے بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا کہ وہ پیٹ بھر کر کھانابھی نہیں کھا سکتے تھے-
پھر اس بادشہ کو لگا کہ عوام کھانا تو نہیں کھا سکتے مگر سکون سے سوتے ہیں، وہ تو ان کے بس میں نہ تھا، نیند تو بھوکے کو بھی آجاتی ہے، سولی پر بھی آ جاتی ہے- تب اس بادشاہ نے حکم صادر فرمایا کہ ہر روز جو لوگ صبح دریا کا پل پار کر کے شہر میں کام کرنے کو داخل ہوں گے، انھیں سرکاری ہرکارے دس دس ’’ لتر‘‘ لگایا کریں گے-
یوں عوام بے وجہ اس بادشاہ کی حس تکبر کی تسکین کے لیے دس دس لتر کھا کر شہر میں داخل ہونے لگے- کچھ عرصہ گزرا تو لوگوں نے دبا دبا احتجاج شروع کردیا ، ایک دن لوگ جو ابھی تک شہر میں داخل نہ ہوسکے تھے وہ نعرے لگانے لگے-
بادشاہ کے کانوں تک نعروں کی آواز پہنچی تو اس نے اپنے وزراء کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ اتنی سختی کے باوجود بھی عوام میں سرکشی آ گئی ہے اور وہ نعرے لگا رہے ہیں۔ یقینا انھوں نے میرے خلاف کوئی سازش تیار کی ہے۔
وزراء کا ایک وفد مشورے کے بعد تیار کیا گیا اور انھیں بھجوایا گیا کہ وہ لوگوں سے مذاکرات بھی کریں اور جاننے کی کوشش کریں کہ کس مطالبے کو منوانے کے لیے سازش تیار کی گئی ہے۔ وزراء کو اپنی طرف آتے دیکھ کرلوگوں میں جوش اور خروش بڑھ گیا اور انھوں نے اور بھی بلند آواز سے نعرے لگانے شروع کر دیے۔
سب سے سینئر وزیر نے لوگوں کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور سوال کیا کہ ان کا کیا مسئلہ تھاا ور مطالبہ کیا تھا۔ وہ بادشاہ کی طرف سے آنے والا وفد تھا اور ان کے پاس صرف بات سننے کے اختیارات تھے اور عوام کو سختی سے سمجھانے کا حکم۔
نعرے بند ہو گئے اور نعرے لگانے والوں میں سے چند بزرگ لوگ آگے بڑھے، تعظیم سے سر جھکا کر عرض کی، ’’ سرکار، ہمیں ہر روز صبح شہر میں کام کے لیے داخل ہو نے سے پہلے دس دس لتر کھانا ہوتے ہیں، اب کام کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور آپ کے لتر مارنے والے اہلکاروں کی کم۔
اس لیے ہمیں شہر میں داخلے ہی میں آدھا دن گزر جاتا ہے، ہمیں کام کرنے اور واپس گھر جا کر آرام کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ درخواست ہے کہ ہرکاروں کی تعداد بھی بڑھائی جائے اور انھیں حکم دیا جائے کہ و ہ ہمیں دونوں دونوں ہاتھوں سے لتر ماریں تا کہ ہمیں آدھے وقت میں لتر لگ جائیں اور ہمارے پاس بیگار کا وقت زیادہ ہو جائے‘‘
ہماری بھی یہی صورتحال ہے ۔ راستے بند ہونے سے لوگوں کی شادیاں، جنازے اور پروازیں چھوٹ جاتے ہیں۔ ایمبیسیوں کی اپانٹمنٹ منسوخ ہو جاتی ہیں، بچوں کے امتحانات ملتوی ہوجاتے ہیں اور ان کی محنت برباد ہوتی ہے۔
لوگوں کو ٹائیلٹ جانے کی حاجت ہوتی ہے اور جانے کیا کیا مسائل کہ جن کا کسی کو ادراک بھی نہیں۔ اگر پھر بھی بہت ضروری ہے کہ عوام کو تنگ کرنے کے لیے راستے بند کرنا ہوں، روٹ لگانا ہوں۔
مظاہرہ کرنے والوں نے سڑکوں پر جلوس نکالنے کے راستے روکنے کے لیے رکاوٹیں لگانا مقصود ہوں تو ان جگہوں پر کوئی تفریحی مقامات بنا دیں، ٹائیلٹ اور اسپتال بنا دیں، کھانے پینے کے اسٹال لگا دیں تا کہ ہم لتر تو کھائیں مگر کوئی بھوک سے مرے اور نہ ایمبولینس میں سسک سسک کر۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹریفک جام گاڑی میں داخل ہو ہے اور اور اس کے لیے اور ان
پڑھیں:
کراچی، شہری کو 13 روز میں 10،10 ہزار کے2 ای چالان بھیج دیئے
کراچی (نیوزڈیسک) شہری کو 13 روز میں دس دس ہزار کےدوای چالان بھیج دیئےگئے ، دونوں مرتبہ کراچی ٹول پلازہ ایم نائن موٹروے پرسیٹ بیلٹ کی خلاف ورزی پرچالان کیا گیا۔ شہری نے انکشاف کیا کہ نمبرپلیٹ میری ضرورہے مگر گاڑی میری نہیں ۔
شہری کی جانب سے درخواست میں بتایاگیا میری گاڑی کا ماڈل دوہزارپندرہ جبکہ چالان ہونےوالی گاڑی کا ماڈل دوہزاربارہ کاہے ۔ شہری نے درخواست میں موقف اختیارکیا کہ کہا کہ مجھے تیس اکتوبر کودس ہزاراوردوسرا چالان بارہ نومبر کو دس ہزارکا ملا مگر گاڑی وہی تھی ۔ پولیس کی جانب سے درخواست پر فوری نوٹس لیتےہوئے جدید کیمروں کےذریعےگاڑی کو تلاش کرنے کےلیےفیڈنگ کردی گئی ۔۔ ای چالان میں ای چالان تصویر میں دوافراد کو گاڑی چلاتےدیکھا جاسکتا ہے۔دونوں مرتبہ کراچی ٹول پلازہ ایم نائن موٹروے پرسیٹ بیلٹ کی خلاف ورزی پرچالان کیا گیا ۔ایک مرتبہ گاڑی میں دوافراد دوسری مرتبہ اکیلا شخص موجود تھا ۔۔ پولیس ذرائع کےمطابق کراچی میں بڑی تعداد میں جعلی نمبرپلیٹ لگی گاڑی چل رہی ہیں ۔۔ شہریوں کو پریشانی ضرور مگر جرائم پیشہ عناصر گرفت میں آرہے ہیں۔