غزہ سیز فائر، مستقبل پر سنگین سوالات
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
اسرائیلی فوج نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھی اور غزہ پر فضائی حملے میں حماس کے عسکری ونگ القسام کے کمانڈر کو شہید کردیا۔ عرب سفارت کار نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس رہنماؤں نے عرب ثالثوں کو اپنا ایک اہم اور حتمی پیغام پہنچا دیا ہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے مبینہ خلاف ورزیاں جاری رہیں تو وہ غزہ میں جاری جنگ بندی کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہیں، 5بچوں سمیت 21 افراد شہید ہوگئے ، سرد موسم سے بے گھر خاندانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔
غزہ کے افق پر چھائے ہوئے سیاہ دھوئیں اور معصوموں کے خون سے رنگی ہوئی زمین آج ایک بار پھر اسی کربناک حقیقت کو دہرا رہی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق کی اپیلیں اور عالمی اداروں کی قراردادیں اسرائیل کی جارحیت کے سامنے بارہا بے بس ثابت ہو چکی ہیں۔
اسرائیلی فوج نہ صرف جنگ بندی کے اعلان کو یکسر نظرانداز کر رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی عسکری جارحیت کو مزید وسعت دیتے ہوئے غزہ کے ہر گوشے کو میدانِ جنگ میں تبدیل کر چکی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے عسکری ونگ القسام کے ایک اہم کمانڈر کو شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعہ محض ایک فرد کی شہادت نہیں بلکہ جنگ بندی کے اس نازک معاہدے پر کھلی ہوئی ضرب ہے جو پہلے ہی کمزور بنیادوں پر کھڑا تھا۔ اس حملے نے غزہ میں جاری سیز فائر کے مستقبل پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور خطے میں امن کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
حماس کی قیادت نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کو منسوخ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، خطے کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ اس اعلان میں چھپی ہوئی بے بسی، اضطراب اور اضطراری فیصلہ سازی دراصل اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کے عوام کتنی غیر انسانی صورتِ حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اسرائیلی بمباری کا سامنا کرتے ہیں بلکہ انسانی امداد کی عدم دستیابی، پناہ اور سہولیات کے فقدان، بھوک، سردی اور وباؤں جیسے چیلنجز بھی ان کے مقدر سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
غزہ میں گزشتہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں نے جس طرح شدت اختیار کی ہے، وہ سیز فائر کی روح کے بالکل منافی ہے۔ جنگ بندی کے 10 اکتوبر کے اعلان کے بعد سے اب تک 318 فلسطینی شہید اور 788 زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ جنگ، جو اکتوبر 2023 میں شروع ہوئی، اب تک تقریباً 70 ہزار فلسطینیوں کی جان لے چکی ہے۔
ستر ہزار کے قریب شہادتیں، ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد زخمی، یہ اعداد محض اعداد نہیں بلکہ ایک ایسے المیے کی گہری تصویر ہیں جس کی نظیر شاید جدید انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ سٹی کے مختلف علاقوں میں گھروں کی مسماری کی کارروائیوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔
فلسطینی سول ڈیفنس کے مطابق بفر زون میں 250 میٹر کا مزید اضافہ کر کے اسرائیل نے سیکڑوں خاندانوں کو ایسی جگہوں پر دھکیل دیا ہے جہاں پانی، بجلی، صفائی اور بنیادی ضروریات زندگی کا کوئی انتظام نہیں۔ یہ فیصلہ محض علاقوں کے قبضے یا عسکری حکمتِ عملی کا حصہ نہیں بلکہ اس کا براہِ راست تعلق اس اجتماعی سزا سے ہے جو اسرائیل غزہ کے شہریوں پر عرصہ دراز سے مسلط کیے ہوئے ہے۔ سرد موسم کی شدت نے ان بے گھر خاندانوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ نہ مناسب پناہ گاہیں، نہ کمبل، نہ گرم کپڑے، نہ وافر خوراک۔ یہ لوگ صرف اپنی سانسوں اور امید کے سہارے زندہ ہیں، اگر فوری انسانی امداد نہ پہنچی یا جنگ بندی کی پاسداری نہ کی گئی تو اموات میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے، خصوصاً بچوں اور ضعیف افراد کے لیے صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی حملوں، گھروں کی مسماری اور مکمل محاصرے نے غزہ کے شہر کو ایک ایسے کھنڈر میں بدل دیا ہے جہاں اب زندگی کی رمق تلاش کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں بھی اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں۔ ڈاکٹرز بغیر ادویات، بغیر بجلی، بغیر آلات کے زخموں سے نڈھال بچوں اور عورتوں کا علاج کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کی خاموشی اور بین الاقوامی اداروں کی بے عملی ایک ایسا باب رقم کر رہی ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ عالمی طاقتیں محض اپیلوں اور بیانات پر اکتفا کر رہی ہیں۔
طاقتور ممالک اپنی سیاسی ترجیحات کے بوجھ تلے انسانی جانوں کی قدر بھول چکے ہیں۔ ایک طرف سیکڑوں بے گناہ بچے ملبے تلے دفن ہیں، دوسری طرف عالمی فورمز پر طاقتور فریقوں کے درمیان سیاسی مفادات کی کشمکش جاری ہے۔ یہ کیسی دنیا ہے جو انسانی حقوق کی علمبرداری کرتی ہے مگر فلسطینیوں کے خون سے لکھی فریادیں اس کے لیے بے معنی ہیں؟
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا، وہ اپنی ابتدا سے ہی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار تھا۔ اسرائیلی حکومت کے اندرونی دباؤ، انتہا پسند عناصر کی جارحانہ سوچ، عسکری کمان کے سخت گیر رویے اور سیاسی قیادت کی کمزور فیصلہ سازی نے اس معاہدے کو کمزور بنیادوں پر چھوڑ دیا تھا۔ دوسری جانب حماس کے لیے بھی یہ معاہدہ آسان نہیں تھا۔
غزہ کے عوام کی حالتِ زار، اسیرانِ جنگ کا مسئلہ، تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور اسرائیلی حملوں کے تسلسل نے حماس پر بھی دباؤ بڑھایا ہے۔ ایسے میں سیز فائر کی خلاف ورزیاں محض ایک عسکری واقعہ نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہیں کہ اسرائیل اس جنگ بندی کو لمبی مدت تک قائم رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ کارروائیاں بظاہر اسرائیلی دفاع کے نام پر کی جاتی ہیں مگر حقیقت میں یہ طاقت کا غیر متوازن استعمال ہے جو پوری آبادی کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک فلسطینی عوام اس ظلم کے شکار رہیں گے؟ کب تک عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کو نظرانداز کرتی رہے گی؟ کیا فلسطینیوں کا خون اس قدر ارزاں ہے؟ کیا ستر ہزار شہادتیں عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے کافی نہیں؟ جواب شاید دنیا کی بے حسی میں چھپا ہوا ہے۔
طاقتور ممالک کے لیے مشرقِ وسطیٰ محض اسٹرٹیجک مفادات کا میدان ہے، انسانی حقوق نہیں۔ ان طاقتوروں کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہوئی ہے اور کانوں میں ان فلسطینی بچوں کی چیخیں بھی سنائی نہیں دیتیں جو ہر روز ملبے کے نیچے سسکتے ہوئے دم توڑ دیتے ہیں۔اسرائیلی ڈرون حملے، فضائی بمباری، گھروں کی مسماری، بفر زون کے پھیلاؤ اور محاصرے کے باعث غزہ کا ہر روز نیا منظر سامنے آتا ہے۔ کہیں ماں اپنے بچوں کی لاشوں کو گود میں لیے بین کرتی ہے، کہیں باپ ملبے تلے دبے اپنے خاندان کی تلاش میں سرگرداں ہے، کہیں ڈاکٹر بغیر سامان کے اسپتال میں موت اور زندگی کے درمیان معلق زخمیوں کا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہیں امدادی کارکن حملوں کے خوف سے غیر فعال ہو چکے ہیں۔
غزہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اس درد سے آزاد ہو۔ ہر دن ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے، ہر رات ایک نئی چیخ سنائی دیتی ہے۔اس پس منظر میں حماس کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کی دھمکی محض سیاسی بیان بازی نہیں بلکہ حالات کی سنگینی کی حقیقی عکاس ہے۔ وہ ایک ایسی صورتِ حال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جہاں مزید صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر اسرائیل مسلسل جارحیت جاری رکھتا ہے تو سیز فائر کا جاری رہنا خود ایک مذاق بن جائے گا۔ امن کا کوئی بھی معاہدہ باہمی اعتماد اور احترام کا محتاج ہوتا ہے۔ جب ایک فریق اس کی بنیادوں کو نقصان پہنچا رہا ہو تو دوسرے فریق سے صبر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر عملی اقدامات کرے۔ صرف بیانات اور اپیلیں اس آگ کو نہیں بجھا سکتیں۔ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے، فضائی حملے اور ڈرون حملے فوری طور پر روکے، بفر زون کی پالیسی واپس لے، انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں دور کرے اور غزہ کے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ زندہ رہنے کا موقع دے۔ اسی طرح عرب ممالک کو بھی اپنی سفارتی کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔ خطے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو کم کرنے کے لیے انھیں مضبوط، متفق اور مؤثر مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔
اگر عالمی طاقتیں اور علاقائی قیادتیں اس وقت بھی خاموش رہیں، تو آنے والے دن مزید خوفناک ہوں گے۔ سیز فائر کا خاتمہ ایک نئی جنگ کو جنم دے سکتا ہے، جس کے نتائج نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہو گا کہ غزہ صرف ایک جغرافیہ نہیں، بلکہ ایک انسانی سانحہ ہے۔ وہاں کے عوام صرف اعداد نہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جن کے خواب، خواہشات، ارمان، رشتے اور زندگیاں تباہ ہو چکی ہیں۔ ان کے لیے ہر دن قیامت ہے، ہر رات ماتم ہے۔وقت آ گیا ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، دنیا امن کے لیے آواز اٹھائے، انصاف کے لیے عملی اقدام کرے اور فلسطینیوں کو اس ظلم سے نجات دلائے۔ ورنہ تاریخ یہی کہے گی کہ اکیسویں صدی میں انسانیت موجود تھی مگر انسان غائب تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنگ بندی کے نہیں بلکہ سیز فائر ہیں بلکہ دیا ہے کے لیے غزہ کے
پڑھیں:
اسرائیل کی جاری جارحیت عالمی امن کیلئے خطرہ ہے،طارق مدنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (پ ر) پاکستان امن کونسل کے سربراہ طارق محمود مدنی نے اقوام متحدہ کی ثالثی سے جنگ بندی کے باوجود غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں مزید 8فلسطینیوں کی شہادت کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیلی جارحیت کا فوری سخت نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے وہ سماجی رہنما اسلم خان فاروقی سے جنگ بندی کے باوجود غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر گفتگو کررہے تھے طارق مدنی کا کہنا تھا کہ غزہ صیہونی فوج کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے، اسرائیلی جارحیت رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے حملے کم نہیں ہورہے ہیں جبکہ دوسری طرف فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے اپنی کارروائیاں معطل کی ہوئی ہیں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ صیہونی اسرائیل کی جاری جارحیت عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔