خوئے بد را بہانہ ہائے بسیار!
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے 13 اکتوبر کو مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں منعقدہ غزہ امن سربراہ کانفرنس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جس امن معاہدے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصر، قطر اور ترکیہ کے سربراہان نے دستخط کیے تھے، وہ مشرقِ وسطیٰ کے حبس زدہ جنگی ماحول میں خوشگوار ہوا کو جھونکا محسوس ہورہا تھا، مگر معاہدے کی شقوں میں موجود ابہام اور حل طلب کئی پیچیدہ مسائل کی موجودگی میں خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ یہ امن معاہدہ تادیر قائم نہیں رہ سکے گا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ خدشات محض خدشات نہیں تھے، اس امر کے ٹھوس شواہد موجود تھے کہ اسرائیل کسی طور اس معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گا، خود اس کی پوری تاریخ اس حقیقت پر دال ہے کہ اس نے کبھی بھی معاہدہ پر عمل نہیں کیا، یہی خدشہ خود حماس کو بھی تھا اسی لیے اس نے علاقائی اور بین الاقوامی ضمانت طلب کی تھی۔ امن معاہدے اور یرغمالیوں کی رہائی کے بعد پیش آمدہ حالات و واقعات، اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات اور امریکی صدر کا لب ولہجہ اب ان خدشات کو تقویت فراہم کر رہے ہیں۔ امن معاہدے میں یرغمالیوں کی رہائی اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل جسے حماس کو بروئے کار لانا تھا وہ تو بحسن و خوبی انجام پا گیا مگر نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے نہیں رک سکے، معاہدے کے دوسرے ہی دن اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے 9 فلسطینی شہید ہوگئے، غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق معاہدے کے دو دنوں کے اندر جنگ بندی کے باوجود 23 فلسطینی شہید کیے گئے، 16 اکتوبرکو 3 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، مجموعی طور پر جنگ بندی کے آغاز سے اب تک 40 فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں۔ اس صورتحال کو جنگ بندی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حماس نے بجا طور پر عالمی ضامنوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو تمام شرائط کا پابند بنائیں اور کسی بھی تاخیر یا وعدہ خلافی کو روکنے کے لیے عملی کردار ادا کریں، حماس کا کہنا ہے کہ محض معاہدہ کافی نہیں بلکہ اس پر حقیقی اور مکمل عملدرآمد ہی امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کا نوٹس لینے کے بجائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو غزہ میں گھس کر حماس کا خاتمہ کریں، اس سے قبل امریکی صدر دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر حماس جنگ بندی معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں کرتی تو وہ اسرائیل کو غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کی اجازت دے دیں گے۔ سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ حماس نے اب تک 28 سے زیادہ یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہیں کیں۔ صدر ٹرمپ نے حماس کو معاہدے کی پاسداری کا پیغام دیتے ہوئے خبردار کیا کہ جیسے ہی میں کہوں گا، اسرائیلی فوج دوبارہ غزہ کی گلیوں اور سڑکوں پر ہوگی اور اگر اسرائیل چاہے تو حماس کو اچھی طرح سبق سکھا سکتا ہے۔ ادھر امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) نے حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ امن منصوبے پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر غیرمسلح ہوجائے، انہوں نے زور دیا کہ حماس کو چاہیے کہ وہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دے، صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے، بلاتاخیر غیر مسلح ہو جائے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے بھی کھلی دھمکی دی ہے کہ غزہ میں جنگ ایک بار پھر شروع ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حماس نے جنگ بندی معاہدے کی شرائط پوری نہ کیں اور تمام یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہ کیں تو اسرائیل دوبارہ جنگ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حماس اب بھی 19 اسرائیلی مغویوں کی لاشوں کو روکے ہوئے ہے جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دھمکی آمیز یہ بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں کہ جب شرم الشیخ میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں علاقائی اور بین الاقوامی رہنماؤں نے غزہ میں جنگ بندی کو مضبوط کرنے اور جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سیاسی عمل شروع کرنے پر زور دیا تھا اور اس جنگ بندی کے معاہدے کو ابھی چار دن بھی نہیں گزرے تھے۔ امریکی صدر اور اسرائیلی رہنماء کا سارا زور ان یرغمالیوں کی لاشوں کی بازیابی پر ہے جو خود اسرائیلی بمباری کی وجہ سے سرنگوں میں دب کر مر گئے، جس پر حماس کا کہنا ہے کہ کچھ لاشیں تباہ شدہ سرنگوں میں دفن ہیں جبکہ متعدد لاشیں اب بھی ملنے تلے دبی ہوئی ہیں، یرغمالیوں کی لاشیں نکالنے میں وقت لگ سکتا ہے، حماس کا کہنا ہے کہ غزہ امن معاہدے کے تحت جو وعدے کیے اس پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہیں، ان اسرائیلی مغویوں کی لاشیں حوالے کی ہیں جنہیں تلاش کر سکتے تھے جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔ مگر امریکی صدر، امریکی سینٹرل کمانڈ، اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع سب دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں، نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس کو جنگ بندی معاہدے کے تحت غزہ میں ہلاک ہونے والے مغویوں کی لاشیں واپس کرنا ہوں گی۔ مذکورہ صورتحال سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل محض یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے جنگ بندی پر آمادہ ہوئے کیونکہ گزشتہ دو سال میں جان توڑ کوششوں اور بے پناہ عسکری قوت استعمال کرنے کے باوجود وہ کسی ایک بھی زندہ یا مردہ یرغمالی کو رہا نہیں کراسکے، حالانکہ اس پورے عرصے میں امریکی، اسرائیلی، فرنسیسی، جرمنی اور برطانوی جاسوس طیارے پورے غزہ کی فضاؤں میں گشت کرتے رہے، اب جب کہ زندہ تمام یرغمالی رہا ہوچکے ہیں تو سب نے اپنا لب ولہجہ بدل لیا ہے اور ایک بار پر دھمکیوں کا سہارا لیا جارہا ہے، ٹرمپ کہتے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں غزہ میں گھس کر حماس کا خاتمہ کریں گے، سوال یہ ہے کہ دو سال تک وہ غزہ میں کیا کرتے رہے ہیں؟ پورے غزہ کو تاراج کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے باجود نہ یرغمالی رہاکرائے جاسکے اور نہ ہی حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکا۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے اور اگر ایسا نہیں ہوا تھا بقول صدر ٹرمپ کے: جیسے ہی میں کہوں گا، اسرائیلی فوج دوبارہ غزہ کی گلیوں اور سڑکوں پر ہوگی اور اگر اسرائیل چاہے تو حماس کو اچھی طرح سبق سکھا سکتا ہے۔ حماس نے اپنے عزم، ہمت، استقامت،جرأت اور بالغ نظری سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ طاقت کے زور پر انہیں زیر نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ وہ دھمکیوں میں آنے والے نہیں، حماس نے واضح کردیا ہے کہ بین الاقوامی نگرانی میں غیر مسلح ہونے کے کسی نکتے پر غور نہیں کیا جائے گا، نہ ہی غزہ کو بین الاقوامی نگرانی میں دینے کو قبول کیا جاسکتا ہے، غزہ کا انتظام فلسطینی ٹیکنو کریٹس پر مشتمل عبوری انتظامیہ کے سپرد ہونا چاہیے، وہ اپنے وعدوں پر قائم ہیں، لیکن اپنی قوم کی آزادی، خودمختاری اور حق ِ خودارادیت سے کسی طور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں گوکہ جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے مگراس پر خدشات کے بادل ہنوز منڈلا رہے ہیں، یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی، امریکا اور اس معاہدے کے ثالثوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ معاہدے کی عدم پاسداری پر اسرائیل سے جوابدہی کا میکانزم بنائے بغیر خطے میں طویل المدتی قیامِ امن کو خواہش کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یرغمالیوں کی بین الاقوامی کا کہنا ہے کہ کی خلاف ورزی جنگ بندی کے امن معاہدے امریکی صدر معاہدے کی معاہدے کے کی لاشیں کہ حماس سکتا ہے حماس کا حماس کو رہے ہیں اور اس غزہ کی ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
حماس کے پاس مزید یرغمالیوں کی لاشیں ہیں، اسرائیلی انٹیلی جنس
اسرائیلی انٹیلی جنس نے امریکا کو بتایا ہے کہ حماس کے پاس مزید یرغمالیوں کی لاشیں موجود ہیں۔
امریکی میڈیا نے 2 اسرائیلی اور ایک امریکی عہدے دار کےحوالے سے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ حماس کی جانب سے لاشوں کی بازیابی کے لیےخاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جارہے۔
امریکی میڈیا نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ لاشوں کی بازیابی کے بغیر غزہ معاہدہ اگلے مرحلے میں نہیں جاسکتا۔
دوسری جانب حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید دو اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ ان اسرائیلی مغویوں کی لاشیں حوالے کی ہیں جنھیں تلاش کرسکتے تھے۔ باقی مغویوں کی لاشیں تلاش کرنے کےلیے خصوصی آلات کی ضرورت ہے۔