Islam Times:
2025-11-27@21:05:39 GMT

موضوع:   طوفان الاقصیٰ کے دو سال

اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع:   طوفان الاقصیٰ کے دو سال
تجزیہ نگار:  آغائے شیخ علی قمی (ایران)
میزبان: سید انجم رضا
پیشکش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
موضوعات و سوالات:
کیا اسرائیل اپنے اہداف تک پہنچ سکا؟
غزہ کی دو سالہ جنگ ، امت اسلامی اور اسلامی حکومتوں کا کیا کردار رہا ؟
مستقبل میں اسرائیل کے خلاف موجودہ عالمی رائے عامہ کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟
خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
مجرم صیہونی حکومت  کے خلاف  فلسطینی جدو جہد کاآغاز روز اول سے ہوگیا تھا
فلسطینی مجاہدین نے اپنی مزاحمت  پتھر اور غلیل سے شروع کی تھی
سات دہائیاں سے زائد گزرچکی فلسطینی مزاحمت ایک نئے جوش اور ولولہ سے جاری ہے
طوفان الاقصیٰ نے القدس کی آزادی کے لئے مزاحمت کو ایک نئی مہمیز عطا کی ہے
مزاحمتی تحریک نے صیہونی حکومت کو ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمتی محور کو  انجانے میں پوری طرح سے دھچکا لگا ہوتا
مزاحمتی تحریک کی جرات نے استعمار کو بتادیا ہے کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے کتنے ثابت قدم ہوتے ہیں
اسرائیل کو طوفان الاقصیٰ کے مقابل بری طرح ہزیمت اٹھا نی پڑی ہے
دو برس کی جارحیت  میں صیہونی حکومت اپنا ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر سکی
حقیقت تو یہ ہے کہ نام نہاد امریکی ورلڈ آرڈر بری طرح ناکا م ہوگیا ہے
عالمی رائے عامہ اس بات پہ متفق ہے کہ غاصب صیہونی ریاست ایک پرست اور فاشسٹ مملکت ہے
پاکستان کےعوام قائد اعظم کے فرمان کے مطابق  صیہونی ریاست کو غاصب سمجھتے ہیں
گزشتہ دو برس میں صیہونی حکومت کی انسان کش اور آدم کش ذہنیت دنیا پہ آشکار ہوچکی ہے
مغربی استعمار اپنے ایجنٹ صیہونی حکومت کے ذریعے فلسطین پہ گزشتہ پچھتر برس سے قابض ہے
اس سارے قضیئے میں مسلمان اور امت مسلمہ ہمیشہ سے فلسطینیوں کی حمایت میں رہی ہے
قابل افسوس بات  یہ ہے کہ بیشتر مسلمان حکومتیں فلسطینیوں کی حمایت سے گریزاں ہیں
اسلامی انقلاب کے وقوع پذیر ہونے کے بعد رہبر کبیر امام خمینی نے مسئلہ القدس کو نئی زندگی عطا کی
رہبر معظم امام سید علی خامنہ ای  نے بھی ہمیشہ مسلم حکمرانوں اور امت مسلمہ کو القدس کی آزادی کے لئے  متحد ہونے کا پیغام دیا
رہبر معظم امام سید علی خامنہ ای  نے بھی امام خمینی کے طے کردہ موقف اور خط کو برقرا رکھا
اگر مسلم حکمران مغربی استعمار کے آلہ کار نہ ہوتے تو فلسطین کب کا آزاد ہوجاتا
کرہ ارض پہ فقط حکومت اسلامی ایران ہے جو آج بھی فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑا ہے
حکومت اسلامی ایران  کو فلسطینیوں کی حمایت کرنے کی بنا پہ بہت سے قربانیاں دینی پڑی ہیں
ایران پہ بہت ساری عالمی پابندیاں اسرائیل کی مخالفت کی پاداش میں لگی ہیں۔
دو  ریاستی حل کی بات کرنا ، فلسطینیوں کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہے
دنیا بھر کے شیعہ سنی مسلمان عوام آج بھی غزہ جاکر اسرائیل کے خلاف لڑنے کو تیا رہیں
صیہونیوں کا گریٹر اسرائیل کا مذموم خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا
مسلم معاشرہ   ا گر تباع ولی میں متحرک ہو تو باطل قوتیں  نابود ہوجائیں
آزادی القدس اور مسئلہ فلسطین کے مختلف مراحل رہے، مگر ولایت فقیہ اپنے  موقف حق پہ ہمیشہ سے ثابت قدم ہے
فلسطین کی آزادی دلیر اور زعیم ولی برحق کی قیادت میں ہی ممکن ہے
رہبر معظم امام سید علی خامنہ ای   فی زمانہ ہی  وہ  بابصیرت  قیادت ہے جو القدس کی ازادی کو ممکن بناسکتی ہے
غزہ کے دلیر عوام  الہی وعدے کے  مصداق بن رہے ہیں
مغرب کے نوجوانوں کا فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنا  اسرائیل کے خلاف مقاومت کی توسیع ہے
اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں جمہوری اسلامی ایران کے عوام کی استقامت  قابل تحسین ہے
ایک مومن اور کربلا سے سبق حاصل کرنے والے عوام کبھی بھی باطل کے آگے سرنگوں نہیں ہوسکتے
دنیا بھر کے اور خصوصا پاکستان کے مومنین کو چاہیئے کہ شہدائے راہ قدس کی یاد اور تذکرہ کو زندہ رکھیں ۔
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی حمایت طوفان الاقصی صیہونی حکومت کے خلاف

پڑھیں:

اجتماعِ عام؛ ایک نئے دور کا نقطہ ٔ آغاز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251126-03-7
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر کئی دہائیوں بعد ایسا منظر دیکھنے کو ملا ہے جس نے قومی سیاست میں نئی روح پھونک دی ہے۔ جماعت ِ اسلامی کا ’’کل پاکستان اجتماعِ عام‘‘ ایک سیاسی تقریب سے کہیں بڑھ کر فکری بیداری، اخلاقی تطہیر، اجتماعی شعور اور نظریاتی وحدت کا عظیم اجتماع ثابت ہوا۔ اس اجتماع نے یہ صاف دکھا دیا کہ پاکستان کے عوام خصوصاً نوجوان اور خواتین اب محض سیاسی تماشوں، خالی نعروں اور شخصیت پرستی سے تنگ آچکے ہیں۔ قوم اب ایسے نظام کی تلاش میں ہے جو عدل، شفافیت، قیادت کی پاکیزگی اور نظریاتی استقامت پر قائم ہو۔ اس سفر کا تازہ آغاز اسی اجتماع سے ہوا ہے۔

اجتماع کے عالمی سیشن کو اس پورے پروگرام کا سب سے زیادہ تاریخی، معنویت سے بھرپور اور انقلابی حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ منفرد موقع تھا جب پاکستان کے میدان میں بیٹھے لاکھوں افراد نے نہ صرف اپنے ملک کی پکار کو بلکہ پوری امت مسلمہ کی دھڑکنوں کو ایک ہی مقام پر محسوس کیا۔ اس سیشن میں فلسطین، ترکیے، بنگلا دیش، افغانستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، سوڈان، یمن اور افریقا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے نمائندوں نے شرکت کی۔ تمام مقررین کا ایک ہی موضوع تھا: موجودہ عالمی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور ایک نیا عادلانہ عالمی نظم ابھر رہا ہے۔ یہ پیغام درحقیقت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں، حسن البناؒ کے خوابوں اور عالمی سطح پر پھیلی ہوئی اسلامی تحریکوں کی نصف صدی کی جدوجہد کا نچوڑ تھا۔ ہر مقرر نے اس بات پر زور دیا کہ امت مسلمہ کو اپنے قدروں اور اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ایک نئی عالمی برادری کی تشکیل کے لیے متحد ہونا ہوگا۔

فلسطینی نمائندوں کے جذباتی خطاب نے تمام شرکا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے کہا: ’’غزہ کی سرزمین پر بہایا جانے والا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اور ہم پاکستانی عوام کے ہر نعرے، ہر بینر اور ہر آنسو کو محسوس کرتے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ نہ صرف اردو جاننے والے ہر پاکستانی کے دل کو چھو گئے بلکہ اس بات کا ثبوت تھے کہ پاکستان کا باشعور طبقہ عالمی استعماری قوتوں کے خلاف کھڑا ہے۔ اجتماع نے یہ واضح پیغام دیا کہ جماعت اسلامی عالمی سطح کی اسلامی تحریکوں کا ایک فکری مرکز بن چکی ہے اور وہ امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اجتماع کے دوسرے روز منعقد ہونے والی خواتین کانفرنس نے پاکستانی سیاست کے روایتی بیانیے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ جب ملک کی آبادی کا 50 فی صد حصہ کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم پر منظم، باوقار، پردہ نشین مگر پراعتماد نظر آیا تو یہ واضح ہو گیا کہ یہ جماعت محض مردوں کی تنظیم نہیں بلکہ خاندان کی مکمل حفاظت اور تعمیر کی تحریک ہے۔

کانفرنس میں پیش کیے گئے نکات نے خواتین کے مسائل کے حوالے سے جماعت کے واضح اور عملی ایجنڈے کو عیاں کیا۔ تعلیم کا حق: خواتین کو تعلیم دینا محض فرد کا حق نہیں بلکہ ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔ جماعت کا موقف ہے کہ بغیر معیاری تعلیم کے نہ تو خواتین اپنے حقوق سے آگاہ ہو سکتی ہیں اور نہ ہی معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔ وراثت کا مسئلہ: عورت کی وراثت پر ناجائز قبضہ محض گناہ نہیں بلکہ معاشرے کے خلاف ایک عظیم ظلم ہے۔ جماعت نے عہد کیا کہ وہ اسلامی قوانین کے مطابق خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی سطح پر کام کرے گی۔ بنیادی حقوق کا تحفظ: صحت، تحفظ، معاشی مواقع اور میراث جیسے بنیادی حقوق اسلامی نظام کا لازمی حصہ ہیں۔ جماعت کا کہنا ہے کہ ان حقوق کے بغیر خواتین کی مکمل شخصیت کا ارتقاء ناممکن ہے۔ پردہ اور وقار: باپردہ مگر باوقار کردار ہی معاشرے کو صحیح سمت دے سکتا ہے۔ جماعت کا مؤقف ہے کہ پردہ خواتین کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ ان کی حفاظت اور وقار کا ضامن ہے۔ یہ کانفرنس درحقیقت پاکستانی ریاست کو یہ یاد دہانی کروانے کا ذریعہ تھی کہ عورت محض ووٹ bank نہیں بلکہ معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔

اجتماعِ عام کی سب سے زیادہ حیران کن، متاثر کن اور امید جگانے والی تصویر پاکستانی نوجوانوں کی لاکھوں کی تعداد میں شرکت تھی۔ یہ وہ نوجوان تھے جو نہ تو کرائے پر لائے گئے تھے، نہ کسی دنیاوی لالچ کے تحت جمع ہوئے تھے، اور نہ ہی موسیقی، کھانے یا تفریح کے وعدے پر آئے تھے۔ بلکہ یہ سب کے سب صرف ایک نظریے، ایک سچائی اور ایک نئی امید کی تلاش میں اکٹھے ہوئے تھے۔ پورے پاکستان سے نوجوان قافلوں کی صورت میں اجتماع میں شریک ہوئے۔ ٹرینیں، بسیں اور دیگر گاڑیاں ان نوجوانوں سے بھری ہوئی تھیں جو اپنے علاقوں سے چل کر اس تاریخی اجتماع کا حصہ بننے آئے تھے۔ راتوں کے طویل سفر، دن کی تپتی دھوپ، موسم کی شدت، ان تمام مشکلات کے باوجود ان نوجوانوں کا عزم، نظم و ضبط اور شائستگی قابل رشک تھی۔ یہ منظر اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ پاکستان میں تبدیلی کا اصل کردار نوجوان ہیں اور وہ اب بیدار ہو چکے ہیں۔ ان نوجوانوں نے یہ واضح کر دیا کہ وہ ملک کی تبدیلی کے لیے پرعزم ہیں اور وہ اس جدوجہد میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو بے خوف ہو، شفاف ہو، عوام کے درد کو محسوس کرتی ہو، محنتی ہو، اور سب سے بڑھ کر کردار کی پاکیزگی کی حامل ہو۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر حافظ نعیم الرحمن نے چند سال میں وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو عام طور پر برسوں میں نصیب ہوتا ہے۔

حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، تعلیم جیسے بنیادی مسائل کے حل کے لیے عملی جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے محض تقریریں ہی نہیں کیں بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کرپشن اور لینڈ مافیا کے خلاف ہمیشہ دوٹوک موقف اپنایا ہے۔ ان کی اس بے باکی نے عوام میں ان کے لیے ایک خاص مقام پیدا کیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا نوجوانوں کے ساتھ حقیقی رابطہ ہے۔ وہ نوجوانوں کی زبان بولتے ہیں اور ان کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے جدید ترین ذرائع کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہے جس نے نوجوان نسل میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ ان کا طرز زندگی شفاف اور اسلامی اقدار کا عکاس ہے۔ ان کی ذاتی زندگی ان کے دعوؤں کی تصدیق کرتی ہے۔ وہ عوامی مسائل پر مسلسل جدوجہد کرتے ہیں۔ چاہے میڈیا کی توجہ حاصل ہو یا نہ ہو۔

ان تمام خصوصیات نے مل کر حافظ نعیم الرحمن کو محض جماعت اسلامی کا لیڈر نہیں بلکہ پاکستان کی واحد اْبھرتی ہوئی قومی قیادت کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ جماعت اسلامی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا سفر چند سالہ لہر یا موسمی تحریک نہیں بلکہ چار نسلوں پر محیط ایک فکری سفر ہے۔ اس کی بنیاد 1941 میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے رکھی تھی جن کا بنیادی مقصد امت سازی، کردار سازی، تربیت اور دین کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنا تھا۔ مودودی کے بعد میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، لیاقت بلوچ اور سراج الحق جیسی شخصیات نے جماعت کی قیادت سنبھالی۔ ان تمام قائدین نے قربانیوں اور مشکلات کے باوجود جماعت کو سنبھالا اور اسے آگے بڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی آج بھی نظریاتی استقامت کی حامل پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے۔ ہر دور میں جماعت نے اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر جدوجہد جاری رکھی۔ اس نظریاتی تسلسل نے جماعت کو پاکستان کی سیاست میں ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران سے گزر رہا ہے۔ دولت کا ارتکاز، کرپشن، مہنگائی، سیاسی انتشار، اداروں کی بے توقیری، معیشت کی تباہ حالی، نوجوانوں میں مایوسی اور قومی اتحاد کی شدید کمی۔ یہ سب مسائل مل کر قوم کی بقا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں جماعت اسلامی کا یہ تاریخی اجتماع درحقیقت ایک اعلان تھا: ’’ہم اس نظام کو بدلنے کے لیے تیار ہیں اور ہمارے پاس نظریہ بھی ہے، کردار بھی، قیادت بھی اور عوامی اعتماد بھی‘‘۔ جماعت نے اس اجتماع کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا کہ وہ نہ صرف موجودہ بحران کے حل کے لیے واضح لائحہ عمل رکھتی ہے بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اجتماعِ عام محض ایک دینی یا سیاسی اجتماع نہیں تھا؛ یہ ایک اعلان تھا کہ پاکستان میں اب نئی سیاست جنم لے رہی ہے۔ وہ سیاست جو نظریے، کردار، نظم اور عدل پر کھڑی ہے۔ یہ اجتماع اس بات کا زندہ ثبوت تھا کہ: قوم بیدار ہو چکی ہے، عوام اب خواب غفلت سے بیدار ہو چکے ہیں اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ نوجوان نسل محض تماشائی نہیں رہی، وہ تبدیلی کے اصل محرک بننے کے لیے تیار ہیں۔ خواتین اب سیاسی عمل میں محض ووٹر نہیں بلکہ فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عالمی سطح پر اسلامی تحریکیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو رہی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی واحد امید بن کر سامنے آ رہی ہے۔ اس اجتماع نے پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ نظامِ نو کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ پاکستان بدلنے والا ہے اور اس تبدیلی کا مرکز جماعت اسلامی ہے۔ یہ اجتماع درحقیقت ایک نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر کا پہلا قدم ثابت ہوگا۔

میر بابر مشتاق سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت کی نظر صرف ICCBS پر نہیں کراچی یونیورسٹی کی پوری زمین پر ہے، منعم ظفر
  • جماعت اسلامی کی سندھ حکومت پر تنقید؛ جامعہ کراچی کی زمین اور ICCBS قانون پر شدید تحفظات
  • صیہونی قبضے تک ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے، حزب‌ الله
  • صیہونی رژیم کا ریڈ لائن سے عبور
  • پاکستان میں بے روزگاری کا طوفان: 56 لاکھ لوگ بے روزگار، خیبر پختونخوا سب سے آگے
  • اجتماعِ عام؛ ایک نئے دور کا نقطہ ٔ آغاز
  • ایک بڑی کارروائی اور حزب اللہ کا فیصلہ!
  • عظیم پاکستانی قوم کو رہبرِ معظم انقلاب اسلامی ایران کی طرف سے سلام پیش کرتا ہوں، علی لاریجانی
  • غزہ جنگ بندی کے بعد امارات اور اسرائیل کے امن ریلوے منصوبے پر کام تیز
  • ملبے سے اسرائیلی یرغمالی کی لاش برآمد، آج حوالے کی جائے گی، حماس