ٹریفک کے بڑھتے مسائل اور ای چالان
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
صوبہ پنجاب میں ٹریفک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے صوبائی موٹروہیکل آرڈیننس1965 میں اہم ترامیم متعارف کرادی گئیں، گورنر پنجاب نے صوبائی موٹر وہیکلز (چوتھی ترمیم) آرڈیننس2025جاری کردیا جو فوری نافذ ہوگا۔ٹریفک پولیس کے مطابق جرمانوں میں اضافے کا مقصد شہریوں کو قوانین کی پابندی کا پابند بنانا ہوگا اور سڑکوں میں حادثات کی شرح میں کمی لانا ہے۔ اب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے ہوں گے۔دوسری جانب کراچی ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ ای چالان اور بھاری جرمانوں کی بدولت شہر میں ٹریفک کے جان لیوا حادثات میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔
پا کستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس ہزار افراد ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہر برس موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ان کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان بھر میں صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا سر فہرست ہیں جب کہ شہروں کا موازنہ کیا جائے تو کراچی اور لاہور میں ٹریفک حادثات کا تناسب سب سے اوپر ہے۔فیصل آباد، اسلام آباد، ملتان، پشاور، کوئٹہ، حیدرآباد، کراچی سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، بسوں، رکشہ اور مسافر گاڑیوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔پاکستان میں ٹریفک حادثات کی بنیادی وجوہات میں سر فہرست تیز رفتاری ہے۔ 80 سے 90 فیصد حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ دوسری بنیادی وجہ ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنا ہے۔
پاکستان میں ٹریفک کا حال اتنا بگڑ چکا ہے کہ کسی سلجھے ہوئے ڈرائیور کے لیے یہاں کی سڑکوں پر ڈرائیونگ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ آپ کسی ڈرائیور سے کچھ دیر ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر بات کر کے دیکھ لیں۔ مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔ جہاں سڑکوں کا حال آہستہ آہستہ کافی بہتر ہوتا جا رہا ہے وہیں بے ہنگم ٹریفک کا رش بھی اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ سڑک پر کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام ہونے لگا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ حادثات کی منحوس خبریں میڈیا پر نشر نہ ہوتی ہوں۔ موٹر سائیکل، رکشہ تانگہ، گدھا گاڑی، ٹریکٹر، کار، بس اور بڑی بڑی ہیوی ٹریفک سبھی اپنی اپنی منزل پانے کے لیے انھی سڑکوں کا استعمال کر تے ہیں۔
خاص کر کراچی، حیدرآباد، لاہور، راولپنڈی، اور اس طرح کے دوسرے بڑے شہروں میں یہ مسئلہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ شہروں کی بڑی آبادی ہونے کے باوجود سڑکوں کو شہری ضروریات کے مطابق اب بھی پورا نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنسے لوگ روز ہی اس مصیبت سے دوچار رہتے ہیں۔ پھر سڑکوں پر آئے دن گاڑیوں کا خراب ہونا، ایکسیڈنٹ ہونا، گدھا گاڑیوں کی کم رفتار، سائیکل، موٹر سائیکل کا اچانک سڑک کے بیچوں بیچ آجانا، پیدل چلنے والے حضرات کا اچانک تیز رفتار گاڑیوں کے سامنے سے سڑک پار کرنا، سڑکوں پر آئے دن جلوس نکالنا وغیرہ، کی وجہ سے ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے اور ڈرائیورز کا ٹریفک کے قوانین سے لاعلم ہونا معاشرے کا دردِ سر بنتا جا رہا ہے۔ اسی طرح ماحول میں پلوشن بھی اس ٹریفک کی وجہ سے اتنا بڑھ گیا ہے کہ کئی لوگوں کو گلے اور آنکھوں کی سوزش رہنے لگی ہے۔
بچے اس بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے نہ تو اسکول سیفٹی کے ساتھ آجا سکتے ہیں اور نہ ہی باہر کھیل سکتے ہیں جو بچوں کی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ رات کی ٹریفک میں ہیڈ لائٹز کا استعمال جو کہ باقی ساری دنیا میں ایک سنگین جرم ہے، وطن ِ عزیز میں بلا خوف و خطر کیا جاتا ہے جس سے سامنے سے آنے والی گاڑی کے ڈرائیور کی آنکھوں میں روشنی کی شدت سے ڈرائیور کے لیے گاڑی چلانا شدید خطرہ بن جاتا ہے۔ سڑکوں کا کہیں بہت بڑا ہونا اور کہیں اچانک بہت چھوٹا ہونا بھی ٹریفک کے حادثات کا باعث بن رہا ہے اکثر ہائی وے پر جمپس بنا کر ٹریفک کے لیے مزید خطرات پیدا کیے گئے ہیں۔ ہائی ویز کو شہروں کے بیچو بیچ گزار کر شہروں کی فضا کو بے جا آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ شہروں میں بلاوجہ کا ٹریفک جام کیا گیا ہے اور شہریوں کی جانوں کو خواہ مخواہ خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ ہائی وے پر پڑے گڑہوں اور بارشوں یا سیوریج سے جمع ہونے والے پانی سے بے شمار حادثات ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، شہر بے مثال شرح سے پھیل رہے ہیں۔ آبادی کی اس آمد نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے سڑکوں پر بھیڑ بھاڑ اور نقل و حمل کا نظام تناؤ کا شکار ہے۔گنجان آباد علاقوں میں موجودہ روڈ نیٹ ورک ٹریفک کے حجم کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہے۔ تنگ سڑکیں، ناکافی لین اور مناسب اشارے کی کمی رش اور حادثات کا باعث بنتی ہے۔
ٹریفک مینجمنٹ کے غیر موثر طریقے مسئلے کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ ٹریفک سگنل کے متضاد اوقات، پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے مخصوص لین کا فقدان اور نفاذ کے لیے اہلکاروں کی عدم موجودگی یہ سب سڑکوں پر افراتفری کا باعث بنتے ہیں۔ ڈرائیوروں کے درمیان ٹریفک کے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرنا، بشمول لاپرواہی سے گاڑی چلانا، لین کا رخ موڑنا اور سگنلز پر عمل نہ کرنا، اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔گاڑیوں کارش: سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، خاص طور پر پرائیویٹ کاریں اور موٹربائیکس، نقل و حمل کے نظام پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ایک ناکافی اور ناقابل بھروسہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بہت سے لوگوں کو پرائیویٹ گاڑیوں پر انحصار کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس سے بھیڑ میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ٹریفک حادثات کے حوالے سے ایشیائی ممالک میں بھارت سر فہرست ہے اور پاکستان کا دوسرا نمبر، کیونکہ دونوں ممالک کے عوام اور ان کے مسائل میں کوئی خاص فرق نہیں ہے جب کہ دنیا بھر میں پاکستان 95 ویں نمبر پرہے۔
ان حادثات کی وجہ سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بنتے ہیں تو دوسری جانب لاکھوں افراد ساری زندگی کیلیے ذہنی یا کسی نا کسی جسمانی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ملکی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اول تو بہت کم لوگ حقیقی معنوں میں ان قوانین سے واقف ہیں،اکثریت ان قوانین سے نابلد ہے لیکن اگر کوئی شخص جانتا بھی ہو تو دوسروں کی دیکھا دیکھی وہ بھی ٹریفک قوانین کو توڑنا باعثِ فخر سمجھتا ہے۔ نیز بغیر لائسنس کے گاڑی چلانا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کم عمری میں والدین گاڑی اور موٹر سائیکل وغیرہ اپنے بچوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
کراچی ایک میگا سٹی ہے اور اس کے مسائل بھی اسی لیے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں، کراچی کو اربوں روپے کا بجٹ تو ملتا ہے، لیکن وہ پیسا کہاں جاتا ہے، یہ کسی کو نہیں معلوم ہوتا، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر نہ صرف ٹریفک روانی متاثر ہوتی ہے، بلکہ حادثات بھی زیادہ ہوتے ہیں، ٹریفک پولیس کی جانب سے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوشش توکی جاتی ہے، لیکن انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے ٹریفک جام کے مسئلے اور حادثات آئے دن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ کراچی شہر کی مین شاہ راہیں ہوں یا پھر مختلف علاقوں کی سڑکیں، ان پرٹریفک جام کا مسئلہ تو اپنی جگہ لیکن ٹریفک حادثات بھی روز بروز زیادہ رپورٹ ہوتے جارہے ہیں۔
شارع فیصل، یونی ورسٹی روڈ،اسٹیڈیم روڈ، لیاقت آباد فلائی اور، لکی اسٹار،جوہر موڈ،جوہر چورنگی،راشد منہاس روڈ، گلشن چورنگی، فائیو اسٹار، سائٹ ایریا روڈ، غنی چورنگی، کورنگی انڈس چورنگی،ماڑی پور روڈ، قیوم آباد سگنل، ڈیفنس موڑ، آئی آئی چندریگر روڈ، فوارہ چوک، میٹروپول یا کوئی ہی شاہد ایسی اہم سڑک یا علاقہ نہیں ہوگا، جہاں ٹریفک جام کی پریشانی یا حادثات نہ ہورہے ہوں، کہیں ترقیاتی کام نامکمل ہونے کی وجہ سے سڑکیں نامکمل رہتی ہیں، تو کہیں سڑکوں کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں،سڑکوں کی حالت تو پتا نہیں کب درست ہوگی، لیکن شہر میں ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے بھی بہتر سے بہتر حکمت عملی تیار کر لینی چاہیے۔
ٹریفک پولیس، میونسپل اتھارٹیز، اور شہری منصوبہ بندی کے محکموں سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان موثر تعاون ٹریفک مینجمنٹ کی حکمت عملیوں کو نافذ کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔پاکستان کو ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو بنیادی ڈھانچے اور طرز عمل دونوں پہلوؤں سے اس مسئلہ کو حل کر سکے۔ قلیل مدتی اقدامات اور طویل مدتی حکمت عملیوں کے امتزاج پر عمل درآمد کرکے، پاکستان اپنے شہروں کو زیادہ موثر اور رہنے کے قابل جگہوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹریفک قوانین ٹریفک حادثات ٹریفک پولیس موٹر سائیکل حادثات کی قوانین کی ٹریفک جام میں ٹریفک کی وجہ سے جا رہا ہے سڑکوں پر ٹریفک کے رہے ہیں ہے اور گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں ای چالان کے نفاذ کے 30 روز مکمل، اعداد و شمار آگئے
فائل فوٹوکراچی میں ای چالان کے نفاذ کے 30 روز مکمل ہوگئے، اب تک شہر قائد میں کتنے افراد کا چالان کیا جاچکا ہے؟ اعداد و شمار آگئے ہیں۔
کراچی میں ای چالان کے نفاذ کا ایک ماہ مکمل ہوگیا، اب تک ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر 93 ہزار سے زائد چالان کیے جاچکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق کیمروں کی مدد سے سب سے زیادہ 57 ہزار 541 چالان سیٹ بیلٹ نہ لگانے پر کئے گئے۔
ٹریفک پولیس حکام کے مطابق 22 ہزار 227 موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان کئے گئے۔
اس حوالے سے رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ڈمپر ٹریلر اور واٹر ٹینکر میں نصب ٹریکر کی مدد سے تیز رفتاری پر 1 ہزار 188 چالان ہوئے ہیں۔
تیز رفتاری پر دیگر گاڑیوں کے جو چالان کئے گئے اُن کی تعداد 2699 ہے جبکہ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر 3 ہزار 102 چالان کئے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فینسی نمبر پلیٹ نصب ہونے پر 1 ہزار 278 جبکہ رنگین شیشوں کی حامل 1178 گاڑیوں کے چالان کئے گئے۔
اعداد و شمار کے مطابق اسٹاپ لائن کی خلاف ورزی پر611 اوررانگ وے گاڑی چلانے پر 426 چالان جاری کئے گئے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے مطابق سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر 57 کروڑ 54 لاکھ 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق ہیلمٹ نہ پہننے پر بائیک سواروں کو 11 کروڑ 11 لاکھ 35 ہزار روپے جرمانہ ہوا جبکہ رنگین شیشے والی گاڑیوں کو 2 کروڑ 94 لاکھ 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔