ایک فراموش شدہ قومی ہیرو
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
26 جنوری1931،کیمرج میں سخت سردی پڑ رہی تھی، جب ہندوستان کے صوبہ پنجاب سے آنے والا لانبے قد، اکہرے بدن اور نسبتاً پختہ عمرکا یہ نوجوان عمانویل کالج میں نووارد طالب علم کی حیثیت سے داخل ہوا۔ کون جانتا تھا کہ اب اس کی ساری زندگی اسی شہر میں گزرے گی، اور یہی سرزمین اس کا ابدی مسکن ٹھہیرے گی۔
کیمرج پہنچنا اس نوجوان کے لیے چنداں آسان نہیں تھا۔ ضلع ہوشیار پور کے گاؤں موہراں کی دیہی فضا سے نکل کر پہلے وہ لاہورآیا تھا۔ اسلامیہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے اخراجات کا بندوبست کرنے کے لیے اگلے بارہ سال اس شہر میں دن رات مشقت کی تھی۔
اس جدوجہد میں نہ کبھی گھر بنانے کا خیال آیا، نہ گھر بسانے کے۔ کیمرج یونیورسٹی کے قواعد کی رو سے انڈرگریجوایٹ طلبہ کے لیے ہوسٹل میں رہنا لازم تھا، مگر جب اس نوجوان نے اپنی مجبوری بیان کی کہ وہ ہوسٹل کا خرچہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا، تو اسے شہر کے نواح میں کوئی کمرہ لے کر رہنے کی اجازت دے دی گئی ۔ یہ کمرےdigs کہلاتے تھے، جو پرانی آبادیوں میں مکانوں کے اندر ہی ہوتے، اور ضرورت مند لوگ انھیںکرایہ پر دے دیتے تھے۔
ریکارڈ کے مطابق 1932 میں یہ طالب علم 3 ہمبرسٹون روڈ پر مقیم تھا، اسٹریٹ میں داخل ہوں تو بائیں طرف دوسرا مکان۔ مورخ کے کے عزیز تحقیقی جستجو میں1971 میں یہ مکان دیکھنے گئے اور اس علاقہ کو گمبھیر خاموشی میں ڈوبا ہوا پایا تو سوچنے لگے کہ 1932-33 میں تو یہاں اس سے زیادہ گہری چپ کا راج ہو گا۔ یہی وہ تاریخی مکان ہے، جس کے اندر کرایہ کے ایک سنگل بیڈ کمرے میں، بشارت کے کسی وقت، اس طالب علم چوہدری رحمت علی نے تنہا بیٹھ کرNow or Never پمفلٹ قلمبند کیا، جس سے دنیا کو پہلی بار لفط ’’پاکستان‘‘ اور اس نام سے مستقبل قریب میں معرض وجود میں آنے والی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی جغرافیائی حدود اور اس کے نظریاتی خال و خد سے کامل آگاہی حاصل ہوئی، یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
یہ وہ زمانہ ہے، جب لندن گول میز کانفرنسوں میں برطانیہ کے زیر سایہ انڈین فیڈریشن کو ابدی حقیقت سمجھ کر اسی کے اندر نئی اصلاحات پر پخت و پز جاری تھی۔ مسلم زعماء بھی یہی کہتے پائے جاتے کہ کوئی ہوش مند مسلمان برطانوی دولت مشترکہ سے باہر شمال مغربی ہندوستان میںآزاد مسلم ریاست کے منصوبہ کو قابل عمل نہیں سمجھتا۔ مگر بقول چوہدری رحمت علی، انھیں ان دنوں جیسے کوئی غیر مرئی طاقت حکم دے رہی تھی کہ وہ ہندوستانی وفاق کو چیلنج کریں اور آزاد مسلم ریاست ’پاکستان‘ کا مقدمہ لڑیں۔ برطانیہ اور ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں ’ اب یا کبھی نہیں‘ کا واضح اور دوٹوک پیغام کسی بھونچال سے کم نہ تھا۔
اس پمفلٹ میں پاکستان کے حق میں جو تاریخی، مذہبی، سیاسی اور قانونی دلائل دیے گئے، وہ اتنے بھرپور اور مکمل تھے کہ اس کے بعد خود مسلم لیگ ان کے اندر قیام پاکستان تک کوئی اضافہ نہ کر سکی اور انھی کو دہراتی رہی۔ ’پاکستان‘ کے نام سے آزاد مسلم ریاست کی اسکیم پیش کرنے کے بعد چوہدری رحمت علی خاموش بیٹھ نہیں گئے، بلکہ اس خاکہ میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ’پاکستان نیشنل موومنٹ‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد بھی رکھ دی۔ دیکھنے والے دیکھتے تھے کہ ہندو سیاست دان اس اسکیم کو کیمرج کے چوہدری رحمت علی اور ان کے ساتھی طلبہ کا بچکانہ مطالبہ قرار دے رہے تھے۔ وجہ یقینی طور پر یہ تھی کہ پہلی بار پنجاب، کشمیر، سندھ، سرحد، بلوچستان پر مشتمل آزاد مسلم مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، جو ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم کو اس نازک مرحلہ پر بھرپور غیبی مدد اس طرح پہنچی کہ اس عرصہ میں شہرت یافتہ ترکی ادیبہ اور صحافی خالدہ ادیب نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ 1937میں اس کی روداد پر مشتمل ان کی کتاب Inside India منظر عام پر آئی، تو اس کے اندر کیمرج میں مقیم پاکستانی اسکیم کے خالق چوہدری رحمت علی کے ساتھ ان کا طویل مکالمہ بھی شامل تھا۔ ہندوستان کے باقی مسلم راہ نماؤں کو اس نے کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ چوہدری رحمت علی نے اس انٹرویو میں پاکستانی اسکیم کو مزید شرح و بسط سے پیش کیا، اور اسے ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسائل کا واحد مستقل حل قرار دیا۔
اس کتاب کی وساطت سے چوہدری رحمت علی کا پیغام برطانیہ اور ہندوستان، بلکہ اس سے باہر ان حلقوں تک بھی پہنچ گیا، جہاں عام حالات میں پہنچنا ناممکن تھا۔کتاب اور مکالمے کا ترجمہ ہندوستان کے کثیر الاشاعت اردو اخبارات میں شائع ہوا، تو ہر ہندوستانی مسلمان کو ’پاکستان‘ اپنی روح کی پکار محسوس ہوا۔ 1940ء کی قرار داد لاہور میں اس کی بازگشت صاف سنی جا سکتی ہے۔ حقیقتاً، ’اب یا کبھی نہیں‘ اور قرارداد لاہور میں اسی ہم آہنگی کے باعث ہندو پریس نے ’قرارداد لاہور‘ کو ’قرارداد پاکستان‘ قرار دیا اور شدومد سے اس کی مخالفت شروع کردی تھی؛ اور، یہیں سے اس کہانی کا دوسرا اور دلخراش دور شروع ہوتا ہے۔
مسلم لیگ خاص طور پر پنجاب کی جاگیردارقیادت، جو زیادہ تر یونی نسٹوں پر مشتمل تھی، پاکستانی اسکیم کا کریڈٹ ہندوستان سے دورکیمرج میں کرایے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شب و روز کرنے والے چوہدری رحمت علی کو دینے پر تیار نہ تھی، جن کے قلب پر پہلی بار یہ خدائی منصوبہ منکشف ہوا تھا۔ چنانچہ 1940 میں وہ ہندوستان آئے، تو یونینسٹ حکومت نے انھیں پنجاب کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا۔ 1948 میں وہ کیمرج سے سب کچھ سمیٹ کر اپنے خوابوں کی جنت پاکستان میں آ گئے تھے، لاہور میں گھر کا بندوبست بھی ہو گیا تھا، لیکن قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد حکومت کے نامناسب سلوک سے دل برداشتہ ہو کر بوجھل دل کے ساتھ واپس کیمرج لوٹ گئے۔
ان کی پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرنے کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ بحری راستے سے کراچی پہنچنے والا ان کے گھر کا قیمتی سامان کراچی اور لاہور ہی میں کہیں رل گیا، ’سحر آئی بھی تو لائی اس چراغ کی موت، جو ساری رات سلگتا رہا سحرکے لیے‘۔ جرم کیا تھا ؟محض یہ کہ وہ متحدہ پنجاب اورکشمیر کے بغیر پاکستان کو ادھورا سمجھتے اور تقسیم ہندوستان کے منصوبہ کو من و عن قبول کرنے پر مسلم لیگی قیادت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔
چوہدری رحمت علی یوں تو زندگی بھر تنہا رہے، مگر جن حالات میں انھیں پاکستان چھوڑنا پڑا، اس کے بعد وہ خودکو حقیقتاً بہت اکیلا، بے بس اور لاوارث محسوس کر تے تھے، مگر پاکستان اب بھی ان کی پہلی اور آخری محبت تھا۔ جنوری 1950 میں قوم کے لیے آخری پیغام تحریر کیا، تو اس میں بھی ہموطنوں کو درپیش چیلنجوںسے خبردارکیا اور بڑے مخلصانہ مشورے دیے۔ ان کی صحت مگر مسلسل گرتی جا رہی تھی ۔یہ29 جنوری1951، کی سرد شام تھی۔ کیمرج میں تیز کاٹ دار ہوا کے ساتھ ساتھ مسلسل بونداباندی ہو رہی تھی۔ Miss Watson نے ناگہاں باہر دیکھا تو ان کے سابق کرایہ دار چوہدری رحمت علی، جو پاکستان سے واپسی کے بعد دنوں اور ہفتوں میں بوڑھے ہو رہے تھے، لیٹر بکس سے حسب معمول اپنی ڈاک نکال رہے تھے۔ اس روز اس کے پاس نہ چھتری تھی اور نہ وہ اوورکوٹ پہنے ہوئے تھا۔
انگریز خاتون نے قدرے ڈانٹ کے کچھ دیر آتشدان کے پاس بیٹھ جانے کے لیے کہا، مگر وہ ڈاک لے کر اسی طرح بارش میں بھیگتے ہوئے واپس چل دیے۔ اپنے کمرے میں پہنچتے پہنچتے سردی رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی۔ یہاں بھی مالک مکان انگریز خاتون ہی نے انھیں قریبیEvelyn نرسنگ ہوم میں داخل کرایا، گراونڈ فلور پر اندرجاتے ہی بائیں جانب پہلا کمرہ، جس کی کھڑکی اتفاق سے ان کی محبوب درس گاہ کیمرج یونیورسٹی کی طرف کھلتی تھی۔
عمانویل کالج میں ان کے شفیق استاد Welbourne کو معلوم ہوا کہ ان کا پاکستانی طالب علم رحمت علی باٹنی گارڈن سے متصل نرسنگ ہوم میں بے کسی کے عالم میں مر رہا ہے، تو تڑپ اٹھے، فوراً اسپتال پہنچے، اس کے علاج کا خرچہ اپنے ذمہ لیا، بلکہ اس کی وفات کے بعد تجہیز و تکفین کا بندوبست بھی کیا اور اس کے اخراجات بھی ادا کیے۔ آخری وقت میں کوئی ہموطن دو بول ہمدردی کے کہنے کے لیے بھی نہیں آیا، جان و جہاں سے گزرا میں میرؔ جن کی خاطر، بچ کر نکلتے ہیں وے میرے مزار سے بھی۔ پندرہ روز تک کوئی رشتہ دار، دوست اور ہموطن نہ پہنچا، تو کیمرج نے چوہدری رحمت علی کو اس طرح اپنی مہربان آغوش میں سمیٹ لیا کہ پھر کبھی خود سے جدا نہیںہونے دیا، وہی کیمرج شہرکی خنک سرزمین جہاں برسوں پہلے وہ ایک نووارد طالب علم کی حیثیت سے آئے تھے۔
زکوئے یار بیار اے نسیم صبح غبارے
کہ بوئے خون دل ریش ازاں غبار شنیدم
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چوہدری رحمت علی ہندوستان کے کیمرج میں طالب علم رہی تھی کے ساتھ کے اندر کے لیے اور اس کے بعد
پڑھیں:
علی لاریجانی کی صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات
پاکستان پہنچنے کے بعد لاریجانی نے تہران اور اسلام آباد کے تاریخی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان کا باہمی تعاون مختلف شعبوں میں خطے کے امن و سکون میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل کے سیکرٹری، علی لاریجانی نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے شعبہ خارجہ پالیسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل کے سیکرٹری نے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق اور پاکستان کے نائب وزیرِاعظم و وزیرِ خارجہ محمد اسحاق ڈار سے بھی ملاقات اور مشاورت کی تھی۔ پاکستان پہنچنے کے بعد لاریجانی نے تہران اور اسلام آباد کے تاریخی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان کا باہمی تعاون مختلف شعبوں میں خطے کے امن و سکون میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔