Express News:
2025-11-27@22:43:15 GMT

ظلم نہیں عدل و انصاف کی جہاں گیری

اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT

دنیا کا کوئی بھی معاشرہ انصاف، مساوات اور امن و عدل کے بغیر پائیدار نہیں رہ سکتا۔ ظلم ایک ایسی زہریلی آگ ہے جو نہ صرف افراد کے دلوں کو جلا دیتی ہے بلکہ پورے سماجی ڈھانچے کو بھی کھوکھلا کر دیتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جنھوں نے عدل و انصاف کو اپنا شعار بنایا، ترقی و خوش حالی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ گئیں، اور وہ قومیں جنھوں نے ظلم، ناانصافی اور جبر کو اپنی روش بنا لیا، بالآخر ذلت و تباہی کا شکار ہوگئیں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو سراسر عدل، رحمت اور انسانیت کا علم بردار ہے۔

اسلام میں عدل و انصاف کی اہمیت

قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر عدل کی تاکید کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم:

’’بے شک! اﷲ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل)

یہ آیت اسلامی معاشرتی نظام کی بنیاد ہے۔ عدل صرف عدالتوں یا حکم رانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر فرد کی زندگی کا اصول ہے۔ کسی کی حق تلفی، جھوٹا الزام، ناپ تول میں کمی، یا کسی کم زور پر طاقت کے زور سے دباؤ ڈالنا، یہ سب ظلم کی صورتیں ہیں جنھیں اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ظلم سے بچو، کیوں کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی شکل میں ظاہر ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری) اس ارشادِ نبوی ﷺ سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم نہ صرف دنیا میں فساد و تباہی لاتا ہے بلکہ آخرت میں بھی سخت وبال کا باعث بنے گا۔

ظلم کی مختلف صورتیں:

ظلم محض کسی کو جسمانی نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اس کی کئی صورتیں ہیں۔

معاشی ظلم: جب دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے، مزدور کا حق دبایا جائے، یا زکوٰۃ و صدقات کے نظام کو نظر انداز کیا جائے تو یہ ظلم کی ایک بڑی شکل ہے۔

سماجی ظلم: ذات پات، نسل، رنگ یا زبان کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنا، خواتین یا اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنا بھی ظلم ہے۔

سیاسی ظلم: جب حکم ران اپنی طاقت کو عوام کے مفاد کے بہ جائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کریں، قانون کو کم زور کے خلاف اور طاقت ور کے حق میں موڑ دیں، تو یہ بدترین ظلم ہے۔

روحانی ظلم: جب انسان اپنے خالق کی بندگی چھوڑ کر گناہوں، بدعات یا الحاد میں مبتلا ہو جائے، تو یہ بھی ظلم کی انتہا ہے، کیوں کہ قرآن کے مطابق: ’’شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘

ظلم کے معاشرتی اثرات

ظلم ایک معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جب کسی قوم میں انصاف ختم ہو جاتا ہے تو وہاں اعتماد، محبت اور بھائی چارہ مٹ جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، اور نظامِ زندگی بکھر کر رہ جاتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روم، فارس، اور اندلس جیسی طاقت ور سلطنتیں ظلم و ناانصافی کے سبب ہی زوال پذیر ہوئیں۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان ہے

’’ریاست کفر کے ساتھ باقی رہ سکتی ہے، لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔‘‘

یہ جملہ اسلامی سیاسی فکر کی اساس ہے۔ ایک معاشرہ اگر عدل پر قائم ہو، تو چاہے اس کے لوگ اخلاقی طور پر کم زور کیوں نہ ہوں، وہ کچھ نہ کچھ دیر تک باقی رہتا ہے، لیکن جہاں ظلم رائج ہو وہاں تباہی لازم ہے۔

اسلامی معاشرت کا اصول، عدل و احسان

اسلام نے ایک متوازن معاشرہ قائم کرنے کے لیے عدل کے ساتھ احسان کا بھی حکم دیا۔ عدل کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے، اور احسان کا مطلب ہے کہ اس سے بڑھ کر بھلائی کی جائے۔ اگر کسی کے ساتھ ناانصافی ہو تو معاشرہ اس کا مداوا کرے، اور اگر کسی کے ساتھ ظلم ہُوا ہو تو ریاست اور فراہمی انصاف کے ادارے اس کے دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

قرآن میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’اور ظالموں کی طرف جھکاؤ مت رکھو، ورنہ تمہیں آگ چُھو لے گی۔‘‘ (ہود) یہ آیت نہایت واضح پیغام دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی گناہ ہے۔ معاشرے میں ظلم اس وقت بڑھتا ہے جب لوگ اسے روکنے کے بہ جائے برداشت کرنے لگتے ہیں۔

اسلام صرف انفرادی عبادت کا نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری کا بھی دین ہے۔ جب کوئی شخص ظلم کرتا ہے، تو اگر باقی لوگ خاموش رہیں، تو وہ بھی اس ظلم میں شریک سمجھے جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اگر تم کسی ظالم کو ظلم کرتے دیکھو اور اس کا ہاتھ نہ روکو تو اﷲ تم سب کو ایک عذاب میں مبتلا کر دے گا۔‘‘ (ترمذی)

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا تصور دیا گیا ہے۔ اگر یہ جذبہ ختم ہو جائے تو ظلم خود بہ خود عام ہو جاتا ہے۔

آج کی دنیا میں ظلم کی صورتیں پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگئی ہیں۔ طاقت ور طبقات نے قانون، ذرائع نشر و اشاعت اور معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے، عام آدمی کے لیے انصاف حاصل کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ ممالک میں طاقت ور حکم ران اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے ظلم و جبر کا سہارا لیتے ہیں۔ کارپوریٹ نظام میں غریب مزدور کی محنت کا صلہ نہیں ملتا، جب کہ چند لوگ اربوں روپے کما لیتے ہیں۔ نشر و اشاعت کے ادارے سچائی کے بہ جائے مفادات کی زبان بولتے ہیں، جو ظلم کی ایک نئی شکل ہے۔ خواتین، اقلیتیں اور نادار طبقات آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اسلامی معاشرہ ان سب ناانصافیوں کے خلاف کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ عدل و انصاف قائم کرنے کے قرآنی اصول قرآن مجید نے عدل کے قیام کے لیے چند بنیادی اصول بیان کیے ہیں: مفہوم: ’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے بنو، اﷲ کی خاطر گواہی دو، اگرچہ اپنے آپ یا والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (النساء)

حکومت کی ذمہ داری

مفہوم: ’’بے شک! اﷲ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل کے سپرد کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو عدل سے کرو۔‘‘ (النساء)

طاقت ور اور کم زور کے درمیان مساوات

نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔‘‘ (بخاری) یہ مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔

ظلم کے خاتمے کے لیے صرف باتیں کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔

تعلیم اور شعور کی بیداری سب سے پہلا قدم ہے۔ جب لوگ اپنے حقوق اور دوسروں کے حقوق پہچانیں گے تو ظلم کم ہوگا۔ عدالتی نظام کو مضبوط بنانا ضروری ہے تاکہ کسی مظلوم کو انصاف کے لیے سال ہا سال انتظار نہ کرنا پڑے۔ علماء، ادیبوں، سماجی و سیاسی راہ نماؤں، دانش ور اور صحافیوں کو سچ بولنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔ ہر فرد کو اپنے دائرۂ اختیار میں انصاف اور دیانت کو اپنانا چاہیے۔ ظلم پر خاموشی بھی جرم ہے۔ جب ہم ظلم کو دیکھ کر چپ رہتے ہیں، تو ہم دراصل ظالم کے حامی بن جاتے ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ایمان کی علامت ہے۔

اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ ’’معاشرہ ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتا۔‘‘ ظلم بالآخر تباہی ہی لاتا ہے۔ عدل و انصاف پر قائم معاشرہ ہی پائیدار ہوتا ہے، جہاں ہر شخص کو برابری، احترام اور امن میسر ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنے، تو ہمیں ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا۔ عدل و احسان کا نظام قائم کرنا ہی اسلام کی روح ہے، اور یہی کام یابی کا راستہ ہے۔ مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے انصاف پر مضبوطی سے قائم رہو، اور عدل کی گواہی دو۔‘‘ (المائدہ) اسلام نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی دعوت دی ہے جو عدل، رحم، اور برابری پر قائم ہو۔ اگر ہم قرآن و سنت کے اصولوں کو اپنالیں تو نہ صرف ظلم ختم ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عدل و انصاف احسان کا جاتا ہے کے خلاف کے ساتھ ظلم کے کے لیے ظلم کی

پڑھیں:

نواز شریف کی اور مریم نواز کی تقریر پر پاکستان تحریک انصاف کا نکتہ با نکتہ جواب

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے قائد ن لیگ نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی حالیہ تقریروں پر نکتہ بہ نکتہ جواب دیتے ہوئے انہیں اپنی سیاسی اور اخلاقی شکست تسلیم نہ کرنے اور جھوٹے بیانات دینے کا الزام دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان صرف اکیلا مجرم نہیں، اس کو لانے والے اس سے بھی بڑے مجرم ہیں، نواز شریف

پی ٹی آئی کے مطابق نواز شریف 1990 کی دہائی کے فرسودہ بیانات کو دہرارہے ہیں، حالانکہ 2024 کے انتخابات میں عمران خان کی کارکن ڈاکٹر یاسمین راشد نے انہیں جیل میں بیٹھ کر شکست دی، جسے فارم 47 میں اوور رائٹنگ اور دھاندھلی کے ذریعے تبدیل کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے کہا کہ ایک مصنوعی مینڈیٹ رکھنے والا شخص دوسروں پر انگلی اٹھانے کا حق نہیں رکھتا اور نواز شریف کا سیاسی وجود آمریت کی پیداوار ہے۔

’مریم نواز کی سیاست صرف فوٹو سیشن پر مشتمل ہے‘

پاکستان تحریک انصاف نے مریم نواز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، کہا کہ وہ کبھی انتخابی میدان میں سیاسی جدوجہد نہیں کر سکیں، اور ان کی سیاست صرف جعلی ٹرسٹ ڈیڈز اور سوشل میڈیا فوٹو سیشنز پر مشتمل ہے۔ عوام نے انہیں عمران خان کی کارکن کے مقابلے میں مسترد کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی نے پاکستان کی موجودہ اقتصادی تباہی کے ذمہ دار بھی سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو قرار دیا، جنہوں نے منی لانڈرنگ اور مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت روک کر ملک کو مالیاتی بحران میں دھکیل دیا۔ اس کے نتیجے میں موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا۔

’عمران خان کے دور میں ریکارڈ ترقی ہوئی‘

تحریک انصاف نے کہا کہ 2018 سے 2022 تک عمران خان کی حکومت نے ملکی معیشت میں ریکارڈ ترقی کی، کورونا کے دوران GDP نمو تقریباً 6 فیصد رہی، ٹیکس کلیکشن میں اضافہ ہوا، زرعی، صنعتی اور IT شعبے میں ترقی ہوئی، جبکہ احساس، کفالت اور جوان ہاؤسنگ اسکیم جیسے فلاحی پروگرام عوام کے لیے ریلیف فراہم کرتے رہے۔

مزید پڑھیے: عوام نے انتشار، بدتمیزی اور الزام تراشی کی سیاست مسترد کردی، مریم نواز

پی ٹی آئی نے 2018 کے انتخابات میں فارم 47 کی بنیاد پر دھاندھلی کا بھی ذکر کیا، جس کے ذریعے عوامی مینڈیٹ چھینا گیا اور ن لیگ کو غیر حقیقی نشستیں دلائی گئیں۔

’بحران کے ذمے دار نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرادری ہیں‘

مزید برآں، پی ٹی آئی نے 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ کی خودمختاری کو محدود کرنے اور عمران خان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کارروائیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی شدید مذمت کی۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟

پی ٹی آئی نے کہا کہ موجودہ آئینی بحران، معیشتی بحران اور ادارہ جاتی کمزوریوں کے اصل ذمہ دار نواز شریف، شہباز شریف اور زرداری ہیں لیکن عوام مایوس نہ ہوں کیونکہ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی ان سب ناانصافیوں کا حساب لے کر آئین کی بالادستی اور عوام کی حقیقی طاقت کو بحال کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان تحریک انصاف سابق وزیر اعظم نواز شریف وزیراعلیٰ مریم نواز شریف

متعلقہ مضامین

  • نواز شریف اچانک منظر عام پر، کس کو کیا جواب دینے آئے؟
  • تحریک انصاف دہشتگردوں سے مذاکرات پر زور دیتی ہے، ان سے ایک ضلع ہی واپس لے کر دکھادے، خرم دستگیر خان
  • نواز شریف کی اور مریم نواز کی تقریر پر پاکستان تحریک انصاف کا نکتہ با نکتہ جواب
  • کراچی: دو پولیس مقابلوں میں 5 ڈاکو گرفتار، 2 زخمی
  • جہاں کسی بڑے کو معافی نہ ملی
  • جی بی کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری پر تحریک انصاف کا سخت ردعمل
  • جہاں عورتیں خوف یا خاموشی کی زندگی گزاریں، وہ معاشرے ترقی نہیں کرسکتے، آصفہ بھٹو زرداری
  • جہاں عورتیں خوفزدہ ہوں، وہ معاشرے ترقی نہیں کرسکتے: آصفہ بھٹو
  • پی ٹی آئی نے پنجاب کے عوام کو آج اڈیالہ جیل پہنچنے کی کال دیدی