ہَوا میں پھیل چلی میٹھی بات کی خُوش بُو
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
زبان ایک چھوٹا سا عضو ضرور ہے، مگر اس کا اثر انسان کی دنیا اور آخرت دونوں پر نہایت گہرا ہوتا ہے۔ سنتِ نبوی ﷺ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ زبان کے ذریعے خیر کو عام کیا جا سکتا ہے، اور اگر احتیاط نہ برتی جائے تو یہی زبان فتنے اور فساد کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
نبی کریمؐ نے ہمیشہ ایسی گفت گُو کو پسند فرمایا جو مختصر، مگر جامع ہو، اور دوسروں کے لیے نفع بخش ہو۔ آپ ﷺ کی باتوں میں شفقت، دانائی اور خیرخواہی جھلکتی تھی۔ اصلاح کی ضرورت پڑتی تو نرمی، محبت اور حکمت کے ساتھ بات فرماتے، کسی کو زبان سے ایذا دینا آپ ﷺ کی سیرت کا حصہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کی خاموشی بھی علم و حکمت سے لبریز ہوتی، اور جب بولتے تو سننے والے کے دل پر اثر ہوتا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو بھی یہی طریقہ سکھایا کہ زبان سے فحش گوئی، بہتان، غیبت یا دل آزاری کی بات نہ کی جائے بلکہ ایسی بات کی جائے جو دلوں کو جوڑنے والی ہو۔ اگر آج ہم زبان کے استعمال میں سنتِ نبوی ﷺ کو اپنا معیار بنا لیں، تو نہ صرف ہمیں ذاتی سکون نصیب ہوگا بلکہ ہمارا معاشرہ بھی امن، محبت اور خیر خواہی کا نمونہ بن جائے گا۔
زبان: خیر یا شر کا ذریعہ:
زبان انسان کے باطن کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ یہ کبھی دل کے جذبات کو ظاہر کرتی ہے، تو کبھی عقل کے فیصلے کو زبان دیتی ہے۔ قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’سیدھی بات کہا کرو۔‘‘ (الاحزاب) اس سے مراد ہے کہ انسان کی گفت گُو سچائی، خیرخواہی اور تقویٰ پر مبنی ہو۔ زبان اگر نرمی، اخلاق اور سچائی کے ساتھ استعمال کی جائے تو دلوں کو فتح کیا جا سکتا ہے، نفرتیں محبتوں میں بدل سکتی ہیں، اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن یہی زبان اگر قابو سے باہر ہو جائے تو رشتے برباد ہو جاتے ہیں، عزتیں خاک میں مل جاتی ہیں اور دلوں میں نفرتیں جنم لیتی ہیں۔ انسان کی نیکی یا بدی کا سب سے نمایاں ذریعہ یہی زبان ہے۔ اگر اسے نیکی، اصلاح اور خیر کی راہ میں استعمال کیا جائے تو یہ صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔ لیکن اگر اس سے جھوٹ، غیبت، بہتان یا فساد کو ہوا دی جائے، تو یہی زبان دنیا و آخرت میں تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔
سنتِ نبوی ﷺ اور زبان کی پاکیزگی
نبی کریمؐ کی زبان ہمیشہ پاکیزہ، نفع بخش اور سنجیدہ ہُوا کرتی تھی۔ آپ ﷺ نے کبھی بے مقصد بات نہیں کی اور نہ ہی فضول گوئی کو پسند فرمایا۔ آپؐ کی گفت گُو میں ہمیشہ سچائی، نرمی، اور مخلوق کی بھلائی شامل ہوتی تھی۔ آپ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ زبان صرف بات کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کی گفت گُو کی لطافت، فصاحت اور اثرپذیری کے گواہ تھے۔ آپ ﷺ کا اندازِ بیان نہایت مختصر مگر جامع ہوتا تھا، جو دلوں کو چھو جاتا تھا۔ آپ ﷺ کی گفت گُو نہ تو تلخ ہوتی، نہ طنزیہ، بل کہ ہر لفظ میں حکمت اور مروّت ہوتی تھی۔ اگر ہم بھی اس سنت پر عمل کریں تو اپنی زبان کو فساد کے بہ جائے اصلاح کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔
زبان سے پیدا ہونے والے بڑے گناہ
زبان کے ذریعے ہونے والے گناہ اکثر انسان کو تباہی کے دہانے پر لے جاتے ہیں۔ جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، چغلی، بہتان تراشی، مذاق اُڑانا اور گالی دینا یہ سب ایسے گناہ ہیں جو زبان سے سرزد ہوتے ہیں، اور ان کے اثرات دیرپا اور مہلک ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا، جو اس کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ بسا اوقات انسان انجانے میں ایسی بات کہہ دیتا ہے جو کسی کے دل کو زخمی کر دیتی ہے اور تعلقات میں دراڑ ڈال دیتی ہے۔ ایک سخت یا زہریلا جملہ برسوں کے اعتماد کو لمحوں میں ختم کر دیتا ہے۔ زبان کا غلط استعمال صرف دوسروں کو نہیں بلکہ خود انسان کو روحانی اور معاشرتی طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے الفاظ کو تول کر بولیں تاکہ کسی کا دل نہ ٹوٹے، اور ہم بھی اﷲ کی ناراضی سے بچ سکیں۔
سوشل میڈیا، جدید زبان کا میدان
آج سوشل میڈیا نے زبان کے اظہار کو نئے رخ دیے ہیں۔ اب باتیں صرف زبان سے نہیں بلکہ انگلیوں سے لکھی جاتی ہیں، مگر ان کے اثرات دلوں تک پہنچتے ہیں۔ کسی کی کردار کشی، جھوٹے الزامات، بے جا تنقید یا فتنہ انگیز گفت گُو، یہ سب بھی زبان کے گناہوں میں شمار ہوتے ہیں، چاہے وہ تحریری ہو یا زبانی۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ آن لائن لکھا گیا ہر لفظ بے حساب ہے، حالاں کہ ایک مومن کی ہر بات، تحریر اور تبصرہ اﷲ کے علم میں ہے اور اس کا حساب لیا جائے گا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ سوشل میڈیا پر بھی سچائی، شائستگی، نرمی اور خیر خواہی کو اختیار کریں۔ ہماری پوسٹس، کمنٹس اور پیغامات ہمارے ایمان کے آئینہ دار ہونے چاہییں۔ اگر ہم اس پلیٹ فارم کو بھی ایک ذمہ داری سمجھ کر استعمال کریں تو یہ فتنہ نہیں بلکہ خیر و اصلاح کا میدان بن سکتا ہے۔
زبان اور معاشرتی اثرات
زبان کا اثر صرف فرد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ پورے معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔ اگر ایک راہ نما، عالم، والدین یا استاد نرمی، سچائی اور حسنِ کلام سے بات کرے تو اس کے اثرات نسلوں تک پہنچتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی کی زبان میں سختی، طنز یا بدگوئی ہو تو وہ صرف ایک فرد نہیں بلکہ پورے ماحول کو زہر آلود کر دیتی ہے۔ معاشرتی نفرت، بدظنی اور فساد کی جڑ اکثر زبان ہی ہوتی ہے۔ الفاظ جوڑنے بھی سکتے ہیں اور توڑنے بھی، اس لیے الفاظ کے انتخاب میں حکمت، بردباری اور شائستگی لازمی ہے۔ اگر ہر فرد اپنی زبان پر قابو پائے، گالی یا بدگمانی سے اجتناب کرے، تو پورا معاشرہ امن، محبت اور عزت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ زبان کا حسن ہی اصل معاشرتی حسن ہے۔
زبان کی حفاظت، ذریعۂ نجات
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دی، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری) اس سے زبان کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ یہ صرف دنیاوی معاملات ہی نہیں بلکہ آخرت کی کام یابی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہم میں سے اکثر نماز، روزے اور دیگر عبادات کا اہتمام تو کرتے ہیں، لیکن زبان سے ادا کیے جانے والے الفاظ کی احتیاط کو معمولی سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ اکثر اوقات یہی زبان انسان کی نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے۔ اگر انسان اپنی زبان سے کسی کو تکلیف نہ دے، سچ بولے، فضول گوئی سے بچے اور گالی گلوچ سے اجتناب کرے، تو وہ واقعی جنت کا مستحق بن سکتا ہے۔ زبان کی حفاظت نجات کی راہ ہے، اور ایک محتاط زبان والا شخص درحقیقت اپنے کردار اور ایمان کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے۔
خاموشی، مومن کی زینت
خاموشی صرف چپ رہنے کا نام نہیں، بلکہ یہ حکمت، وقار اور بصیرت کی علامت ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’جو شخص اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔‘‘ (صحیح بخاری۔ مسلم) مؤمن جانتا ہے کہ ہر موقع پر بولنا مناسب نہیں ہوتا، اور ہر بات کا وقت اور موقع الگ ہوتا ہے۔ بعض اوقات خاموشی وہ کام کر جاتی ہے جو لمبی تقریریں بھی نہیں کر پاتیں۔ خاموشی نہ صرف دوسروں کی عزت کا تحفظ کرتی ہے، بلکہ اپنے وقار اور تعلقات کو بھی محفوظ رکھتی ہے۔ جو شخص غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرتا ہے، وہ گناہوں سے بھی بچتا ہے اور عزت بھی پاتا ہے۔ خاموشی میں تدبّر، سنجیدگی اور دانائی چھپی ہوتی ہے۔ اسلام صرف زبان کے منفی استعمال سے روکتا نہیں بلکہ اس کے مثبت استعمال کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ زبان سے علم دین پہنچانا، نصیحت کرنا، سلام، دعا، تسبیح و اذکار کرنا، کسی کی دل جوئی کرنا یا ہم دردی کے کلمات کہنا یہ سب عبادت کے زمرے میں آتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ لوگوں کو نرم لہجے میں سمجھاتے، ان کے دکھ درد سنتے، اور ان کی دل جوئی فرماتے۔ ایک نرم بات، ایک دعا، یا ایک محبت بھرا جملہ کسی کے دن کو روشن اور زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ زبان کو علم، شفقت، اور خیر خواہی کا ذریعہ بنائیں۔ اچھی بات کرنا صدقہ ہے، اور یہ مؤمن کی پہچان ہے۔
زبان کا احتساب
ایک بیدار ضمیر مؤمن ہر دن کے اختتام پر خود سے سوال کرتا ہے: ’’آج میں نے کسی کو زبان سے ایذا تو نہیں دی؟‘‘ یہی سوال اس کی اصلاح کی بنیاد بنتا ہے۔ ہماری گفت گو ہمارے ماحول، تعلقات، حتیٰ کہ ہماری آخرت پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ اگر ہم روزانہ زبان کے استعمال کا محاسبہ کریں، تو ہم بہت سی اخلاقی کم زوریوں سے بچ سکتے ہیں۔ اس عمل سے دل صاف ہوتا ہے، رویوں میں بہتری آتی ہے، اور کردار نکھرتا ہے۔ زبان کا احتساب ایک مسلسل تربیت ہے جو ہمیں جھگڑوں، فتنے اور بدگمانیوں سے بچا سکتی ہے۔ اگر ہم اپنی زبان پر قابو پالیں تو بہت سی برائیاں خود بہ خود ختم ہو جائیں گی۔
زبان کی حفاظت: عملی تجاویز
بولنے سے پہلے سوچیں: کیا یہ بات مفید اور ضروری ہے؟
جہاں خاموشی بہتر ہو، وہاں زبان بند رکھیں۔
روزانہ اپنی گفت گو کا جائزہ لیں۔
اپنی زبان کو ذکر، دعا، اور قرآن خوانی کا عادی بنائیں۔
گفت گو میں سچائی، نرمی اور خیر خواہی کو اختیار کریں۔
سوشل میڈیا پر بھی ادب، وقار اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
دوسروں کے جذبات، مقام اور عزت کا خیال رکھیں۔
اگر تنقید کریں تو نرم انداز اور اصلاحی لہجے میں کریں۔
مذاق اور طنز میں حد سے تجاوز نہ کریں۔
دوسروں کو خوش کرنے والی بات کو نیکی سمجھ کر اپنائیں۔
خلاصۂ کلام
زبان کی حفاظت انسان کی شخصیت، معاشرت اور آخرت تینوں میں کام یابی کی ضمانت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ زبان کا ہر لفظ اہمیت رکھتا ہے، اور اس کا اچھا یا برا استعمال ہمارے اعمال نامے میں درج ہو رہا ہوتا ہے۔ نرم لہجہ، سچائی، ادب اور خیر خواہی سے بھرپور گفت گو انسان کو دلوں کا محبوب بناتی ہے، جب کہ بدزبانی، سختی، اور جھوٹ انسان کو دوسروں کی نظروں سے گرا دیتی ہے۔ ایک مؤمن کی زبان محبت، علم اور خیر کی نمائندہ ہونی چاہیے، نہ کہ نفرت، شر، اور فتنہ کی علامت۔ زبان کا درست استعمال ہماری دنیا کو خوب صورت اور آخرت کو کام یاب بنا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور خیر خواہی زبان کی حفاظت نہیں بلکہ ا سوشل میڈیا اپنی زبان انسان کی انسان کو کا ذریعہ یہی زبان ا پ ﷺ کی سکتی ہے زبان کا کرتا ہے دیتی ہے ہوتی ہے ہوتا ہے کہ زبان زبان کے سکتا ہے جائے تو اگر ہم
پڑھیں:
چار بیویوں کی اجازت ؟
چار شادیوں کے بارے میں ہم نے پہلی آواز اس وقت سنی تھی جب شوبز سے متعلق ایک پاکستانی سپوتنی گالی وڈ میں جھنڈے گاڑنے اور چار چاند لگانے گئی ہوئی تھی اور اس نے وہاں کہا تھا کہ اگر مردوں کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو عورتوں کو بھی چار شوہروں کی اجازت ہونی چاہیے۔
اس پر کچھ زیادہ لے دے اس لیے نہیں ہوئی کہ اس محترمہ کا تعلق اس طبقے سے تھا جو پاکستان کے کالانعاموں کو ہندو دشمنی پر لگا کر خود وہاں سے ’’رشتے‘‘ استوار رکھتے تھے۔پھر یہ بات میں نے اور لوگوں خاص طور پر ماڈرن خواتین اور آزادی نسواں کے علم برداروں سے سنی، کئی مقامات پر بحث بھی سنی۔اور ایک مرتبہ ایک بڑی خاتون لیڈرہ کے ساتھ تو بڑا لمبا مباحثہ ہوا جو بار بار چارشادیوں کے معاملے کو عورتوں پر ظلم قرار دے رہی تھی۔ہم نے مختصر طور پر سمجھانا چاہا کہ یہ اجازت کسی ایسے ویسے ذریعے نے نہیں بلکہ اس کائنات کے خالق ومالک رب ذوالجلال نے دی ہے۔تو پھر بھی وہ نہیں مانی اور بدستور اسے عورتوں پر ظلم کہنے پر تلی رہی، تو ہم نے اسے کہا کہ اگر میں یہ ثابت کردوں کہ یہ خدا کا عورتوں پر ظلم نہیں بلکہ ’’احسان عظیم‘‘ ہے تو پھر ؟ بولیں پھر مان لوں گی۔پھر ہم نے اس مسئلے کو پورے سیاق و سباق اور منظر پس منظر سے بیان کیا تو وہ خاتون بنیادی طور پر اچھی اور مثبت سوچ کی مالک مان گئی کہ واقعی یہ عورتوں پر رب جلیل کا بہت بڑا احسان ہے۔
وہ خاتون اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کا نام اب بھی بڑا نام ہے اور احترام سے لیا جاتا ہے کہ خواتین کی فلاح کے لیے انھوں نے بڑا کام کیا تھا۔ لیکن کچھ دنوں سے ہم دیکھ اور سن رہے کہ خواتین کی زیادہ تعداد اس اجازت پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی بلکہ بالواسطہ طور پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں ، اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے۔اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس بے مثل و بے مثال کتاب کے بارے میں کچھ بتایا جائے جس میں یہ اجازت دی گئی۔اس کتاب قرآن عظیم الشان کے بارے میں خود رب العالمین نے فرمایا ہے کہ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ ترجمہ۔اس کتاب کو وہ لوگ’’چھو‘‘ بھی نہیں سکتے جو پاک ترین نہیں۔مطہر کا لفظ صیغہ مبالغہ ہے عام پاکی کے لیے تو ’’ظاہر‘‘ استعمال ہوتاہے لیکن’’مطہر‘‘ کے معنی ہیں اتنا پاک جو اوروں کو بھی پاک کرے جیسے پانی خود بھی پاک ہے لیکن اور چیزوں کو بھی پاک کرتا ہے۔
مطلب یہ کہ اس کے معانی و مفاہیم تک پہنچنا ہے کہ یہ سمجھنے اور اس کے معانی و مفاہیم پر عمل کرنے کے لیے آیا ہے اور اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کے لیے’’مطہر‘‘ہونا چھونے اٹھانے ادھر ادھر کرنے کھولنے اور پڑھنے کے لیے’’جسمانی‘‘ طور پر اور سمجھنے کے لیے ’’ذہنی‘‘ طور پر پاک،صاف شفاف اور ’’مطہر‘‘ہونا۔ذہن پر کسی تعصب،مصلحت اور طرف داری جانب داری یا مفاد کا ذرہ بھر بھی میل نہ ہو۔کاغذ جتنا صاف ہوگا اس پر تحریر تصویر اور نقش بھی صاف آئے گا اور میلے کچیلے داغ داغ دھبوں والے کاغذ پر کاپی نقل اور نقش بھی ویسا ہی ہوگا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے اس(قرآن) کے عجائب قیامت تک ختم نہیں ہوں گے گویا یہ ایک ایسا سمندر ہے اور لال وجواہر سے بھرپور ہے۔لیکن اس بخرذخار سے لال وجواہر اور موتی صرف ماہر غواص ہی نکال سکتے ہیں کنارے کنارے اور اوپر اوپر تیرنے والوں کے ہاتھ صرف سیپیاں اور خس وخاشاک لگ سکتا ہے موتی نہیں۔
اس تمہید کی روشنی میں اب ہم ان آیتوں کے معانی ومفہوم سمجھنے کی کوشش کریں گے جن میں یہ چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے یہ سورہ نساء اس وقت نازل ہوئی تھی جب’’جنگ احد‘‘ گزر چکی تھی اور اس میں بہت سے لوگ شہید ہوگئے تھے اور اپنے پیچھے بہت ساری بیوائیں اور یتیم چھوڑ گئے تھے اوراس سورت کا بنیادی موضوع ہی یہی یتیم اور بیوائیں ہیں بات یوں شروع کی گئی ہے۔’’اے انسانو ڈرو اپنے رب سے جس نے تم کو ایک جان(نفس واحدہ) سے پیدا کیا اور پیدا کیے اسی میں سے جوڑے اور پھیلائے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں اور ڈرتے رہو اس اللہ سے۔کہ سوال کرتے ہو تم ایک دوسرے سے جس کا واسطہ دے کر۔اور ڈرتے رہو رشتوں کی نزاکت سے بھی۔ بے شک اللہ ہے تم پر نگران‘‘۔
یہ پہلی آیت ہے اس سورت کی جو ایک طرح سے تمہید ہے انسانوں کے آپسی رشتوں کی اور اس کے بعد دوسری آیت میں اصل بات یوں شروع کی ہے کہ ’’اور دے دو یتیموں کو ان کے مال اور مت بدلو برے مال کو اچھے مال سے اور مت کھاؤ ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملاکر بے شک یہ گناہ ہے اور بہت بڑا گناہ‘‘۔صاف صاف لگ رہا ہے کہ یہ خطاب غیروں سے نہیں بلکہ ان بیواؤں اور یتیموں کے اپنے رشتے داروں اور لواحقین سے ہورہا ہے کیونکہ عام طور پر یتیموں اور بیواؤں والی وارث ان کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں غیروں کو یتیموں اور بیواؤں اور ان کے مال جائداد سے کیا واسطہ۔اور عموما دیکھا جاتا ہے کہ ایسے رشتہ دار بیواوں اور یتیموں کا مال و جائداد ہڑپ کر لیتے ہیں یا ان کو کم یا بُرا دے دیتے ہیں اور خود اچھا اچھا اور زیادہ پر قبضہ کرلیتے ہیں اور اس کے فوری وہ تیسری آیت ہے جس میں چار یا مزید تین نکاحوں کی اجازت دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ تیسری آیت کی شروع’’و ان‘‘ سے ہوئی ہے یعنی اور اگر مطلب کہ بات وہی چل رہی ہے ’’اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تم یتیموں کے معاملے میں تو نکاح کرو ان سے جو پسند آئیں تم کو عورتیں دو دو تین تین چار چار۔پھر بھی اگر خوف ہو کہ تم عدل نہیں کرسکوگے تو بس ایک‘‘۔