Express News:
2025-11-27@22:02:00 GMT

ضمنی انتخاب سے پشاور حملے تک

اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT

پاکستان کی انتخابی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اول دن سے تادم تحریر ہونے والے تمام عام انتخابات اور ضمنی الیکشن ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں۔ منصفانہ، شفاف، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا خواب آج بھی تشنہ تعبیر ہے۔

الیکشن کمیشن جس کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ وہ ملک میں منصفانہ اور شفاف الیکشن کو یقینی بنائے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے یکساں مواقع فراہم کرے لیکن افسوس کہ الیکشن کمیشن کا کردار بھی ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔

جیتنے والی جماعتیں اپنی فتح و کامیابی کا جشن مناتی ہیں تو ہارنے والی سیاسی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی و بدعنوانی کے الزامات عائد کر کے انتخابی نتائج کو بھی مسترد کر دیتی ہیں۔ انتخابی سروے کرنے والے اداروں کی نتائج کے حوالے سے جاری کی جانے والی رپورٹس پر بھی مبصرین و تجزیہ نگار سوالات اٹھاتے ہیں۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتخابی ماحول سے شاکی جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں۔ معروف سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کرنے کے باعث مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے مقابلے کا میدان خالی ہو جاتا ہے اور ان کے لیے جیتنے کے مواقع آسان ہو جاتے ہیں۔

اس کی تازہ مثال 23 نومبر اتوار کو پنجاب اور کے پی کے میں قومی و صوبائی اسمبلی کی مجموعی طور پر 13 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) نے واضح برتری حاصل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ پیپلز پارٹی صرف ایک نشست ہی جیت سکی۔ حسب معمول ضمنی الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ بھی کم رہا۔ پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ضمنی الیکشن کو نظام کے لیے ’’ ویک اپ کال‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کی تاریخ کا اس قدرکم ٹرن آؤٹ تشویش ناک اور واضح طور پر جاری سیاسی نظام پر عوام کے عدم اعتماد کی نشان دہی کرتا ہے۔ جب کہ صوبے کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات ریفرنڈم ثابت ہوا، مقبولیت کا بت پاش پاش اورمخالفین کے بیانیے کی شکست ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے کارکردگی پر الیکشن جیتا ہے۔ ماضی کی انتخابی مہم یہ بتاتی ہے کہ ضمنی الیکشن عموماً وہی جماعت جیتتی ہے جو اقتدار میں ہو اور اس خوش کن فتح کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں ہونے کے باعث انتخابی مشینری کے تمام ریاستی ادارے اس کے اشارہ ابرو پر کام کرتے ہیں۔ اسی لیے ممکنہ دھاندلی کا پلڑا بھی اسی جانب جھک جاتا ہے۔

ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق قید تنہائی میں ہونے کے باوجود بانی پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور آیندہ عام انتخابات بھی اگر شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے منعقد ہوئے اور الیکشن کمیشن اپنی ذمے داری پوری کرنے میں کامیاب رہا اور پی ٹی آئی کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح یکساں مواقع ملے اور فارم 45 اور 47 کا رولا نہ پڑا تو (ن) لیگ اور پی پی پی کے لیے واضح برتری حاصل کرنا آسان کام نہ ہوگا۔ ان تبصروں اور تجزیوں میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ آنے والے انتخابات میں ہی ہو سکے گا۔

فی الحال تو مسلم لیگ (ن) نے جو کامیابی سمیٹی ہے، اس نے اسے قومی اسمبلی میں مستحکم پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے، اسے اب پی پی پی کی بے ساکھیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تاہم سینیٹ میں آج بھی اس کی پوزیشن کمزور ہے اور قانون سازی کے لیے اسے ہر صورت پی پی پی کی محتاجی رہے گی۔

ایک طرف تو مسلم لیگ (ن) انتخابی کامیابی کا جشن منا رہی ہے جب کہ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے دارالخلافہ پشاور میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر افغان دہشت گردوں نے خودکش حملہ کرکے حکمرانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ لاکھ رکاوٹوں، آپریشن اور ہلاکتوں کے باوجود موقع ملتے ہی وہ اپنا کام کر گزریں گے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے اس حملے کو ناکام بنا دیا اور تینوں دہشت گرد ہلاک ہو گئے اور ہمارے تین جوان بھی شہید ہو گئے۔

مذکورہ دہشت گردوں کی افغان شہری ہونے کی نشانی اس بات کی علامت ہے کہ پاک افغان حالیہ مذاکرات کا کوئی نمایاں نتیجہ نہیں نکلا۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے پاکستان کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ بھارت کے اکسانے پر اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی موثر ثابت نہ ہو سکی پاکستان کو سفارتی محاذ پر امریکا، چین، روس اور دیگر ممالک کو صورتحال کی نزاکت اور سنگینی سے آگاہ کرنا چاہیے۔ فتح کا جشن اپنی جگہ لیکن عوام کی آواز بھی سننا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں ضمنی الیکشن پی ٹی آئی مسلم لیگ کے لیے

پڑھیں:

ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ کس حلقے میں رہا؟ اعداد وشمار جاری

اسلام آباد:

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ضمنی انتخابات کے دوران قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹر ٹرن آؤٹ کی تفصیلات جاری کردی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کی 6 اور صوبائی اسمبلی کی7 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے اور مجموعی طور پر ووٹر ٹرن آوٹ 28.58 فیصد رہا۔

دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقے این اے-18 ہری پور میں ووٹر ٹرن آؤٹ سب سے زیادہ 42.09 فیصد رہا اور این اے-185 میں 32.61 فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔

اسی طرح این اے-96 فیصل آباد میں ووٹر ٹرن آؤٹ 26.46 فیصد، این اے-143 ساہیوال میں 21.43 فیصد، این اے-129 لاہور میں 18.67 فیصد اور این اے-104فیصل آباد میں ووٹر ٹرن آوٹ 13.23 فیصد رہا۔

الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی-269 مظفرگڑھ میں سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ50.82 فیصد، پی پی-98 فیصل آباد میں 36.82 فیصد، پی پی-73 سرگودھا میں 34.45 فیصد، پی پی-87 میانوالی میں 27 فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پی پی-116 فیصل آباد میں ووٹر ٹرن آؤٹ 22.94 فیصد، پی پی- 203 ساہیوال میں ووٹر ٹرن آؤٹ 22.4 فیصد رہا۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات میں کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری کر دیئے
  • ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی
  • ضمنی انتخابات میں کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری
  • ضمنی انتخابات میں کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری
  • ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ کس حلقے میں رہا؟ اعداد وشمار جاری
  • ضمنی انتخابات: کس حلقے میں کتنا ووٹر ٹرن آؤٹ رہا؟ الیکشن کمیشن نے بتا دیا
  • کیا ن لیگ نے پنجاب دوبارہ حاصل کرلیا؟
  • ضمنی انتخابات کا سیاسی سبق
  • ضمنی الیکشن میں ناکامی، صدر پی ٹی آئی باجوڑ کا وزیراعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ