بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد جنہیں ڈھاکہ میں قائم ایک خصوصی ٹربیونل نے انسانیت کے خلاف جرائم کی بنیاد پر 17 نومبر کو پھانسی کی سزا سنائی تھی، اِس وقت بھارت میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے 2013 میں ملزمان کی دوطرفہ حوالگی کے ضِمن میں ایکسٹراڈیشن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اُس معاہدے کے تحت بھارت کا فرض ہے کہ وہ سزا یافتہ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے۔

آمرانہ قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ بھارت کی خارجہ پالیسی

بھارت پچھلے طویل عرصے سے دنیا بھر میں آمرانہ قوتوں کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کو مضبوط بنا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے ضِمن میں جب عوام نے بھارت کے ساتھ قریبی مراسم کی حامل حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کو ختم کیا تو بھارت نے حسینہ واجد، اُن کے اہلِ خانہ اور قریبی رفقا کو اپنے ہاں پناہ دی۔ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے مطالبے کے باوجود حسینہ واجد کو اُن کے ملک کے حوالے نہیں کیا گیا۔

افغانستان اور طالبان

افغانستان میں بھارت ایک ایسی طاقت کے ساتھ اپنے راہ و رسم مضبوط کر رہا ہے جسے دنیا بھر میں خواتین کے حقوق سلب کرنے اور ایک آمرانہ نظامِ حکومت قائم کرنے پر مطعون کیا جاتا ہے۔ طالبان رجیم جو کسی جمہوری انتظام کے تحت برسرِاقتدار نہیں آئی اور جو افغانستان میں بسنے والی تمام اقوام کی نمائندہ حکومت بھی نہیں ہے، بھارت اُس کے ساتھ اچھے مراسم رکھتا ہے۔

میانمار اور روہنگیا مسلمان

2017 میں جب میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کیے اور 6 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش پناہ لینے پر مجبور کیا تو بھارت نے اُس وقت میانمار کی فوجی حکومت کا ساتھ دیا۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی فضائیہ: باتوں کے غبارے، ناکامی کی مسکراہٹ

یہ تعاون اس لیے ہوا کیونکہ میانمار کے اندرونی بحران اور فوجی طاقت بھارت کو اقتصادی اور علاقائی لحاظ سے ایک اہم شراکت دار بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

سری لنکا

بھارت اور سری لنکا کے تعلقات میں کئی مواقع ایسے آئے جب بھارت نے جمہوری اصولوں اور مقامی عوامی مفادات کے بجائے اپنے اسٹریٹجک مقاصد کو ترجیح دیتے ہوئے آمرانہ قوتوں کا ساتھ دیا، جس کی نمایاں مثال مہندا اور گوتابایا راجاپکسے کی حکومتوں کی وہ مدت ہے جس کے دوران سری لنکا میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، عدلیہ پر دباؤ اور سیاسی مخالفین کے خلاف سخت اقدامات معمول تھے، مگر بھارت نے چین کے اثر کو روکنے کے لیے ان حکومتوں کے ساتھ سیکیورٹی تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ اور سرمایہ کاری کو مضبوط رکھا۔

اسی طرح 2009 میں تامل شہریوں کے خلاف سخت فوجی آپریشن کے دوران بھارت نے سری لنکا کو فوجی سازوسامان، انٹیلی جنس سپورٹ اور سفارتی تحفظ فراہم کیا، جس سے حکومت کی طاقت تو بڑھی لیکن مقامی آبادی شدید متاثر ہوئی، اور بھارت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دباؤ بڑھانے کے بجائے بین الاقوامی سطح پر سری لنکن حکومت کو کور مہیا کیا تاکہ ملک چین کے مکمل اثر میں نہ چلا جائے۔

نیپال اور ماؤنواز

 نیپال میں بھارت کا کردار بارہا ایسے رویّے کی نشاندہی کرتا ہے جس میں وہ عوامی جمہوری مطالبات کے بجائے اُن قوتوں کو ترجیح دیتا رہا جو اس کے لیے زیادہ زیرِ اثر یا کنٹرول میں رہیں۔ دہائیوں تک بھارت نے نیپالی بادشاہت کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے، حالانکہ شاہی نظام عوامی نمائندگی سے محروم اور مکمل طور پر مرکزیت پسند تھا جسے بھارت نے سیکیورٹی تعاون، معاشی سہارا اور سفارتی تحفظ فراہم کیا۔

2005 میں بادشاہ گیانندرا کی جانب سے منتخب حکومت برطرف کرنے، ایمرجنسی نافذ کرنے، آئین کو معطل کرنے اور میڈیا پابندیوں جیسے واضح آمرانہ اقدامات پر بھارت نے ابتدا میں سخت ردعمل دینے سے گریز کیا اور ’استحکام و گفتگو‘ کی محتاط پالیسی اپنائی، جسے بادشاہ کے لیے  بھارت کی خاموش تائید سمجھا گیا کیونکہ بھارت اُس وقت ماؤنوازوں کے بڑھتے اثر کو روکنے کے لیے شاہی نظام کو ایک متوازن قوت تصور کرتا تھا۔ بعد ازاں جب عوامی تحریک نے حالات بدل دیے، بھارت نے موقف تبدیل کیا، مگر تاخیر نے اُس کے ارادوں پر سوالات پیدا کیے۔

یہ بھی پڑھیں:بی بی سی کے چیئرمین سمیر شاہ کے مبینہ ’بھارتی رابطوں‘ پر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے

اسی طرح جب ماؤنواز اور دیگر نئی جمہوری قوتیں مین اسٹریم سیاست میں آئیں، بھارت اکثر شکوک، سفارتی دباؤ اور اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی حکمتِ عملی پر قائم رہا، اور نئی عوامی نمائندہ قیادت کے مقابلے میں روایتی ایلیٹ کو ترجیح دیتا رہا۔ ان تمام مثالوں نے نیپالی عوام میں یہ تاثر مضبوط کیا کہ بھارت جمہوریت سے زیادہ اپنے مفادات سے ہم آہنگ آمرانہ یا اشرافی قوتوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔

گزشتہ دسمبر میں جب شام میں بشار الاسد کی حکومت گرائی گئی اور اُس کی جگہ ایک عبوری حکومت جس کی سربراہی احمد الشرع کر رہے تھے اُنہوں نے سنبھالی تو بھارت نے فوراً اپنا سفارتی وفد شام بھیجا جس کا مقصد اسٹریٹجک مقاصد کا حصول تھا۔

جمہوری اُصولوں پر اسٹریٹجک مفادات کو اہمیت

بھارت کی خارجہ پالیسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق جیسی بنیادی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر اپنے اسٹریٹجک مفادات جیسا کہ جیو پولیٹیکل برتری، معاشی فوائد اور سیکیورٹی کو ترجیح دیتا ہے، مگر آمرانہ اتحادیوں پر اس انحصار کے سنگین نقصانات بھی سامنے آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مودی حکومت کی انتقامی کارروائی، یاسین ملک کو 35 سال پرانے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیدیا

ایسے اتحادی جب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں تو بھارت کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوتی ہے، اور اگر ان کی حکومتیں کمزور پڑ جائیں یا عوامی حمایت کھو دیں تو بھارت کی سرمایہ کاری، انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی منصوبے براہِ راست خطرے میں آ جاتے ہیں، جیسا کہ شیخ حسینہ کے معاملے میں ہوا۔

اس طرزِ عمل سے خطے میں بھارت کے خلاف عوامی ردعمل بھی جنم لیتا ہے جو علاقائی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض آمرانہ اتحادیوں پر انحصار کرنے کے بجائے زیادہ متوازن حکمتِ عملی اختیار کرے، متنوع اور جمہوری قوتوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرے، اور انسانی حقوق و عوامی رائے کو اپنی خارجہ پالیسی کا لازمی حصہ بنائے تاکہ اس کے اسٹریٹجک مقاصد اخلاقی اور سیاسی دونوں پہلوؤں سے زیادہ پائیدار بنیادوں پر کھڑے ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: مرانہ قوتوں حسینہ واجد بنگلہ دیش بھارت کی تو بھارت بھارت نے کی حکومت سری لنکا کے بجائے کو ترجیح جمہوری ا بھارت ا کے خلاف کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

دہشت گردی پر جلد قابو پا لیں گے، وزیر دفاع

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور(آن لائن) وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ اب بھی جنگ کا خطرہ ہے، پاکستان دہشت گردی پر جلد قابو پا لے گا۔وزیر دفاع کا کہنا تھاکہ بھارت کے ساتھ ایک اورجنگ کا خطرہ تھا، مئی کی جنگ کے فوری بعد امکان تھا، بھارت کے ساتھ اب بھی جنگ کا خطرہ ہے، بھارت کے ساتھ جنگ کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ایک انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی بے عزتی کا بدلہ افغانستان کو استعمال کرکے لینے کی کوشش کررہاہے، عالمی برادری آج پاکستان کی تعریف کررہی ہے، بھارت کے خلاف ہماری فتح کی سرٹیفکیشن امریکا دے رہا ہے، امریکی صدر نے مداخلت کرکے جنگیں بند کروائیں۔خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا تھا کہ پراکسی وارکبھی ختم نہیں ہوئی، دہائیوں سے چل رہی ہے، پراکسی وار ماڈرن وارفیئرکا ایک ٹول ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کابل کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے،پاکستان نے افغانستان کو ثبوت فراہم کیے،افغانستان جو کچھ کہتاہے وہ سراسر جھوٹ ہے،افغانستان کے ساتھ ہمارے3 بار مذاکرات ہوئے، وانا حملے میں افغان دہشت گرد ملوث تھے،پاکستان افغانستان کو دہشت گردی کا جواب ضرور دے گا، افغان طالبان کی اندرونی لڑائیاں بہت ہیں۔

خبر ایجنسی گلزار

متعلقہ مضامین

  • افغانستان پرحملہ نہیں کیا، پاکستان کارروائی کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے: آئی ایس پی آر
  • ستائیسویں ترمیم  کی منظوری جبری اور جعلی تھی، ترمیم لانے والی قوتوں کی عزت نہیں بڑھی، فضل الرحمن
  • ‏’ابو بہت ڈانٹیں گے‘، نسیم شاہ کا سیلفی کیلیے اصرار کرنے والی مداح کو جواب
  • بنگلہ دیشی ہائی کمشنر ملک کی آزادی کے لیے بھارت کی حمایت پر شکرگزار
  • پیپلز پارٹی قابلِ اعتماد اتحادی، سیاست مکالمے سے آگے بڑھتی ہے، عطا اللہ تارڑ
  • کینیڈا کا خالصتان ریفرنڈم: ریکارڈ ٹرن آؤٹ مشرقی پنجاب کی بھارت سے آزادی کی حمایت کرتا ہے
  • پیپلز پارٹی اتحادی ہے، ہر موقع پر بھرپور ساتھ دیا، وزیر اطلاعات عطا تارڑ
  • بی جے پی حکومت نے اقلیتی نشستوں کی حد بندی من مانی طور پر کی، اشوک گہلوت
  • دہشت گردی پر جلد قابو پا لیں گے، وزیر دفاع