اے ٹی اے کے تحت سزا یافتہ قیدی معافی یا رعایت کے حقدار نہیں، بلوچستان ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
کوئٹہ(نیوز ڈیسک) بلوچستان ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کے تحت سزا یافتہ قیدی کسی بھی قسم کی عام یا خصوصی معافی یا رعایت کے قانونی طور پر حقدار نہیں ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 21-ایف واضح طور پر دہشت گردوں کو کسی بھی قسم کی معافی یا سزا میں کمی کے حق سے خارج کرتی ہے، اس حوالے سے کسی تشریح یا نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔
جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس نجم الدین منگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 2023 اور 2024 میں دائر کی گئی متعدد آئینی درخواستوں پر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا اور تمام درخواستوں کو یکجا کر کے مسترد کر دیا۔
فیصلے کے مطابق، درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدرِ مملکت کی معافی اور پاکستان پریزن رولز 1978 کے تحت عام یا خصوصی رعایت کا حق حاصل ہے۔
تاہم، عدالت نے قرار دیا کہ 2001 میں دفعہ 21-ایف کا اضافہ خاص طور پر دہشت گردی کے مجرموں کو معافی کے دائرہ کار سے مستقل طور پر خارج کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ یہ ترمیم ایک سوچا سمجھا قانون ساز اقدام تھا، جس کا مقصد بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں عوامی تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
عدالت نے یہ بھی زور دیا کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے، جو عمومی قوانین مثلاً جیل ایکٹ 1894 پر فوقیت رکھتا ہے۔
عدالت نے یہ مؤقف بھی مسترد کر دیا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو رعایت نہ دینا آئین کے آرٹیکل 25 (قانون کے سامنے برابری) کی خلاف ورزی ہے، عدالت کے مطابق، دہشت گردی کے مجرم ایک منفرد قانونی طبقہ ہیں، اور اس طرح کی درجہ بندی معقول اور آئینی طور پر درست ہے۔
سپریم کورٹ کے مقدمات شروانی کیس، حکومت بلوچستان بنام عزیزاللہ، اور ڈاکٹر مبشر حسن بنام وفاقِ پاکستان کے حوالوں کا ذکر کرتے ہوئے بینچ نے قرار دیا کہ معقول درجہ بندی آئین کے تحت جائز ہے۔
عدالت نے محکمہ داخلہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل خانہ جات اور متعلقہ سپرنٹنڈنٹس کو ہدایت کی کہ وہ فوراً تمام غیرقانونی رعایتیں، جو قانون کے منافی دی گئی ہیں، منسوخ کریں اور متاثرہ قیدیوں کی سزاؤں کا ازسرنو حساب لگائیں۔
مزید برآں، عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ کسی بھی معافی یا رعایت کو سختی سے قانونی دفعات کے مطابق دیا جائے، اور خبردار کیا کہ جو افسران اس قانون کی خلاف ورزی کریں گے، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دہشت گردی کے نے قرار دیا کے مطابق عدالت نے کے تحت دیا کہ
پڑھیں:
دہشت گردی: اسباب اور سہ رخی حل
ہم نائن الیون کے بعد سے مسلسل دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے آخری دور حکومت میں اسے بڑی حد تک کنٹرول کرلیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں خود کش حملوں اور بڑے بم دھماکوں سے ہی نہیں بلکہ مساجد یا پبلک مقامات پر ہونے والے فائرنگ کے واقعات بھی تقریبا ختم ہوگئے تھے۔
مگر پھر ملک پر مسلط کیا گیا ’عالم اسلام کا سب سے ہینڈسم رہنما‘ وہ ہینڈسم جو پر امن سیاسی جدوجہد والے رہنماؤں کی عزت تارتار کرنا اور ان کا تمسخر اڑانا فرض سمجھتا تھا مگر دہشتگردوں کے لیے اس کے دل میں شرف انسانیت کا پورا فلسفہ موجزن ہوجاتا۔ سو اس نے طے کیا کہ ان کو مین اسٹریم کرنا ہے۔
مین اسٹریم کرنا تو محض بہانہ تھا۔ ورنہ واقعات کی ٹائم لائن سے واضح تھا کہ بڑی بغاوت کے لیے مسلح فورس کا بندوبست ہو رہا ہے۔ آنے والوں نے اپنے تیور سے بھی ثابت کردیا تھا کہ وہ مین اسٹریم ہونے نہیں آئے بلکہ عزائم کچھ اور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جیو پالیٹکس اور مذہبی عینک
ماضی کے واقعات یاد دلانا یا ہینڈسم اعظم کو موضوع بحث لانا اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں۔ زیر نظر سطور میں اس سے زیادہ اہم معاملے پر بات کرنی مقصود ہے۔ یہ معاملہ ہے اس اسکیم کو سمجھنا جس کے تحت دہشتگرد تنظیمیں وجود میں آتی ہے۔ اور بہت سے کیسز میں کامیابی سے فعال بھی رہتی ہیں۔ ہم کامیابی سے فعال اس لیے کہہ رہے ہیں کہ کسی دہشتگرد تنظیم کے لیے اپنی کامیاب موجودگی ثابت کرنے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ دس بیس روز میں کوئی ایک واردات کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ جبکہ سیکیورٹی فورسز کے لیے یہ بات ناکافی ہوتی ہے کہ وہ ہفتے میں 10،20 دہشتگرد ٹھکانے لگا دے۔ کیونکہ جب بھی دہشتگردی کا واقعہ ہوگا عوام میں یہ سوال اٹھے گا کہ سیکیورٹی ادارے کیا کر رہے ہیں؟
دہشتگرد تنظیمیں کس اسکیم کے تحت وجود میں آتی ہیں؟ اور وہ کیونکر ایک طویل عرصے تک کامیاب رہتی ہیں؟ یہ سوالات یوں اہم ہیں کہ ان کے جوابات سمجھے بغیر آپ مسئلے کی گہرائی نہیں سمجھ سکتے۔ یوں مسئلے کا کوئی حقیقی اور مستقل حل بھی نہیں نکل پاتا۔ ہم چونکہ 1987ء سے اکتوبر 1997ء تک عسکری تنظیموں کا حصہ رہے ہیں سو ان تنظیموں کی ساخت، ان کے انداز فکر اور پیچھے موجود عوامل کا چشم دید مشاہدہ اور گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اپنے اسی تجربے کی روشنی میں کچھ حقائق کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
دنیا کی کوئی بھی عسکری تنظیم یوں وجود میں نہیں آتی کہ کچھ ہم خیال لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے کچھ مقاصد کے حصول کے لیے عسکری تنظیم بنالی۔ ایسا قطعا نہیں ہوتا۔ ہر عسکری تنظیم کے پیچھے کوئی نہ کوئی انٹیلی جنس ایجنسی ہوتی ہے۔ وہی اس کی اصل بانی ہوتی ہے۔
انٹیلی جنس ایجنسیز کے توسط سے ممالک کو ان تنظیموں کی ضرورت یوں پیش آئی کہ دوسری جنگ عظیم سے چند برس قبل یہ اصول طے کرلیا گیا تھا کہ اب بذریعہ جنگ کسی ملک کا کوئی حصہ قبضہ کرنے سے قابض کا قبضہ لیگل تصور نہ ہوگا۔ Kellogg–Briand Pact (1928) اور League of Nations Assembly Resolution on Non-Recognition, March 1932 کی مدد سے یہ پیشرفت ہوئی تھی۔ جب اقوام متحدہ بنی تو اسی اصول کی روشنی میں نئے جنگی قوانین بھی تشکیل پا گئے۔ یہ سب چونکہ اس مغرب نے کیا تھا جس کی یہ منافقت ہم سب بارہا دیکھ چکے کہ اپنے ہی بنائے قوانین کو بائی پاس کرنا اس کی عادت ثانیہ ہے۔ چونکہ اب ممالک یا ان کے جغرافیے کے کچھ حصے پر بذریعہ جنگ قبضہ غیر قانونی قرار دیدیا گیا تھا۔ سو جس امریکا نے یہ سب کروایا تھا اس نے جلد ہی اپنے لیے ‘بائی پاس‘ بھی تخلیق کرلیا۔ یہ بائی پاس تھا ممالک پر فوج کی جگہ مقامی عسکری تنظیموں کے ذریعے قبضہ۔
مشہور زمانہ ’بے آف پگ آپریشن‘ اس کی سب سے بدنام مثال ہے۔ اس آپریشن کے ذریعے کینیڈی دور کی بالکل ابتدا میں سی آئی اے نے کیوبا پر قبضے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ اس مقصد کے لیے کیوبن شہریوں کو امریکا میں عسکری تربیت فراہم کی گئی اور 17 اپریل 1961 کو یہ آپریشن لانچ ہوگیا۔ تقریبا 1400 دہشتگرد کشتیوں کی مدد سے کیوبا کی بے آف بگ پر اترے۔ جہاں ان کے استقبال کو فیدل کاسترو کی انقلابی فورس موجود تھی۔
صرف 3 دن میں انہوں نے بھاڑے کی اس فورس کو بھون ڈالا اور 19 اپریل 1961 کو خس کام جہاں پاک ہوگیا۔یہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ذلتوں میں سے ایک ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صدر کینیڈی اس ناکامی پر قدر جذباتی ہوئے کہ انہوں نے کہہ دیا ’میں سی آئی اے کے پرزے کرکے ہوا میں ڑادوں گا‘ اور یہی نیک جذبہ ان کے قتل کا محرک بنا۔
فیدل کاسترو کی کمیونسٹ حکومت کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ سو بے آف پگ آپریشن نے کے جی بی کے ہیڈکوارٹر میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ وہ سمجھ گئے کہ اب ممالک پر عسکری تنظیموں کی مدد سے قبضے ہوں گے۔ سو ان کا جوابی وار امریکا کی دکھتی رگ پر آیا۔ کے جی بی نے فلسطینی تنظیموں کو مسلح کرنا شروع کردیا۔ بالخصوص مشہور زمانہ لیلی خالد کی کمیونسٹ تنظیم ’پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین‘ کی خصوصی سرپرستی کی۔
مزید پڑھیے: انقلاب، ایران اور پاکستان
کے جی بی اس قدر جارحانہ انداز سے سامنے آئی کہ اس نے طیارہ ہائی جیکنگ کو مستقل ٹرینڈ بنوا دیا۔ 1968 سے 1986 تک طیارہ ہائی جیکنگ کے تقریبا 28 واقعات ہوئے۔ جن میں سے 8 لیلی خالد کی تنظیم نے کیے۔ خود لیلیٰ نے بھی 2 ہائی جیکنگز میں حصہ لیا۔ ایک کامیاب جبکہ دوسری ناکام ہوئی اور لیلی گرفتار ہوگئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ لیلیٰ خالد عیسائی تھیں۔
بے آف پگ میں سی آئی اے اور فلسطینی عسکریت میں کے جی بی کے 2 حوالے ہم نے بس بطور مثال دیئے ہیں۔ فی الحقیقت ان دونوں ایجنسیز نے یہ کام دنیا بھر میں اس قدر پھیلا دیا تھا کہ دیگر ممالک نے بھی یہ راہ اختیار کرلی۔ مثلا انڈیا کی جانب سے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کا ستعمال وغیرہ۔
اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ عسکری تنظیمیں جارحانہ خارجہ پالیسی رکھنے والے ممالک کے لیے باقاعدہ ’فارن پالیسی ٹول‘ بن گئیں۔ یہاں یہ وضاحت کرتے چلیں کہ سی آئی اے اور کے جی بی کے اقدامات سے قبل ہی لاطینی امریکا اور افغانستان میں عسکری تنظیمیں وجود میں آگئی تھیں مگر یہ بس دہشتگردی کے لیے تھیں۔ ممالک کے تختے الٹنا ان کے اہداف میں شامل نہ تھا۔
جب آپ اس تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو پھر یہ دعویٰ فضول ہوجاتا ہے کہ چونکہ آئی ایس آئی نے افغان جہاد میں عسکری تنظیموں کی سرپرستی کی لہذا اس کے نتیجے میں ہمارا ملک دہشتگردی کا شکار ہوگیا۔ غلطی افغان تنظیموں کی سرپرستی اور ٹریننگ نہ تھی۔ بلکہ کچھ اور تھی جسے ہم ابھی واضح کرتے ہیں مگر یہ بات اصولی طور پر ذہن میں بٹھا لیجیے کہ آئی ایس آئی نے کوئی انوکھا کام نہ کیا تھا۔ باقی دنیا کی طرح ہی عسکری تنظیموں کو خارجہ پالیسی ٹول کے طور پر استعمال کیا تھا۔
کسی کو اچھا لگے یا برا مگر اس لمحہ موجود میں بھی یہ ٹول دنیا کے مختلف ممالک استعمال کر رہے ہیں۔ جس میں امریکا، برطانیہ، فرانس، انڈیا اور روس سب شامل ہیں۔ سو آپ اس ٹول سے یک طرفہ طور پر دست بردار نہیں ہوسکتے۔ دست برداری کا نتیجہ ہم نائن الیون کے بعد اچھی طرح بھگت چکے۔
سوال یہ ہے کہ ہم سے غلطی کیا ہوئی؟ وہ غلطی جس کے نتیجے میں پاکستان دہشتگردی کی لہر کا آسانی سے شکار ہوگیا؟ غلطی یہ تھی کہ جب سوویت یونین کے خلاف جنگ آخری مراحل کی طرف بڑھ رہی تھی تو اچانک فیصلہ ہوگیا کہ یہی اسکیم مقبوضہ کشمیر میں ٹرائی کرنی چاہیے اور جب اس پر عملدرآمد شروع کیا گیا تو مہلک ترین غلطی یہ کی گئی کہ پاکستانی شہریوں کو بسوں میں بھر بھر کر افغانستان ٹریننگ کے لیے پہنچا یا گیا۔ اور انہی پاکستانیوں کو آگے چل کر مقبوضہ کشمیر بھیجا گیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ان تنظیموں کے دفاتر، جلسے اور چندے شروع ہوگئے۔ جس سے ملک کا ماحول ہی عسکریت کے حق میں چلا گیا۔
ہمارے ادارے اس طرف توجہ ہی نہ دے سکے کہ سی آئی اے نے بے آف پگ اور سوویت یونین نے فلسطین میں اپنے شہریوں کو استعمال نہیں کیا تھا۔ سی آئی اے نے کیوبن اور کے جی بی نے فلسطینیوں کو استعمال کیا تھا۔ یہی انڈیا نے مکتی باہنی کے معاملے میں بھی کیا تھا۔
مزید پڑھیں: آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ
چنانچہ ہماری اس مہلک غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پلاسٹکی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی پورے معاشرے کی سطح پر قابل قبول ہی نہیں بلکہ ہیرو تسلیم ہوگئے۔ جب آپ اپنے شہریوں کو استعمال کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ پھر وہی نکلتا ہے جو نائن الیون کے بعد پاکستان میں نکلا۔ یہ بات درست ہے کہ اس میں وہی لوگ ملوث نہ تھے جو کشمیر کاز سے وابستہ رہے تھے۔ یہ بالکل ہی نئے لوگ تھے مگر ان کو پنپنے کے لیے ماحول تو پہلے سے سازگار تھا۔ جو ماحول کشمیری تنظیموں سے بنا تھا وہی ٹی ٹی پی کے کام آیا۔
ایسا ہرگز نہیں کہ پاکستان میں محض اتفاقا ایسا ہوگیا تھا۔ یہی حالیہ سالوں میں روس میں بھی ہوا۔ جس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ جب آپ اپنے شہریوں پر مشتمل مسلح تنظیم بنانے کی غلطی کریں گے تو اس کا خمیازہ آپ کے اپنے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔
یفگنی پریگوژن والا واگنر گروپ یاد ہے جو یوکرین میں استعمال ہوا تھا؟ یہ کوئی باقاعدہ نظریاتی تنظیم نہیں، بلکہ ایک بزنس اسکیم تھی۔ یہ گروپ 2014 میں شامی باغیوں کے خلاف بنایا گیا۔ لیکن جب روس یوکرین جنگ کی طرف گیا تو انہیں بھی کال کرلیا۔ بخموت کی فتح اسی گروپ نے حاصل کی تھی۔ چنانچہ اس کا نشہ پریگوژن کو ایسا چڑھا کہ وہ سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغامات کے ذریعے اس وقت کے روسی وزیر دفاع ہی نہیں بلکہ اعلی فوجی کمانڈ کی بھی تذلیل کرنے لگا۔
بات یہیں تک نہ رہی بلکہ اس نے کچھ گھنٹوں کے لیے روس کے رستاف میں واقع سدرن ملٹری ڈسٹرک ہیڈکوارٹر پر بھی قبضہ کیا جس سے صدر پیوٹن کو عالمی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑے ممالک کی گرفت بھی بڑی ہوتی ہے۔ سو پیوٹن نے جلد ہی اس مسئلے سے یوں جان چھڑا لی کہ پریگوژن ’قضائے الہی سے‘ طیارہ حادثے میں مارا گیا اور واگنر گروپ کو روس کے سخت گیر ملٹری کمانڈر سرگئی سرویکن کے سپرد کرکے افریقہ بھجوادیا۔ یہ گروپ اب افریقہ میں القاعدہ وغیرہ کے خلاف متحرک ہے اور اسے باقاعدہ ملٹری قالب میں بھی ڈھالا جا رہا ہے۔ جس کے بعد یہ واگنر گروپ نہیں بلکہ رشین ملٹری کی فارن کور بن جائے گی۔ رشین میڈیا نے اسے الریڈی ’افریقہ کور‘ کا نام دیدیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر
اس ساری تفصیل کا نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں صرف یہ چیلنج درپیش نہیں کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشتگرد تنظیموں کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ بلکہ 2 مزید چیلنجز بھی ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں اپنے ملک سے وہ ماحول ختم کرنا ہوگا جو پلاسٹکی ایوبیوں کے لیے سازگار ہے۔ جبکہ ان ممالک سے بھی نمٹنا ہے جو ان کے پیچھے موجود ہیں۔ صرف افغانستان نہیں انڈیا کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ وہ انڈیا جہاں ہندو اتنی آسانی سے بکنے کو تیار ہوتا ہے کہ ایک کی قیمت جیب میں رکھ کر جاؤ تو اسی قیمت میں تین مل جاتے ہیں۔ آپ سمجھ رہے ہیں ناں ہم کیا کہہ رہے ہیں؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں