افغان طالبان نے بھارت کی شہ پر پاکستان پر حملہ کیا وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
مجبوراً بھرپور جوابی کارروائی کرنی پڑی،افغانستان میں دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی
افغانستان کیساتھ جائز شرائط پر بات چیت کیلئے تیار ہیں،وفاقی کابینہ اجلاس سے خطاب
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ افغان طالبان نے بھارت کی شہ پر پاکستان پر حملہ کیا، مجبوراً بھرپور جوابی کارروائی کرنی پڑی، افغانستان کے ساتھ جائز شرائط پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی طویل مشترکہ سرحد ہے، پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود افغان پناہ گزینوں کی بھرپور میزبانی کی، 40 لاکھ افغان دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، ہم نے بھائی چاریکے رشتیکو قائم و دائم رکھا ہے، افغان دہشت گرد ہماری پولیس اور افواج پاکستان کے جوانوں اور عام شہریوں کو شہید کر رہے ہیں،2018میں دہشت گردی ختم ہوگئی تھی پھر کیسے دہشت گرد واپس آئے ؟ 2018 کے بعد کی حکومت نے دہشت گردوں کو واپس لاکر بسایا۔وزیراعظم شہباز شریف نیکہا کہ بد قسمتی سے چند روز قبل پاکستان کی افواج پر فتنہ الخوارج نے حملہ کیا، حالیہ واقعات کے بعد صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا، نائب وزیر اعظم،وزیر دفاع اور دیگر افسران نے بارہا کابل کا دورہ کیا، افغان حکام سے بھی یہ کہا کہ ہم چاہتے ہیں خطے میں امن و ترقی کا دور دورہ ہو، بدقسمتی سے تمام کاوشوں کے باوجود افغانستان نے امن کو ترجیح نہ دی اور جارحیت کا راستہ اپنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب حملہ ہوا تو افغانستان کے وزیر خارجہ دہلی میں بیٹھے تھے، پاکستان پر یہ حملہ بھارت کی شہ پر ہوا، ہمیں مجبوراً بھرپور جوابی کارروائی کرنی پڑی، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج نے منہ توڑ جواب دیا ہے، اب بال افغانستان کے کورٹ میں ہے، افغانستان کی درخواست پر 48 گھنٹے کے لیے جنگ بندی کی گئی، دوست ممالک خاص طور پر قطر اس معاملیکو طے کرانیکی کوشش کر رہا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سیز فائر ٹھوس شرائط پر لمبی بھی ہوسکتی ہے لیکن اگر مہلت کے لیے ایسا کیا گیا تو اس کی اجازت نہیں دیں گے، افغانستان کے ساتھ جائز شرائط پر بات چیت کیلیے تیار ہیں، افواج پاکستان نے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے خوارجیوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: افغانستان کے
پڑھیں:
افغانستان، بھارت کے چنگل سے نکلے!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251017-03-3
افغانستان اور پاکستان کی مسلح افواج کے مابین کئی روز کی شدید کشیدہ صورت حال میں پاکستان کی جانب سے افغان دارالحکومت کابل پر حملے کے بعد فریقین میں جنگ بندی ہو گئی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق طالبان کی درخواست پر حکومت پاکستان اور افغان طالبان کے مابین باہمی رضا مندی سے بدھ کی شام چھے بجے سے آئندہ اڑتالیس گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جنگ بندی کے اس عرصہ کے دوران فریقین تعمیری بات چیت کے ذریعے اس پیچیدہ مگر قابل حل مسئلے کا مثبت حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ افغان طالبان نے جنگ بندی کی اپیل قطر اور سعودی عرب کے ذریعے بھی کی۔ دونوں ممالک نے پاک افغان تنائو کم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سفارتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کی بھر پور جوابی کارروائی کے بعد افغان طالبان نے براہ راست رابطہ بھی کیا۔ دوسری طرف پاک فوج نے چمن کے علاقے اسپن بولدک اور کرم میں پاکستانی پوسٹوں پر افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے حملوں کو ناکام بناتے ہوئے 50 طالبان کو ہلاک کر دیا۔ پاک فوج کی بھر پور جوابی کارروائیوں میں 8 چوکیاں اور 6 ٹینک تباہ ہو گئے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق ایک پوسٹ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 15 اکتوبر کی صبح افغان طالبان نے بلوچستان کے علاقے اسپن بولدک کے 4 مقامات پر حملے کیے جنہیں پاکستانی فورسز نے موثر طریقے سے پسپا کر دیا۔ یہ حملے مقامی بنی ہوئی بستیوں کے ذریعے منظم کیے گئے تھے جن میں شہری آبادی کی جان و مال کی پروا نہیں کی گئی۔ افغان فورسز نے چمن میں سول آبادی پر بلا اشتعال فائرنگ کی جس پر پاکستان نے موثر جواب دیا۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ افغان طالبان نے اپنی جانب سے پاک افغان فرینڈ شپ گیٹ کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی جو سرحدی تجارت اور قبائلی آمدو رفت میں سہولت کے لیے اہم ہے۔ بیان کے مطابق پاکستانی جوابی کارروائی میں 15 تا 20 افغان طالبان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اسپن بولدک پر حملہ کوئی الگ واقعہ نہیں تھا، 14 اور 15 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان اور فتنہ الخوارج نے خیبر پختون خوا کے کرم سیکٹر میں بھی پاکستانی سرحدوں پر حملے کی کوشش کی جسے موثر انداز میں ناکام بنا دیا گیا۔ ترجمان کے مطابق جوابی کارروائی میں افغان مراکز کو بھاری نقصان پہنچا۔ 8 پوسٹیں، 6 ٹینک تباہ کیے گئے اور اندازے کے مطابق 25 تا 30 افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے جنگجو ہلاک ہوئے۔ آئی ایس پی آر نے افغان طالبان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ حملہ پاکستان کی جانب سے شروع کیا گیا اس تاثر کو گھنائونا اور واضح جھوٹ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ طالبان انتظامیہ کے اس پروپیگنڈے کو عام حقائق کی روشنی میں باآسانی بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ بیان کے اختتام پر کہا گیا پاک افواج ملکی خود مختاری اور سرحدی سالمیت کے دفاع کے لیے پختہ عزم رکھتی ہیں اور کسی بھی جارحیت کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان کی افواج نے قندھار اور کابل میں ٹارگٹڈ کارروائیاں کیں جن میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور قیادت کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کی جانب سے شہری آبادی سے الگ تمام اہداف باریک بینی سے منتخب کیے گئے اور انہیں کامیابی سے تباہ کیا گیا۔ کابل میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور لیڈر شپ کو نشانہ بنایا گیا۔ پاک فوج نے قندھار میں افغان طالبان کی بٹالین ہیڈ کوارٹر نمبر 4، 8 اور بارڈر بریگیڈ نمبر 5 کے اہداف کو نشانہ بنایا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج نے نوشکی سیکٹر میں افغانستان کو بھر پور جواب دیتے ہوئے غزنالی پوسٹ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ افغانستان کی حدود میں تین کلو میٹر اندر واقع غزنالی پوسٹ تباہ کی گئی، افغان طالبان فوجی جوابی حملے میں غزنالی پوسٹ اور اسلحہ چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق ژوب اور چمن سیکٹر میں متعدد پوسٹیں اور خوارجین کی پناہ گاہیں مکمل تباہ ہو گئیں۔ پاک فوج کی جوابی کارروائیوں میں بھاری توپ خانے کا بھی استعمال کیا گیا۔ افغان طالبان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ مارٹر فائر کے بعد علاقے میں دھویں کے بادل اور دھماکوں کی آوازیں دیر تک گونجتی رہیں۔ پاک فوج کی موثر کارروائیوں سے اب تک سرحد پار طالبان کے متعدد ٹھکانے تباہ ہو چکے ہیں۔ پاک فوج نے 21 افغان طالبان پوسٹیں عارضی طور پر قبضے میں لیں جب کہ دہشت گردوں کے کئی تربیتی کیمپ ناکارہ بنائے۔ پاکستان اور افغانستان دو ہمسایہ اور مسلمان ممالک ہیں۔ افغان عوام ہمارے بھائی ہیںاور پاکستان نے ہمیشہ ان کے مفادات کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ سفارتی تعاون اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ جس کی نمایاں مثال ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام نے مل کر عالمی استعمار خصوصاً سوویت یونین کی افغانستان کے خلاف جارحیت کا مقابلہ کیا اور اسے شکست اور اندرونی شکست و ریخت کا داغ پیشانی پر سجائے افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ مگر بدقسمتی سے موجودہ افغان قیادت بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے بلکہ وہ پاکستان کے وجود ہی کو دل سے تسلیم نہیں کرتا اسے جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ پاکستان ہی نہیں بھارت کے تقریباً تمام ہمسایہ ممالک اس کی منفی، متعصبانہ اور تخریب کارانہ سوچ سے تنگ اور پریشان ہیں کیونکہ انہیں ہمہ وقت بھارت کی سازشوںکا سامنا رہتا ہے بلکہ اب اس کی سازشوں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا دائرہ امریکا، جرمنی اور کینیڈا تک پھیل چکا ہے۔ پاکستان میں حالات کی خرابی کا ذمے دار ہمیشہ سے بھارت ہی رہا ہے جس کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت کلبوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے تخریب کاری کے نیٹ ورک کے بے نقاب ہونے سے پوری دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ گزشتہ مئی میں ’’آپریشن بنیانٌ مرصوص‘‘ کی شاندار کامیابی اور بھارت کی عبرت ناک شکست کے بعد سے اس کے سینے پر مسلسل سانپ لوٹ رہے ہیں اور وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے اس کی جارحانہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کا مرکز افغانستان ہے۔ افغان وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ بھارت سے یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ افغانستان پوری طرح بھارت کے چنگل میں پھنس چکا ہے چنانچہ افغان قیادت نے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر پاکستانی عوام کے جذبات ہی کو ٹھیس نہیں پہنچائی جس کی کشمیر شہ رگ ہے بلکہ کشمیر کے اسی لاکھ مسلمانوں کے زخموں پر بھی نمک پاشی کی ہے۔ موجودہ صورت حال کا لازمی تقاضا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کشیدگی کو بڑھانے اور مسلح تصادم کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کی سنجیدہ کوشش کریں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے بجائے دشمن کے عزائم کو پہچانیں اور انہیں ناکام بنانے کے لیے سفارتی ذرائع اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں اور محدود جنگ بندی سے آگے بڑھ کر خطے میں مستقل امن، استحکام اور مسائل کا پائیدار حل تلاش کریں اس مقصد کے لیے دوست ممالک کے خیر سگالی جذبات اور دونوں ملکوں کی نظریاتی ہم آہنگی کو بھی بروئے کار لایا جانا چاہیے…!!!