Juraat:
2025-10-16@01:53:39 GMT

پاکستان میں معاشی بحران:وجوہات، اثرات اور حل

اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT

پاکستان میں معاشی بحران:وجوہات، اثرات اور حل

محمد آصف

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے سنگین ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے ۔ مہنگائی، بیروزگاری، کرنسی کی گراوٹ، تجارتی خسارہ، قرضوں کا بوجھ، اور سیاسی عدم استحکام نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ عام آدمی کی زندگی دن بہ دن مشکل ہوتی جا رہی ہے اور بنیادی ضروریات جیسے آٹا، چینی، بجلی، گیس اور پٹرول اب عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ یہ بحران محض وقتی یا عالمی حالات کا نتیجہ نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط پالیسی کی ناکامی، بدعنوانی، ادارہ جاتی کمزوری اور فیصلہ سازی میں تسلسل کی کمی کا نتیجہ ہے ۔ اس بحران کے اثرات سب سے زیادہ اُس طبقے پر پڑ رہے ہیں جو ملک کا مستقبل کہلاتا ہے ۔ نوجوان نسل پاکستان کی آبادی کا تقریباً چونسٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ یہ وہ قوت ہے جو اگر درست سمت میں استعمال ہو تو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے ، مگر بدقسمتی سے موجودہ معاشی حالات نے نوجوانوں کی توانائی اور صلاحیتوں کو مایوسی، غیر یقینی اور بے بسی میں بدل دیا ہے ۔ پاکستان کے معاشی بحران کی کئی وجوہات ہیں۔ دہائیوں سے جاری غلط پالیسیوں، کرپشن، غیر منصفانہ نظام، قرضوں پر انحصار اور پیداوار میں کمی نے معیشت کو کمزور کیا ہے ۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ نے درآمدات کو مہنگا کر دیا ہے ، توانائی کے بحران اور صنعتوں کی بندش نے روزگار کے مواقع محدود کر دیے ہیں، اور سیاسی عدم استحکام نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔
اس بحران کی پہلی بڑی وجہ مالیاتی بدانتظامی (Fiscal Mismanagement) ہے ۔ حکومت کے اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں، اور ٹیکس وصولی کا نظام غیر مؤثر ہے ۔ پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح (Tax-to-GDP ratio) دنیا کے کم ترین ممالک میں شامل ہے ، اور صرف ایک محدود طبقہ ہی ٹیکس دیتا ہے ۔ باقی ماندہ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت بار بار اندرونی اور بیرونی
قرضوں کا سہارا لیتی ہے ۔ اس وقت پاکستان کا بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے ، جبکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے ، جو درآمدات کو مہنگا اور افراطِ زر کو بڑھاتی ہے ۔ چونکہ پاکستان کی صنعت اور معیشت درآمدی مواد پر انحصار کرتی ہے ، اس لیے روپے کی گراوٹ کا اثر ہر شعبے پر پڑتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی روز بروز بڑھتی ہے اور عام شہری کی قوتِ خرید ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ اشیائے خوردونوش، ادویات، پیٹرولیم مصنوعات، حتیٰ کہ تعلیم اور صحت جیسے شعبے بھی اس کی زد میں آ گئے ہیں۔ تیسری وجہ سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے ۔ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں کو ترک کر کے نئی پالیسیاں متعارف کرواتی ہے ، جس سے معیشت میں غیر یقینی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ سرمایہ کار اعتماد کھو بیٹھتے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور کاروباری طبقہ مستقبل کے خدشات سے پریشان ہو کر اپنی سرگرمیاں محدود کر دیتا ہے ۔ چوتھی اہم وجہ توانائی کا بحران ہے ۔ لوڈشیڈنگ، گیس کی کمی، اور مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے ، جس سے برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں پیداواری صنعتوں کا عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے ، نتیجتاً تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس معاشی بحران کے عوام پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ، لوگ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو رہے ہیں۔ مہنگائی نے متوسط اور غریب طبقے کی کمر توڑ دی ہے ، اور لوگ نفسیاتی مسائل، جرائم، اور بدامنی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب ملک کو عالمی سطح پر اپنی ساکھ اور خودمختاری کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔کیونکہ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کی شرائط سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ان حالات کے نتیجے میں نوجوان نسل سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے ۔ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ بے روزگاری کی بلند شرح نے ان میں مایوسی، بے چینی اور نفسیاتی دباؤ پیدا کر دیا ہے ۔
بہتر مستقبل کی تلاش میں ہزاروں نوجوان بیرونِ ملک جا رہے ہیں، جس سے ملک علمی اور معاشی طور پر کمزور ہو رہا ہے ۔ دوسری جانب بہت سے نوجوان غیر رسمی شعبوں میں معمولی آمدنی پر کام کرنے پر مجبور ہیں جہاں نہ استحکام ہے نہ سماجی تحفظ۔ تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود نوجوانوں میں بے پناہ قابلیت، جذبہ اور حوصلہ موجود ہے ۔ ڈیجیٹل معیشت، فری لانسنگ، اسٹارٹ اپس اور سوشل انٹرپرینیورشپ کے
ذریعے کئی نوجوان نہ صرف خود کفیل ہو رہے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں نوجوان زراعت کے جدید طریقے اپنا رہے ہیں جبکہ شہری نوجوان ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔
ریاست اور سماج پر لازم ہے کہ وہ نوجوانوں کی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ تعلیم کو مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے ، کاروباری سہولتیں اور تربیتی پروگرام فراہم کیے جائیں، نوجوانوں کو پالیسی سازی کے عمل میں شامل کیا جائے اور کرپشن و اقربا پروری کا خاتمہ کر کے میرٹ کو فروغ دیا جائے ۔ پاکستان کا معاشی بحران وقتی نہیں بلکہ ساختی نوعیت کا ہے ، اور اس سے نکلنے کے لیے
نوجوانوں کو ہی تبدیلی کا محور بنانا ہوگا۔ نوجوان نسل صرف مسائل کا شکار نہیں بلکہ ان مسائل کا حل بھی بن سکتی ہے ، بشرطِیکہ انہیں تعلیم، روزگار اور اعتماد کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہی نوجوان پاکستان کے روشن مستقبل اور معاشی استحکام کی حقیقی ضمانت ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے ٹیکس نظام کی اصلاح اور محصولات میں اضافہ کیا جائے ۔
قرضوں پر انحصار کم کر کے برآمدات کو فروغ دیا جائے ۔ زراعت اور صنعت کو سبسڈی دے کر مضبوط کیا جائے تاکہ مقامی پیداوار بڑھے اور درآمدات میں کمی آئے ۔ توانائی کے متبادل ذرائع جیسے سولر اور ہوا سے بجلی کی پیداوار کو فروغ دیا جائے ۔ سب سے بڑھ کر سیاسی استحکام اور پالیسی کا تسلسل ضروری ہے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو اور معیشت کو ایک مستقل سمت دی جا سکے ۔
پاکستان کا معاشی بحران صرف اقتصادی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ہمہ جہتی چیلنج ہے جو سیاسی، معاشرتی اور قومی سلامتی سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ اگر فوری اور مستقل نوعیت کے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو آنے والے سالوں میں مزید سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم بحیثیت قوم معاشی خود انحصاری کی طرف بڑھیں، بدعنوانی کا خاتمہ کریں اور قومی مفاد کو ذاتی سیاست پر ترجیح دیں۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان کا ہو رہے ہیں ہیں بلکہ کیا جائے رہا ہے دیا ہے کے لیے

پڑھیں:

قرض کے مضر اثرات

جب آپ صبح سویرے اٹھ کر شہر کی سڑکوں پر قدم رکھتے ہیں تو ٹوٹی ہوئی سڑکیں ارد گرد ٹوٹی پھوٹی بسیں ویگنیں، رکشے، بجلی کی ٹوٹی ہوئی تاریں، اجاڑ پارک، ریلوے اسٹیشن کی پرانی قدیم عمارتیں اور بہت کچھ اشارہ کر رہی ہوتی ہیں کہ پاکستان ایک غریب ترین ملک ہے۔ یہاں کے عوام کی مفلوک الحالی پچکے ہوئے چہرے، بچوں کی سوکھی ٹانگیں، بوڑھوں کی پریشان جبینیں اور بہت کچھ سدا بہار مفلسی کا فسانہ سنا رہے ہوتے ہیں۔

ایک طرف عوام کی مفلوک الحالی، دوسری طرف معاشی ترقی کے بیانیے، ترسیلات زرکے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ قرض کے لامتناہی سلسلے کی کہانی اور اس پر آئی ایم ایف کی طرف سے مزید قسطوں کے اجرا پر خوشی کا اظہار، ورلڈ بینک سے قرض وصولی پر اطمینان کا شکرانہ، یوں معلوم دیتا ہے کہ جیسے جیسے شرح سود پر قرض کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے، ہر حکومت کی خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ حکومت قائم رکھنے کے لیے جتنا ہو قرض لیا جائے۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ قرض حکومت لیتی ہے اور قرض کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔

ایک ماہ قبل اخباری اطلاع کے مطابق سوا تین لاکھ روپے کا مقروض ہر شہری ہے۔ ایک اور اطلاع کے مطابق ساڑھے تین لاکھ روپے فی شہری پر قرض کا بوجھ ہے۔

قرض کے ساتھ قرض پر سودکا بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اکثر قرض اتنا ہی رہتا ہے لیکن سود کی ادائیگی میں اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں جو قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ نگل رہے ہیں، لیکن قرض کی ادائیگی میں فی شہری پر جس طرح سے قرض کا بوجھ ساڑھے تین لاکھ تک ہے تو اس میں امیر غریب، بچے بوڑھے، جوان، مرد و زن کے درمیان سادات کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ قرض کی ادائیگی ایک ایسا فرض ہے جس میں ہر شہری برابر ہے۔

چلیے ایک موقع پر ایک بات ایسی سامنے آ گئی جس میں سب کے حقوق برابر ہیں، لیکن قرض کے بار اور قرض کے بوجھ کے اثرات کے تحت غریب اور امیر ہر اثرانداز ہوتے ہیں۔ قرض نے بھی ستم ظریفی دکھائی ہے کیونکہ قرض کا بوجھ ان شہریوں پر زیادہ مضر اثرات مرتب کرتا ہے جو پہلے ہی غریب ہیں، مفلوک الحال ہیں، مزدور ہیں، بے روزگار ہیں۔

اس قرض کے بوجھ کو غریب کمزور طبقات کے لیے مارکیٹ کی ناکامی کے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کی معیشت نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے،کیونکہ معاشی نظام میں قرض کے غالب ہونے، شرح سود کی رقوم میں اضافے یعنی بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ اس کے لیے مختص کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ نظام غریب کو مزید غریب بنا رہا ہے ایک طرف ترقیاتی اخراجات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جس سے ملک اب فلاحی مملکت کی حیثیت سے گر کر درآمدی معیشت والی حیثیت اختیار کیے جا رہا ہے جس سے غریب مزید غریب یا مزدور کا بچہ مزدور، بے روزگاری ہونے کے باعث زمین پر غیر پیداواری محنت کا حصہ بڑھ رہا ہے۔

مثلاً کسی بوڑھے بابا کی 5 بیگھہ زمین ہے یا اس کے پاس 15 ایکڑ زمین ہے بوڑھے بابا نے زمینداری چھوڑ دی۔ اب اس کے جوان بیٹے زمین کو سنبھالتے ہیں۔ فرض کیا اس پر پہلے ہی تین بیٹے کام کر رہے ہیں اب چوتھا بیٹا روزگار کی تلاش میں بڑے شہرگیا، چند ہفتوں کے بعد اس نے واپس آ کر شاید یہ بتایا ہوگا کہ شہر میں کارخانوں کو تالے لگ گئے ہیں اور جو کارخانے کام کر رہے ہیں، ان میں مزدوروں کی قطار لگ جاتی ہے۔

شام کو اس قطار میں سے محض چند افراد کو کام پر رکھ لیا جاتا ہے، باقی سے معذرت کر لی جاتی ہے۔ بابا نے شاید یہ پوچھا ہو کہ بند کارخانوں کے سیٹھ صاحبان اب کیا کرتے ہیں اس نے جو باتیں شہر جا کر سنی تھیں وہ اپنے والد بزرگوار کو سنا دیں کہ بہت سے مل والے بنگلہ دیش چلے گئے ہیں اور چند دیگر ملکوں کو، زیادہ تر دبئی جا کر کوئی کاروبار کر رہے ہیں اور جو رہ گئے انھوں نے اپنے کارخانوں کو گودام میں تبدیل کر دیا۔ کہیں گندم کی بوریاں ذخیرہ کر دی جاتی ہیں۔

کہیں آٹا، گھی، چینی، دال اورکہیں کئی اقسام کے پھل جب ماہ رمضان المبارک آتا ہے تو بڑے لوگ بڑھتے ہوئے داموں میں ان سب کو فروخت کر دیتے ہیں اور مارکیٹ میں کبھی آٹے کی قلت کبھی دال کبھی گھی کبھی چینی کی قلت دور کرنے پر زیادہ سے زیادہ دام لے کر آٹا چینی چاول،گھی، دالیں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع بھی کما لیا اور حکومتی طرح طرح کے قانون کے باعث تنگ آئے ہوئے کارخانہ داروں کا بغیرکسی جھنجھٹ کے کروڑوں روپے کمانے کا ہنر بھی ہاتھ آگیا یا پھر پلاٹ کی خرید و فروخت کرتے کرتے چند لاکھ کا پلاٹ اب کروڑوں روپے کا ہو گیا ہے۔ بوڑھے کسان نے ایک لمبی آہ بھری ہوگی اور کہا ہوگا کہ ٹھیک ہے جب ملک کے معاشی نظام کو سود کے بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے تو ایسی صورت میں ملک میں روزگار کیسے آئے گا، مہنگائی بڑھتی چلی جائے گی اور لوگ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جائیں گے۔

اب وہ بیٹا بھی چھوٹے سے قطعہ زمین پر بھائیوں کا ہاتھ بٹانے لگ جاتا ہے۔ اب ایک قطعہ زمین پر زیادہ سے زیادہ دو ہی افراد کافی تھے، اب اس میں چار افراد جب کام کریں گے تو دو افراد بے روزگاری کے ضمن میں آ جاتے ہیں کیونکہ زمین نے اتنی ہی پیداوار دینی ہے۔

مزید دو افراد زمین کی پیداوار میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ بوڑھے کسان کے پوتے کسی کی عمر 12 سال کسی کی عمر 15 سال ہے تو اسے خیال آتا ہوگا کہ جلد ہی اس کھیت پر مزید دو افراد کا بوجھ آن اترے گا۔ یوں کل 6 افراد چھوٹے سے قطعہ زمین پر راج کریں گے۔ پہلے جیسی مقدار میں اناج اٹھائیں گے یوں معاشرے میں افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، آبادی بڑھتی جا رہی ہے ملک میں بتدریج غریب افراد کا مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ قرض کا بوجھ ہے جس نے غریب افراد کی آبادی میں مسلسل اضافہ کر دیا ہے اور اس کے ساتھ سود کی رقم بڑھتی چلی جا رہی ہے اور یہ سود ہی ہے جو معیشت کو نگل رہا ہے غریب اور امیر کا فرق بڑھا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قرض کے مضر اثرات
  • آئی ایم ایف اور معیشت کے اہداف
  • وزیراعظم نے ملکی سیاسی و معاشی صورتحال پر وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا
  • بھارت میں جنگلی ہاتھیوں کی آبادی میں 25 فیصد کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف سطح کا معاہدہ طے پا گیا
  • پاکستانی معاشی نمو 3.6 اور افراط زر 6 فیصد رہنے کا امکان ہے، آئی ایم ایف رپورٹ
  • ہائی بلڈ پریشر کا شکار10 لاکھ مریضوں کی تلاش او ان کےعلاج کی مہم کا آغاز
  • کسانوں کا معاشی قتل اور ناجائز کٹوتی بند کی جائے ‘ کاشف سعید شیخ
  • کلائمیٹ فنانسنگ پاکستان کا حق ہے، موسمیاتی بحران کا فرنٹ لائن ملک