ہم نے پچھلے کالم میں اس بات پر زور دیا تھا کہ مسلم مذہبی ذہن کو جیوپولیٹکل ایشوز کو مذہبی عینک سے دیکھنے کی عادت ترک کرنی ہوگی۔ مختصراً شام کی پچھلے چند ماہ کی صورتحال کے تناظر میں اس کی وضاحت بھی کی تھی۔ مگر کچھ احباب کی جانب سے اصرار ہے کہ اس نکتے کو تفصیل سے کھولا جائے، وہ بھی مسلم تاریخ کے تناظر میں۔
یہ نکتہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اسے نظر انداز کرنے کی غلطی ٹھیٹھ مسلم مذہبی ذہن مسلسل کر رہا ہے۔ اور اس کے نتائج اس کے لیے شرمندگی کے سامان کے سوا کچھ نہیں لاتے۔ سو تفصیل کا تقاضا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آئیے! مسلم تاریخ کے بالکل ابتدائی دور سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کا آغاز ہوتے ہی 2 چیلنجز کھڑے ہوگئے۔ ایک منکرین زکوۃ کی بغاوت اور دوسرا مسیلمہ کذاب کا فتنہ۔ یہ دونوں چیلنجز مسلم اسٹیٹ کے وجود کے لیے خطرے کے طور پر سامنے آئے۔ ان سے نمٹتے نمٹتے یہ بات طے ہوگئی تھی کہ اسٹیٹ کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے ورنہ محدود رقبے اور نہ ہونے کے برابر معیشت کے ساتھ یہ برقرار نہیں رہ پائے گی۔
یہاں سے شروع ہوا مسلمانوں کا جیو پولیٹکل سفر۔ یعنی بین الاقوامی سیاست کا آغاز۔ جیو پالیٹکس اپنے دامن میں 2 مزید اصطلاحات رکھتی ہے۔ جیو اکنامک، اور جیو اسٹریٹجک۔ جیو اکنامک عالمی تجارت ہے جبکہ جیو اسٹریٹجی عالمی دفاعی حکمت عملی۔
مسلم ریاست کا آغاز جس جزیرۃ العرب سے ہوا تھا اس کا تعارف ہی یہ تھا کہ نہ وہاں کوئی بڑا تجارتی شہر تھا اور نہ ہی اس خطے کی کوئی دفاعی اہمیت تھی۔اس علاقے کے تاجروں کو سامان خریدنے کے لیے شام جانا پڑتا تھا۔ وہاں سے مال لائے، ختم ہوا تو جاکر مزید لے آئے۔ جبکہ اسٹیٹ طاقت پکڑتی ہے بڑی تجارت سے۔ چنانچہ ضروری ہوگیا تھا کہ عالمی تجارت کے مراکز اور شاہراہوں کا کنٹرول حاصل کرکے بیلنس آف پاور اپنے حق میں شفٹ کیا جائے۔
مسلم ملٹری مہمات کا اولین مقصد یہی تھا۔ یہ مہمات لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کی غرض سے شروع نہ ہوئی تھیں، جس کی 2 دلیلیں ہیں۔
پہلی یہ کہ جب مسلم لشکر کسی ملک، علاقے یا شہر تک پہنچتا تو حملے سے قبل اسلامی دستور کے مطابق علاقے کی حکومت، اور لوگوں کے سامنے 3 آپشنز رکھی جاتیں۔ پہلی یہ کہ آپ اسلام قبول کر لیجیے اور علاقہ ہمارے حوالے کردیجیے۔ اگر اسلام قبول نہیں کرنا تو کوئی مسئلہ نہیں، ہماری طرف سے اس پر کوئی اصرار نہیں۔ لیکن علاقہ اس صورت میں بھی ہمارے حوالے کرنا ہوگا۔ آپ ٹیکس دیں گے، ہم آپ کی جان، مال، عزت و آبرو کا تحفظ کریں گے۔ اگر یہ آپشن بھی قبول نہیں تو پھر ہم علاقہ تو بذریعہ جنگ لیں گے، لیکن آپ سے کلمہ ہم تلوار کے زور پر نہیں پڑھوائیں گے۔ تلوار فقط علاقے کے حصول کے لیے استعمال ہوگی۔
یہ 3 آپشنز کیا بتاتے ہیں؟ یہ کہ اہل علاقہ یا شہر کا کلمہ نہ پڑھنا قابل قبول تھا مگر علاقہ حوالے نہ کرنا کسی صورت قبول نہ تھا۔ علاقہ اگر جنگ کے بغیر نہ دیا جاتا تو پھر اس کے حصول کے لیے جنگ لڑی جانی تھی۔ وہ جنگ جس میں جان دی بھی جاتی اور لی بھی جاتی۔ یعنی مقامی شہری کا غیر مسلم رہنا قبول تھا مگر شہر یا علاقہ اس کے تصرف میں چھوڑنا قبول نہ تھا۔ اب یہ آپ ہی غور کر لیجیے کہ اصرار کلمے پر تھا یا جغرافیے اور وسائل کے حصول کے حصول پر؟
دوسری دلیل کی جانب آئیے۔ مسلم لشکر جزیرۃ العرب سے نکلا تو 2 حصوں میں بٹ گیا۔ ایک عراق کی جانب گیا جس کا کچھ حصہ فارس کے کنٹرول میں تھا، دوسرا شام کی جانب گیا جہاں رومن ایمپائر بیٹھی تھی۔ وہ ایک ہی وقت میں اپنے زمانے کی دونوں سپر طاقتوں سے جا بھڑے۔ یعنی 2 فرنٹ وار اور ہر فرنٹ پر ایک مستقل سپر پاور کا سامنا۔ یہ وہ چیز ہے جس سے آج کی انتہائی جدید سپر طاقتیں بھی بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں شکست یقینی مانی جاتی ہے۔ لیکن آپ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا کارنامہ دیکھیے۔
اگست 636 ء میں یرموک کی جنگ میں رومن ایمپائر شکست سے دوچار ہوتی ہے، اور اسی سال نومبر میں قادسیہ کی جنگ میں فارس کو ایسی تاریخ ساز ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے کہ رستم مارا جاتا ہے۔
آگے کی تاریخ میں ایک لشکر چلتا ہوا سمرقند تک آجاتا ہے اور دوسرا افریقہ پہنچ جاتا ہے۔ علاقے، شہر اور ملک قبضہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک صدی بیت جاتی ہے مگر کوئی بھی مسلم لشکر براعظم یورپ کا رخ نہیں کرتا۔ 711ء میں جاکر سپین کا رخ کیا جاتا ہے تو وہ بھی تب جب اسپین میں بغاوت کی صورتحال ہوتی ہے اور ایک گروہ مسلمانوں کی مدد طلب کر لیتا ہے۔ تب بھی مسلمان صرف اسپین اور جنوبی فرانس کے کچھ حصے تک رہتے ہیں۔ پورے براعظم کو نہیں لیا جاتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آنے والے زمانوں میں جب منگول اٹھتے ہیں تو وہ بھی یورپ میں بس ہنگری تک جاکر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ جبکہ روس اور چین سے لے کر مصر کی مضافات تک سارا علاقہ تہ وبالا کردیتے ہیں مگر براعظم یورپ کو وہ بھی نظرانداز کردیتے ہیں۔
منگول تو چلیے کوئی مذہبی یا نظریاتی ایجنڈہ نہیں رکھتے تھے لیکن مسلمانوں نے یورپ کو کیوں نظر انداز کیا؟ یہ سوال یوں اہم ہے کہ اگر مسلم ملٹری مہمات کا مقصد اسلام کی دعوت پہنچانا تھا تو گوروں کا پورا براعظم کیوں نظر انداز کیا گیا؟ وہ بھی تو انسان تھے، ان تک اسلام کی روشنی لے جانا غیر ضروری کیوں سمجھا گیا؟ اب یہ وہ مقام ہے جسے مسلم مذہبی ذہن سمجھ جائے تو اس کی ساری الجھنیں بھی دور ہوجائیں اور یہ ٹی ٹی پی یا القاعدہ ٹائپ کے پلاسٹکی صلاح الدین ایوبیوں کے ٹرکوں کی بتی کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ہر بار کسی عالمی طاقت کے سہولت کار بننے سے بھی بچے رہیں۔
سمجھنے کا نکتہ یہ ہے مسلم ملٹری مہمات کا مقصد دعوت اسلام سے بھی زیادہ اہم تر تھا۔ اور وہ مقصد تھا ایسی طاقتور مسلم سلطنت جسے دنیا کی کوئی طاقت چیلنج نہ کرسکے اور مسلمان اس میں جان، مال، عزت اور عقیدے کے تحفظ کے ساتھ رہ سکیں۔ خلفائے راشدین نے ہجرت سے قبل والا مکی دور دیکھ رکھا تھا جب ان کے پاس کوئی اسٹیٹ نہ تھی۔ یوں انہیں اپنے ہی گھروں سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ سو وہ اسٹیٹ اور اس کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ ریاست مدینہ کے قیام اور فتح مکہ کے ساتھ ابتدائی درجے کی اسٹیٹ وجود میں آگئی تھی۔ اب اسے محفوظ کرنے کا چیلنج درپیش تھا۔ اور محفوظ کرنے کی راہ آج بھی دنیا بھر کی یونی ورسٹیز میں یہی پڑھائی جاتی ہے کہ بیلنس آف پاور آپ کے حق میں ہونا چاہیے۔ جس کے لیے دنیا کے تجارتی راستوں، اہم تجارتی مراکز، اور اسٹریٹجک مقامات پر آپ کا کنٹرول ضروری ہے۔
ہم آج یہ کہتے ہیں یا نہیں کہ امریکا فلاں ملک پر اس لیے قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں موجود تیل اور دیگر وسائل کا کنٹرول حاصل کرسکے؟ دنیا بھر میں اس کے 900 سے زائد ملٹری بیسز کس مقصد کے لیے ہیں؟ یہ تمام بیسز اسٹرٹیجک لوکیشنز پر قائم ہیں۔ امریکا سے قبل یہی کچھ برطانیہ نے کیا۔ اب ذرا ایک دلچسپ نکتہ دیکھیے۔ برطانوی دور میں دنیا کی تجارت سمندری راستوں کی جانب شفٹ ہونا شروع ہوگئی تھی۔ مگر زمینی راستے اب بھی فعال تھے۔ جب امریکی دور آیا اور نہر سویز بنی تو اب مال بردار بحری جہاز بھی وہ تھے جو لاکھوں ٹن مال سپلائی کرتے تھے۔ یوں ساری دنیا کی تجارت لگ بھگ مکمل طور پر ہی سمندری راستوں سے ہونے لگی۔ سو امریکا نے اسی حساب سے نیول پاور بنائی تاکہ سمندروں پر اس کا راج رہے۔ اب آکر چائنیز نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے عالمی تجارت کے ایک بڑے حصے کو واپس خشکی کے راستوں کی جانب منتقل کرنا شروع کیا ہے۔ اور اس کے لئے وہ ریلوے کو استعمال کرنے جا رہا ہے۔ یعنی نئے تجارتی راستے اور ان کا مکمل کنٹرول چین کے پیش نظر ہے۔
سو مطلب یہ ہوا کہ آج کی سپر طاقتیں وہی کر رہی ہیں جو اپنے سنہرے دور میں ہم نے کیا تھا۔ مسلم سلطنت کو ایک بڑی طاقت بنا بھی لیا تھا اور منوا بھی لیا تھا۔ ہر اہم عالمی تجارتی مرکز، تمام تجارتی راستے اور اسٹریٹجک مقامات مسلمانوں کے کنٹرول میں آ چکے تھے۔ وہ اس یورپ کی طرف کیوں جاتے جہاں غربت اپنی بدترین شکل میں تھی؟ ایک بھی تجارتی یا اسٹریٹجک اہمیت کا شہر یا علاقہ وہاں نہ تھا۔ اوپر سے زمین بھی ان کی دلدلی۔ سو صنعت چھوڑیے کوئی قابل ذکر زراعت بھی وہاں نہ تھی۔ مسلمان وہاں جاتے تو سارا بجٹ گورے مفت خوروں کو پالنے پر خرچ ہوتا۔ سو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ دعوت اسلام داعی اور عالم کا کام ہے۔ لشکر دعوت اسلام دینے نہیں بلکہ جیو اکنامک اور جیو اسٹریٹیجک اہداف کے حصول کے لیے جاتے ہیں۔ وہ یورپ میں ہوتے تو کوئی شک نہیں کہ مسلم لشکر وہاں بھی جاتے۔
ایک عجیب اتفاق دیکھیے، مسلمان اس جزیرۃ العرب سے اٹھے تھے جسے اسلام سے قبل سب نے نظر انداز کر رکھا تھا۔ قبائلی معاشرہ تھا کوئی باضابطہ ملک نہ تھا۔ نہ تو اس کی کوئی تجارتی اہمیت تھی اور نہ ہی اسٹریٹجک۔ سو کوئی اسے فتح کرنے بھی نہ آتا۔ مسلم دور میں یہی صورتحال یورپ کی تھی۔ جاگیر دار معاشرہ تھا۔ کوئی تجارتی اہمیت اور نہ ہی اسٹریٹجک۔ نتیجہ یہ کہ مسلمانوں اور منگولوں دونوں نے نظر انداز کیا۔ لیکن جزیرۃ العرب کے فقیروں کی طرح یورپ کے غریب غربا نے بھی ایسی اٹھان دکھائی کہ تجارت اور طاقت کے سارے مراکز فتح کرکے اپنا کنٹرول قائم کرلیا۔ یہی مسلم زوال لے کر آئے۔ اور آج کی تاریخ میں مسلمانوں کی طرح انہیں بھی زوال کا سامنا ہے جو ہر عروج کا مقدر ہے۔
خلاصہ یہ کہ آج کے مسلم مذہبی ذہن کو اپنی ہی تاریخ سے سیکھنا ہوگا مگر اس کام کے لیے اسے جیو پولیٹکل، جیو اکنامک اور جیو اسٹریٹجک عینکیں استعمال کرنی ہوں گی۔ یعنی جب اسے اس سوال کا سامنا ہو کہ کیا مسلمانوں کا دور عروج واپس آنے کا امکان ہے؟ تو اس سوال کا جواب مذکورہ 3 عینکوں سے مسلم دنیا کے جائزے سے ملے گا۔ مذہب کی عینک آپ کو لاحاصل قسم کی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ وہ خوش فہمی جس میں ذہن کا انداز فکر یہ بن جاتا ہے ’اللہ کے لیے کوئی مشکل تھوڑی ہے، وہ چاہے تو کل سے ہی مسلم دور پھر سے آسکتا ہے۔‘ اور یہ احمق ذہن یہ نہیں سوچ پاتا کہ اللہ اگر اس طرح کرتا تو خلفاء راشدین کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جنگوں میں کیوں قربان کروانے پڑتے؟ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہی پر سب سے زیادہ مہربان تھے۔ انہیں تو ایک صدی تک آگ و خون کے دریاؤں سے گزر کر عروج حاصل کرنا پڑا تھا۔ تو آپ کو بیٹھے بیٹھے اللہ جی کس خوشی میں عروج دیں گے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جزیرۃ العرب عالمی تجارت جیو اکنامک کے حصول کے کی جانب جاتا ہے کے ساتھ قبول نہ کے لیے نہ تھا وہ بھی اور نہ اور اس
پڑھیں:
ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال
بیٹیاں ہمارے گھروں کی رونق ہیں، ان کے ناز اٹھائے جاتے ہیں، ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر ’جائز’ خواہش پوری کی جاتی ہے۔ لیکن ہم میں سے کتنی بیٹیاں ایسی ہیں جن کے کانوں میں کبھی نہ کبھی بچپن میں یہ آواز پڑی ہوگی، چاہے وہ کسی رشتہ دار کی ہو، چاہے ماں یا باپ کی، کہ دیکھو! اس کے اتنے ناز نہ اٹھاؤ، بعد میں پریشانی ہوگی۔ اس کو کچھ کام کاج تو سکھا دو، اگلے گھر کیا کرے گی، پھوہڑ کو کون رکھے گا؟ اسے سمجھاؤ کہ اپنے مزاج میں نرمی پیدا کرے، ذرا سہج کر رہے۔ اگلے گھر کوئی یہ نخرے برداشت نہیں کرے گا۔
بیٹی کی پیدائش پر کوئی آنٹی یا انکل منہ لٹکا کر کہہ دیتے ہیں’۔۔۔ دیکھو، بیٹی تو رحمت ہے، بیٹیوں سے تو ڈر نہیں لگتا، بس ان کی قسمت سے ڈر لگتا ہے‘۔
کیوں ڈر لگتا ہے؟ کیا بیٹی کی قسمت پیدائشی طور پر بیٹے کے مقابلے میں کمزور ہے؟
نہیں! ۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ اُس کی قسمت وہ خود نہیں لکھتی، اُس کے گھر والے، اس کا معاشرہ لکھتا ہے جو اُسے اپنی قسمت خود لکھنے کی کوئی آزادی نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھیں:ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان
ملتان کی رہائشی ثانیہ زہرہ کے ماں باپ نے بھی یقیناً اپنی بیٹی کو محبت سے پالا ہوگا۔ پھر کم عمری میں شادی کردی کہ اچھا رشتہ مل گیا۔ اور جب وہ لڑ جھگڑ کر واپس آئی ہوگی تو شاید یہ بھی سمجھایا ہوگا کہ سمجھوتا ہی سب سے بہتر حل ہے۔
بیٹیاں تو سسرال میں ہی سجتی ہیں۔
وقت بدل جائے گا، بچے بڑے ہوں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہم بھی یہی سنتے ہیں نہ کہ اپنا گھر بچانا عورت کا فرض ہے۔
اور پھر ایک دن وہ 22 سالہ حاملہ لڑکی 2 بچے روتے چھوڑ گئی۔ اگلے گھر سے بہت جلدی اگلے جہان بھیج دی گئی۔
حال ہی میں سیشن کورٹ نے گھریلو تشدد کے نتیجے میں قتل ہونے والی ثانیہ زہرہ کے کیس میں تاریخی فیصلہ سنایا۔اُس کا شوہر سزائے موت کا حق دار ٹھہرا، اور دیور اور ساس عمر قید کی سزا پا چکے ہیں۔ ان سب نے قتل عمد کو خودکشی کا رنگ دیا تھا۔ 40 سے زیادہ گواہوں کی گواہیاں، فرانزک شواہد، حکومتی کوششیں، سول سوسائٹی ، سوشل میڈیا ایکٹوزم اور سب سے بڑھ کر اُس کے والد کی لمبی جدوجہد نے یہ ممکن بنایا۔
سوشل میڈیا پر لوگ اسے صرف ایک باپ کی جیت نہیں بلکہ گھریلو تشدد کا شکار بہت سی عورتوں کے لیے اُمید کی کرن بتا رہے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب کوئی لڑکی پنکھے سے لٹکی ہوئی نہیں ملے گی؟
یہ بھی پڑھیں:آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے
کیا اب کوئی باپ صرف ’ذمہ داری اتارنے‘ کے لیے 15 سولہ سالہ بیٹی کا نکاح نہیں کرے گا؟
کیا اب کوئی لڑکی یہ سوچ کر ظلم برداشت نہیں کرے گی کہ ’سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، بسنے کے لیے تکلیف اٹھانی ہی پڑتی ہے‘۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم رشتوں کے پردے رکھنے کو انسانی جان اور ذہنی صحت سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں۔ ہمیں بطور انسان دوسرے کی اور اپنی حدود کا تعین کرنا نہیں سکھایا جاتا۔
کچھ کے سسرال میں اچانک سلنڈر پھٹ جاتا ہے۔ کوئی ڈپریشن سے مر جاتی ہے۔ کچھ کو نفسیاتی عارضہ لاحق ہو جاتے ہیں۔ کچھ صرف بظاہر زندہ رہتی ہیں۔
عورت کو برابری کے حقوق دینے کا مطلب صرف سرکاری ملازمت میں کوٹہ، معاشی مدد یا تشدد اور ہراسمنٹ کے خلاف قوانین بنانا نہیں۔ وہ برابر کی شہری تب بنے گی جب اُس کے گھر والے، رشتہ دار اور سماج اُس کے تئیں اپنا رویہ بدلے گا۔ اُسے برابری تب ملے گی جب ہم اپنی بیٹی سے یہ کہیں گے کہ ’تم اگلے گھر کی امانت نہیں، بلکہ تمہاری زندگی تمہاری امانت ہے۔ تم اپنی زندگی کی آپ مالک ہو۔ تم باشعور ہو، مضبوط ہو، تمہاری اپنی رائے ہے، تمہاری مرضی ہے، تمہارا فیصلہ ہے۔ اپنی زندگی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرو اور ان کا بوجھ بھی خود اٹھانا سیکھو۔اگر کوئی رشتہ تکلیف دے تو پورے اعتماد اور گریس کے ساتھ اس رشتے کو ختم کرنا سیکھو‘۔
یہ بھی پڑھیں:طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان
پاکستان میں ہر سال سینکڑوں عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی گھریلو تشدد سے ، کبھی حادثے کے نام پر، کبھی ’خودکشی نوٹ‘ لکھ کر۔ اس لیے کہ جو وہ چاہتی ہیں وہ بول نہیں سکتیں، یا بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ثانیہ زہرہ کو مرنے کے بعد انصاف مل گیا،
مگر کئی گھروں میں پھنسی زندہ ثانیہ کو انصاف کیسے ملے گا؟ ۔۔۔ اب وقت ہے کہ ہم بیٹیوں کے لیے الفاظ بدلیں، نظریہ بدلیں، تربیت بدلیں۔ بیٹی کی پرورش اگلے گھر کے لیے نہیں، بلکہ ایک خود مختار، باوقار اور محفوظ زندگی کے لیے کرنی شروع کریں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں