بھارت میں مسلم ہیروز کی تاریخ مسخ کرنے کا سلسلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ناگپور:ہندوتوا کے فروغ کے لیے مودی حکومت اور اس کی اتحادی انتہا پسند ہندو جماعتوں نے بھارت بھر میں جہاں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا وہیں اب نصابی کتابوں میں مسلم ہیروز کی تاریخ کو مسخ کرنے کا کام بھی شروع کردیا ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لیڈر سنیل آمبیکر نے کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں بہت سی ‘مثبت’ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اب مغل بادشاہ اکبر یا میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کے لیے لفظ ‘عظیم’ استعمال نہیں ہوتا۔
آر ایس ایس لیڈر آمبیکر نے جمعہ کو ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق، نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے یہ تبدیلیاں کی ہیں، لیکن ان نصابی کتب سے کسی کو نہیں ہٹایا گیا ہے تاکہ نئی نسل ان کے ظالمانہ کاموں سے آگاہ ہو۔
آر ایس ایس کے آل انڈیا پبلسٹی چیف نے کہا کہ تاریخ کی کتابوں کو اب تبدیل کیا جا رہا ہے، اور مجھے بہت خوشی ہے کہ این سی ای آر ٹی نے ایک بہت اچھی پہل کی ہے اور 15 نصابی کتابوں میں سے 11 میں تبدیلیاں کی ہیں۔ کلاس 9، 10، اور 12 میں اگلے سال تبدیلیاں کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ میں دیکھ سکتا تھا کہ تاریخ کی کتابوں میں بہت سی اچھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور مستقبل میں مزید کی جا سکتی ہیں۔ اب ان (تاریخ کی کتابوں) میں نہ تو ‘اکبر عظیم’ ہے اور نہ ہی ‘ٹیپو سلطان عظیم’ ہے۔
بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں، حالانکہ ان کتابوں سے کسی کو نہیں ہٹایا گیا ہے کیونکہ نئی نسل کو ان کے ظالمانہ کاموں کے بارے میں جاننا چاہیے اور ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ ہم کس سے آزاد ہونا چاہیے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نہیں کہنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا، اور یہ بتایا جانا چاہیے۔
Faiz alam babar
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تاریخ کی کتابوں تبدیلیاں کی کتابوں میں کہا کہ
پڑھیں:
نظامِ پاکستان: کمزوریاں، آئینی تبدیلیاں اور اصلاحات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251120-03-7
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے جغرافیائی حیثیت، نوجوان آبادی، انسانی وسائل، اور خطّے میں اہم اسٹرٹیجک مقام جیسی نعمتیں عطا ہیں، مگر ان مواقع سے فائدہ نہ اٹھا پانے کی بنیادی وجہ نظامی کمزوریاں اور پالیسی کی ناپائیداری ہے۔ معاشی زوال، سیاسی عدم استحکام، ٹیکنالوجی میں پسماندگی، ماحولیاتی خطرات اور بین الاقوامی سطح پر متزلزل تعلقات، یہ سب ایسے مسائل ہیں جنہوں نے ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا ہے۔ اسی پس ِ منظر میں ستائیسویں آئینی ترمیم ایک بڑے نظامی موڑ کے طور پر سامنے آئی ہے، جس نے ریاستی اداروں کے توازن اور طاقت کی ترتیب کے بارے میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
2024-25 کے دوران پاکستان کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو تقریباً 2.5 فی صد رہی جو ملک کی اصل استعداد کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ ٹیکس کا محدود دائرہ، قرضوں کی بھاری ادائیگیاں، کرنسی کی بے قدری، تجارت کا بڑھتا خسارہ، اور سرمایہ کاری میں کمی نے معاشرے کے بڑے حصے کو متاثر کیا ہے۔ مہنگائی کی شدت نے متوسط اور نچلے طبقے کو شدید دباؤ میں رکھا، جبکہ معیشت کی غیر رسمی نوعیت ریاستی محصولات میں مسلسل رکاوٹ بنی رہی۔ ایسے ماحول میں معاشی اصلاحات پر قومی اتفاقِ رائے ناگزیر ہے، لیکن عملی سطح پر سیاسی تقسیم نے پالیسیوں کی تسلسل کو بار بار متاثر کیا۔ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی ادارے مسلسل یہ تجویز کرتے رہے کہ مستقل اور بنیادی اصلاحات کے بغیر ترقی کا سفر ممکن نہیں۔ دنیا مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر، نالج اکانومی اور بائیو ٹیکنالوجی کی طرف منتقل ہو چکی ہے، مگر پاکستان کی رفتار بہت سست رہی۔ مقامی صنعتوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے کے بجائے کلی طور پر خدماتی ماڈل پر انحصار برقرار رہا۔ تحقیقی رپورٹیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ پاکستان اگر اے آئی، مقامی ہارڈویئر، سافٹ ویئر، روبوٹکس اور سائنسی تحقیق پر سرمایہ نہیں لگاتا تو عالمی مسابقت میں مزید پیچھے رہ سکتا ہے۔ ریاستی فیصلوں میں سیاسی کھینچا تانی ہمیشہ ایک رکاوٹ رہی ہے۔ اپوزیشن و حکومت کا مسلسل تصادم، پارلیمنٹ کا کمزور کردار، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان بے اعتمادی، اور سول و عسکری اداروں کے درمیان کردار کی غیر واضح حد بندی، یہ سب عوامل حکمرانی کی صلاحیت کو متاثر کرتے رہے۔ اس ماحول نے بیرونی سرمایہ کاری، معاشی اعتماد اور پالیسی کی پیش رفت کو شدید نقصان پہنچایا۔
پاکستان دنیا کے اْن ملکوں میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ حالیہ اور 2022ء کے تباہ کن سیلاب نے یہ واضح کیا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کا ہمارا نظام کتنا کمزور ہے۔ پانی، زرعی پیداوار، جنگلات، ماحولیاتی آلودگی اور ہنگامی منصوبہ بندی جیسے شعبوں میں ریاست سنجیدگی سے سرمایہ کاری نہ کرسکی۔ چین اور امریکا جیسے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات میں عدم استحکام، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بار بار مذاکرات، اور امداد پر انحصار، یہ سب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں داخلی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ریاست عالمی شراکت داری کو ساختی بنیادوں پر مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان داخلی و خارجی مسائل کے بیچ 27 ویں آئینی ترمیم نے ریاستی اداروں کے اندر طاقت کی ازسرِنو تقسیم کی کوشش کی ہے۔ یہ ترمیم کئی حوالوں سے تاریخی، متنازع اور دور رس اثرات رکھتی ہے۔
ترمیم کے بعد ایک نئی وفاقی آئینی عدالت تشکیل دی گئی ہے جو آئین کی تشریح، آئینی تنازعات اور متعلقہ معاملات کا فیصلہ کرے گی۔ اس عدالت کی موجودگی عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے کردار پر نئے سوالات کھڑے کرتی ہے۔ ناقدین کے مطابق اس سے عدالتی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے، جبکہ حامیوں کا مؤقف ہے کہ اس سے آئینی معاملات کا بوجھ کم ہوگا اور فیصلہ سازی زیادہ واضح ہو جائے گی۔ ترمیم کے تحت چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا خاتمہ، نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کا قیام، اور پانچ ستارہ عہدوں کی مستقل آئینی حیثیت، یہ سب اقدامات پاکستان کے دفاعی ڈھانچے کو ایک نئے ماڈل میں ڈھالنے کے مترادف ہیں۔ مزید برآں، اعلیٰ عسکری قیادت کو قانونی استثنیٰ بھی فراہم کیا گیا ہے، جس پر کئی حلقوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ ترمیم میں یہ وضح کیا گیا ہے کہ کوئی عدالت آئینی انحراف یا ماورائے آئین اقدام کو جائز قرار نہیں دے سکتی۔ بظاہر یہ اقدام آئین کے تحفظ کے لیے ہے، مگر ناقدین کے مطابق اس میں کچھ تکنیکی پہلو ایسے بھی شامل ہیں جو مستقبل میں آئینی تنازعات کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔
اپوزیشن، وکلا تنظیموں اور آئینی ماہرین نے اس ترمیم کو پارلیمنٹ کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم دفاعی نظم و ضبط کو جدید بنانے کے لیے ضروری تھی، جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ طاقت کے ارتکاز کی طرف ایک نیا دروازہ کھول رہی ہے۔ پاکستان کو اگر حقیقی معنوں میں مستحکم اور ترقی یافتہ ریاست بننا ہے تو چند بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ٹیکس اصلاحات، برآمدات میں اضافہ، ملکی صنعت کا احیاء، تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری اور کاروباری ماحول کی بہتری یہ معاشی استحکام کی بنیاد ہیں۔ پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت، مصنوعی ذہانت، بائیو ٹیکنالوجی اور جدید صنعتی ماڈلز پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، حکومت اور فوج کے درمیان واضح اور شفاف حدود، یہی کسی بھی مضبوط جمہوری نظام کی اساس ہے۔ پانی، زراعت، جنگلات اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ریاست کو امداد پر انحصار کم کر کے تجارت، سرمایہ کاری اور علاقائی تعاون کو محور بنانا ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے، مگر اس کے لیے نظام کی مکمل بحالی، وسیع تر اصلاحات، سیاسی اتفاقِ رائے اور ادارہ جاتی توازن لازم ہیں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم نے جہاں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، وہیں یہ بھی یاد دلایا ہے کہ پاکستان میں طاقت اور نظام کے ڈھانچے کو ازسرِنو ترتیب دینا ایک حساس اور طویل عمل ہے۔ اگر اصلاحات نیت، شفافیت اور قومی مفاد کے ساتھ کی جائیں تو پاکستان اپنی حقیقی صلاحیت کے مطابق ترقی کے راستے پر آگے بڑھ سکتا ہے ورنہ تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔