WE News:
2025-11-24@13:31:15 GMT

پاکستان کا جی ایس پی پلس سفر جاری رہے گا

اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT

پاکستان کا جی ایس پی پلس (GSP+) سفر ایک طویل تاریخ اور مسلسل جدوجہد کا آئینہ دار ہے۔ اس کی بنیاد 1971 میں اس وقت رکھی گئی جب اقوام متحدہ کی کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ نے ترقی پذیر ممالک کی برآمدات بڑھانے اور وہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے یورپی منڈیوں تک ترجیحی رسائی دینے کا فیصلہ کیا۔

اسی فیصلے کے نتیجے میں جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز (GSP) کا آغاز ہوا، جس کے تحت منتخب ممالک کی مخصوص مصنوعات پر عائد ڈیوٹی یا تو کم کر دی جاتی ہے یا مکمل طور پر ختم کر دی جاتی ہے۔

اس اسکیم کے تین حصے ہیں: بنیادی جی ایس پی، جی ایس پی پلس، اور ایوری تھنگ بٹ آرمز۔ پاکستان جی ایس پی پلس ممالک میں شامل ہے، جس کے نتیجے میں دو تہائی پاکستانی مصنوعات یورپی منڈی میں صفر فیصد درآمدی ڈیوٹی کے ساتھ داخل ہوتی ہیں۔

تاہم یہ سہولت مشروط ہے۔ کسی بھی ملک کو یہ درجہ حاصل کرنے کے لیے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور گورننس سے متعلق 27 بین الاقوامی معاہدوں کی مکمل پاسداری لازمی قرار دی گئی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت جبری مشقت، چائلڈ لیبر اور امتیازی سلوک کا خاتمہ اور صنعتوں میں یونین سازی کو یقینی بنانا اس کے بنیادی تقاضے ہیں۔

ان کنونشنز کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین اس سہولت کو واپس لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ اسی لیے یورپی یونین پاکستان سمیت تمام مستفید ممالک کی مانیٹرنگ مسلسل جاری رکھتی ہے، اور ان کی رپورٹس پر کسی تحفظ کے بغیر اتفاق کرنا بھی اہل ممالک کے لیے لازم ہے۔

پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2013 میں ملا اور یکم جنوری 2014 سے اسے ڈیوٹی فری رسائی کے فوائد حاصل ہونا شروع ہوئے، جن میں اب تک 2 مرتبہ توسیع ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے پاکستان 2002 سے 2004 تک اس اسکیم سے فائدہ اٹھا چکا ہے مگر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اعتراضات کے بعد اس سہولت کو ختم کر دیا گیا تھا۔

پاکستان، فلپائن، سری لنکا، کرغزستان، ازبکستان اور متعدد دیگر ممالک اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ اسٹیٹس کی معیاد 2023 میں ختم ہوئی، تاہم مزید 4 سال کی توسیع کی بدولت پاکستان 2027 تک نئی شرائط پوری کرتے ہوئے اس سہولت سے مستفید ہوتا رہے گا۔

جی ایس پی پلس پاکستان کے لیے محض ایک تجارتی رعایت نہیں بلکہ ملکی معیشت، برآمدات، روزگار اور سماجی استحکام کا بنیادی ستون ہے۔ ہر سال قریباً 6 ارب یورو (قریباً 2,070 ارب روپے) کی پاکستانی مصنوعات، خصوصاً ٹیکسٹائل، یورپی مارکیٹ تک ڈیوٹی فری رسائی حاصل کرتی ہیں، جس سے پاکستان کو 450 سے 550 ملین یورو (قریباً 155 سے 190 ارب روپے) کی بچت ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ 15 سے 20 لاکھ ملازمتیں، جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے براہِ راست اس اسکیم کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ 2014 سے اب تک پاکستان کو 3.

6 ارب یورو (قریباً 1,242 ارب روپے) کے مجموعی فوائد حاصل ہو چکے ہیں اور یورپ کے ساتھ تجارت ساڑھے 4 ارب یورو (قریباً 1,380 ارب روپے) سے بڑھ کر 9 ارب یورو (قریباً 3,105 ارب روپے) تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان نے اس اسکیم کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک مؤثر تعمیلی ڈھانچہ قائم کیا ہے۔ ٹریٹی امپلیمنٹیشن سیلز اور جی ایس پی پلس فوکل پوائنٹس کا قیام، خودکار رپورٹنگ سسٹم اور اعلیٰ سطح مذاکرات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت حاصل ہوئی، اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کو ’اے اسٹیٹس‘ ملنا بین الاقوامی سطح پر ادارہ جاتی اصلاحات کا اعتراف ہے۔

انسانی حقوق اور لیبر اصلاحات کے حوالے سے بھی متعدد پیشرفت سامنے آئی ہیں۔ اسلام آباد میں بچوں کی شادی کی عمر 18 سال مقرر کی گئی، لیبر انسپیکشنز میں 20 فیصد اضافہ ہوا اور برآمدی زونز میں ٹریڈ یونینز کی آزادانہ رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی گئی۔ ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں 10 بلین ٹری سونامی جیسے اقدامات کی بدولت پاکستان کو جی ایس پی پلس ممالک میں سب سے فعال ملک قرار دیا گیا۔

تاہم یورپی یونین کے تحفظات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔ یورپی سفیر ریمنڈس کروبلس کے مطابق پاکستان کو انسانی حقوق، لیبر اصلاحات، ماحولیات اور اچھی حکمرانی کے حوالے سے مزید پیشرفت دکھانا ہوگی۔ جبری گمشدگیاں، توہینِ مذہب قوانین، اقلیتوں کے حقوق اور آزادی اظہار جیسے معاملات یورپی ملکوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔

سابق سفیروں رینا کیونکا اور اولوف سکوگ نے بھی خبردار کیا تھا کہ فوجی عدالتوں کا استعمال، میڈیا پر پابندیاں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر دباؤ جی ایس پی پلس مراعات کو متاثر کر سکتے ہیں۔

اکتوبر 2025 میں وزیرِ تجارت جام کمال نے یورپی کمپنیوں کو ٹیکنالوجی کی منتقلی، پائیدار زراعت اور فوڈ چین میں تعاون کی دعوت دی۔ انہوں نے دو اہم معاملات بھی اٹھائے: ایتھنول پر ڈیوٹی میں رعایت کی واپسی، جس سے دیہی روزگار متاثر ہوا، اور باسمتی چاول کی جغرافیائی شناخت کا تنازع، جس پر انہوں نے منصفانہ اور غیرجانبدار فیصلہ کرنے پر زور دیا۔ یہ دونوں مسائل پاکستان کی دیہی معیشت، کاشتکاروں کے روزگار اور سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

اگلا بڑا امتحان آج سے (24 تا 28 نومبر 2025) شروع ہونے والا یورپی مانیٹرنگ مشن ہوگا، جس کے خفیہ نتائج 2026 کی رپورٹ میں شامل کیے جائیں گے۔ یہی رپورٹ طے کرے گی کہ پاکستان 2027 کے بعد بھی ان مراعات سے فائدہ اٹھا پائے گا یا نہیں۔

تاہم پاکستان کی موجودہ رفتار، اصلاحات کا تسلسل اور ادارہ جاتی پیشرفت یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان نے معاہدوں پر دستخط صرف رسمی کارروائی کے طور پر نہیں کیے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے انہیں قومی ترجیح بنا دیا ہے، اور غالب امکان یہی ہے کہ آئندہ فیصلہ بھی پاکستان کے حق میں آئے گا۔

پاکستان کی کوششیں، اصلاحات اور بین الاقوامی سطح پر بڑھتا ہوا اعتماد اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ جی ایس پی پلس صرف ایک سہولت نہیں بلکہ پاکستان کے تجارتی مستقبل کا اہم دروازہ ہے اور یہ سفر نہ صرف جاری رہے گا بلکہ دیرپا بھی ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جی ایس پی پلس پاکستان کی پاکستان کو اس اسکیم اس سہولت ارب یورو ارب روپے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان، یورپی یونین کا جی ایس پی پلس اسکیم کے ذریعے تجارتی تعلقات مضبوط بنانے پر زور

اسلام آباد(ویب ڈیسک)دفتر خارجہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور یورپی یونین (ای یو) نے یورپی بلاک کی جی ایس پی پلس اسکیم کے ذریعے تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا ہے، تاکہ پائیدار معاشی ترقی، برآمدات میں تنوع، روزگار کے مواقع اور باہمی فائدے کی معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق یہ پیش رفت پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان ساتویں اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے موقع پر سامنے آئی، جو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں منعقد ہوا، اجلاس کی مشترکہ صدارت نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحٰق ڈار اور یورپی یونین کی نائب صدر کاجا کالاس نے کی، اس سے ایک روز قبل، ڈار نے برسلز میں ’چوتھے ای یو انڈو پیسیفک فورم‘ کے راؤنڈ ٹیبل سے بھی خطاب کیا تھا۔

جی ایس پی پلس کا درجہ پاکستان کو یورپی منڈیوں میں برآمدات پر ڈیوٹی فری یا انتہائی کم ڈیوٹی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

دفتر خارجہ کے مطابق اجلاس نے پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات کے تمام پہلوؤں کا ’جامع جائزہ‘ فراہم کیا، جو حالیہ اعلیٰ سطح کے روابط اور ادارہ جاتی تعاون سے پیدا ہونے والی مثبت پیش رفت پر آگے بڑھ رہا ہے۔

دونوں فریقین نے ملاقات کے دوران مشترکہ اقدار، اقوام متحدہ کے چارٹر، کثیرالجہتی نظام اور باہمی احترام و تعاون کے اصولوں پر مبنی ’وسیع البنیاد، کثیر جہتی اور مستقبل کی شراکت داری‘ کے عزم کو دہرایا۔

بیان کے مطابق ’مکالمے نے علاقائی اور عالمی امور، جیسے جنوبی ایشیا، افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر جغرافیائی سیاسی پیش رفت پر تبادلہ خیال کا موقع بھی فراہم کیا‘۔

مزید برآں، دونوں نے امن، استحکام، پائیدار ترقی اور عالمی چیلنجز (جیسے موسمیاتی تبدیلی اور رابطوں) کے لیے مشترکہ حکمت عملیوں کی اہمیت پر زور دیا۔

پاکستان اور یورپی یونین نے اسٹریٹجک انگیجمنٹ پلان (2019) کے تحت تعاون کو مضبوط بنانے، جاری مذاکرات کو آگے بڑھانے اور مستقبل میں مشترکہ تعاون کے نئے مواقع تلاش کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

بحری خطرات
نائب وزیراعظم نے بحری سلامتی کے اہم موضوع پر اپنا بیان بھی دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’آج کے بحری خطرات کثیر جہتی اور سرحدوں سے ماورا ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم قزاقی، دہشت گردی، اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ سے لے کر بندرگاہوں کے بنیادی ڈھانچے کو درپیش سائبر خطرات، سمندری آلودگی، اور ساحلی علاقوں کو متاثر کرنے والے موسمیاتی خطرات تک کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں‘۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان ایک ساحلی ملک ہے جو اہم بین الاقوامی بحری راستوں اور بحیرہ عرب کے سنگم پر واقع ہے، جو اس کا ’پانچواں پڑوسی‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحیرہ عرب پاکستان کی قومی سلامتی، علاقائی رابطوں، معاشی مضبوطی، غذائی و توانائی تحفظ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے گوادر تک ہمارے بندرگاہی شہر وسطی ایشیا کے غیر ساحلی خطے کو عالمی تجارتی نظام سے جوڑنے والے دروازے ہیں، اسی لیے پاکستان، بحری سلامتی اور معاشی ترقی کو ایک دوسرے کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ بحری شعبے میں مضبوط تعاون، آگاہی، معلومات کا تبادلہ اور قبل از وقت انتباہی نظام درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔

نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ ایک محفوظ، مضبوط اور پائیدار بحری خطہ باہمی اعتماد، شفافیت اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سب سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ سمندر تعاون اور مشترکہ خوشحالی کے علاقے بنے رہیں، اور ہم بحری خطے میں کسی بھی قسم کی خارجیت یا بالادستی پر مبنی انتظامات سے دور رہیں۔

ڈار نے زور دیا کہ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے قانونِ سمندر، علاقائی و دوطرفہ قانونی فریم ورکس اور بین الاقوامی روایتی قوانین کے تحت تعاون بڑھایا جائے، اور سمندری وسائل کو ’انسانیت کے مشترکہ ورثے‘ کے طور پر دانشمندانہ طریقے سے استعمال کیا جائے۔

پُرامن ذرائع
اسحٰق ڈار نے کہا کہ بحری تنازعات کو بین الاقوامی قانون کے مطابق پرامن ذرائع سے حل کیا جانا چاہیے، رابطوں (کنیکٹیوٹی) کو لچک (ریسائلنس) کے ساتھ جوڑنا چاہیے، اور اہم بنیادی ڈھانچے اس طرح تیار کیے جائیں کہ ان میں متبادل نظام موجود ہوں تاکہ کسی ایک خطے میں رکاوٹ کا اثر پوری دنیا پر نہ پڑے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں بہترین طریقوں کو ہم آہنگ کرنا ہوگا تاکہ کسی ایک علاقے میں پیدا ہونے والی خلل پوری دنیا میں پھیل نہ جائے‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بحری ترقی کو بین الاقوامی تعاون اور تکنیکی حلوں پر استوار ہونا چاہیے۔

نائب وزیراعظم نے بتایا کہ ’پاکستان نے اپنے جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کوآرڈینیشن سینٹر کو مضبوط کیا ہے، جس میں سیٹلائٹ مانیٹرنگ اور سپارکو کی مدد سے اے آئی پر مبنی جہازوں کی ٹریکنگ کو شامل کیا گیا ہے، ہم اس حوالے سے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مزید تعاون کے خواہاں ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اہم بحری ڈھانچوں کے تحفظ کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی، ریگولیٹری تعاون اور استعداد کار میں اضافہ کے حوالے سے یورپی یونین اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ تعاون کو مزید گہرا کرنے کا منتظر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
  • افغانستان دہشت گردی کے خاتمے میں عملی کردار ادا کرے‘ پاکستان‘ یورپی یونین
  • افغانستان اپنے ملک میں دہشتگرد تنظیموں کیخلاف کارروائی کرے، پاکستان،یورپی یونین
  • افغانستان دہشت گردی کے خاتمے میں عملی کردار ادا کرے: پاکستان اور یورپی یونین کا مطالبہ
  • افغانستان دہشتگردی کے خاتمے میں عملی کردار ادا کرے، پاکستان اور یورپی یونین کا مطالبہ
  • پاکستان، یورپی یونین کا جی ایس پی پلس اسکیم کے ذریعے تجارتی تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • علی ظفر کا نیا سنگل ’’ظالم نظروں سے‘‘ جاری، علی حیدر کی شاندار واپسی
  • برسلز میں پاکستان اور یورپی یونین کے مابین اسٹریٹجک ڈائیلاگ
  • پاکستان اور یورپی یونین کے مابین اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا ساتواں دور برسلز میں منعقد