دھرمیندر، بھارتی سنیما کے ایک عہد کا اختتام
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
دھرمندر کا دنیا سے رخصت ہونا صرف ایک عظیم فنکار کا جانا نہیں بلکہ بھارتی فلمی تاریخ کے ایک سنہرے عہد کے اختتام کے مترادف ہے۔ وہ 5 دہائیوں تک اپنے بے مثال کرداروں، جذبات کی گہرائی، سادگی، شرافت اور خالص ہندوستانی ہیرو ازم کے ذریعے کروڑوں دلوں میں بسے رہے۔ چاہے ’شعلے‘ کا ویرُو ہو، صدیوں تک یاد رہنے والی رومانوی فلمیں ہوں، یا ’ایکشن سینما‘ کا نیا رنگ، دھرمندر ہر دور میں خود کو ثابت کرتے رہے۔
TWITTER HAS CHANGED THE LIKE BUTTON TO GIVE TRIBUTE TO LEGENDARY ACTOR DHARMENDRA JI
Tap check it ????
Om Shanti ????#DharmendraDeol pic.
— Latest Updates (@Iam_Sh05) November 24, 2025
ان کی موت کے ساتھ صرف فلمی دنیا نہیں روئی، بلکہ وہ نسلیں بھی سوگوار ہوئیں جو دھرم کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر بڑی ہوئیں، ان کے مکالمے سن کر جینے کا حوصلہ پاتی رہیں، اور ان کے انداز کی دیوانی رہیں۔ ان کی جدائی نے ایک بار پھر یاد دلایا کہ فلمی صنعت میں کچھ ستارے ایسے ہوتے ہیں جو دوبارہ پیدا نہیں ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں:گبر سنگھ کے لیے امجد خان کے انتخاب پر رمیش سپی کو تنقید کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
ہندوستانی فلمی دنیا کا درخشاں ستارہ اور ’ہی مین‘ کہلانے والا لیجنڈ اداکار دھرمیندر 89 برس کی عمر میں پیر کی صبح چل بسے۔ ان کی آخری رسومات پاون ہنس کریمیٹوریم میں ادا کی گئیں، جہاں فلمی دنیا کی بڑی شخصیات اور ان کے اہل خانہ نے انہیں الوداع کہا۔ دھرمیندر اپنے 90ویں یوم پیدائش سے چند روز قبل رخصت ہوئے۔
عارضی علالت اور آخری سفر31 اکتوبر کو سانس میں تکلیف کے باعث انہیں بریچ کینڈی اسپتال داخل کرایا گیا تھا۔ علاج کے بعد انہیں گھر منتقل کر دیا گیا، مگر طبیعت بگڑتی چلی گئی۔ پیر کی صبح خاندان نے ان کے انتقال کی تصدیق کی۔ کریمیٹوریم کے باہر بھاری سیکورٹی تعینات رہی جبکہ سینکڑوں مداح آخری دیدار کے منتظر دکھائی دیے۔
ان کے جنازے میں ہما مالنی (اہلیہ)، امیتابھ بچن، ابھیشیک بچن، سلمان خان، سانجھے دت، عامر خان، راج کمار سنتوشی، رنویر سنگھ، دیپیکا پادوکون، سنی دیول (بیٹا) اور بوبی دیول (بیٹا) جیسے فلم انڈسٹری کے بڑے نام شریک تھے۔ غمزدہ ماحول میں ہر چہرے پر دھرمیندر کے لیے عقیدت اور دکھ نمایاں تھا۔
Ok. Here I am. Now I have built up the courage to share a few more pictures of my dorky age. Skinny. Fuzzy Moustache thinking I was a hero.
With Poonam Dhillon. Shakti Kapoor. Dharmindar. Sunny Deol. pic.twitter.com/MpUyGmhwCa
— Mir Mohammad Alikhan (@MirMAKOfficial) March 21, 2023
سیاسی رہنماؤں کے پیغاماتوزیر اعظم نریندر مودی، صدر دروپدی مرمو، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ، دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی، اور کئی دیگر رہنماؤں نے دھرمیندر کی وفات کو ’ایک عہد کے خاتمے‘ سے تعبیر کیا۔
یہ بھی پڑھیں:اہم تبدیلیوں اور منفرد اختتام کیساتھ ’شعلے‘ پھر جلوہ گر ہونے کو تیار
مودی نے لکھا کہ دھرمیندر نے ہر کردار کو دلکش انداز میں نبھایا اور ان کی سادگی و گرمجوشی نے لاکھوں دل جیتے۔
فلمی شخصیات کے جذبات اور یادیںشوبز کی دنیا میں دکھ کی لہر دوڑ گئی۔ شرمیلا ٹیگور نے’چھلکا یہ جام‘ کی شوٹنگ کے دلچسپ واقعات یاد کیے۔ جاوید اختر نے کہا کہ جب میں انڈسٹری میں آیا، میں کچھ بھی نہیں تھا، مگر دھرمیندر نے ہمیشہ عزت دی۔
انیل کپور نے انہیں ’او جی پنجابی‘ قرار دیا جبکہ سنجے دت نے کہا کہ دھرمیندر ’دلوں میں بسنے والے انسان‘ تھے۔
مداحوں کے دلوں میں زندہ رہنے والا ہیرومنوج باجپئی نے کہا کہ دھرمیندر نے ان کے بچپن کو روشن کیا۔ موسیقار کیلاش کھیر، سائرہ بانو، موسمی چیٹرجی اور دیگر نے ان کے نرم دل، مزاح اور انسانیت کی مثالیں بیان کیں۔
خاندان، محبتیں اور ذاتی زندگیدھرمیندر کی پہلی بیوی پرکاش کور سے سنی، بوبی، وجیتا اور اجیتا، اور دوسری بیوی ہما مالنی سے آشا اور آہنا تھے، یہ دونوں خاندان ان کی زندگی کے اہم ستون رہے۔ ان کی شادیوں، محبتوں اور تعلقات نے ہمیشہ لوگوں کی دلچسپی برقرار رکھی۔
دھرمیندر کی آخری پوسٹ بھی ہما مالنی کے ساتھ ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر تھی، جس نے مداحوں کو مزید جذباتی کر دیا۔
فلمی ورثہ اور آخری فلمسری رام راگھوان کی فلم ’اکیس‘ دھرمیندر کی آخری اسکرین اپئرنس ہوگی، جو 25 دسمبر 2025 کو ریلیز ہوگی۔ اس فلم میں وہ ایم ایل کھیتڑپل کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو 1971 کی جنگ کے ہیرو ارون کھیتڑپل کے والد کے طور پر دکھائے گئے ہیں۔
https:/twitter.com/sachin_rt/status/1992931948453666823
دھرمیندر کا کامیاب کاروباری سفرفلمی دنیا میں نام بنانے کے ساتھ ساتھ دھرمیندر ایک کامیاب بزنس مین بھی تھے۔ رپورٹس کے مطابق ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 335 کروڑ روپے تھا، جس میں ممبئی اور لوناولا میں وسیع جائیدادیں اور 100 ایکڑ کا فارم ہاؤس شامل ہے۔
1960 کی دہائی کا وہ خوبصورت نوجوان، جس کی مسکراہٹ، سادگی اور طاقتور اسکرین موجودگی نے پورے ملک کو اپنا دیوانہ بنا دیا۔ بمل رائے، ہریشیکیش مکھرجی، رمیس سیپی اور کئی شہرت یافتہ ہدایتکاروں کی پہلی پسند رہے۔ ’شعلے، ’گُڈّی، چپکے چپکے، سیتا اور گیتا، ’یادوں کی بارات‘ کی طرح بے شمار فلمیں ان کا ورثہ ہیں۔
Growing up, Dharmendra ji was the hero every boy wanted to be…our industry’s original He-Man.
Thank you for inspiring generations.
You’ll live on through your films and the love you spread. Om Shanti ???? pic.twitter.com/Vj6OzV20Xz
— Akshay Kumar (@akshaykumar) November 24, 2025
ایک عہد کا خاتمہدھرمیندر کا جانا صرف ایک اداکار کی رخصتی نہیں بلکہ بھارتی سینما کے ایک روشن دور کا خاتمہ ہے۔ وہ حسن، جذبات، دوستی، شرافت اور انسانیت کا چلتا پھرتا استعارہ تھے۔
ان کے چاہنے والے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں ’ یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے‘ ۔۔۔ مگر دھرمیندر مدحواں کو چھوڑ کر چلے گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انڈین سنیما بالی ووڈ بوبی دیول دھرمندر شعلے مودی ہما مالنیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈین سنیما بالی ووڈ بوبی دیول شعلے ہما مالنی دھرمیندر کی ہما مالنی فلمی دنیا اور ان
پڑھیں:
ماحولیاتی بحران اور اس کے عالمی مضمرات
دنیا کے شمالی نصف کُرے میں وہ خطے، جنھیں کبھی صنعتی ترقی، ٹیکنالوجیکل برتری اور حکمرانی کے عالمی ماڈل کی حیثیت حاصل تھی، آج موسمیاتی تبدیلی کے ایسے بحران سے گزر رہے ہیں جس سے ان کے اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام ہل کر رہ گئے ہیں۔
امریکا سے لے کر یورپ، اور برطانیہ سے آرکٹک تک، موسمیاتی تبدیلی اب کسی مستقبل کا خطرہ نہیں رہی، یہ ایک روزانہ کی حقیقت ہے، جو انسانی زندگی، قومی سلامتی، معیشت اور عالمی توازن تک کو تبدیل کر رہی ہے۔
اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ جب احتساب کا وقت آیا ہے توکیا مغربی دنیا خود اس بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اگر نہیں، تو اس کے جھٹکے پاکستان اور گلوبل ساؤتھ کو کس طرح متاثر کریں گے؟
امریکا میں 2024/25کے تین برس مسلسل ایسے رہے کہ کئی ریاستیں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت کو ریکارڈ کرتی رہیں۔ ’’ ہیٹ ڈوم ‘‘ ناقابلِ برداشت گرمی کو کئی دنوں تک علاقے پر جما دیتا ہے اور نہ بجلی کا نظام اسے برداشت کر پاتا ہے، نہ ہی انسانی جسم۔
یہ تین حقائق امریکا کے بحران کو واضح کرتے ہیں کہ شدید گرمی سے اموات جنگلاتی آگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس سے کم آمدنی والے طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ایئرکنڈیشننگ کی سہولت نہ رکھنے والے لوگ ان ’’ خاموش ہلاکتوں‘‘ کا بڑا حصہ بنتے ہیں۔
کیلیفورنیا، اوریگن اور نیواڈا میں جنگلاتی آگ اب سیزن کے تابع نہیں رہی، وہ سال کے کسی بھی مہینے پھوٹ پڑسکتی ہے۔ تازہ ترین تحقیق بتاتی ہے کہ انسانی سرگرمی نے مغربی امریکا میں’’ میگا فائرز‘‘ کا خطرہ تین گنا بڑھا دیا ہے۔
خشک سالی، شدید گرمی، تیز ہوائیں مل کر ایک ایسا ماحولیاتی ’’پرفیکٹ اسٹورم ‘‘ تشکیل دے رہی ہیںجو قابو سے باہر ہے۔
یہ ماحولیات کا مسئلہ کم اور ماحولیاتی انصاف (Climate Justice) کا مسئلہ زیادہ بنتا جا رہا ہے،کیونکہ بدترین گرمی غریب اور پسماندہ آبادیوں کو نشانہ بناتی ہے جب کہ امریکی انفرا اسٹرکچرگرم مستقبل کے لیے بنایا ہی نہیں گیا۔
دوسری جانب بیمہ کمپنیاں آگ اور طوفان زدہ علاقوں سے باہر نکل رہی ہیں، جس سے گھر بیچنا تک مشکل ہوجاتا ہے۔
یورپ کے اہم دریا رائن، ڈینیوب، پو جن پر زراعت، تجارت اور توانائی کا پورا نظام کھڑا ہے جو مسلسل کم بہاؤ کا شکار ہیں۔ جس کے نتیجے میں زراعت میں 30/40 فیصد تک کمی، شپنگ لائنز کے راستے متاثر، خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور صنعتی پیداوار سست ہونے کے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
الپس میں برف تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ سائنسی ماڈل کہتے ہیں کہ2050 تک یورپی گلیشیئرزکا نصف حصہ ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے سیاحت، پانی اور توانائی تینوں بڑے شعبے خطرے میں پڑجائیں گے۔
پچھلے دو سال میں یورپ نے سیکھا کہ گرین ٹرانزیشن چاہے جتنی ضروری ہو، مگرگیس کی عدم دستیابی، سردیوں میں ایندھن کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتیں پورے براعظم کو غیر معمولی دباؤ میں ڈال دیتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی نے یورپ کے لیے ایک نئی حقیقت لکھ دی ہے کہ اب بحران صرف موسم کا نہیں، توانائی کے وجود کا بھی ہے۔
برطانیہ نے 2024 کی قومی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ اس وقت 6.3 ملین گھر سیلاب کے خطرے میں ہیں۔2050 تک یہ تعداد بڑھ کر 8 ملین ہو سکتی ہے، یعنی ہر چوتھا گھر۔ یہ بحران صرف موسمی نہیں معاشی، سماجی اور جغرافیائی ہے۔
انگلینڈ کی مشرقی ساحلی پٹی دنیا کی تیزی سے کٹتی ہوئی لائنوں میں شامل ہے۔ اندازے کے مطابق 2055 تک 3,500 گھر براہ راست سمندری کٹاؤ میں ضایع ہونے کے خطرات سے دوچار ہوں گے، جس کی وجہ سے کئی ساحلی قصبے نقشے سے مٹ سکتے ہیں۔
دوسری جانب ثقافتی ورثہ بھی خطرے میں ہے۔ ایڈنبرا کیسل سے لے کر تاریخی لائٹ ہاؤسز تک، برطانوی شناخت کے نشانات پانی اورکٹاؤ کے سامنے کمزور پڑ رہے ہیں۔
مغرب نے ماحولیاتی قیادت کا دعویٰ کیا ہے، لیکن حقیقت چند کمزوریوں سے پردہ اٹھا رہی ہے کیوں کہ کاربن نیوٹرل کا نعرہ لگایا جا رہا ہے، مگر تیل و گیس پر سبسڈیز بھی برقرار ہیں۔ یہ تضاد بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔ کلائمیٹ فنانس میں وعدے پورے نہیں کیے جا رہے ہیں۔
گلوبل ساؤتھ کو ہر سال 100 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا، مگر رقم مکمل نہیں پہنچی، پاکستان جیسے ممالک اس کا سب سے بڑا نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ماحولیاتی انصاف کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔
امریکا میں سیاہ فام، ہسپانوی اور غریب کمیونٹیز سیلاب اورگرمی کا سب سے بڑا نقصان اٹھا رہی ہیں۔ مغربی دنیا کا انفرا اسٹرکچر پرانی دنیا کا ہے جب موسمیاتی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ مغربی فنِ تعمیر اور سڑکیں اس موسمی شدت کے لیے بنائی ہی نہیں گئیں جو اب روز کا معمول بنتی جا رہی ہے۔
یورپ کی خشک سالی اور امریکا کی گرمی عالمی زرعی قیمتیں بڑھا رہی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک مزید مہنگائی کا شکار ہوں گے، اگر مغرب اپنے داخلی بحران میں پھنس جاتا ہے تو پاکستان کو گرین فنڈنگ، ٹیکنالوجی اور موسمیاتی مدد مزید کم ہو سکتی ہے۔
سمندری سطح میں ہونے والے اضافے کے نتیجے میں کراچی، ٹھٹھہ اورگوادر خطرے میں ہیں۔ برطانیہ کے ساحلی ماڈل اور سیلابی نقشے پاکستانی ساحلی علاقوں کے لیے بھی انتباہ بن رہے ہیں۔ عالمی سیاست میں’’ کلائمیٹ سیکیورٹی ‘‘ کا نیا تصور ابھرکر سامنے آرہا ہے۔
اب موسمیاتی تبدیلی قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے، پانی، خوراک، توانائی، سرحدی ہجرت سب اس سے جڑتے جا رہے ہیں۔
مغرب اس وقت ایسے موسمیاتی طوفان میں ہے جسے اس نے خود جنم دیا، مگر اب وہی طوفان اس کی سیاسی معیشت کو کمزورکررہا ہے، مگر اصل سوال یہ نہیں کہ مغرب کیا کرے گا؟
اصل سوال یہ ہے کہ اس کی قیمت کون چکائے گا؟ گلوبل ساؤتھ اور پاکستان پہلے ہی اس بحران کے اثرات کا بوجھ اٹھا رہے ہیں جب کہ ہماری کاربن شراکت دنیا کی مجموعی آلودگی کا 1 فیصد سے بھی کم ہے۔
پاکستان کے لیے یہ وقت دو اقدامات اٹھانے کا ہے۔ گرین ڈپلومیسی میں تیزی لانا اورکلائمیٹ ایمرجنسی کو قومی سلامتی کے طور پر دیکھنا کیونکہ موسمیاتی بحران اب عالمی شمال اور جنوب، امیر اور غریب، طاقتور اورکمزور ، سب کے درمیان ایک نئی سیاسی لکیرکھینچ رہا ہے۔