ایوان میں قہقہے گونج اٹھے، شکوے شکایتیں بھی ہوتی رہیں۔ تاہم مجموعی طور پر ایوان کا ماحول خوشگوار رہا، ممبران نے ایک دوسرے پر تنقید کے تیر بھی برسائے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے آخری سیشن کے دوسرے روز ممبران کے درمیان نوک جھونک، چٹکلوں کا تبادلہ ہوتا رہا، ایوان میں قہقہے گونج اٹھے، شکوے شکایتیں بھی ہوتی رہیں۔ تاہم مجموعی طور پر ایوان کا ماحول خوشگوار رہا، ممبران نے ایک دوسرے پر تنقید کے تیر بھی برسائے۔ اپوزیشن لیڈر نے کارروائی کے شروع میں کہا کہ چونکہ اس اسمبلی کا آخری سیشن چل رہا ہے تو اختتام اچھے ماحول میں ہونا چاہیے، ہمارے درمیان تلخیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن سیشن کا اختتام خوشگوار ہونا چاہیے، ایک اچھے ماحول کے ساتھ یہ دور ختم ہو۔ سیشن کے دوران دو بلوں کی منظوری متفقہ طور پر دی گئی۔ راجہ زکریا کی تقریر کے دوران ایوان کا ماحول گرم رہا اور ایوان میں قہقہے گونج اٹھے۔ حکومت کے کئی اراکین نے سابق وزیر اعلیٰ جی بی خالد خورشید کی تعریف کی۔ راجہ ناصر علی خان نے موجودہ اسمبلی کے دورانیے کو تاریخ کا کامیاب ترین دور قرار دیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

وینزویلا امریکا کے لیے دوسرا ویتنام؟؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251122-03-3
امیر محمد کلوڑ
وینزویلا براعظم جنوبی امریکا میں واقع تین کروڑ تیس لاکھ آبادی کا ایک سوشلسٹ ملک ہے جن کے صدور ہمیشہ امریکا کے لیے ایک Tough Guy (مشکل) رہے ہیں حالیہ صدر سے پہلے 1999-2013: ہوگو چاویز کا دور رہا ہے جوکہ امریکا کے خلاف جارحانہ بیان دینے میں مشہور تھے۔ شاویز نے سوشلزم، امریکا مخالف پالیسی اور فلسطین حمایت اپنائی امریکا نے ابتدائی طور پر سفارتی دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور میڈیا تنقید کے ذریعے ردعمل دیاؤ براہِ راست فوجی مداخلت نہیں، صرف سیاسی اور معاشی دباؤ برقرار رکھا۔ اس کے بعد 2013 سے اب تک نکولس مادورو ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔ وینزویلا دنیا کے سب سے بڑے ثابت شدہ تیل کے ذخائر کا حامل ہے اس کے بعد دنیا میں سعودی عرب کا نام آتا ہے ’’ثابت شدہ تیل کے ذخائر (Proven Oil Reserves)‘‘ کا مطلب ہے وہ تیل کی مقدار جو موجودہ ٹیکنالوجی اور اقتصادی حالات میں نکالی جا سکتی ہے اور تجارتی طور پر استعمال کی جا سکتی ہے۔ وینزویلا میں تقریباً 300-305 ارب بیرل تیل ثابت شدہ ذخائر کے طور پر ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب فوراً نکالا جا سکتا ہے، لیکن موجودہ ٹیکنالوجی اور تیل کی قیمت کے حساب سے یہ نکالنے کے قابل ہے، یہی وجہ ہے کہ وینزویلا کی معیشت اور عالمی اہمیت کا بڑا حصہ تیل پر ہے۔

ٹرمپ جو دنیا بھر کے ٹھیکیدار اور صاحب بہادر بنے پھرتے ہیں اب ان کا رخ جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کی طرف ہے۔ جہاں کے صدر نکولاس مادورو جوکہ کئی سال تک وینزویلا کے دارالحکومت کاراکاس میں بس ڈرائیور رہے اور اس کے بعد ٹریڈ یونین کے لیڈر کے طور پر ابھرے۔ فلسطین کی کھل کر حمایت کرنے والے 23 نومبر کو اپنی 63 ویں سالگرہ منائیں گے۔ لیکن ٹرمپ کے حالیہ بیان نے صدر مادورو کو اور وینزویلا کے عوام کو وقتی طور پر پریشان کردیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ وینزویلا میں امریکی فوج بھیجنے کے امکان کو ’’مسترد نہیں کرتا‘‘۔ ان کے مطابق، انہیں ’’وینزویلا کا خیال کرنے کی ضرورت ہے‘‘، یعنی نہ صرف منشیات کے مسئلے کی بات، بلکہ ملک کی قیادت پر بھی تنقید ہے۔

ڈرگ اسمگلنگ کے الزامات: ٹرمپ بار بار مادورو حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ وہ منشیات اسمگلنگ میں ملوث ہے، خصوصاً ’’Cartel de los Soles‘‘ کی بات کرتا ہے۔ امریکا نے حال ہی میں کیریبین میں ایک کشتی پر حملہ کیا جو منشیات لے جانے کی شک میں تھی، اور ٹرمپ نے اس کارروائی کو ’’منشیات کے خلاف جنگ‘‘ قرار دیا ہے۔ امریکا نے USS Gerald R. Ford دنیا کا سب سے بڑا طیارہ بردار بحری جہاز کیریبین میں تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ حرکت بہت بڑی عسکری نشان دہی ہے، جو وینزویلا پر امریکی دباؤ بڑھانے کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ اگر امریکا حملہ کرے تو اصل صورتحال کیا بنے گی؟ امریکا آسانی سے قبضہ نہیں کر سکتا۔ وینزویلا کا جغرافیہ بہت مشکل ہے۔ یہاں پر بڑے گھنے جنگلات اور پہاڑ ہیں فوج اور عوامی ملیشیا بہت بڑی ہے، جنگ لمبی اور مہنگی ہو جائے گی، عالمی سطح پر امریکا کو شدید مخالفت ملے گی۔

روس اور چین: یہ دونوں مل کر امریکا کے لیے سیاسی سر درد بنیں گے۔ لاطینی امریکا کے تقریباً تمام ممالک نے جنگی بیڑے بھیجنے کی شدید مخالفت کی ہے۔ برازیل، میکسیکو، چلی، پیرو، ارجنٹینا ان ممالک نے کہا ہے کہ ’’وینزویلا کا مسئلہ سیاسی ہے، اس کا حل فوجی نہیں ہونا چاہیے‘‘ برازیل کے صدر نے کہا امریکا کا عسکری دباؤ پورے خطے کو عدم استحکام میں دھکیل دے گا۔ لاطینی امریکا نے ہمیشہ ’’No Foreign Military Intervention‘‘ کی پالیسی رکھی ہے۔ امریکا کے اقدام کو ’’غیر قانونی، خطرناک اور خطے کے امن کے خلاف‘‘ قرار دیا۔ روس نے کہا ہے کہ امریکا وینزویلا کو ’’دوسرا عراق، دوسرا لیبیا‘‘ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس نے اپنی فضائی اور سمندری فورسز کی Combative Readiness بڑھانے کی بات کی ہے (علامتی پیغام امریکا کو دیا گیا ہے)۔

چین کا ردِعمل بھی سخت ہے: چین نے کہا کہ وہ ’’وینزویلا کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام‘‘ کرتا ہے۔ چین نے امریکا کے اقدام کو ’’بے جواز فوجی دھمکی‘‘ کہا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’تیل کے بہانے جنگ کرنا عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ بہرحال امریکن ریپبلکن پارٹی کے صدر ٹرمپ کو آج کل اپنے ہی ملک میں سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تازہ نیویارک سٹی میئر کے انتخابات میں ڈیموکریٹک سوشلسٹ بھارتی نژاد مسلمان زہران ممدانی کی شکل میں۔ جہاں پر بلین ڈالرز کے مالک ایلن مسک اور ڈونالڈ ٹرمپ جیسے لوگ ہارنے کے بعد اب تک زخم چاٹتے نظر آرہے ہیں۔ جیسا کہ میں اپنے گزشتہ کالموں میں بھی کہتا آرہا ہوں کہ شاید کارخانہ قدرت میں امریکا کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے میں قرعہ فال ٹرمپ کے ہی کھاتے میں آنے کا امکان ہے جیسے روس کے لیے گورباچوف ثابت ہوئے تھے اس طرح یہ فرعونیت کے مینار امریکا کے گورباچوف ثابت ہوں گے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • خالد خورشید قابل اور دلیر تھا لیکن خود کو نقصان پہنچایا، رحمت خالق
  • عوام کو بتائیں گے کہ حکومت نے لینڈ ریفارمز کے نام پر کس طرح کا ڈرامہ کیا، راجہ زکریا
  • جماعت اسلامی کے ‘بدل دو نظام’ اجتماع کے دوسرے روز کیا سرگرمیاں ہورہی ہیں؟
  • حکومتی اعتراض مسترد، پی ٹی آئی کا اپوزیشن لیڈر کیلئے محمود اچکزئی کا نام برقرار رکھنے کا فیصلہ  
  • وینزویلا امریکا کے لیے دوسرا ویتنام؟؟
  • ایم کیوایم کا کراچی کے مسائل پر عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان
  • امریکی کانگریس کا مریم نواز کو خط، حکومتی اقدامات کی تعریف
  • چیئر مین سی ڈی اے سے جڑوں شہروں کے ممبران اسمبلی کی ملاقات،ترقیاتی کاموں پر گفتگو
  • حیدرآباد،بھٹوں کے مالکان کیلئے آگہی اور تربیتی سیشن کا انعقاد