data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہاہے کہ پاکستان میں سیاسی معاشی دہشت گردی ہے ہماری سیاست پر خاندانوں کے قبضے کی وجہ سے مسلح دہشت گردی جنم لیتی ہے، ریاست کی سیاسی و معاشی پالیسیاں دہشت گردوں کو پیدا کرتی ہیں۔ وفاق اور چاروں صوبوں میں کارکردگی نہیں کرپشن کا مقابلہ ہے طاقت کے بغیر احتجاج اور مطالبات سے کوئی انقلاب نہیں آتا۔

ان خیالات کااظہارسابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے سید ہارون گیلانی کی کتاب استحکام پاکستان اور نئی نسل کو درپیش چیلنجز کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سراج الحق نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج سیمینار دوسروں کے ساتھ مثبت بات چیت کرنے کے لئے ہے، افغانستان افغانیوں کااور ایران ایرانیوں کا ہے، جلیانوالہ باغ کی ریاستی دہشتگردی کس کو یاد نہیں، پشاور کے ایک بازار میں انگریز نے چارسو مسلمانوں کو قتل کیا، نیلسن منڈیلا کے ساتھ چار مسلمانوں نے بھی جیل کاٹی۔

انہوں نے کہاکہ انگریز کے پاس پھانسی دینے کے لیے پھانسی گھاٹ کم ہوگئے تو لوگوں کے گلوں میں رسیاں ڈال کر پھانسی دی گئی، پاکستان کے بارے میں آج سوال ہوتا ہے کیا پاکستان سیکولر ہے یا مذہبی ہے؟ لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دے کر پاکستان بنا یا، قائد اعظم محمد علی جناح نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو بتایا پاکستان اسلام کے ذریعے چلے گا، پاکستان اسلامی نظام کا مرکز ضرور بنے گا۔ موجودہ سیاسی قیادت نے نوجوانوں کو تقسیم کردیا ہے سیاسی جماعتوں نے نوجوانوں کو تقسیم کرکے اپنے اقتدار کو طول دیا ہے سیاسی لیڈر بننے کے لئے کوئی قابلیت نہیں چاہیے سیاست کے لئے بس والد بھائی کا سیاستدان ہونا ضروری ہے۔

سراج الحق نے کہاکہ ہمارے ملک میں سیاسی معاشی دہشت گردی ہے ہماری سیاست پر خاندانوں کے قبضے کی وجہ سے مسلح دہشتگردی جنم لیتی ہے ریاست کی سیاسی و معاشی پالیسیاں دہشت گردوں کو پیدا کرتی ہے امت کا تصور سمندر کی طرح ہے موجودہ نظام کی گاڑی کے چار گھوڑے مخالف سمت چل رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وفاق اور چاروں صوبوں میں کارکردگی نہیں کرپشن کا مقابلہ ہے قوت کے بغیر احتجاج اور مطالبات سے کوئی انقلاب نہیں آتا، غزہ کے نوجوانوں نے ایک پیغام دے دیاغزہ میں حماس کی قیادت کالجوں و یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔

ویب ڈیسک.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سراج الحق نے

پڑھیں:

بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251015-03-5

 

عطامحمد تبسم

ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں چودھری ظہور الٰہی پر ’’بھینس چوری‘‘ کا مقدمہ بہت مشہور ہوا۔ ظہور الٰہی متحدہ اپوزیشن میں سر گرم تھے اور بھٹو صاحب کو یہ پسند نہ تھا۔ پنجاب پولیس نے ظہور الٰہی پر 100 سے زائد مقدمات قائم کیے، جیسے آج کل تحریک انصاف کے عمران خان کے خلاف مقدمات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ عدالتیں اس زمانے میں بھی تھیں، اور چودھری صاحب کو کہیں نہ کہیں ضمانت مل جاتی تھی۔ گجرات کے تھانے دار کے ایک تھانے دار نے تو کمال کردیا۔ چودھری صاحب کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج کردیا اور چودھری صاحب کے ڈیرے پر بندھی ایک بھینس کو مال مسروقہ قرار دے کر قبضہ میں لے لیا۔ اس وقت عدالت میں چودھری صاحب نے طنزاً کہا تھا ’’میں سیاست میں آیا ہوں، بھینسوں کے باڑے میں نہیں‘‘ مقدمہ خارج ہو گیا، مگر یہ واقعہ آج بھی اس پنجاب پولیس کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ 90 کی دہائی میں شیخ رشید کسی طور پر قابو نہ آئے تو پیپلز پارٹی حکومت شیخ رشید کے خلاف کلاشنکوف لہرانے کا مقدمہ کا درج کیا، شیخ رشید تو اس کو کھلونا کلاشنکوف کہتے تھے، لیکن پولیس نے ان کے گھر سے اصلی کلاشنکوف کی برآمدگی دکھا دی اور انسداد دہشت گردی کے عدالت نے انہیں سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنا دی۔ میاں نواز شریف مشرف کے طیارے کے ہائی جیکنگ کیس میں سزائے موت پانے کے بعد مرتے مرتے بچے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی مقدمات درج کیے گئے۔ جنہیں سن کر قانون بھی مسکرا اْٹھتا ہے۔ ہمارا وزیر رانا ثنا اللہ پر تو منشیات فروشی کا پرچہ کٹ گیا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ پر سرکاری مکان پر قبضے کا الزام، بینظیر بھٹو پر جعلی کارڈ اور گاڑی کا کیس، آصف زرداری پر موٹر سائیکل اور ہار چوری کا مقدمہ، اور عمران خان پر ’’ریڑھی سے ٹکرانے‘‘ اور ’’لاوڈ اسپیکر استعمال کرنے‘‘ جیسے الزامات — یہ سب واقعات محض قانونی کارروائیاں نہیں تھے، پولیس کو وقت کے حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ عدالتیں بعد میں ان مقدمات کو جھوٹا قرار دیتی ہیں، مگر عوام کے ذہن میں پولیس کی ساکھ پر لگے سیاہ داغ باقی رہ جاتے ہیں۔ مریدکے میں ہونے والے خونیں واقعات میں زیادتی دونوں طرف سے ہوئی، پولیس انتظامیہ اور کرین پارٹی والوں کے تشدد کی ویڈیو ہولناک ہیں، لال مسجد کے خونیں واقعات، ماڈل ٹاون کا سانحہ، نو مئی کے واقعات، اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کو کچلنے کا واقعہ اس بات کا اظہار ہیں کہ اب سیاست میں پرامن احتجاج ایک خواب و خیال ہے۔ ہمارے نوجوانوں، اور سادہ لوح دینی حمیت و غیرت پر سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننے والے کارکنوں کو اس بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ پرانے رویوں کی نئی شکل حالیہ دنوں میں مریدکے کا واقعہ اسی پرانی روایت کا نیا باب لگتا ہے۔

تحریک لبیک کے مارچ کے دوران پیش آنے والے تصادم کے بعد پنجاب پولیس نے سعد رضوی پر الزام لگایا کہ انہوں نے پولیس اہلکار پر پستول سے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایس ایچ او فیکٹری ایریا زخمی ہوئے اور بعد ازاں جان سے گئے۔ اسی ایف آئی آر میں ان کے بھائی انس رضوی، پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے ’’رائفل سے فائرنگ‘‘ کی۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریک لبیک کے اجتماعات ہمیشہ کیمروں، سوشل میڈیا اور ویڈیوز کی زد میں ہوتے ہیں۔ کبھی کسی ویڈیو، تصویر یا رپورٹ میں ان رہنماؤں کے ہاتھوں میں اسلحہ دکھائی نہیں دیا۔ نہ کبھی ان پر کسی ایسے عمل کا الزام لگا جس میں ہتھیار استعمال ہوا ہو۔ اس کے لیے ان کے جان نثار کم نہیں ہیں۔

یہ مقدمہ ایک بار پھر سوال اٹھاتا ہے کہ کیا پنجاب پولیس نے ایک بار پھر حسب ِ روایت سیاسی دباؤ میں کام کیا ہے؟ عوام کے لیے پنجاب پولیس کے رویے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جو دہائیوں سے ’’حکم‘‘ کے تابع ہے، ’’قانون‘‘ کے نہیں۔ یہ ذہنیت اب اس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ ہر واقعہ کے بعد سب سے پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے: ’’ایف آئی آر بنا دو‘‘ چاہے وہ بھینس چوری کا الزام ہو یا پستول کی فائرنگ کا۔ ایسے مقدمات نہ صرف انصاف کے نظام کو مذاق بناتے ہیں بلکہ معاشرتی اعتماد کو بھی مجروح کرتے ہیں۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ قانون طاقت کے تابع ہے، تو وہ انصاف کے دروازے پر دستک دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ پولیس اصلاحات نہیں، نیت درکار ہے۔ پاکستان میں پولیس ریفارمز پر کئی کمیشن بنے، سفارشات آئیں، رپورٹس تیار ہوئیں مگر جب تک سیاسی قوتیں خود قانون کے تابع نہیں ہوتیں، پولیس کبھی غیر جانب دار نہیں بن سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹے مقدمات کے ذمے دارافسران اور حکم دینے والے اہلکاروں کو قانونی جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسے واقعات پر ’’محکمانہ کارروائی‘‘ نہیں، بلکہ عدالتی مثالیں قائم کی جائیں، تاکہ آئندہ کوئی افسر سیاسی حکم پر قانون کی توہین نہ کرے۔ چودھری ظہور الٰہی سے لے کر سعد رضوی تک پاکستان کی سیاست میں پولیس کا کردار ہمیشہ سوالیہ ہی رہے گا۔ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟ یا دانستہ مذاکرات سے گریز کرکے آہنی ہاتھ سے کچلنے کا فیصلہ پہلے ہی سے طے تھا۔ ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب پولیس کی ذہنیت نہیں بدلی۔ یہ اب بھی طاقت کے سامنے سر جھکاتی ہے، اور کمزور کے خلاف بہادری دکھاتی ہے۔ جب تک ریاست یہ تسلیم نہیں کرتی کہ انصاف صرف عدالتوں میں نہیں بلکہ عملی طور پر قائم ہونا چاہیے، تب تک ایسے مضحکہ خیز مقدمات ہماری تاریخ کا حصہ بنتے رہیں گے۔ اور ہر نیا واقعہ، پرانی شرمندگی کا تسلسل ثابت ہوگا۔

عطامحمد تبسم

متعلقہ مضامین

  • فوج کا دشمن نہیں ہوں، بطور سیاستدان پالیسی پر تنقید کرتا ہوں ، عمران خان
  • افغانستان سے کشیدگی کے نتیجے میں دہشت گردی بڑھنے کا خطرہ ہے‘ سیاسی حل نکالنا چاہیے‘ عمران خان
  • بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک
  • ملٹری آپریشن سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی،عمران خان
  • ملٹری آپریشن سے دہشت گردی کو ختم نہیں کرسکتے،عمران خان
  • افغانستان سے کشیدگی، دہشت گردی بڑھنے کا خطرہ سیاسی حل ضروری ہے، عمران خان
  • افغانستان سے کشیدگی کے نتیجے میں دہشت گردی بڑھنے کا خطرہ ہے، سیاسی حل نکالنا چاہیے، عمران خان
  • دہشت گردوں کی سہولت کاری ناقابل برداشت
  • مسلح افواج دفاع وطن کے لیے پُرعزم ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف: شہید جوانوں کی نماز جنازہ ادا