اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی، جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے اور جوڈیشل کمیشن کی اپنی اتھارٹی ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وکیل عابد زبیری کے بینچ پر اعتراضات سے متعلق دلائل مکمل ہوگئے۔

سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کہ میری دو گزارشات ہیں، عدالتی کارروائی کا آغاز بسمہ اللہ سے ہونا چاہیے، اس سے عدالتی ماحول بہتر رہے گا، یہ بات میں ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہا ہوں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کل جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

وکیل اکرم شیخ نے کہا دوسری گزارش ہے کہ وکلاء کو دلائل دینے کے لیے وقت مقرر کر دیں، میں گزشتہ جمعرات سے طالب علم کے طور پر عزت مآب عابد زبیری صاحب کے دلائل کے نوٹس لے رہا ہوں۔ عابد زبیری نے فوراً جواب دیا کہ میں عزت مآب نہیں ہوں۔

جسٹس امین الدین خان نے ہدایت کی کہ وقت کی پابندی سب پر لاگو ہوگی۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے جوڈیشل کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ آئینی بینچز کے لیے ججز نامزد کرے، جوڈیشل کمیشن پر یہ پابندی تو نہیں ہے اس نے کس جج کو نامزد کرنا ہے کسے نہیں کرنا، سپریم کورٹ کا یہ 8 رکنی آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن کو ہدایت دے سکتا ہے کہ وہ فل کورٹ بنائے، جوڈیشل کمیشن کو ایسا آرڈر نہ دینے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر جوڈیشل کمیشن ایک جج کو آئینی بینچ کے لیے نامزد نہیں کرتا تو کیا ہم آرڈر دے سکتے ہیں اسے شامل کریں؟ ہم جوڈیشل کمیشن کو کیا آرڈر دے سکتے ہیں کہ فلاں جج کو آئینی بینچ میں شامل کریں، جوڈیشل کمیشن کی کارروائی اسکا اندرونی معاملہ ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے اور جوڈیشل کمیشن کی اپنی اتھارٹی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فل کورٹ نہیں مانگ رہے، آپ تو کہہ رہے ہیں 16 ججز چاہیں، فرض کریں جوڈیشل کمیشن کہہ دے ہمیں آئینی بینچز کے لیے نامزد ججز میں سے 4 کی ضرورت نہیں، کیا وہ چار ججز سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر جوڈیشل کمیشن کسی جج کو آئینی بینچ کے لیے نامزد نہیں کرتا تو کیا سپریم کورٹ آئینی ذمہ داری ادا نہیں کرے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کی آبزرویشن کے بعد آپ نے تو اپنے دلائل ہی تبدیل کر دیے، پہلے آپ کی دلیل تھی سپریم کورٹ کا یہ بینچ 8 ججوں کو شامل کرنے کے لیے جوڈیشل آرڈر کرے اور اب آپ کہہ رہے ہیں جوڈیشل کمیشن کو ہدایت دی جائے۔

وکیل عابد زبیری نے کہا میری دلیل یہ ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل آرڈر کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر تو جوڈیشل کمیشن والی بات ہی ختم ہوگئی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئینی بینچز کی تشکیل کا معاملہ تو ججز آئینی کمیٹی اکثریت سے طے کرتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان جب آئینی بینچ کے لیے نامزد نہیں ہیں تو انھیں معاملہ کیسے بھیجا جا سکتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں آئینی بینچز کو ایک سال سے کم ہوا، کیا دنیا کے دیگر ممالک میں ایسی مثالیں ہیں جہاں ایسی صورت حال کو ڈیل کیا گیا ہو۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر عدالت حکم نہیں دے سکتی پھر تو فل کورٹ بیٹھ ہی نہیں سکتا، کمیشن اگر صرف پانچ ججز کو کہہ دے تو صرف پانچ ججز ہی بیٹھیں گے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن صرف ججز نامزد نہیں کرتا بلکہ طے بھی کرتا ہے، کیا عدالتی حکم کے ذریعے ہم ووٹنگ کے عمل کو بائی پاس کر سکتے ہیں؟

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ عدالتی حکم کی سب پر پابندی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے ہم جوڈیشل کمیشن کو حکم دے سکتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اندر کی بات بتا دوں، آئینی کمیٹی ممبران نے ججز تعداد بڑھانے کا لکھا تو اعتراض اٹھایا گیا اور اعتراض کرنے والوں کا کہنا تھا ججز کی تعداد آپ نہیں بتا سکتے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ میرا موقف کمیشن میں تھا کہ میں ججز نام کمیشن کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔

وکیل عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ فل کورٹ بنے گا تو اپیل کا حق نہیں رہے گا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چیف جسٹس سمیت متاثرہ ججز نکال دیں تو بات پھر جسٹس امین الدین کے پاس آئے گی۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابقہ صدور کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل ہوگئے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن بھی ہیں، پیر کو کیس سنیں گے۔

عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس امین الدین خان نے وکیل عابد زبیری نے نے ریمارکس دیے کہ جسٹس عائشہ ملک نے جوڈیشل کمیشن کو کہ سپریم کورٹ سپریم کورٹ کا کے لیے نامزد نامزد نہیں نے کہا کہ سکتے ہیں فل کورٹ سے بھی

پڑھیں:

26ویں آئینی ترمیم کیس؛کمیٹی کے پاس بنچز بنانے کااختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا نہیں،کمیٹی کے اختیارات چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہلائے جا سکتے،دونوں مختلف ہیں،جسٹس عائشہ ملک کے ریمارکس

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس عائشہ  ملک نے کہاکہ کمیٹی کے پاس بنچز بنانے کااختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا نہیں،کمیٹی کے اختیارات چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہلائے جا سکتے،دونوں مختلف ہیں، ہم بنچز نہیں بلکہ فل کورٹ کی بات کررہے ہیں۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس حسن اظہر رضوی ،جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بنچ میں شامل ہیں۔

کفیل کی شرط ختم، سعودی عرب میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا سنہری موقع

دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ایک جانب آپ کہتے ہیں  فل کورٹ بنائیں دوسری طرف کہتے ہیں صرف 16جج کیس سنیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں یہ اب جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں آ گیا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اپیل کا حق تو 16رکنی بنچ میں بھی نہیں ہوگا، سپریم کورٹ رولز 24ججز کی موجودگی میں بنے،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ رولز سب کے سامنے بنے، میرا نوٹ موجود ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ تمام ججز کو رائے دینے کاکہاگیاتھا،ججز کی میٹنگ ہوئی، کچھ شقوں پر معاملہ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا آپ ریکارڈ منگوا رہے ہیں؟

بیوی قتل کرنے والے کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل خارج

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ معاملہ کلیئر ہوئے بغیر کیس آگے نہیں چلے گا، مجھے جھٹلایا جارہا ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ اندرونی معاملہ ہے اس کو یہاں ڈسکس نہ کریں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کچھ ججز نے رائے دی، کچھ نے نہیں،جسٹس عائشہ  ملک نے کہاکہ کمیٹی کے پاس بنچز بنانے کااختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا نہیں،کمیٹی کے اختیارات چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہلائے جا سکتے،دونوں مختلف ہیں، ہم بنچز نہیں بلکہ فل کورٹ کی بات کررہے ہیں،جسٹس امین الدین نے کہاکہ کیا چیف جسٹس فل کورٹ بنا سکتے ہیں جس میں آئینی بنچ کے تمام ججز ہوں؟وکیل عابد زبیری نے کہاکہ چیف جسٹس کے پاس ابھی فل کورٹ بنانے کا اختیار موجود ہے،سپریم کورٹ نے کیس سماعت کل  تک ملتوی کردی۔

پی ٹی آئی کیلئے حکومتیں معنی نہیں رکھتیں، گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو ٹیڑھی کرنا ہوگی، جنید اکبر

مزید :

متعلقہ مضامین

  • 26 ویں ترمیم کیس: پاکستان بار کونسل کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل
  • کیا کوئی قانون اس بنچ کو فل کورٹ کا آرڈر پاس کرنے سے روکتا ہے؟جسٹس عائشہ ملک کا استفسار 
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت
  • 26ویں آئینی ترمیم،جسٹس جمال،جسٹس عائشہ میں نوک جھونک
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس؛کمیٹی کے پاس بنچز بنانے کااختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا نہیں،کمیٹی کے اختیارات چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہلائے جا سکتے،دونوں مختلف ہیں،جسٹس عائشہ ملک کے ریمارکس
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع
  • 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت میں آئینی بینچ اور فل کورٹ پر ججز کے سخت سوالات
  • ‘کیا موجودہ بینچ متعصب ہے؟’ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت