Daily Mumtaz:
2025-10-15@17:42:02 GMT

750 روپے مالیت کا پرائز بانڈ جیتنے والے خوش نصیب کون ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT

750 روپے مالیت کا پرائز بانڈ جیتنے والے خوش نصیب کون ہیں؟

نیشنل سیونگز سینٹر نے مظفرآباد میں 750 روپے مالیت کے پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی کے سرفہرست فاتحین کا اعلان کردیا۔
750 روپے مالیت کے پرائز بانڈ میں پہلا انعام جیتنے والے خوش نصیب شخص کو 15 لاکھ روپے ملیں گے جبکہ دوسرا انعام جیتنے والے تین افراد کو 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
پہلا انعام پرائز بانڈ نمبر 797063 نے جیتا ہے جبکہ دوسرے انعام کے حقدار 118702، 290665 اور 668206 قرار پائے ہیں۔
سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت نے جولائی 2025 سے پرائز بانڈ کی جیتنے والی رقم پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافے کا اعلان کیا ہے۔
فائلرز کو اب انعامی بانڈز کی جیتنے والی رقم پر 15 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس دینا ہوگا جبکہ اس کے برعکس نان فائلرز کو اسی آمدنی پر 30 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔
واضح رہے کہ 750 روپے کے پرائز بانڈ کی اگلی سہ ماہی قرعہ اندازی اگلے سال جنوری 2026 میں ہوگی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

 نوبل انعام: اعلیٰ ظرفی، کم ظرفی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251014-03-7

 

احمد حسن

 

 

بالآخر امن کے نوبل انعام کا اعلان کر دیا گیا یہ انعام وینزویلا کی جمہوریت نواز رہنما ماریہ کورینا مچاڈو کو دیا گیا، وہ 2011 سے 2014 تک رکن پارلیمان رہیں، انہیں یہ انعام آمریت کے خلاف جدوجہد اور جمہوری آزادیوں کے دفاع پر دیا گیا ہے، وہ اس وقت خفیہ مقام پر روپوش ہیں، انہیں 2024 میں وینز ویلا کی عدالتوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا تھا تاکہ وہ صدر نکولس مادورو کے مقابل نہ آ سکیں جو 2013 سے اقتدار میں ہیں محترمہ ماریا کو امن انعام ملنے کے بعد یہ انعام حاصل کرنے کا ٹرمپ کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے جنہوں نے یہ انعام حاصل کرنے کے لیے خود بڑے پیمانے پر مہم چلائی تھی، چھے جنگیں ختم کرانے کے دعوے کیے تھے، حتیٰ کہ یہ تک کہا تھا کہ اگر انہیں انعام نہیں دیا گیا تو یہ امریکا کی توہین ہوگی۔

صدر ٹرمپ کے ان بیانات سے پتا چلتا ہے کہ ان کی ذہنی سطح بھی پاکستانی رہنماؤں جتنی ہی ہے، ہمارے ہاں بھی سیاست دان ہوں یا دیگر اداروں کے قائدین اپنی تعریف خود کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں پھر ان کے طبلچی میدان میں آ جاتے ہیں، امریکا میں بھی ایسا ہی ہوا ہے پہلے ٹرمپ صاحب خود کہتے رہے کہ میری یہ اور یہ خدمات ہیں، اتنی جنگیں رکوائی ہیں، آخر میں غزہ جنگ بندی کا سہرا بھی اپنے سر باندھا اور کہا کہ اب تو امن کا نوبل انعام مجھے لازماً ملنا چاہیے، حالانکہ اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو انہیں انعام نہیں سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، غزہ میں انسانی تاریخ کے جو بدترین مظالم ہوئے اس کا ذمے دار صرف نیتن یاہو نہیں، ٹرمپ بھی ہے، ہزارہا مرد و خواتین اور بچے بمباری کر کے بے قصور موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، خوراک تک کی فراہمی روک دی گئی جس کے باعث بڑی تعداد میں بچے بھوک پیاس سے بلک بلک کر دم توڑ گئے، ان سب کے قاتل نیتن یاہو کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہیں، ان دونوں پر عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلا کر سزا سنائی جانی چاہیے، صدر ٹرمپ ایک طرف جنگ رکوانے کی بات کرتے ہیں دوسری طرف انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسپین کو ناٹو سے نکال دیا جائے، اسپین کی خطا یہ ہے کہ اس نے جنگی بجٹ میں اضافہ کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ یورپی یونین اور دیگر ممالک پر مسلسل زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اپنے جنگی بجٹ کے لیے زیادہ رقوم مختص کریں۔ اب تک سنجیدہ اور مہذب رہنما ہتھیاروں کی دوڑ رکوانے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں ٹرمپ واحد شخص ہے جو مطالبہ کر رہا ہے کہ ہتھیاروں کے لیے زیادہ فنڈز رکھے جائیں اس سوچ کے حامل شخص کا امن کے نوبل انعام کا حقدار ہونے کا دعویٰ بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے کراچی میں منشیات کا کاروبار کرنے والے اپنے دفتر پر انسداد منشیات کی تنظیم کا بورڈ لگا لیتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کی اپیل پاکستان کے ساتھ ساتھ روسی صدر پیوٹن نے بھی کی تھی، جو اس وقت بھی یوکرین کے ساتھ خود شروع کردہ جنگ میں مصروف ہیں، پڑوسی ملک پر جارحیت کرنے والا کس منہ سے امن کے نوبل انعام کے حوالے سے کوئی بھی بات کر سکتا ہے، ایک طرف امریکی صدارت کے بڑے عہدے پر فائز چھوٹی سوچ کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو بار بار اپنے آپ کو نوبل انعام کا حقدار جتاتے رہے، دوسری طرف امریکا ہی کے مشہور سائنس دان فریڈ ریمز ڈل کی بے نیازی دیکھیے کہ انہیں 2025 کا نوبل انعام برائے طب دینے کا اعلان کیا گیا مگر انہیں اس کی خبر ہی نہیں، وہ پہاڑوں میں بغیر موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ہائکنگ کے مزے لے رہے ہیں ان کے ساتھیوں نے بتایا ہے کہ وہ اپنی بہترین زندگی گزار رہے ہیں اور فی الحال کسی سے رابطے میں نہیں ہیں۔

ایک جانب وائٹ ہاؤس کے ترجمان اسٹیون چونگ نے نوبل امن انعام کا اعلان ہونے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ امن کے معاہدے کرا رہے ہیں جنگیں ختم کرا رہے ہیں اور زندگیاں بچا رہے ہیں جبکہ نوبل کمیٹی نے پھر دکھایا کہ وہ امن سے زیادہ سیاست کو ترجیح دیتی ہے، نوبل کمیٹی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جب آمر اقتدار پر قابض ہوں تو آزادی کے محافظوں کا کردار تسلیم کرنا نہایت ضروری ہو جاتا ہے جو مزاحمت کرتے ہیں اور امید کو زندہ رکھتے ہیں دوسری جانب نوبل انعام حاصل کرنے والی خاتون ماریا کورینا مچاڈو نے انتہائی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ میں یہ انعام وینز ویلا کے مظلوم عوام اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کرتی ہوں جنہوں نے جدوجہد میں ہماری حمایت کی۔

وزیراعظم شہباز شریف ملک میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر اور بیرون ملک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف و تحسین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، بھارت سے جنگ میں جب پاکستان نے فتح حاصل کی اس وقت بھی شہباز شریف ہی پاکستان کے وزیراعظم تھے انہوں نے فتح کا مکمل کریڈٹ فیلڈ مارشل کو دیا اگرچہ بعد میں پنجاب کی وزیر اطلاعات و نشریات عظمیٰ بخاری نے قوم کو بتایا بھی کہ جنگ کا سارا نقشہ، ڈیزائن مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے بنا کر دیا تھا، پھر بھی میاں شہباز شریف جیت کا سہرا فیلڈ فیلڈ مارشل کے سر ہی باندھتے رہے،گزشتہ روز پاک فوج نے افغانستان کی در اندازیوں کا جواب دیتے ہوئے انہیں جو سبق سکھایا وزیراعظم شہباز شریف نے اس پر بھی فیلڈ مارشل کی زبردست تعریف و توصیف کی ہے اس کے ساتھ ہی انہوں نے غزہ میں جنگ بندی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ جنگ بندی چاہتے ہیں اور ہم نے بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو کر جنگ بندی یقینی بنائی، ہم غزہ میں بچوں کو خون میں نہاتا نہیں دیکھ سکتے تھے، دنیا غزہ جیسی صورتحال کی متحمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کسی کو نسل کشی اور قتل عام کی اجازت دی جا سکتی ہے، وزیراعظم شہباز شریف کے مذکورہ بالا جملے بہت ہی تکلیف دہ ہیں، صدر ٹرمپ اگر جنگ بندی چاہتے تو یہ بہت پہلے ہو سکتی تھی، حماس نے تو پہلے بھی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی ہوگئی تھی لیکن اسرائیل مذاکرات کے دوسرے دور سے بھاگ گیا، وزیراعظم نیتن یاہو نے عارضی جنگ بندی کو مستقل جنگ بندی میں تبدیل نہیں ہونے دیا اور حملے مزید تیز کر دیے، صدر ٹرمپ اس وقت اگر حق کا ساتھ دیتے تو نیتن یاہو پر دباؤ ڈالتے، اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکتے لیکن وہ تو مسلسل ان کی پشت پناہی کرتے رہے اور صرف حماس کو ہی نہیں تمام فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دیتے رہے، یہ امریکا ہی تھا جس نے دنیا بھر کی امن کوششوں کو بار بار ناکام بنایا، غزہ میں امن کے لیے جب بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی امریکی نمائندے نے اسے ویٹو کیا آج کہا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ثابت کر دیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی چاہتے تھے، غزہ میں قتل عام ہوتا رہا، نسل کشی ہوتی رہی اور امریکی صدر حماس کو دھمکاتا رہا، اب کہا جا رہا ہے کہ غزہ میں قتل عام اور نسل کشی کی اجازت نہیں دی جا سکتی – اجازت نہیں دی جا سکتی کیا معنیٰ؟ اجازت دی گئی، بار بار دی گئی، قتل عام ہوتا رہا، نسل کشی ہوتی رہی۔

اس وقت اگر کوئی تعریف و تحسین کے قابل ہے تو وہ غزہ کے عوام اور حماس کی قیادت ہے کہ بدترین مظالم کے باوجود وہ میدان میں ڈٹے رہے، بھاگے نہیں اور اب مذاکرات کی میز پر انتہائی فہم و فراست کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

احمد حسن

متعلقہ مضامین

  • کروڑوں روپوں کی کرنسی اور زیورات گھر میں کیوں رکھے جاتے ہیں؟
  • پی ایم ای ایکس میں 101.225 بلین روپے کے سودے
  • راولپنڈی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے شہریوں پر کوڑا ٹیکس نافذ کردیا
  • راولپنڈی: پاک آرمی کی برطانوی کیمبرین پیٹرول2025ء میں گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیم کا گروپ فوٹو
  •  نوبل انعام: اعلیٰ ظرفی، کم ظرفی
  • نوبیل انعام برائے معاشیات 3 ماہرین کو دینے کا اعلان
  • میرٹھ میں آٹھ کروڑ مالیت کا بیل ’ودھایک‘ کسانوں اور شائقین کی توجہ کا محور بن گیا
  • اثاثوں کی کل مالیت صرف 5 لاکھ 78 ہزار روپے
  • بی جے پی دھاندلی کے بغیر ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکتی، عمر عبداللہ