خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں پہلی بار شام کی عدالتوں کا نظام متعارف کرایا گیا ہے، جس کے تحت عدالتیں معمول کے عدالتی اوقات کار کے بعد بھی کام کریں گی۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے ایبٹ آباد میں صوبے کی پہلی ڈبل ڈوکِٹ کورٹ کا افتتاح کیا، اس موقع پرپشاور ہائیکورٹ ایبٹ آباد بینچ کے ججز، ضلعی عدلیہ کے افسران اور بار کے نمائندے بھی موجود تھے۔

انہوں نے بتایا کہ معمول کے اوقات کے بعد عدالتوں کا قیام نیشنل جوڈیشل پالیسی کے تحت عمل میں لایا گیا ہے، جس میں عدالت میں 2 شفٹوں کی منظوری دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں عدالتی کارروائیاں معطل، ججز عدالتوں میں کیوں نہیں آئے؟

پاکستان میں اس نظام کو ’ڈبل ڈوکِٹ کورٹ رجیم‘ کے نام سے آزمائشی بنیادوں پر متعارف کرایا جا رہا ہے، تاکہ بیک وقت زیادہ مقدمات نمٹائے جا سکیں اور زیرِ التوا مقدمات کی تعداد میں کمی لائی جا سکے۔

ڈبل ڈوکِٹ کورٹ سے مراد ایک ایسے عدالتی نظام سے ہے جس میں ایک ہی جج کو 2 الگ الگ مقدمات سننے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے، عام طور پر ایک ہی دن میں، تاکہ عدالتی کارروائی میں تیزی اور اثرپذیری پیدا کی جا سکے۔

عدالتی اوقات کار سے متعلق ایس او پیز کے مطابق صبح کی ڈوکِٹ کا وقت صبح 7 بج کر 30 منٹ سے دوپہر 1 بج کر 30 منٹ تک ہوگا، جبکہ شام کی ڈوکِٹ یعنی دوسری شفٹ کا وقت دوپہر 2 بج کر 30 منٹ سے شام 5 بج کر 30 منٹ تک مقرر کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمان نے خیبرپختونخوا میں کرپشن کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کردیا

چیف جسٹس نے 5 بجے کے بعد عدالتیں شروع کرنے کو عدالتی نظام میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ شام کی عدالتوں میں خاندانی تنازعات، کرایہ داری مقدمات، خواتین اور کم عمر افراد سے متعلق کیسز، منشیات کے مقدمات سمیت ان فوجداری مقدمات کی سماعت ہوگی، جن میں 7 سال تک سزا ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات میں کمی اور انصاف کی فراہمی میں تیزی آئے گی، جبکہ فوری نوعیت کے کیسز میں سائلین کو اگلے دن تک انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ضلعی عدلیہ ایبٹ آباد کے عدالتی افسران سے ملاقات بھی کی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عابد سرور نے بتایا کہ 31 عدالتی افسران 19 ہزار سے زائد زیرِ سماعت مقدمات پر کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:

چیف جسٹس نے عدالتی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ڈیجیٹل کیس مینجمنٹ، ای فائلنگ، متبادل تنازعات کے حل اور عدالتی افسران کی تربیتی پروگراموں جیسے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ شام کے وقت عدالتیں شروع کرنے کا مقصد عوام کو سہولت فراہم کرنا اور عدالتی نظام کو زیادہ مؤثر بنانا ہے، جس سے عدالتوں پر بوجھ اور مقدمات کا دباؤ کم ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایبٹ آباد پشاور ہائیکورٹ جج عابد سرور چیف جسٹس ڈبل ڈوکِٹ کورٹ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ڈیجیٹل کیس مینجمنٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایبٹ ا باد پشاور ہائیکورٹ چیف جسٹس ڈبل ڈوک ٹ کورٹ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ڈیجیٹل کیس مینجمنٹ ایبٹ آباد چیف جسٹس

پڑھیں:

نومنتخب وزیراعلیٰ کی حلف برداری کا معاملہ لٹک گیا، پشاور ہائیکورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کردی

پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجہ نے درخواست پر دلائل دیے اور عدالت کو بتایا کہ سہیل آفریدی وزیراعلٰی منتخب ہوچکے ہیں، جس کے بعد اُن کی حلف برداری میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ پشاور ہائیکورٹ نے نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی حلف برداری سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کل تک گورنر خیبرپختونخوا کی رائے مانگ لی۔ تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کی جانب سے نومنتخب وزیراعلیٰ کی فوری حلف برداری کے لیے درخواست دائر کی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجہ نے درخواست پر دلائل دیے اور عدالت کو بتایا کہ سہیل آفریدی وزیراعلٰی منتخب ہوچکے ہیں، جس کے بعد اُن کی حلف برداری میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر صوبے سے باہر وزیراعلٰی کا حلف ضروری ہے، ہم عدالت کو وزیراعلٰی کے حلف کے لیے درخواست دے رہے ہیں کیونکہ دو دن تک صوبے کو بغیر حکومت کے نہیں چھوڑا جاسکتا۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس سید محمد عتیق شاہ نے دوران سماعت استفسار کیا کہ گورنر نے علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ منظور کرلیا؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے 11 اکتوبر کو استعفی دیا جس کو گورنر نے منظور نہیں کیا، لیکن آئین میں منظوری کا ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اسمبلی نے نیا وزیراعلیٰ منتخب کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس درخواست کو  صرف قانونی حیثیت سے نہیں سُن رہے بلکہ انتظامیہ حوالے سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین نے چیف جسٹس کو اختیار دیا ہے، کہ وہ کسی کو بھی نامزد کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن آج ہوا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا جی آج ہوا ہے۔ جسٹس سید محمد عتیق شاہ نے سوال کیا کہ کیا اسپیکر نے گورنر کو سمری بھیجی ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ جی سمری بھیج دی ہے جبکہ وزیراعلیٰ نے 11 اکتوبر کو ہاتھ سے لکھا گیا استعفیٰ گورنر ہاؤس بھیجا تھا، گورنر نے 12 اکتوبر کو استعفی پر  عجیب اعتراض اٹھائے اور کہا کہ وہ صوبے سے باہر ہیں، 15 کو واپس آکر دوپہر تین بجے ذاتی حیثیت میں علی امین گنڈا پور سے تصدیق کریں گے۔

سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گورنر کو علم تھا کہ 13 کو نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا، جان بوجھ کو انھوں نے اس کو ڈیلے کرنے کی کوشش کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپیکر نے گورنر کو حلف برداری کیلیے جو سمری بھیجی کیا وہ وہاں پر موصول ہوچکی ہے۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ اسپیکر خود یہاں موجود ہیں، اسی کے ساتھ انہوں نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت صوبے میں حکومت نہیں ہے، صوبے کو ایسے نہیں چھوڑا جاسکتا، اگر گورنر 48 گھنٹوں بعد آتے ہیں، تو اس کا تو انتظار نہیں کیاجاسکتا۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ کو روسٹروم پر بلا کر رائے طلب کی، جس پر انہوں نے کہا کہ آئین اس پر کلیئر ہے کہ جب حلف لینے سے گورنر انکار کریں تو پھر آرٹیکل 255 نافذ ہوگا، اسپیکر نے سمری بھیجی ہے یہ سمری گورنر تک پہنچی ہے یا نہیں یہ بھی ابھی کلیئر نہیں ہے۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے کہا کہ اس معاملے پر گورنر کی رائے ضروری ہے اور اس کے بعد ہی ہم کچھ کرسکتے ہیں، اس سے پہلے مخصوص نشستوں پر  ممبران اسمبلی کے حلف پر بھی میرے خلاف کیس ہوا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ممبران اسمبلی اور وزیراعلیٰ کے حلف میں فرق ہوتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے کہا کہ وہ رئیسائی صاحب کی بات، حلف حلف ہوتا ہے وہ وزیراعلیٰ کا ہوں یا ممبران اسمبلی کا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نئے وزیراعلیٰ سے حلف کے لئے گورنر صوبے میں موجود نہیں ہے، صوبے کو بغیر حکومت کے نہیں رکھا جاسکتا، وزیراعلیٰ کا آفس آئینی آفس ہوتا ہے، وزیراعلیٰ کا انتخاب 12 بجے ہوا اور ساڑھے پانچ بج گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے کہ جب انکار ہو تو پھر چیف جسٹس کسی کو نامزد کرسکتے ہیں۔ گورنر صوبے میں موجود نہیں ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ گورنر کہتے ہیں کہ وہ پرسوں واپس آئیں گے، 48 گھٹنے صوبے کو بغیر وزیراعلیٰ کے نہیں رکھا جاسکتا۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اسمبلی میں خطاب میں کہا ہے کہ انھوں نے استعفی دیا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئے وزیراعلیٰ کے حلف تک پرانا کام کرسکتے ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ عدم اعتماد کے وقت ہوتا ہے۔ چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ آپ گورنر ہاؤس سے کنفرم کرلیں کہ وہاں پر سمری پہنچی ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ گورنر ہاؤس سے سمری کی تصدیق کریں اور پھر ہم کل اس کا جواب یا رائے آنے کے بعد معاملے کو دوبارہ دیکھیں گے۔ قبل ازیں جنید اکبر نے کہا کہ نو منتخب وزیراعلٰی سے حلف لینا گورنر کی آئینی ذمہ داری ہے، ہم پشاور ہائیکورٹ درخواست دینے آئے ہیں کہ نومنتخب وزیراعلٰی سے حلف لیا جائے، گورنر صوبے سے باہر ہیں، نومنتخب وزیراعلٰی سے حلف ضروری ہے، تمام ارکان اسمبلی متحد ہیں، ممبران مختلف طریقے سے ڈرایا دھمکیاں جا رہا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • پشاور ہائیکورٹ نے این اے ون چترال میں ضمنی الیکشن روک دیا
  • نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی آج حلف اٹھائیں گے ،پشاور ہائیکورٹ کا گورنر کو حکم
  • گورنر کے پی نو منتخب وزیرِ اعلیٰ سے بدھ کو حلف لیں: پشاور ہائیکورٹ
  • پشاور ہائیکورٹ کا گورنر خیبرپختونخواہ کو نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے حلف لینے کا حکم
  • پشاور ہائیکورٹ: وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • نومنتخب وزیراعلیٰ کی حلف برداری کا معاملہ لٹک گیا، پشاور ہائیکورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کردی
  • نومنتخب وزیراعلی کی حلف برداری کا معاملہ لٹک گیا، پی ٹی آئی کو پشاور ہائیکورٹ سے ریلیف نہ مل سکا
  • نومنتخب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی حلف برداری کیلئے پشاورہائیکورٹ سے رجوع
  • ورچوئل کورٹ کا مقصد اپر چترال کے سائلین کو سہولت فراہم کرنا ہے: چیف جسٹس