نورمقدم کیس: جسٹس باقرنجفی کے فیصلے پر ردعمل کیوں ؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
پچھلے دو دنوں سے سوشل میڈیا پر نورمقدم مرڈر کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ/ وفاقی عدالت کے جج جسٹس باقرنجفی کے فیصلے پر شور مچا ہوا ہے۔ ہمارے لبرل، سیکولر، فیمنسٹ حلقے سخت ناخوش بلکہ برہم ہیں کہ جج صاحب نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے لو ان ریلشن شپ (بغیر شادی کے اکھٹے رہنے )کے خلاف جملے کیوں لکھے۔ انہیں اس کا حق نہیں پہنچتا تھا۔ وہ انصاف دیتے، فیصلہ سناتے اور بس۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب پڑھ کر خاکسار کے ذہن میں بعض سوالات پیدا ہوئے۔ ایک زمانے میں ہم نے ایل ایل بی کی ڈگری لی تھی، اگرچہ پچھلے 30 برسوں میں اس پر گرد جم چکی ہے، مگر کبھی کبھار اسے نکال کر، جھاڑ پونچھ کر، دیکھ کر خوش ہولیتے ہیں کہ قانون کی الف ب سہی، پڑھی تو ہے۔
آج کے کالم میں اس ایشو کو سمجھنے، سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ترتیب کے ساتھ۔
نورمقدم مرڈر کیس ہے کیا ؟27 سالہ مرحومہ نورمقدم ایک پڑھی لکھی، ماڈرن خاتون تھیں،ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ معزز گھرانے کی رکن۔ 20 جولائی 2021 کو نورمقدم کی لاش اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں واقع اپنے ایک قریبی دوست ظاہر ذاکر جعفر کے گھر سے برآمد ہوئی۔ پولیس نے مختلف شواہد، سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی این اے وغیرہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقتولہ کو ظاہر جعفر نے نہایت سفاکی اور بے رحمی سے پہلے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کر دیا۔ ملزم کو موقعہ سے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
کیس چلا اور ایک سال بعد یعنی 2022 میں سیشن کورٹ سے قاتل ظاہر جعفر کو سزائے موت اور 25 سال قید سنائی گئی، اس کے 2 ملازموں کو بھی معاونت پر 10، 10 سال قید سنائی گئی۔
اپیل ہوئی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیشن کورٹ کی سزا برقرار رکھی بلکہ عمر قید کو بھی دہری سزائے موت میں تبدیل کر دیا، یعنی ملزم کو قید میں رکھنے کے بجائے فوری پھانسی دے دی جائے۔
ہائیکورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی اور اس سال مئی میں سپریم کورٹ کے 3 ججوں کے بنچ نے جس کی سربراہ جسٹس ہاشم کاکڑ کر رہے تھے ہائیکورٹ کی سزا کو برقرار رکھا اور ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم صادر کیا۔ 3 رکنی بنچ میں جسٹس کاکڑ کے علاوہ جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
جسٹس نجفی کا اضافی نوٹسپریم کورٹ کے فیصلے پر ملزم نے نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ اسی نظرثانی کے دوران جسٹس باقر نجفی نے ملزم کے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ بہتر ہوتا کہ آپ میرے اضافی نوٹ کے بعد اپنے دلائل دیتے۔ وہ اضافی نوٹ مئی کے فیصلے کے موقعہ پر دیا گیا تھا، تاہم اسے تب تک اپ لوڈ نہیں کیا گیا تھا۔
2 دن قبل جسٹس علی باقر نجفی کا اضافی نوٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہوچکا ہے۔ جسٹس نجفی کا یہ اضافی نوٹ 7 صفحات پر مشتمل ہے، 10 پیراگراف ہیں ، دسویں پیراگراف میں جسٹس صاحب نے وہ 8، 9 سطریں لکھی ہیں جس پر یہ ردعمل سامنے آیا ہے۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ اعتراض کرنے والے نوے پچانوے فیصد افراد نے وہ فیصلہ پڑھا ہی نہیں کیونکہ وہ پڑھتے تو اندازہ ہوجاتا کہ جسٹس نجفی نے مقتولہ کے ساتھ ہرگز وکٹم بلیمنگ نہیں کی۔
جسٹس نجفی نے آخر ایسا کیا کہا ؟
اس فیصلے کے آخری پیرا گراف کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں، اسے لفظی یا پرفیکٹ ترجمے کے بجائے مفہوم ہی سمجھ لیں۔
جسٹس صاحب لکھتے ہیں: ’ میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ موجودہ مقدمہ دراصل اُس برائی (VICE)کا براہِ راست نتیجہ ہے جو بالائی طبقے (اپر کلاس )میں تیزی سے پھیل رہی ہے، جسے ہم لِو ان ریلیشن شپ (live-in relationship)کہتے ہیں۔ اس طرح کے تعلقات میں معاشرتی تقاضوں کو نظر انداز کر کے نہ صرف ریاستی قانون کو چیلنج کیا جاتا ہے بلکہ اسلامی شریعت کے پرسنل لا کی بھی خلاف ورزی کی جاتی ہے، جو کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے خلاف ایک کھلی بغاوت ہے۔ نئی نسل کو چاہیے کہ وہ اس طرز زندگی کے خوفناک نتائج سے سبق سیکھے، جن کی ایک نمایاں مثال یہی مقدمہ ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جسے سماجی اصلاح کاروں (سوشل ریفارمرز)کو اپنے سرکلز میں زیربحث لانا چاہیے ۔‘
جسٹس نجفی کے اضافی نوٹ پر اعتراض کیا ہے؟ناقدین کا کہنا ہے کہ جج کا کام فیصلہ سنانا ہے، اپنی طرف سے بھاشن دینا یا نصیحت کرنا نہیں۔ ڈان اخبار نے ایک سٹوری اس سرخی کےتحت لگائی، ویمن نیڈز جسٹس ناٹ ججمنٹ (عورت انصاف کی مستحق ہے، فیصلہ سنائے جانے کی نہیں۔) خواتین صحافیوں ماریانہ بابر، بے نظیر شاہ وغیرہ نے بھی اس فیصلے پر سخت تنقید کی۔ بعض خواتین نے یہ بھی کہا کہ خواتین اپنے خاوندوں کے ہاتھوں بھی قتل ہوجاتی ہیں تب؟
کیا جسٹس باقر نجفی کے نوٹ میں وکٹم بلیمنگ ہوئی؟آگے بڑھنے سے پہلے اس نکتہ سے نمٹ لینا بڑا ضروری ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، 7 صفحات کا فیصلہ ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے اپنے اضافی نوٹ میں بڑی مہارت کے ساتھ ملزم / قاتل کے بچ نکلنے کے تمام راستے بند کر دئیے۔
ملزم کے وکیل نے دو تین نکات کا سہارا لیا۔ ایک تو یہ کہا گیا کہ نورجعفر کے کہنے پر گھر میں ایک ڈرگ پارٹی منعقد کی گئی تھی، جس میں نور مقدم کے کہنے پر ملزم نے اتنا نشہ استعمال کر لیا کہ اسے ہوش ہی نہیں رہا، جب ہوش آیا تو وہ بندھا ہوا پولیس کی تحویل میں تھا۔ یعنی جو کچھ بھی ہوا وہ ڈرگ کے زیراثر ہوا اور یہ بھی مقتولہ کے زور دینے پر ہوا۔ اسی طرح ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا کہ ملزم ظاہر جعفر ذہنی مریض ہے،اس پر پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ یعنی اسے نفسیاتی، ذہنی مریض سمجھ کر چھوڑ دیا جائے۔ ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا گیا کہ ایف آئی آر کچھ تاخیر سے درج ہوئی، پوسٹ مارٹم رپورٹ آٹھ دس گھنٹوں بعد کی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
جسٹس علی باقر نجفی نے یہ تمام نکات دلائل کے ساتھ رد کر دئیے۔ انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ مقتولہ پر نشہ کرنے کا الزام غلط ہے، کیونکہ پوسٹ مارٹم میں ان کے معدے میں کسی قسم کے نشے کے اثار نہیں ملے۔ اسی طرح گھر میں ڈرگ پارٹی کا دعویٰ بھی غلط ہے کیونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایسی کوئی پارٹی یا شرکا نظر نہیں آئے۔ یہ بھی غلط ہے کہ ملزم نے مقتولہ کے کہنے پر نشہ کیا تھا، کیونکہ ملزم کے میڈیکل معائنہ سے بھی نشہ ثابت نہیں ہوا۔ پاگل پن کا دعویٰ بھی غلط ہے کیونکہ ملزم یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اس نے کسی سائیکاٹرسٹ سے علاج کرایا، وہ کوئی باقاعدہ تھراپی لے رہا تھا یا ایسی ادویات گھر میں پائی گئیں جن کے استعمال یا عدم استعمال سے وہ مشتعل ہو کر یہ کام کر بیٹھا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ملا، اس لیے یہ دفاع کمزور اور ناقابل قبول ہے۔
جسٹس نجفی نے یہ بھی لکھا،’ جو چھوٹی موٹی تاخیر ہوئی، وہ قابل فہم ہے۔ ایسے ہولناک واقعے کے بعد مقتولہ کے ورثا پہلے شاک سے سنبھلیں گے، پھر ایف آئی آر درج کرائیں گے، اس لیے تین چار گھنٹوں کی تاخیر نارمل ہے۔ اسی طرح پوسٹ مارٹم اگر اگلی صبح ہوا تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ۔‘
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فیصلے میں کہیں بھی وکٹم بلیمنگ نہیں کی گئی بلکہ ملزم کے مقتولہ پر لگائے گئے الزامات کا رد کیا گیا۔ مقتولہ پر نشہ استعمال کرنے یا ڈرگ پارٹی کے انعقاد میں انوالمنٹ جیسے الزامات کو رد کیا گیا۔ یہ بھی لکھا گیا کہ ملزمہ نے پہلی منزل سے نیچے کود کر گھر سے بھاگ نکلنے کی کوشش کی جو چوکیدار کے دروازے پر تالہ لگا دینے سے ممکن نہ ہوپائی۔ یہ ذکر ہمدردانہ انداز میں کیا گیا۔ یہ تمام باتیں مقتولہ کےدفاع میں لکھی گئیں۔
یہ نہیں لکھا گیا کہ لو ان ریلیشن شپ ہی اس قتل کا باعث بنا۔ ایسا نہیں کیا گیا بلکہ پورا فیصلہ لکھ دیا گیا۔ قاتل کی سخت ترین سزا برقرار رکھی گئی۔ اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی گئی، اس کے تمام دلائل کا مدلل رد کیا گیا۔ پورا فیصلہ لکھ دینے کے بعد آخر میں صرف ایک پیرا گراف اصلاحی انداز میں لکھا گیا۔ قانونی اصطلاح میں یہ (Observational Comment)تھا۔ اگر جج سزا دیتے ہوئے لِو ان کو وجہ بنا دیتے تو اعتراض درست تھامگر جب سزا مکمل دی گئی، رعایت نہیں دی گئی اور صرف معاشرے کو خبردار کیا گیا ، تو یہ وکٹم بلیمنگ نہیں۔
ہماری ناچیز رائے میں عدالت اگر فیصلے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کر دے، سزا میں کسی قسم کی رعایت نہ دے اور وکٹم بلیمنگ سے مکمل اجتناب کرے، اور اگر کہیں کوئی جج معاشرتی بگاڑ پر اصلاحی نوٹ لکھے تو یہ مداخلت نہیں بلکہ ایک قسم کا جوڈیشل کانشس ہے، عدالتی ذمہ داری کا بیدار ہونا۔ ایسے نوٹ معاشرے کی رہنمائی بن سکتے ہیں۔
ویسے بھی عدالت نے نہیں کہا کہ لِو ان ریلیشن قتل کا باعث بنتے ہیں، بلکہ کہا کہ یہ غیر محفوظ، قانون سے باہر، اور ایسے تعلق ہیں جو مشکلات اور تنازعات کو بڑھاتے ہیں۔ اگر عدالت نے مقتولہ کو قصوروار ٹھہرانا ہوتا تو کہا جاتا:’کیونکہ وہ ایسے رشتے میں تھی، اس لیے…‘ ایسا نہیں ہوا۔ عدالت نے کہا سزا برقرار ہے، کوئی کمی نہیں۔ مگر اس طرح کے تعلقات معاشرتی بگاڑ کی علامت ہیں۔ یہ فرق بہت اہم ہے۔
’کیا نکاح والی خواتین نہیں مرتیں؟‘یہ بات بھی بہت سی سوشل میڈیا پوسٹوں میں فیمنسٹ خواتین کی جانب سے کہی جا رہی ہے کہ نکاح کے بعد بھی تو متعدد خواتین اپنے خاوندوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہیں۔ قتل تو قتل ہے، اس فیصلے میں پھر لو ان ریلیشن پر زور کیوں دیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یہ غلط موازنہ ہے۔ نکاح قانونی و سماجی طور پر تسلیم شدہ ہے جبکہ لِو ان ریلیشن قانونی و شرعی طور پر غیر محفوظ۔ قانون نکاح یافتہ عورت کو تحفظ دیتا ہے (خلع، طلاق، ڈومیسٹک وائلنس لا ) ۔ جبکہ لِو ان عورت کو کوئی قانونی اور سماجی تحفظ نہیں ملتا ۔ رشتہ نہیں، فرد قاتل بنتا ہے، مگر غیرقانونی رشتہ خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو اس نوٹ کی آخری چند سطروں میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہیلمٹ پہننے کے باوجود بھی موٹر سائیکل سوار حادثے کا شکار ہو سکتا ہے، جان بھی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود ہم سب اپنے بچوں کو ہیلمٹ پہننے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ اس سے خطرات کچھ کم ہوجاتے ہیں۔ خطرہ صفر تو کہیں پر بھی نہیں ہوسکتا، اس میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ نکاح کی صورت میں بھی خطرہ صفر نہیں ہوتا، مگر بہرحال عورت کے لیے نسبتاً زیادہ تحفظ، قانونی بنیاد، سماجی پروٹیکشن وغیرہ ہے، لِو ان ریلیشن تو ایسے ہے کہ شدید چلچلاتی دھوپ میں بغیر چھتری کے میلوں پیدل سفر پر نکل پڑیں۔
جج فیصلے میں اصلاح کا مشورہ کیوں دے؟اس حوالے سے مختلف آرا اور دلائل ہوسکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اعلیٰ عدالتیں بہت سے کیسز میں فیصلہ سنانے کے بعد فیصلے کے تناظر کی وضاحت میں ایسے کسی سماجی بگاڑ کی نشاندہی کر دیتی ہیں۔ عدالتی اصطلاح میں فیصلے سے ہٹ کر دئیے گئے تبصرے(Obiter Dicta) جائز ہیں، اگر اس سے فیصلہ متاثر نہ ہو۔ خاص طور پر جب وہ معاشرتی امن یا اخلاقی انحطاط کے خلاف انتباہ ہو۔
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ موب لنچنگ کیس میں عدالت نے مذہبی جذبات کو قانون سے بالاتر کرنے پر سخت تبصرہ کیا، مذہبی علماء اور سماجی قیادت کو ذمہ داری یاد دلائی۔ سوشل میڈیا پر فتوے بازی سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے مقدمہ میں عدالت نے حکم دیا کہ مذہبی اتھارٹی کو احترام ملے، اور کہا کہ ’آن لائن مذہبی تشدد سماجی انتشار کا باعث ہے‘ سپریم کورٹ سے بچوں کے ساتھ زیادتی کیس میں عدالت نے سزا کے ساتھ سماج اور والدین کو بیدار ہونے کا پیغام دیا۔
اسی تناظر میں اگر نورمقدم کیس میں لِو ان ریلیشن شپ (شادی کے بغیر اکھٹا رہنے )پر تنقید کی گئی، نوجوان نسل کو اس سے خبردار کیا گیا اور سوشل ریفارمرز کو اس پر بحث مباحثہ کرنے کا مشورہ دیا گیا تو کیا غلط کیا گیا؟ کیا لِو ان ریلیشن شپ غلط نہیں؟ کیا پاکستانی قانون کے مطابق یہ جرم نہیں؟ کیا اسلامی شریعت کے مطابق یہ گناہ اور خداکے احکامات کے خلاف کھلی جنگ نہیں؟ کیا اس کیس میں یہ محض الزام کے بجائے ایک امر واقعہ نہیں؟
اگر یہ سب کچھ ہے تو پھر اس اخلاقی (اور قانونی )برائی کا چند سطروں میں ذکر کرنے پر ایسی ناخوشی، برہمی کاہے کی؟ کیا اس لیے کہ اس سے لبرل ویلیوز متاثر ہوتی ہیں؟ کیا اس لیے کہ اس سے فیمنسٹوں کی عظیم الشان انا پر ہلکی سی ٹھیس پڑی؟ کیا اس لیے کہ جج صاحب نے اسلامی اخلاقیات کا ذکر کیا؟
آخری نتیجہہمارے نزدیک جسٹس باقر نجفی نے قاتل پر رحم نہیں کیا، مقتولہ پر الزام نہیں رکھا۔ فیصلہ قانون کے مطابق دیا اور نوٹ کا آخری پیراگراف پاکستانی سماج کے لیے تحریر کیا۔ جرم پر قانون کی گرفت اور اسی جرم کے پسِ منظر پر سماج کے لیے تنبیہ۔ یہی عدالتی بصیرت ہے، یہی درست اعتدال ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
آٹھویں بار شرافت سے اڈیالہ آرہا ہوں، عمران خان سے ملنے کیوں نہیں دے رہے؟ سہیل آفریدی برہم
راولپنڈی:وزیراعلی کے پی بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملنے اڈیالہ روڈ پہنچے جہاں پولیس کی بھاری نفری نے انہیں فیکٹری ناکے پر روک لیا، وزیراعلیٰ نے پولیس سے کہا کہ یہ نفرتیں اور تلخیاں پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں، آٹھویں بار شرافت سے آرہا ہوں۔
وزیراعلی کے پی سہیل آفریدی نے فیکٹری ناکے پر پولیس افسران سے پوچھا کہ گزشتہ بار بھی مجھے روکا گیا اس دفعہ بھی روکا جا رہا ہے، میں نے کہا تھا مجھے روکیں تو تحریری طور پر بتائیں کہ عدالتی احکامات کیوں نہیں مان رہے؟ مجھے روکے جانے پر آپ نے پہلی کوئی تحریری وجہ نہیں بتائی آج تو بتائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر زبردستی حالات کو خراب کیا جا رہا ہے، کیوں بار بار عدالتی احکامات نہیں مانے جا رہے، ایک صوبے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، اڑھائی کروڑ عوام کا نمائندہ اگر یہاں آئے اور اسے روک دیا جائے یہ اچھی بات نہیں ہے، کل دوسرے صوبے میں کسی اور کے ساتھ ہو گا تو وہ آپ کو اچھا لگے گا؟
وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ تو آپ لوگ نفرتیں اور تلخیاں بڑھا رہے ہیں، یہ نفرتیں اور تلخیاں پاکستان کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہیں، آٹھویں مرتبہ شرافت سے آرہا ہوں، آپ سے بات کرتا اور آرام سے بیٹھ جاتا ہوں، آپ لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیئے، بار بار پشاور سے اڈیالہ آنا اور جانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے گورکھپور ناکے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے تمام قانونی اور جمہوری راستے اپنائے ہیں، میں دھرنے میں آنا چاہتا تھا مگر بانی کی بہنوں نے منع کردیا، آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی اختیار ہے؟ بانی کی ہدایت پر حکومت سے مذاکرات ہوئے لیکن ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
وزیراعلی نے کہا کہ آٹھ فروری کو جو ہوا وہی 23 نومبر کو بھی ہوا، یہ سمجھتے ہیں عوام کا جمہوریت پر سے بھروسہ آٹھ جائے، حالیہ ضمنی انتخاب میں 95 فیصد لوگ ووٹ دینے نہیں نکلے، پنجاب کے عوام نے ووٹ نہ دے کر بانی سے اظہار یکجہتی کیا ہے، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پر ہمارے خدشات بڑھ رہے ہیں، ہمارے پاس آخری راستہ بھی اس پر غور کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کسی سے بات کرنے کے حوالے کچھ نہیں کہا کیونکہ ان کے پاس مینڈیٹ ہی نہیں، آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کے خلاف چارج شیٹ پیش کی ہے، صحافیوں کو چاہیے کہ 5 ہزار 3 سو ارب کی کرپشن پر بات کریں یہ پیسہ عام آدمی کے ٹیکس کا پیسہ ہے، انہوں نے پانچ ہزار تین سو ارب روپے کھائے اور ڈکار بھی نہیں لی۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے نوجوان پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں، سوال ان سے بھی ہوگا جنہوں نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا، این ایف سی میں اپنے صوبے کا مقدمہ لڑوں گا اور این ایف سی کے اجلاس میں شرکت بھی کروں گا، حکومت نے چار مرتبہ این ایف سی کا اجلاس ملتوی کیا ہے۔