دنیا کے نقشے پر اگر کوئی ایسی لکیر کھینچی جائے جو امارت اور غربت کو ایک ساتھ دکھا سکے تو شاید وہ لکیر اتنی ہی گہری ہوگی، جتنی صدیوں سے محکوم انسانوں کے دلوں پرکھنچی ہوئی ہے۔ بیسویں صدی میں ہم نے یہ خواب دیکھا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی انسان کی مشقت کم کرے گی۔ جب عالمی منڈیاں وسعت اختیارکریں گی، جب صنعتیں محنت کشوں کے خون اور زندگی کو نچوڑنے کے بجائے انصاف کے اصولوں پر چلیں گی تو شاید انسان کے درمیان موجود طبقاتی فاصلہ کم ہونے لگے گا مگر ہوا کیا؟
اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی یہ خواب ریزہ ریزہ ہوگیا۔ اس دنیا میں جہاں خلائی جہاز مریخ پر اترنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، وہیں زمین پر انسان کے لیے اپنے گھرکا چولہا جلانا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک طرف چند سو افراد ہیں جن کی دولت پوری دنیا کے غریبوں کی مجموعی آمدن سے بھی زیادہ ہے اور دوسری طرف وہ کروڑوں انسان ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے دنیا کو دو طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک طبقہ وہ جو طاقت کے اور دولت کے بل بوتے پہ کچھ بھی خرید سکتا ہے اور دوسرا وہ جو اگلے وقت کیا کھائے گا، اس فکر میں گرفتار ہے۔
سرمایہ داری نے شاید خود کو کبھی اتنا بے نقاب نہیں کیا، جتنا آج ہے۔ امیر ممالک میں کارپوریشنوں کا منافع بڑھتا جا رہا ہے، جب کہ مزدوروں کی اجرتیں جمود کا شکار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ جیسے جیسے اشیاء کی قیمتیں بڑھتی ہیں، عام آدمی کا بجٹ سکڑتا جاتا ہے۔ یہ صرف معاشی مسئلہ نہیں، یہ سیاسی بھی ہے اور سماجی بھی۔
آج کے سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ غریب کی محنت سے دولت تو پیدا ہوتی ہے لیکن وہ دولت سیدھی طاقتوروں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ یہ وہی منطق ہے جس نے صدیوں پہلے غلامی کو جنم دیا تھا۔ آج غلامی کی شکل بدل گئی ہے مگر روح وہی ہے، محنت کش زندہ رہنے کے لیے کام کرتا ہے اور حکمران طبقہ امارت بڑھانے کے لیے۔
عالمی سرمایہ داری نے ایک طرف دولت کے پہاڑ کھڑے کیے ہیں اور دوسری طرف انسانیت بھوک سے نڈھال ہے۔ ایسے میں غربت محض کمیِ وسائل کا نام نہیں بلکہ طاقت کی تقسیم کا سوال ہے۔امریکا، یورپ چین سب نے اپنے اپنے سرمائے کے جھنڈے دنیا کے ہر خطے میں گاڑ دیے ہیں۔ بے شمار ایسی کمپنیاں ہیں جن کے منافع کئی ملکوں کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہیں۔ ان کارپوریشنوں کی قوت نے ریاستوں کو یرغمال بنا دیا ہے۔ آج قانون سازی عوام کی ضرورتوں کے تحت نہیں بلکہ سرمایہ کے مفاد کے تابع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور یونینوں کو کمزور کیا گیا اجرتوں کو منجمد رکھا گیا اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ورکنگ کلاس کی قوت روز بروز گھٹتی جا رہی ہے۔
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افریقی ممالک سبھی میں صورت حال یکساں ہے۔ یہاں کی حکومتیں آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ دار اداروں کے سامنے اس طرح سرنگوں رہتی ہیں۔ آج ترقی پذیر ممالک کی معاشی پالیسیاں مقامی عوام کے لیے نہیں بلکہ قرض دینے والوں کی خواہشات کے مطابق بنتی ہیں۔مہنگائی وہ دیمک ہے جو عوام کے جسم و روح کو چاٹ رہی ہے۔ چاروں طرف بڑھتی ہوئی قیمتیں گرنے ہوئے معیارِ زندگی اور تنخواہوں کا وہ جمود جس نے عام گھرانوں کا سانس روک دیا ہے، یہ سب ایک عالمی بحران کی علامات ہیں۔ پاکستان میں متوسط طبقہ سکڑ کر نچلے طبقے میں شامل ہو رہا ہے۔ تنخواہیں جوں کی توں مگر کھانے سے لے کر تعلیم تک ہر خرچ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ ایک پورا طبقہ بدلتے ہوئے نظام کے نیچے پس رہا ہے۔
مہنگائی صرف اعداد و شمار نہیں، یہ ایک ماں کا خالی برتن ہے، ایک باپ کا شرمندہ چہرہ ہے، ایک بچے کی ادھوری خواہش ہے۔ یہ وہ اذیت ہے جسے کسی رپورٹ میں ناپا نہیں جا سکتا۔
آج جب دنیا مصنوعی ذہانت اور خود کار مشینوں کی طرف بڑھ رہی ہے محنت کش ورکرکو مزدور نہیں بلکہ اضافی انسان سمجھا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے خودکار ٹیکنالوجی کو اس طرح اپنایا ہے کہ منافع دوگنا ہو جائے۔
ریاستیں نوجوانوں سے کہتی ہیں۔
’’ زیادہ پڑھو، زیادہ محنت کرو، زیادہ مقابلہ کرو‘‘
مگر یہ نہیں بتاتیں کہ نوکریاں کم ہو رہی ہیں، تنخواہیں گھٹ رہی ہیں اور مستقبل اب محنت سے نہیں بلکہ تعلقات اور سرمایہ سے بنتا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب تعلیم یافتہ نوجوان بھی خود کو بے اختیار محسوس کرتا ہے۔ یہ احساسِ محرومی کسی ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔جو نظام بار بار غریب کو مجرم بنا دے اور امیر کو معصوم وہ نظام انسانیت کا نہیں، طاقت کا نظام ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں آج بھی یہی ہوتا ہے۔ اگر بجٹ خسارہ ہو تو بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے۔اگر قرض بڑھ جائے تو ٹیکس غریب سے لیا جاتا ہے۔اگر غلط فیصلہ ہو تو سزا مزدور بھگتتا ہے۔طاقتور طبقہ ہر بحران کو اپنے لیے منافع میں بدل لیتا ہے اور غریب ہر بحران میں مزید غریب ہوتا جاتا ہے۔یہ دنیا کا وہ اصول ہے جو بدلنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ طاقت رکھنے والوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ کیا یہ دنیا ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟تاریخ کا پہیہ کبھی ایک سمت نہیں گھومتا۔جس طرح ظلم کی رات بڑی لمبی ہوتی ہے، ویسے ہی ایک دن تبدیلی ضرور آتی ہے۔ یہ دنیا تب ہی بدلتی ہے جب انسانوں کی اجتماعی تکلیف ایک طوفان میں بدل جائے۔
آج جب عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑ بڑھ رہی ہے، وہیں دنیا کے کئی حصوں میں نئی مزاحمت بھی جنم لے رہی ہے۔ ورکر یونینز دوبارہ مضبوط ہو رہی ہیں۔ طلبہ تحریکیں نظام کے خلاف سوال اٹھا رہی ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے دور میں بھی انسان اپنی آواز تلاش کر رہا ہے۔ یہ سفر مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
دنیا ایک بار پھر ایک نئے سوال کے دہانے پر کھڑی ہے۔ کیا انسان کی قدر زیادہ ہے یا سرمایہ کی؟ کیا دنیا طاقت کے بل پر چلتی رہے گی یا انصاف کے بل پر؟جب دنیا کے امیر ترین لوگ چاند پر بستیاں بنانے کی بات کررہے ہیں۔ اسی وقت زمین پر رہنے والے کروڑوں انسان غربت سے لڑ رہے ہیں۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ دولت کا پہاڑ آسمان چھو لے اور انسان کا وقار زمین میں دفن ہو جائے؟
یہ سوال ہمیں جھنجھوڑتا ہے اور شاید اسی سے وہ صبح جنم لے جو خواب دیکھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہے۔ ہمیں اس نظام کو بدلنا ہے، اس تقسیم کو چیلنج کرنا ہے اس دنیا کو انسان کے شایانِ شان بنانا ہے کیونکہ اگر دولت چند ہاتھوں میں قید رہے گی تو انسانیت خطرے میں رہے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ جاتا ہے دنیا کے رہی ہیں ہے اور رہا ہے رہی ہے کے لیے رہے گی
پڑھیں:
انسانی روحوں کا ڈریم ٹائم تصور
انسان اپنے آغاز سے ہی اپنے وجود کے بھید کھولنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ زندگی کے سوالات تو کبھی نہ کبھی سلجھ ہی جاتے ہیں، مگر موت آج بھی وہ سب سے گہری پہیلی ہے جس نے انسان کو چونکا بھی رکھا ہے اور متجسس بھی۔ شاید اسی لیے ہر مذہب، ہر تہذیب اور ہر قبیلے نے اپنی اپنی شناخت اور تجربے کے مطابق اس سوال کا جواب تراشا کہ انسان مرنے کے بعد کہاں جاتا ہے؟
حیرت یہ ہے کہ یہ جوابات مختلف ہونے کے باوجود ایک لطیف سی ہم آہنگی رکھتے ہیں کہ جیسے سچائی کے کئی چراغ مختلف مکانوں میں روشن ہوں مگر اُن کی لو ایک ہی آسمانی ہوا سے جل رہی ہو۔
اسلام میں کہا جاتا ہے کہ جب انسان کا دنیاوی سفر تمام ہوتا ہے تو روح عالمِ برزخ میں داخل ہوجاتی ہے۔ یعنی 2 جہانوں کے بیچ ایک خاموش مقام، جہاں روح اپنے اعمال کے ساتھ رہتی ہے، جیسے زندگی کی پوری کتاب کھلی ہو اور روح اس کے اوراق پلٹتی رہے۔
یہودی اور مسیحی روایت میں بھی موت کے بعد ایسے ہی ایک عارضی قیام کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ مسیحیت اسے ’پرگیٹری‘ کہتی ہے اور یہودیت میں اسے ’ہائیڈیز‘ یا ’شیول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یعنی یک ایسا مقام جہاں روح آخری مرحلے (قیامت) کا انتظار کرتی ہے۔
روح کے بعد کے سفر کا جو تصور آسٹریلیا کی عظیم اور قدیم ایب اوریجنی تہذیب میں ملتا ہے، وہ بے حد شاعرانہ، نرم اور حیرت انگیز ہے۔ ایب اوریجنیز دنیا کی سب سے پرانی زندہ ثقافتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی داستانیں، رسمیں اور عقائد کے سلسلے محض کہانیاں نہیں بلکہ انسان، فطرت اور کائنات کے درمیان ایک گہرے روحانی رشتے کا عہد نامہ ہیں۔
اُن کے کائناتی نظریات کا مرکز ڈریم ٹائم ہے، یعنی وہ اوّلین وقت جب دنیا بنی، جب پہاڑوں نے شکل اختیار کی، دریا، سمندر اور ندیاں بہہ نکلیں اور انسان نے پہلی مرتبہ زندگی کا لمس محسوس کیا۔
ڈریم ٹائم کی کہانیوں میں موت بھی زندگی کی طرح ایک سفر ہے جو ختم نہیں ہوتا، صرف روپ بدلتا ہے۔ ان کی روایت کہتی ہے کہ جب انسان اس دھرتی سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی روح جسمانی قید سے آزاد ہو کر آسمان کی وسعتوں میں داخل ہوجاتی ہے، اور پھر ایک چمکتے ہوئے ستارے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ان کے نزدیک آسمان پر جھلملاتے بے شمار ستارے دراصل وہی ارواح ہیں جو کبھی اسی زمین پر چلتی تھیں، گاتی تھیں، ہنستی تھیں، بچوں کو گود میں اٹھاتی تھیں اور شکار کے پیچھے بھاگتی تھیں۔ اب وہی ارواح اپنی نسلوں کو آسمان کی بلندیوں سے دیکھتی ہیں۔ یوں آسمان کا ہر ستارہ ایک کہانی ہے۔ ایک انسان، ایک خاندان، ایک سفر کی بازگشت۔
کئی ایب اویریجنیز قبائل جیسے Yolngu، Arrernte اور Noongar مانتے ہیں کہ زندگی ایک دائروی چکر ہے۔ روح آسمان سے اتر کر ماں کی کوکھ میں داخل ہوتی ہے، اور تکمیل کے مراحل طے کرکے دنیا میں قدم رکھتی ہے۔ پھر اپنا سفر مکمل کرکے دوبارہ اپنی آسمانی جائے پیدائش کی طرف لوٹ جاتی ہے۔
جب کسی کے مرنے پر آسٹریلیا کے آسمان میں کوئی تارہ ٹوٹتا ہے یا کبھی کوئی چمکتی لکیر آسمان پر دوڑتی دکھائی دیتی ہے، تو ایب اوریجنیز اسے ایک روح کا آسمان کی طرف اوپر اٹھنے کا سفر سمجھتے ہیں، جو اپنے خاندان (گلیکسی) میں پہنچ کر ایک نیا ستارہ بن جاتی ہے۔
یوں زمین اور آسمان کے درمیان رشتہ منقطع نہیں ہوتا۔ زندگی بس اپنے دائرے میں چلتی رہتی ہے۔ گویا ایب اوریجنی عقیدے کے مطابق زندگی اور موت الگ حقیقتیں نہیں بلکہ ایک ہی داستان کے 2 باہم جڑے ہوئے ابواب ہیں۔
اس فلسفے میں ایک نرم سی شاعری بکھری ہوئی ہے۔ ایک ایسا رشتہ جو ہر ستارے کو انسان کے ہر دکھ، ہر امید اور ہر محبت سے جوڑ دیتا ہے۔ جب کوئی بچھڑ جاتا ہے تو ایب اوریجنی باپ اپنے بچے کو آسمان کی طرف اشارہ کرکے بتاتا ہے: ’وہ دیکھو! وہ چمکتا ستارہ ۔۔۔ تمہارے دادا کی روح ہے۔ وہ تمہیں اوپر سے دیکھ رہا ہے، تمہاری حفاظت کر رہا ہے اور اندھیری رات میں تمہیں راستہ دکھا رہا ہے۔‘
یوں آسمان کا ہر ستارہ ایک حوالہ بن جاتا ہے، یاد کا حوالہ، محبت کا حوالہ، حفاظت کا حوالہ، اور اس رشتے کا حوالہ جو موت سے بھی نہیں ٹوٹتا۔ انسان جسمانی طور پر مر جاتا ہے، مگر اس کی روشنی باقی رہتی ہے۔ کہیں ستاروں کی صورت، کہیں یادوں کی صورت، کہیں خدا کے قرب میں۔ موت کے بعد ستارہ بن جانے کا اپنا ہی ایک حسن ہے۔
آئیے ہم بھی زندگی میں ایسے اعمال کریں کہ جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو شاید آسمان پر ستارہ نہ بن سکیں، مگر زمین پر کسی کے دل کی گلیکسی میں یاد کی ایک نرم روشنی ضرور چھوڑ جائیں، اور اگر کائنات کا کوئی روشن تارہ ہمارے حصے میں نہ آیا، تو کم از کم محبت اور نیک نیتی کا استعارہ بن کر لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں۔ یوں ہماری روشنی کہیں نہ کہیں، ہمیشہ کسی نہ کسی کے لیے راستہ دکھاتی رہے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔
انسانی روح ایب اوریجنیز ڈریم ٹائم سڈنی عالمِ برزخ عباس سیال یہودی اور مسیحی روایت