Express News:
2025-10-14@00:07:26 GMT

پاک افغان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی

اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT

ایک عمومی منطق یہ تھی کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطہ میں دہشت گردی سمیت مجموعی صورتحال سے نمٹنے میں مدد دے سکے گی۔ پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی داخلی جنگ لڑرہا ہے اس کا بھی ایک بڑا براہ راست تعلق افغانستان کی داخلی صورتحال سے تھا۔لیکن بدقسمتی سے افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاک افغان تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے بجائے نہ صرف بگاڑ پیدا ہوا بلکہ بداعتمادی کا ماحول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اسی تناظر میں حالیہ پاک افغان محاذ پر جو سیاسی اور جنگی کشیدگی بڑھی ہے اس نے تعلقات کو اور زیادہ خرابی کی طرف دھکیلا ہے۔پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر موجود ان سرحدی علاقوں میں داعش اور خوارج کے ٹھکانوں پر حملے جب کہ افغان فورسز نے پاک افغان بارڈر پر انگور اڈا،باجوڑ ،کرم ،دیر ،چترال سمیت دیگر علاقوں میں فائرنگ کرکے ماحول میں اور زیادہ جنگی جنون پیدا کردیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ افغان فورسز کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کا مقصد خوارج کی ٹولیوں کو بارڈر پار کروانا بھی تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان یہ جنگی ماحول ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب افغان وزیر خارجہ دہلی کے دورے پر تھے اور پہلے ہی پاکستان کی مخالفت میں بھارت افغان گٹھ جوڑ کی باتیں ہو رہی تھیں ۔بھارت پر یہ الزام ہے کہ وہ افغانستان اور وہاں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ایک بڑی پراکسی جنگ کے طورپر بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

اسی طرح بھارت اور افغان وزرائے خارجہ میں جو اہم ملاقات ہوئی اور اس کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس پر بھی پاکستان کے سخت تحفظات ہیں خاص طور پر دونوں ممالک میں یہ اتفاق کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے یقیناً یہ پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔پاکستان پہلے ہی علاقائی اور عالمی سیاست میں اس نقطہ پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ فتنہ خوارج اور فتنہ الہندوستان افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی پر مبنی کارروائیاں کررہے ہیں اور اس پر افغان حکومت کا ردعمل وہ نہیں جو پاکستان چاہتا ہے۔

بنیادی نقطہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کا یہ ہی ہے کہ افغان سرزمین کو مسلسل پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی استعمال کررہی ہے۔حالانکہ دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت نے اسی نقطہ پر پاکستان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ مستقبل میں نہ صرف افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی بلکہ ٹی ٹی پی کے خلاف مشترکہ کارروائی ہوگی ،لیکن افغان حکومت اپنے وعدے کی پاسداری نہیںکرسکی ۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے بقول پاکستان اپنے داخلی معاملات میں دہشت گردی کا علاج خود تلاش کرے اور ان کے بقول یہ کہنا غلط ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور اس کے ٹھکانے موجود ہیں۔انھوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف جو سیز فائر کیا ہے اس کی وجہ سعودی عرب اور قطر کی درخواست تھی کہ حملے بند کیے جائیں ۔

اہم بات یہ ہے کہ افغان وزیر خارجہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میںموجودگی کا انکار کررہے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں نہ صرف ٹی ٹی پی ملوث ہے بلکہ ان کے ٹھکانے بھی اور ان کو سہولت کاری بھی بھارت اور افغان حکومت کی جانب سے مل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغان طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کی بنیاد پر پاکستان سے براہ راست مذاکرات سے کیونکر انکار کیا اور کیوں وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف عملا استعمال ہورہی ہے۔

ایسا نہیں کہ پاکستان نے افغان حکومت سے مذاکرات یا سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر ان مسائل کو اجاگر نہیں کیا مگر جب افغان حکومت پاکستان کے تحفظات پر حقایق کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گی تو تعلقات میں بہتری کیسے پیدا ہوگی ۔

کیا سبب ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی بڑا ایکشن لینے کے لیے تیار نہیں اور جو شواہد پاکستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف افغان حکومت کو پیش کیے ان کو بھی کسی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ حتی کہ جو بھارت اور افعانستان کے درمیان مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اس میںبھی ان نکات کو فوقیت دی گئی ہے جن میں پاکستان مخالفت شامل ہے ۔ایسے لگتا ہے افغان وزیر خارجہ کا دورہ دہلی اور پاکستان پر افغان فورسز کا حملہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک مجرمانہ اشارہ ہے جو پاکستان کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ افغانستان کہاں کھڑا ہے۔بھارت اور افغانستان کا پاکستان کی مخالفت میں گٹھ جوڑ بہت سے منفی عزائم کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں افغانستان کا طرز عمل کیا ہوگا۔

پاکستان نے افغانستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان حکومت نے بھارت کے ساتھ مل کر خطہ سمیت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے کو جاری رکھا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا۔پچھلے دنوں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ پس پردہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سے امور پر اتفاق ہوا ہے اور معاملات کو بات چیت کی مدد سے حل کرنے کا اعادہ بھی کیا گیا ۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ایک سوچ یہ بھی تھی کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے اور بات چیت کا راستہ کھولنے کے لیے چین نے اہم کردار ادا کیا تھا مگر ایسے لگتا ہے کہ معاملات مذاکرات سے آگے بڑھ گئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ افغان حکومت کا بھارت پر بڑھتا ہوا انحصار ہے اور وہ بھارت کی طرف اپنا جھکاؤ رکھتا ہے اور خود بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ وہ افغانستان کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے تاکہ وہ پاکستان پر نہ صرف اپنا دباؤ بڑھا سکے بلکہ افغانستان کو بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے ۔یہ بات دنیا کو بھی اور دیگر علاقائی ممالک کو بھی سمجھنی ہوگی کہ پاکستان کی افغانستان میں کارروائیاں اپنی ریاستی خود مختاری اور بقا کے زمرے میں آتی ہیں ۔ اگر افغان حکومت پاکستان کے تحفظات پر دھیان دیتی اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو طاقت کے زور سے روکتی تو یقینی طور پر پاکستان کا ردعمل بھی مثبت ہوتا ۔کیونکہ افغانستان کی داخلی صورتحال اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کا براہ راست نشانہ پاکستان اور اس کی داخلی سیاست ہے تو اس پر پاکستان کا ردعمل بھی فطری ہے۔کیونکہ پاکستان کے ادارے اور عام شہری ٹی ٹی پی کے نشانے پر ہیں جو پاکستان کی داخلی سیکیورٹی سے جڑے مسائل میں سنگین نوعیت کے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

پاکستان کے پاس دو ہی راستے بچے تھے کہ وہ یا تو اس ساری صورتحال پر جو کچھ افغان حکومت اور ٹی ٹی پی کررہی ہے خاموش رہتا یا پھر بھرپور جواب دے کر اپنی داخلی خود مختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیںکرتا۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ پاکستان اور افعانستان کے درمیان جو نئی کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ آج کی بات نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری وعدوں کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔

افعان حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں نہ صرف افغانستان بلکہ خود طالبان کا بھی بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا اور جو کچھ پاکستان نے کیا اس کی تاریخ میں مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے حالات کا بگاڑ یا جنگ دونوں ممالک کے لیے مسائل کا حل نہیں اور اس کا حل جہاںبات چیت یا مذاکرات کے نتیجے سے ممکن ہوگا وہیں افغانستان کو پاکستان کے اہم تحفظات اور ٹی ٹی پی کے تناظر میںاپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افغان سرزمین پاکستان کی مخالفت اور عدم استحکام پیدا کرنے میںاستعمال ہورہی ہے۔

بھارت اور افغانستان کے تعلقات دونوں ملکوں کی بڑی ضرورت ہوسکتے ہیں لیکن افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان تعلقات کی بنیاد پاکستان دشمنی یا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے سے جڑی نہیں ہونی چاہیے۔کیونکہ یہ خدشات پاکستان کی سطح پر بڑھ رہے ہیں کہ دونوںممالک پاکستان مخالف ایجنڈا رکھتے ہیں جو ہماری داخلی سلامتی کے لیے اور زیادہ خطرات کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

اس سلسلے میں چین کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور جہاں آج پاکستان اور افغانستان بداعتمادی کے ساتھ کھڑے ہیں وہیں چین ان تعلقات کے بگاڑ کو بہتر بنانے میں بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔لیکن اس کے لیے پہلی شرط کے طورپر دونوں اطراف سے ایک سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہوگا،اشتعال انگیزیوں اور الزام تراشیوں یا طعنہ زنی سے بھی باہر نکلنا ہوگا اور جو بھی دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات ہیں ان کو مذاکرات کا حصہ بنا کر ہی امن کی طرف جایا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغان وزیر خارجہ بھارت اور افغان پاکستان کے خلاف افغانستان میں اور افغانستان کہ افغانستان افغانستان کو افغان سرزمین افغانستان کے دونوں ممالک پاکستان اور افغان حکومت اور ٹی ٹی پی ہے کہ افغان پاکستان کو ٹی ٹی پی کے تعلقات میں ٹی ٹی پی کی پاکستان کی پاکستان نے کہ پاکستان پر پاکستان پاک افغان ان تعلقات کے درمیان کی داخلی ہیں اور ہیں کہ کو بھی رہا ہے ہے اور کے لیے تھی کہ کہ پاک اور اس

پڑھیں:

دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں

پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی، پاک فوج نے فوری شدید رد عمل دیتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ 19 افغان پوسٹوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا، داعش اور خارجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی وسائل اور ڈرونز کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور ہر اشتعال انگیزی کا بھرپور اور مؤثر جواب دیا جائے گا۔

پاکستان کی جوابی کارروائی نے یہ واضح کردیا ہے کہ اب ’’ خاموش برداشت‘‘ کا وقت گزر چکا ہے۔ وہ وقت جب پاکستان صرف سفارتی زبان میں بات کرتا تھا اور افغان حکومت کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرتا تھا، اب قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔

دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی کارروائی، یہ واضح اشارہ ہے کہ اب پاکستان دشمن کو اس کی زبان میں جواب دے گا۔ جو دشمن ہماری شہ رگ پر ہاتھ ڈالے گا، اسے بازوؤں سے محروم ہونا پڑے گا۔ یہ صرف دفاع نہیں، بقا کی جنگ ہے۔

 یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ افغان فورسز جنھیں برسوں تک بین الاقوامی معاونت، تربیت اور وسائل فراہم کیے گئے، وہ نہ صرف سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں بلکہ خوارج اور دہشت گردوں کی ڈھال بنی ہوئی ہیں۔

پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں موجود متعدد چیک پوسٹیں نہ صرف ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو کور فراہم کر رہی ہیں بلکہ بعض مقامات پر وہ خود براہِ راست پاکستانی علاقوں میں حملوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔

ان چیک پوسٹوں کا خاتمہ خطے کے امن کے لیے ایک ناگزیر عمل ہے۔حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغان وزیر خارجہ اس وقت بھارت کے دورے پر تھے جب افغان سرحدی فورسز کی جانب سے یہ اشتعال انگیزی کی گئی، یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کے سیکیورٹی ادارے طویل عرصے سے اس امر کی نشاندہی کرتے آئے ہیں کہ افغانستان میں موجود بعض عناصر بھارت کے ایما پر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان جیسی اصطلاحات اسی پس منظر میں سامنے آئی ہیں۔

ان گروہوں کو افغان حدود میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں اور وہیں سے منصوبہ بندی کرکے پاکستانی علاقوں میں حملے کرتے ہیں۔ رواں برس مئی میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ’’آپریشن سندور‘‘ کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور امیر خان متقی کے درمیان پہلی بار براہ راست ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا، اس دوران بھارت نے طالبان کی جانب سے پہلگام حملے کی مذمت پر شکریہ ادا کیا اور افغان عوام سے اپنی ’تاریخی‘ دوستی کا اعادہ کیا۔

طالبان حکومت نے کابل میں بھارتی حکام سے ایک ملاقات کے دوران پہلگام میں ہونے والے حملے کی کھل کر مذمت کی تھی، جسے ماہرین بھارت اور طالبان کے درمیان بڑھتی ہم آہنگی کا اہم اشارہ قرار دے رہے ہیں۔

افغانستان اور بھارت کے درمیان قربت پاکستان کے لیے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہی ہے۔ پاکستان اسے صرف دو ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے اپنی سلامتی، جغرافیائی سیاست اور داخلی استحکام کے لیے ایک ممکنہ خطرہ تصور کرتا ہے۔ یعنی بھارت ایک طرف مشرقی سرحد پر موجود ہے اور اگر وہ مغربی سرحد (افغانستان) میں بھی اثر و رسوخ قائم کرے تو پاکستان کو دو طرفہ دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔

 بھارت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان مخالف عناصر کی پشت پناہی کرتا ہے، خاص طور پر بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں اور تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کو۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ RAW افغانستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے ایسے گروہوں کو مالی، فنی اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کرتا رہا ہے۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو پاکستان نے ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بھارت کا حاضر سروس نیوی افسر ہے اور بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اسی طرح، افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں کے بارے میں بھی پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ صرف سفارتی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ انٹیلیجنس سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، جن کا ہدف پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا تھا۔

سابق افغان حکومت، خاص طور پر اشرف غنی کے دور میں، بھارت سے قریبی تعلقات رکھتی تھی اور افغان انٹیلی جنس ادارہ NDS پر بھی بھارتی اثر و رسوخ کے ثبوت پیش کرتا رہا۔ اس صورت حال میں پاکستان کو یہ خدشہ رہا کہ افغانستان بھارت کے ساتھ مل کر اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔

کیونکہ پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات بھی کشیدہ رہے ہیں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے مسئلے پر، جس سے بھارت کو ایک بار پھر افغانستان میں محدود موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ بڑھائے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان افغانستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی قربت کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان نے بارہا افغانستان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر کے بارے میں معلومات فراہم کیں جو پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں، مگر بدقسمتی سے افغان حکومت کی جانب سے اس پر نہ توکوئی سنجیدہ اقدام اٹھایا گیا اور نہ ہی ایسے عناصر کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کی گئی۔

دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین پر پناہ دینا یا کم از کم ان کے خلاف خاموشی اختیار کرنا، پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک واضح خطرہ ہے جس پر اب مزید خاموشی ممکن نہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔

مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔

پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جب کہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصورکرتی ہیں۔ پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔

اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں، مگر افغانستان کی متعصبانہ اور نفرت پر مبنی سوچ نے ان تعلقات میں بد اعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔ 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔

تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔

یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انھی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔

تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان، پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔

تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پرکرپشن اور بدسلوکی کے الزامات،یہ تمام ایسے امور ہیں جن پر افغان فریق پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹرٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔

پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آیندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔

پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہارکیا ہے، مگر قومی سلامتی، ارضی سالمیت اور عوام کے تحفظ پرکوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔

وقت آگیا ہے کہ افغان قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ان عناصر کو لگام دے جو سرحد پارکشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ بصورت دیگر، پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور آیندہ بھی ایسا ہی مؤثر جواب دیا جائے گا جیسا کہ حالیہ کارروائی میں دیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تعلقات اور موجودہ صورتحال
  • امیر خان متقی کا دورہ بھارت، کیا افغان حکومت دہشتگردی کے لیے اب بھارت کی پراکسی کا کردار ادا کرےگی؟
  • دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں
  • وزیراعظم شہباز شریف اور نواز شریف کی ملاقات، پاک، افغان سرحد پر جاری کشیدگی پر گفتگو
  • افغان حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچےہیں: خواجہ آصف
  • وزیراعظم شہباز اور نواز شریف کی ملاقات، پاک افغان سرحد پر جاری کشیدگی پر گفتگو
  • پاک افغان سرحدی کشیدگی پر سعودی عرب اور قطر کی تشویش
  • بھارت کے بیانات اس بات کی شہادت ہے وہ دوبارہ کوئی ایڈونچر کرے گا: وزیردفاع
  • بھارت، افغانستان کے ذریعے پاکستان سے بدلے کی کوشش کررہا ہے، وزیرِ دفاع خواجہ آصف