راولپنڈی: افغانستان سے ہونے والے حملے کے دوران مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے پاک افغان سرحد پر شہید ہونے والے 12 جوانوں کی نمازِ جنازہ راولپنڈی میں ادا کردی گئی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق شہدا کی نماز جنازہ راولپنڈی کے چکلالہ گیریژن میں ادا کی گئی جس میں فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر، وفاقی وزراء، گورنر خیبرپختونخوا اور اعلیٰ عسکری و سول حکام نے شرکت کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان حکومت کی جانب سے کی گئی بزدلانہ اور بلاجواز جارحیت کے خلاف مادرِ وطن کا دفاع کرتے ہوئے 23 جوان شہید ہوئے تھے۔ 

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستانی عوام ان ہیروز کی لازوال قربانیوں کے مقروض ہیں جنہوں نے طالبان حکومت کی بزدلانہ اور غدارانہ جارحیت کے خلاف پاکستان کی علاقائی سالمیت کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کیں اور افغان سرزمین کے اندر سے سرگرم بھارتی سرپرستی میں دہشت گرد پراکسیز کا مقابلہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ "پاکستان کی مسلح افواج قوم کی مکمل حمایت سے پاکستان کے خلاف کسی بھی جارحیت اور سازش کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔"

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا دفاع کرتے کرتے ہوئے

پڑھیں:

دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں

پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی، پاک فوج نے فوری شدید رد عمل دیتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ 19 افغان پوسٹوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا، داعش اور خارجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی وسائل اور ڈرونز کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور ہر اشتعال انگیزی کا بھرپور اور مؤثر جواب دیا جائے گا۔

پاکستان کی جوابی کارروائی نے یہ واضح کردیا ہے کہ اب ’’ خاموش برداشت‘‘ کا وقت گزر چکا ہے۔ وہ وقت جب پاکستان صرف سفارتی زبان میں بات کرتا تھا اور افغان حکومت کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرتا تھا، اب قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔

دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی کارروائی، یہ واضح اشارہ ہے کہ اب پاکستان دشمن کو اس کی زبان میں جواب دے گا۔ جو دشمن ہماری شہ رگ پر ہاتھ ڈالے گا، اسے بازوؤں سے محروم ہونا پڑے گا۔ یہ صرف دفاع نہیں، بقا کی جنگ ہے۔

 یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ افغان فورسز جنھیں برسوں تک بین الاقوامی معاونت، تربیت اور وسائل فراہم کیے گئے، وہ نہ صرف سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں بلکہ خوارج اور دہشت گردوں کی ڈھال بنی ہوئی ہیں۔

پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں موجود متعدد چیک پوسٹیں نہ صرف ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو کور فراہم کر رہی ہیں بلکہ بعض مقامات پر وہ خود براہِ راست پاکستانی علاقوں میں حملوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔

ان چیک پوسٹوں کا خاتمہ خطے کے امن کے لیے ایک ناگزیر عمل ہے۔حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغان وزیر خارجہ اس وقت بھارت کے دورے پر تھے جب افغان سرحدی فورسز کی جانب سے یہ اشتعال انگیزی کی گئی، یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کے سیکیورٹی ادارے طویل عرصے سے اس امر کی نشاندہی کرتے آئے ہیں کہ افغانستان میں موجود بعض عناصر بھارت کے ایما پر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان جیسی اصطلاحات اسی پس منظر میں سامنے آئی ہیں۔

ان گروہوں کو افغان حدود میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں اور وہیں سے منصوبہ بندی کرکے پاکستانی علاقوں میں حملے کرتے ہیں۔ رواں برس مئی میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ’’آپریشن سندور‘‘ کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور امیر خان متقی کے درمیان پہلی بار براہ راست ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا، اس دوران بھارت نے طالبان کی جانب سے پہلگام حملے کی مذمت پر شکریہ ادا کیا اور افغان عوام سے اپنی ’تاریخی‘ دوستی کا اعادہ کیا۔

طالبان حکومت نے کابل میں بھارتی حکام سے ایک ملاقات کے دوران پہلگام میں ہونے والے حملے کی کھل کر مذمت کی تھی، جسے ماہرین بھارت اور طالبان کے درمیان بڑھتی ہم آہنگی کا اہم اشارہ قرار دے رہے ہیں۔

افغانستان اور بھارت کے درمیان قربت پاکستان کے لیے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہی ہے۔ پاکستان اسے صرف دو ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے اپنی سلامتی، جغرافیائی سیاست اور داخلی استحکام کے لیے ایک ممکنہ خطرہ تصور کرتا ہے۔ یعنی بھارت ایک طرف مشرقی سرحد پر موجود ہے اور اگر وہ مغربی سرحد (افغانستان) میں بھی اثر و رسوخ قائم کرے تو پاکستان کو دو طرفہ دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔

 بھارت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان مخالف عناصر کی پشت پناہی کرتا ہے، خاص طور پر بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں اور تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کو۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ RAW افغانستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے ایسے گروہوں کو مالی، فنی اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کرتا رہا ہے۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو پاکستان نے ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بھارت کا حاضر سروس نیوی افسر ہے اور بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اسی طرح، افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں کے بارے میں بھی پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ صرف سفارتی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ انٹیلیجنس سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، جن کا ہدف پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا تھا۔

سابق افغان حکومت، خاص طور پر اشرف غنی کے دور میں، بھارت سے قریبی تعلقات رکھتی تھی اور افغان انٹیلی جنس ادارہ NDS پر بھی بھارتی اثر و رسوخ کے ثبوت پیش کرتا رہا۔ اس صورت حال میں پاکستان کو یہ خدشہ رہا کہ افغانستان بھارت کے ساتھ مل کر اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔

کیونکہ پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات بھی کشیدہ رہے ہیں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے مسئلے پر، جس سے بھارت کو ایک بار پھر افغانستان میں محدود موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ بڑھائے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان افغانستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی قربت کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان نے بارہا افغانستان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر کے بارے میں معلومات فراہم کیں جو پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں، مگر بدقسمتی سے افغان حکومت کی جانب سے اس پر نہ توکوئی سنجیدہ اقدام اٹھایا گیا اور نہ ہی ایسے عناصر کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کی گئی۔

دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین پر پناہ دینا یا کم از کم ان کے خلاف خاموشی اختیار کرنا، پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک واضح خطرہ ہے جس پر اب مزید خاموشی ممکن نہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔

مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔

پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جب کہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصورکرتی ہیں۔ پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔

اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں، مگر افغانستان کی متعصبانہ اور نفرت پر مبنی سوچ نے ان تعلقات میں بد اعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔ 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔

تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔

یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انھی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔

تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان، پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔

تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پرکرپشن اور بدسلوکی کے الزامات،یہ تمام ایسے امور ہیں جن پر افغان فریق پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹرٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔

پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آیندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔

پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہارکیا ہے، مگر قومی سلامتی، ارضی سالمیت اور عوام کے تحفظ پرکوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔

وقت آگیا ہے کہ افغان قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ان عناصر کو لگام دے جو سرحد پارکشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ بصورت دیگر، پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور آیندہ بھی ایسا ہی مؤثر جواب دیا جائے گا جیسا کہ حالیہ کارروائی میں دیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • افغان جارحیت میں شہید 12 جوانوں کی چکلالہ چھاؤنی میں نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی
  • افغان جارحیت کیخلاف وطن کے دفاع میں جان قربان کرنیوالے شہدا کی نماز جنازہ ادا کردی گئی
  • ایف بی آر کا ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کے دوران شہید اہلکاروں کو خراج عقیدت
  • مسلح افواج دفاع وطن کے لیے پُرعزم ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف: شہید جوانوں کی نماز جنازہ ادا
  • افغان جارحیت کیخلاف وطن کا دفاع، 12 شہداء کی نماز جنازہ چکلالہ میں ادا
  • افغانستا ن کی بلا اشتعال انگیزی میں  شہیدہونیوالے12 جوانوں کی نمازِ جنازہ  
  • افغانستان کے حملے میں وطن کا دفاع کرتے شہید ہونیوالے 12جوانوں کی نماز جنازہ ادا،فیلڈ مارشل، وفاقی وزراکی شرکت
  • دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں
  • پولیس ٹریننگ اسکول پر حملے میں شہید 7 اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا