سرحد پار سے شرپسندی اور پاکستان کا دوٹوک جواب
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251014-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
افغان فورسز کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حالیہ بلااشتعال فائرنگ نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کو کب تک پاکستانی حدود میں شرپسندی کی اجازت دیتا رہے گا؟ گزشتہ ہفتے انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بارام چاہ جیسے حساس سرحدی علاقوں میں افغان فورسز نے بلااشتعال فائرنگ کی۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق، اس فائرنگ کا مقصد مسلح دہشت گردگروہوں کو پاکستانی سرحد کے اندر داخل کرانے کی کوشش تھی تاکہ ملک کے اندر دہشت گردی کی نئی لہر پیدا کی جا سکے۔ تاہم پاکستانی فورسز نے نہ صرف افغان چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا بلکہ افغانستان کے اندر موجود ٹی ٹی پی کے تربیتی ٹھکانوں پر بھی بھرپور کارروائی کی۔ یہ حملے محض جوابی کارروائی نہیں بلکہ ایک واضح پیغام تھے کہ پاکستان امن کا خواہاں ضرور ہے مگر اپنی سرزمین کے دفاع میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ فضائیہ اور توپخانے کے ذریعے کیے گئے ان آپریشنز کے نتیجے میں کئی افغان پوسٹیں تباہ ہوئیں، درجنوں جنگجو مارے گئے اور طالبان اپنی چوکیوں اور لاشوں کو چھوڑ کر پسپا ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق، افغان سرحدی علاقوں میں اب بھی کئی مقامات پر دہشت گردوں کی باقیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ پاکستانی علاقے مکمل طور پر پاک فوج کے کنٹرول میں ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ افغانستان کی طرف سے ایسی اشتعال انگیزی کی گئی ہو۔ ماضی میں بھی ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر انتہا پسند گروہوں کو افغان سرزمین سے مدد ملتی رہی ہے۔ کابل حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دوحا معاہدے کی روح کے مطابق اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ مگر بدقسمتی سے، طالبان حکومت نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ کئی مواقع پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی وہ طرزِ عمل ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات میں بداعتمادی کو گہرا کر رہا ہے۔
پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ آج جب پاکستان اندرونی طور پر استحکام کی راہ پر گامزن ہے، ایسے میں بیرونی سرحدوں سے کی جانے والی اشتعال انگیزی ایک سازش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سازش نہ صرف پاکستان کے امن کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے بلکہ پورے خطے کے استحکام کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی، اقتصادی امداد، تعلیمی مواقع، اور سفارتی تعاون یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان نے کبھی بھی افغانستان کو دشمن نہیں سمجھا۔ مگر افسوس کہ جواب میں اکثر دشمنی اور بے اعتمادی ہی ملی۔ حالیہ فائرنگ اور دہشت گردی کی پشت پناہی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ بین الاقوامی اصول بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر کوئی ملک بار بار دوسرے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرے تو دفاعی کارروائی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان نے جوابی اقدام میں نہ تو کسی شہری آبادی کو نشانہ بنایا اور نہ ہی جارحانہ عزائم دکھائے، بلکہ صرف ان ٹھکانوں کو ہدف بنایا جہاں سے دہشت گرد کارروائیاں کی جا رہی تھیں۔ یہ ایک پیشہ ورانہ اور منظم عسکری ردعمل تھا، جس نے دشمن کو واضح پیغام دے دیا کہ پاکستانی افواج کی صبر آزما پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
یہ حقیقت بھی قابل ِ غور ہے کہ سرحد پار موجود شرپسند گروہ صرف پاکستان کے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ گروہ افغانستان کے امن کے بھی دشمن ہیں۔ ان کی سرگرمیاں نہ صرف کابل حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں بلکہ افغان عوام کے لیے بھی تباہی کا باعث ہیں۔ اس لیے اگر افغان حکمران دانشمندی کا مظاہرہ کریں تو انہیں پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت ِ عملی اپنانی چاہیے۔ پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی ہمیشہ امن پر مبنی رہی ہے۔ تاہم، تاریخ یہ بھی گواہ ہے کہ جب کبھی کسی نے ہماری سرحدوں کو للکارا، پاک فوج نے ہمیشہ بھرپور اور مؤثر جواب دیا۔موجودہ صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری بھی اس امر کا نوٹس لے کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہ خطے کے امن کے لیے کس قدر خطرناک ہیں۔ پاکستان کی کارروائیاں دفاعی نوعیت کی ہیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق۔ ایسے وقت میں عالمی اداروں کو کابل حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ نہ بننے دے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان نے کے لیے
پڑھیں:
دہشتگردی کے مرکز افغانستان سے تاجکستان پر ڈرون حملہ، چینی شہریوں کا جانی نقصان
سٹی42: انٹرنیشنل دہشتگردی کے مرکز افغانستان سے تاجکستان کی سرحد پر ڈرون حملہ ہوا ہے جس میں کم از کم تین چینی شہریوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔
تاجکستان کےسرکاری حکام نے بتایا ہے کہ کل 26 نومبر کی رات افغانستان سے تاجکستان کی سرحد پر ڈرون حملہ کیا گیا، اس حملے میں 3 چینی شہری ہلاک ہوئے۔
تاجک میڈیا کے مطابق یہ واقعہ تاجکستان کے صوبہ ختلان کے ضلع شمس الدین شاہین اور افغانستان کے صوبہ بدخشاں کے ضلع شہرِ بزرگ کے درمیان سرحدی علاقے میں پیش آیا۔
کاغان کے بازار میں آگ بھڑک اٹھی،50 کمروں پر مشتمل ہوٹل جل کر راکھ
تاجکستان کی وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ افغانستان سے تاجکستان کے جنوب میں ایک چینی کمپنی کے کیمپ پر ڈرون سے پراسرار حملہ کیا گیا۔
تاجکستان کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ افغانستان سے ہونے والے اس حملے میں فوت ہونے والے چینی کمپنی کے ملازمین تھے جو یہاں پر تعمیراتی کام کے لئے موجود تھے۔
تاجکستان کی حکومت نے دہشتگردی کے س واقعہ کے بعد کہا ہے کہ تاجکستان تو سرحدی علاقوں میں امن، استحکام اور سکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہا ہے، لیکن افغانستان کے اندر موجود مجرمانہ (دہشتگرد) گروہوں کی تخریبی سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں۔
نیپال کرکٹ لیگ میں سٹہ، 9 بھارتی جواری گرفتار
تاجکستان نے دہشت گرد حملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغان طالبان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرحد پر امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
افغانستان کے اندر دہشتگردی کی جنتوں میں رہ کر ہمسایہ ممالک میں دہشتگردی کرنے والے فسادی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تاجکستان کی سرحد کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں بھی سرگرم ہیں۔
Waseem Azmet