چمن سرحد کی طویل بندش، افغانستان کو ادویات اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
پاک افغان کشیدگی کے باعث چمن اسپن بولدک سرحد کی طویل بندش نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی اربوں روپے کی روزانہ تجارت کو مکمل طور پر منجمد کر دیا ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں ہونے والی جھڑپ کے بعد سرحد کو مسلسل بند رکھا گیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف سینکڑوں ٹرک کئی ہفتوں سے بارڈر پر پھنسے ہوئے ہیں بلکہ پھل اور سبزیاں سڑ کر ضائع ہو چکی ہیں۔ اس صورتحال نے افغانستان کے اندر بنیادی اشیائے ضروریہ کی قلت سنگین حد تک بڑھ دیا ہے
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان بارڈر کی بندش: خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
چمن کے مقامی تاجر حاجی عثمان خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ بحران کے نتیجے میں بارڈر پر پڑے ہوئے سینکڑوں ٹرک تیزی سے خراب ہوتے سامان کے ساتھ مکمل طور پر بیکار ہو چکے ہیں۔
ان کے مطابق افغانستان کی مارکیٹ کا بڑا حصہ پاکستان سے آنے والی اشیا پر منحصر ہے، اور سرحد بند ہونے کے بعد سب سے زیادہ متاثر وہی عام لوگ ہو رہے ہیں جنہیں نہ خوراک میسر ہے اور نہ ہی بنیادی ادویات۔ افغانستان کا اپنا پیداواری انفراسٹرکچر اتنا مضبوط نہیں کہ وہ اچانک اس خلا کو پُر کر سکے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں میڈیسن، سبزیوں اور پھلوں کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
ایوانِ صنعت و تجارت کوئٹہ کے نائب صدر جی اختر نے بھی اس صورتحال کو سنگین ترین معاشی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اربوں روپے کی روزانہ تجارت سرحد بند ہونے کے بعد مکمل طور پر رُک گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانکس، ادویات، ٹشو پیپر، کپڑا، مصالحے، گندم، چاول اور دیگر درجنوں اشیائے ضروریہ کے بڑے بڑے ٹرک ہفتوں سے کھڑے ہیں۔
ان کے مطابق افغانستان کی مارکیٹ اس وقت پاکستانی مصنوعات کی شدید کمی کا سامنا کر رہی ہے، جس نے نہ صرف اشیا کی قلت پیدا کی ہے بلکہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چمن: پاک افغان سرحد پر مہاجرین کا انخلا جاری، تجارتی سرگرمیاں دوسرے روز بھی معطل
انہوں نے کہا کہ ادویات تو تقریباً ختم ہونے کے قریب ہیں اور افغانستان اب اپنا انحصار ایران، تاجکستان اور دیگر ممالک سے ہونے والی مہنگی درآمدات پر منتقل کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق سرحد کی بندش نے عام افغان شہریوں کی زندگی کو بھی بے حد متاثر کیا ہے، کیونکہ علاج کے لیے پاکستان کا رخ کرنے والے مریضوں کی آمد مکمل طور پر رک گئی ہے۔
افغانستان کے اندر پہلے ہی صحت کا بنیادی نظام کمزور ہے، اور کئی اضلاع میں معمولی علاج کے لیے بھی پاکستان پر انحصار کیا جاتا ہے۔ سرحد بند ہونے سے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا ہے جس کے نتیجے میں متعدد افراد علاج معالجے سے محروم ہو چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ بندش طویل عرصے تک جاری رہی تو پاکستان کی برآمدات کو مستقل نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ افغانستان میں پاکستانی مصنوعات کی جگہ ایرانی، وسطی ایشیائی اور دیگر ممالک کے سامان نے لینا شروع کر دی ہے۔
پاکستان کی افغان مارکیٹ میں دہائیوں پر محیط بنیاد کمزور پڑ سکتی ہے، جس کا اثر نہ صرف تاجروں بلکہ لاکھوں مزدوروں پر پڑے گا جو اپنی روزی روزگار کے لیے اسی تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
ادھر بارڈر کے دونوں جانب کھڑے ٹرک ڈرائیور بھی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ کئی ہفتوں سے وہ سرحد کے قریب نہ مناسب خوراک کے ساتھ موجود ہیں، نہ آرام کے لیے جگہ میسر ہے اور نہ ہی کوئی واضح اعلان سامنے آ رہا ہے کہ سرحد کب کھلے گی۔
چمن کی مقامی معیشت، جو بارڈر ٹریڈ کے بغیر تقریباً مفلوج ہو جاتی ہے، اس وقت شدید جمود کا شکار ہے۔ بازار سنسان ہونے لگے ہیں، مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں اور مقامی ٹرانسپورٹ کا نظام بھی تقریباً ٹھپ پڑ گیا ہے۔
چمن سرحد کی بندش نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاک افغان تجارت دونوں ملکوں کی معیشتوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کشیدگی کم نہ ہوئی تو خوراک اور ادویات کا بحران افغانستان میں انسانی المیہ بن سکتا ہے جبکہ پاکستان کی بارڈر بیسڈ تجارت کو پہنچنے والا نقصان طویل المدتی منفی اثرات چھوڑ جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ادویات کی قلت ایران پاک افغان سرحد پاکستان پھل چمن بارڈر سبزیاں وسطی ایشیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ادویات کی قلت ایران پاک افغان سرحد پاکستان پھل سبزیاں وسطی ایشیا پاک افغان سرحد کی یہ بھی کے لیے
پڑھیں:
افغانستان پر حملہ کیا توسب کو بتایاتھا، فیض حمید سے متعلق قیاس آرائیاں بند کی جائیں، پاک فوج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251126-01-18
راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے پاکستان کے افغانستان پر حملے کا افغان طالبان کا الزام مسترد کردیا اور کہا ہے کہ پاکستان حملہ کرتا ہے تو اعلانیہ کرتا ہے اور ہم سویلین پر حملہ نہیں کرتے۔یہ بات انہوںنے سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔افغانستان پر حملے سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیا کہ ہم کھلم کھلا اعلان کرتے ہیں جب حملہ کرتے ہیں، اکتوبر میں ہم نے افغانستان پر حملہ کیا اور سب کو بتایا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جب بھی حملہ کرتا ہے تو اعلانیہ کرتا ہے اور کبھی سویلین پر حملہ نہیں کرتا، ہم ریاست ہیں، ریاست کے طور پر ہی ردعمل دیتے ہیں، خون اور تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم پرحملے بھی ہوں اور ہم تجارت بھی کریں، ہم افغان عوام کے نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ فوج اور ایف سی بارڈر مینجمنٹ کررہی ہے، دوحا اور استنبول مذاکرات میں ہم نے سب کو کچھ سمجھایا ہے، وہ لوگ کبھی کہتے ہیں ٹی ٹی پی کے 6 ہزار دہشت گرد پاکستان میں داخل کردیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ لوگ اپنے بچوں کو غلط سبق سکھا رہے ہیں، وہ لوگ گریٹر پشتونستان کی بات کرتے ہیں، افغان حکومت میں شامل اعلی عہدیدار خود بیان دے رہے ہیں کہ ہم حملہ کریں گے، امریکی اسلحہ میانوالی میں دہشتگردی کے حملے میں بھی نکلا ہے، یہ میزائل اور اسلحہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد امریکی ہتھیار اور امریکی بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کرتے ہیں، یہ اسلحہ ان لوگو ں کا روزگار بنا ہوا ہے، یہ لوگ منشیات سے اسلحہ خریدتے ہیں، ہم ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اسلحہ افغان طالبان کے ہاتھ میں ہے، یہ اسلحہ ہم نے امریکی ہم منصوبوں کو بھی دکھایا ہے جو 7.2ارب ڈالر کا اسلحہ افغانستان چھوڑ گئے تھے، جو دہشتگردی ہورہی ہے اس میں 29مرتبہ امریکی اسلحہ نکلاہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ فوج اور پاکستان کی عوام نے جیتنی ہے، دہشتگردی کے خلاف جو بھی جنگ ہے پاکستان جیتے گا۔انہوں نے کہا کہ اگرآپ حکومت ہیں تو ایک ریاست کی طرح مظاہرہ کرنا چاہیے ، آپ کو غیر ریاست کے طور پر کام نہیں کرنا چاہیے، افغان حکام سے کہا ہے کہ آپ کب تک خود کو عبوری حکومت کہیں گے، افغان حکام کے ساتھ مذاکرات میں کہا تھا کہ افغانستان کی سرزمین حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی لیکن حقائق اسے بالکل مختلف ہیں، ان آپریشنز میں 607 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ پاکستانی عوام اور فوج دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں، دہشت گردوں کا آخری دم تک پیچھا کیا جائیگا، تاہم دہشت گردی کیخلاف مربوط جنگ کے لیے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ 4 نومبر کے بعد سے اب تک 206 دہشتگرد مارے گئے ہیں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں 4 ہزار 910 آپریشن کیے گئے جبکہ ملک میں خودکش حملے کرنے والے سب افغانی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے،فیض حمید کا کورٹ ماشل قانونی اور عدالتی عمل ہے، کورٹ مارشل کے معاملے پرقیاس آرائیاں نہ کی جائیں۔ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر اسمگلنگ اور سیاسی جرائم کا گٹھ جوڑ توڑنا ضروری ہے کیوں کہ سرحد پار سے دہشت گردی کی معاونت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ممالک سے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس ریاست کے خلاف بیانیہ بنارہے ہیں۔