‘کیا موجودہ بینچ متعصب ہے؟’ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیے: اہم آئینی مقدمہ: سپریم کورٹ میں 26ویں ترمیم کے قانونی جواز پر بحث شروع
سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری نے دلائل پیش کیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی جماعت کا یہ حق بنتا ہے کہ بینچ ہٹا کر دوسرا بینچ بنایا جائے؟ کیا ہم پابند ہیں کہ بینچ تبدیل کریں؟
انہوں نے مزید کہا کہ کیا جماعت چاہتی ہے کہ اسے مخصوص بینچ یا مخصوص ججز دیے جائیں؟ کسی جماعت کا حق نہیں کہ بینچ منتخب کرے۔
عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ یہ بہت اہم کیس ہے، اسی لیے فل کورٹ تشکیل دیا جانا ضروری ہے۔
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ فل کورٹ کیوں چاہتے ہیں؟ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ عدالت کے اپنے فیصلے ہیں کہ ایسے آئینی معاملات میں فل کورٹ ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی: 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے اور ایس آئی ایف سی تحلیل کرنے کا مطالبہ
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 اے فل کورٹ پر بات نہیں کرتا بلکہ بینچ سے متعلق ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن کے تحت نامزد ہوتا ہے، اس میں فل کورٹ کا ذکر نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 8 ججز بیٹھ کر فیصلہ کریں تو غلط ہوگا؟ 8 ہم بیٹھیں یا فل کورٹ بیٹھے، بات تو ایک ہی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ بینچ متعصب ہے؟
عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ ہم کسی جج پر اعتراض نہیں کر رہے، سب ججز قابلِ احترام ہیں، البتہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست بہت اہم نوعیت کی ہے، اس لیے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس اور موجودہ آئینی بینچ خود 26ویں ترمیم کا نتیجہ ہیں، تو پھر کیا آئینی بینچ فل کورٹ کا آرڈر دے سکتا ہے؟ عابد زبیری نے کہا کہ آئینی بینچ جوڈیشل آرڈر پاس کرسکتا ہے، جبکہ بینچ کی تشکیل انتظامی معاملہ ہوتا ہے۔ اب چیف جسٹس ماسٹر آف دی روسٹر نہیں رہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے میں فل کورٹ کا کوئی ذکر نہیں، آئینی بینچ ہی آئینی معاملات سننے کا مجاز ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 26ویں آئینی ترمیم کیس: مصطفیٰ نواز کھوکھر کی رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیخلاف اپیل دائر
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ فل کورٹ چاہتے ہیں لیکن محدود ججز کے ساتھ، چوبیس ججز پر مبنی فل کورٹ کیوں نہیں چاہتے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ ہم کسی جج کو نکالنے کی بات نہیں کر رہے، بس چاہتے ہیں کہ فل کورٹ چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل کے ججز پر مشتمل ہو۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی ترمیم سپریم کورٹ سماعت عابد زبیری فل کورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ فل کورٹ 26ویں آئینی ترمیم کے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ کہ بینچ فل کورٹ ہیں کہ
پڑھیں:
کنٹونمنٹ بورڈز تحلیل کے خلاف آئینی پٹیشن سماعت کے لئے منظور
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کنٹونمنٹ بورڈز تحلیل کے خلاف آئینی پٹیشن سماعت کے لئے منظور کرلی۔
ہائی کورٹ نے وزارت دفاع اوروفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیے، وزارت دفاع اور وفاقی حکومت سے منگل 2 دسمبر کو جواب طلب کرلیا۔
وزارت دفاع نے پٹیشن کا شق وار جواب جمع کرانے کا حکم دیا، کنٹونمنٹ بورڈ واہ کینٹ کے وائس پریزیڈنٹ محمد ارشد نے پٹیشن دائر کی۔
پٹیشن کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز کی آئینی مدت مارچ 2026 کو ختم ہورہی ہے، ویری عارضی نگران بورڈ بنانا غیر قانونی غیر آئینی ہے، حکومت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر مارچ تک بورڈز بحال کئے جائیں۔
ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جج جسٹس رضا قریشی نے سماعت کی۔