حکمران قرضے لینے اور عوام پر ٹیکس لگانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے، پاکستان سنی تحریک
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں شاداب رضا نقشبندی نے کہا کہ قرضوں کی مد میں لی گئی رقم کرپشن کی نظر ہو رہی ہے، آئی ایم ایف نے قرضوں کی رقم میں کرپشن کا پردہ چاک کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان سنی تحریک کے سربراہ محمد شاداب رضا نقشبندی نے کہا ہے کہ حکمران قرضے لینے اور عوام پر ٹیکس لگانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ اپنے ایک بیان میں شاداب نقشبندی نے کہا کہ وزیر خزانہ معاشی استحکام کے حوالوں سے قرضوں اور ٹیکسوں کو فوکس کئے ہوئے ہیں، عام آدمی آج بھی معاشی طور پر شدید پریشان ہیں، بھوک و افلاس سے پریشان حال خودکشیاں کر رہے ہیں، عدل و انصاف کے نظام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ہے، عدل و انصاف کی بالادستی اور عوام کے حقوق کے حصول کیلئے آئین و جمہوری قدروں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔
شاداب نقشبندی نے کہا کہ قرضوں کی مد میں لی گئی رقم کرپشن کی نظر ہو رہی ہے، آئی ایم ایف نے قرضوں کی رقم میں کرپشن کا پردہ چاک کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ دار ملک سے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں، جس کی وجہ حکمرانوں کی معاشی ناقص پالیسیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانا ہے تو بیرونی سرمایہ داروں کو ملک میں آسانایاں فراہم کی جائیں اور انہیں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نقشبندی نے کہا نے کہا کہ قرضوں کی
پڑھیں:
موجودہ ترقیاتی ماڈل 25 کروڑ آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، گورنر اسٹیٹ بینک
اسلام آباد:اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمدنے کہا ہے کہ پاکستان کا موجودہ معاشی ترقیاتی ماڈل 25 کروڑسے زائدآبادی کے تقاضے پورے کرنے کے قابل نہیں رہا،جبکہ مستقل بنیادوں پر مستحکم پالیسیوں کاجاری رہنابھی نہ توممکن ہے اور نہ ہی معیشت کیلیے فائدہ مند، وہ پاکستان بزنس کونسل کے ’معیشت پر مذاکرات‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔
گورنر نے بتایا کہ پاکستان کی معاشی نموگزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل تنزلی کاشکار ہے،جو 30 سال کے اوسط 3.9 فیصدسے کم ہوکرگزشتہ پانچ سال میں صرف 3.4 فیصد پر آگئی ہے۔
ان کے مطابق کاروباری چکر مختصر ہو رہے اور موجودہ ماڈل ملک کوطویل مدتی استحکام فراہم نہیں کرسکتا، طویل عرصے سے جاری اقدامات نے عوام اورکاروباری طبقے کوبھاری ٹیکسوں اور مہنگی توانائی کے ذریعے متاثرکیا ہے۔
جبکہ حکومتی اخراجات پر مؤثرکنٹرول نظر نہیں آتا، موجودہ حالات میں بے روزگاری 21 سال کی بلند ترین سطح 7.1 فیصد پر پہنچ چکی ہے،جبکہ عالمی بینک کے مطابق غربت کی شرح 44.7 فیصد ہے۔
گورنر نے واضح کیا کہ ملک ایک ’’انفلیکشن پوائنٹ‘‘ پرکھڑاہے، جہاں فوری طور پر قلیل مدتی استحکام سے ہٹ کر دیرپا اور جامع معاشی نموکی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے پالیسی سازوں کو طویل المدتی اصلاحات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کاروباری طبقے کوخبردارکیاکہ وہ مختصر منافع کے لالچ میں مستقبل کی مسابقت کوقربان نہ کریں،نجی شعبے کو اندرونی مارکیٹ پر انحصار چھوڑکر عالمی منڈیوں میں مسابقت کیلیے آگے آنا ہوگا۔
اپنی پیداواری صلاحیت جدید خطوط پر استوارکرنا ہوگی اور غیر رسمی شارٹ کٹس کے بجائے حقیقی مسابقت اختیارکرنا ہوگی۔
جمیل احمد کے مطابق اسٹیٹ بینک نے معیشت کو دوبارہ ’’بوم اینڈبسٹ‘‘ کے چکر میں جانے سے روکنے کیلیے پالیسی سازی کومزید پیشگی تجزیوں پر مبنی بنا دیا ہے، مہنگائی کم ہوچکی ہے اور آئندہ برسوں میں 5 تا 7 فیصدکے ہدف کے اندر رہنے کا امکان ہے۔
حکومت پچھلے تین برسوں سے مسلسل اپنی پرائمری سرپلس کے اہداف کو نہ صرف پوراکر رہی ہے،بلکہ انہیں عبور بھی کیا ہے،جس سے مالیاتی استحکام میں بہتری آئی ہے۔
گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ دو برس میں حکمتِ عملی کے تحت مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر ڈالرخرید کر زرِمبادلہ ذخائر کو مضبوط کیا ہے۔
جمیل احمد نے زور دیا کہ پاکستان کو ہنگامی بنیادو ں پر مضبوط، پائیدار اور بیرونی دنیا سے مربوط معاشی نموکے ماڈل پرمنتقل ہونا چاہیے، ملک بار بار معاشی نمو اور استحکام کے تکلیف دہ اقدامات کے ادوارسے گذر چکا، موجودہ حالات طویل مدتی تبدیلی لانے کاحقیقی موقع فراہم کرتے ہیں ۔
گورنر نے وضاحت کی کہ موجودہ استحکام کامرحلہ گذشتہ ادوارسے کیوں مختلف ہے،اب کلی معاشی نظم و ضبط ہم آہنگ ،مستقبل بین زری اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے مستحکم ہواہے اور اسی کی مددسے اس قبل از وقت نرمی سے بچاجاسکاہے،جو ماضی میں استحکام کومتاثرکرتی رہی ہے۔
سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایاکہ پاکستان کی باضابطہ معیشت کاحجم تقریباً 350 ارب ڈالر ہے،مگر اسمگلنگ اور بغیر ٹیکس چلنے والی غیر رسمی معیشت کوشامل کیاجائے تو مجموعی حجم تقریباً 700 ارب ڈالر بنتاہے۔