غزہ میں مسلسل اسرائیلی حملے، امدادی سامان کی ترسیل شدید رکاوٹوں کا شکار ہے: اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ غزہ میں مسلسل اسرائیلی حملوں اور سخت پابندیوں کے باعث امدادی سامان کی ترسیل شدید رکاوٹوں کا شکار ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ غزہ کے بیشتر ہسپتال صرف جزوی طور پر فعال ہیں اور 16,500 سے زائد مریضوں کو فوری منتقلی کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ پٹی کے مختلف حصوں میں جاری جھڑپیں نہ صرف جانی نقصان کا سبب بن رہی ہیں بلکہ انسانی امداد کی ترسیل میں بار بار رکاوٹیں بھی پیدا کر رہی ہیں۔
ترجمان کے مطابق منگل کو اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں نے اسرائیلی حکام کے ساتھ غزہ کے اندر انسانی امداد کی 8 منصوبہ بند نقل و حرکت کو ہم آہنگ کیا، جن میں سے صرف ایک کی اجازت ملی جبکہ سات سرگرمیوں کو روکا، مسترد یا منسوخ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں پہنچنے والا ہر ٹرک انتہائی فرق پیدا کرتا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ غزہ میں کوئی بھی ہسپتال مکمل طور پر فعال نہیں ہے، 36 میں سے صرف 18 ہسپتال جزوی طور پر خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب بھی 16,500 سے زائد مریض ایسے ہیں جنہیں غزہ سے باہر فوری علاج کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار پابندیوں میں نرمی ہوتے ہی اپنی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر غیر مشروط انسانی رسائی کی اپیل کرتے ہیں تاکہ امدادی ٹیمیں ہر اس شخص تک پہنچ سکیں جنہیں مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ جیسے ہی پابندیاں ختم ہوں گی، ہم اور ہمارے شراکت دار کہیں زیادہ موثر انداز میں کام کر سکیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ انہوں نے کہ غزہ نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
اقوامِ متحدہ نے 2025ء کو ’’عالمی سالِ کوانٹم سائنس و ٹیکنالوجی‘‘ قرار دے دیا
اقوامِ متحدہ نے 2025ء کو ’’عالمی سالِ کوانٹم سائنس و ٹیکنالوجی‘‘ قرار دے کر نہ صرف کوانٹم میکینکس کی ایک صدی مکمل ہونے کا اعتراف کیا ہے بلکہ کوانٹم دور کے عالمی آغاز کی باضابطہ توثیق بھی کر دی ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا مظہر ہے کہ کوانٹم تحقیق اب صرف نظریاتی بحث نہیں بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجی، صنعتی ترقی اور عالمی نظم و نسق کی بنیاد بن رہی ہے۔
انسانی ذہن کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ فطرت کے پوشیدہ رازوں کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ سائنس کی تاریخ بھی اسی جستجو کی داستان ہے، جہاں ہر حل شدہ سوال کئی نئے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ طبیعیات کے شعبے میں ہر چند برس بعد کوئی ایسا انکشاف سامنے آتا ہے جو انسانی علم کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتا ہے اور کائنات کے بنیادی ڈھانچے پر نظر ثانی کا تقاضا کرتا ہے۔
حال ہی میں جاپانی سائنس دانوں نے ایک انقلابی دریافت کی ہے جو نظری اور عملی دونوں سطحوں پر سائنس کے افق کو روشن کرتی ہے۔ اس تحقیق میں انہوں نے ’’بھاری الیکٹرانز‘‘ یا ’’بھاری فرمیونز‘‘ کے راز فاش کیے، جو اپنی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے سائنسدانوں کے لیے طویل عرصے سے تجسس کا باعث تھے۔
عام الیکٹران ہلکے اور تیز رفتار ذرات ہوتے ہیں، لیکن جب یہ کسی خاص دھات یا مرکب میں مقامی مقناطیسی الیکٹرانز کے ساتھ مضبوط تعامل کرتے ہیں تو ان کا مؤثر کمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، جس سے وہ عام الیکٹرانز کے مقابلے میں ’’بھاری‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھاری پن محض علامتی نہیں بلکہ ان کے رویّے، توانائی اور حرکت میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔
اوساکا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مرکب ’’سیریم۔رھوڈیم۔ٹن‘‘ کا مطالعہ کیا، جس کی جالی نما ساخت ’’شبکۂ کاغومی‘‘ کہلاتی ہے۔ اس پیچیدہ جیو میٹری میں ایٹم کسی سیدھی لائن میں نہیں بلکہ ایک الجھے ہوئے نظام میں ترتیب پاتے ہیں، جس سے الیکٹرانز کے رویّے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
تحقیق سے یہ انکشاف ہوا کہ سی۔رھوڈیم۔ٹن میں موجود بھاری فرمیونز کی زندگی کی مدت انتہائی مختصر ہو کر پلینک لمحے تک پہنچ جاتی ہے، جو طبیعیات میں سب سے بنیادی اور چھوٹا وقت کا پیمانہ ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ اثر کمرے کے درجۂ حرارت پر بھی برقرار رہتا ہے، جبکہ عام طور پر کوانٹم مظاہر انتہائی کم درجہ حرارت پر ہی دیکھے جاتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم نے الیکٹرانز کے توانائیاتی طیف کا مطالعہ کیا اور پایا کہ یہ الیکٹرانز کوانٹم الجھاؤ کی حالت میں ہیں، جس میں دو یا زیادہ ذرات ایک دوسرے سے اس طرح جُڑ جاتے ہیں کہ ایک پر اثر دوسرے پر فوری اثر ڈال دیتا ہے، خواہ وہ فاصلے پر ہوں۔ یہ مظہر جسے آئن اسٹائن نے ’’فاصلہ پر پراسرار عمل‘‘ کہا، اب کوانٹم طبیعیات میں بنیادی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شِن اِیچی کیمورا نے وضاحت کی کہ ان کا مطالعہ دکھاتا ہے کہ بھاری فرمیونز ایک نازک کوانٹم حالت میں الجھے ہوئے ہیں اور یہ الجھاؤ پلینک لمحے کے ذریعے کنٹرول ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ذرات فطرت کے سب سے بنیادی وقت کے پیمانے پر جُڑے ہوئے ہیں۔
یہ دریافت محض نظریاتی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ عملی سطح پر بھی اس کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔ آج کے کمپیوٹر دو حالتوں یعنی صفر اور ایک پر مبنی ہیں، جبکہ کوانٹم کمپیوٹرز کوانٹم خانوں کا استعمال کرتے ہیں جو ایک ہی وقت میں صفر اور ایک دونوں حالتوں میں رہ سکتے ہیں، جس سے حسابی طاقت اور رفتار کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بھاری فرمیونز میں پائے جانے والے مستحکم کوانٹم حالات اگر قابو میں آ جائیں تو یہ کوانٹم کمپیوٹنگ میں انقلابی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
مزید برآں، تحقیق نے غیرفرمی مائع کے رویّے پر بھی روشنی ڈالی، جس میں الیکٹرانز سادہ فرمی مائع نظریہ پر پورا نہیں اترتے بلکہ کوانٹم الجھاؤ کی پیچیدہ حالت میں رہتے ہیں۔ اگر مستقبل میں سائنسدان اس الجھاؤ کو قابو میں لانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ نہ صرف کوانٹم کمپیوٹرز بلکہ کوانٹم مواصلات، معلوماتی عمل کاری اور توانائیاتی ٹیکنالوجی میں بھی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ سی۔رھوڈیم۔ٹن میں بھاری فرمیونز کی دریافت سائنس میں ایک سنگ میل ہے، جو کوانٹم الجھاؤ کو ٹھوس مادّوں میں فعال ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور اس کے ذریعے ٹیکنالوجی کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔
کوانٹم کمپیوٹنگ آج سائنس کی تاریخ میں وہ مقام رکھتی ہے جو کبھی ایٹمی توانائی یا ڈیجیٹل انقلاب کو حاصل تھا۔ یہ ایک نئی سائنسی سرحد ہے جو علم، طاقت اور امکانات کی نئی دنیا کھول رہی ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر رچرڈ فائن مین نے 1981ء میں کہا تھا:قدرت خود کوانٹم انداز میں کام کرتی ہے، لہٰذا اگر ہم اسے سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوانٹم انداز میں سوچنا ہوگا۔
آج یہ فلسفہ حقیقت بن رہا ہے اور انسانیت کے سامنے دو راستے ہیں: یا تو اس طاقت کو اخلاقی اور انسانی خدمت میں استعمال کیا جائے، یا اسے ناپسندیدہ مسابقت کا ذریعہ بنایا جائے۔ کامیابی اسی میں ہے کہ کوانٹم علم کو انسانی فلاح، مساوات اور پائیدار ترقی کے لیے بروئے کار لایا جائے۔