لبنان میں اسرائیلی حملے، اقوامِ متحدہ کا شدید ردعمل: فوری تحقیقات کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
اقوامِ متحدہ نے لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر ہونے والے مہلک اسرائیلی فضائی حملوں پر فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان تقریباً ایک سال پہلے طے پانے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فوج کی کارروائیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ لبنان پہلے ہی اسرائیل پر گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا چکا ہے، جس کا مقصد حزب اللہ کے ساتھ جاری جھڑپوں کو روکنا تھا۔
لبنانی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے 330 سے زائد افراد ہلاک اور 945 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں 127 عام شہری شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتے جنوبی لبنان کے عین الحلوہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں 13 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 11 بچے شامل تھے۔
اقوامِ متحدہ کے ترجمان ثمین الخیطانی نے کہا کہ تمام ہلاکتیں عام شہریوں کی تھیں، جس سے خدشات بڑھ گئے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عین الحلوہ واقعے سمیت تمام حملوں کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج کو اپنے حملوں کی خود تحقیقات کرنی چاہئیں، جبکہ لبنان کو بھی اپنی جانب سے ہونے والی مبینہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
یو این کے مطابق اسرائیلی حملوں نے لبنان میں شہری انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور جنوبی لبنان کے ہزاروں متاثرہ افراد کی گھروں کو واپسی کی کوششیں متاثر ہوئی ہیں، جبکہ ملک بھر میں 64 ہزار سے زائد افراد اب بھی بے گھر ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اسرائیل نے لبنان کی حدود میں دیوار تعمیر کرنا شروع کر دی ہے، جس کے باعث 4 ہزار مربع میٹر علاقہ مقامی آبادی کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔
یو این نے تمام فریقین سے جنگ بندی پر مکمل عملدرآمد اور متاثرہ شہریوں کی بحالی کے عمل میں رکاوٹیں دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اقوامِ متحدہ نے 2025ء کو ’’عالمی سالِ کوانٹم سائنس و ٹیکنالوجی‘‘ قرار دے دیا
اقوامِ متحدہ نے 2025ء کو ’’عالمی سالِ کوانٹم سائنس و ٹیکنالوجی‘‘ قرار دے کر نہ صرف کوانٹم میکینکس کی ایک صدی مکمل ہونے کا اعتراف کیا ہے بلکہ کوانٹم دور کے عالمی آغاز کی باضابطہ توثیق بھی کر دی ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا مظہر ہے کہ کوانٹم تحقیق اب صرف نظریاتی بحث نہیں بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجی، صنعتی ترقی اور عالمی نظم و نسق کی بنیاد بن رہی ہے۔
انسانی ذہن کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ فطرت کے پوشیدہ رازوں کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ سائنس کی تاریخ بھی اسی جستجو کی داستان ہے، جہاں ہر حل شدہ سوال کئی نئے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ طبیعیات کے شعبے میں ہر چند برس بعد کوئی ایسا انکشاف سامنے آتا ہے جو انسانی علم کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتا ہے اور کائنات کے بنیادی ڈھانچے پر نظر ثانی کا تقاضا کرتا ہے۔
حال ہی میں جاپانی سائنس دانوں نے ایک انقلابی دریافت کی ہے جو نظری اور عملی دونوں سطحوں پر سائنس کے افق کو روشن کرتی ہے۔ اس تحقیق میں انہوں نے ’’بھاری الیکٹرانز‘‘ یا ’’بھاری فرمیونز‘‘ کے راز فاش کیے، جو اپنی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے سائنسدانوں کے لیے طویل عرصے سے تجسس کا باعث تھے۔
عام الیکٹران ہلکے اور تیز رفتار ذرات ہوتے ہیں، لیکن جب یہ کسی خاص دھات یا مرکب میں مقامی مقناطیسی الیکٹرانز کے ساتھ مضبوط تعامل کرتے ہیں تو ان کا مؤثر کمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، جس سے وہ عام الیکٹرانز کے مقابلے میں ’’بھاری‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھاری پن محض علامتی نہیں بلکہ ان کے رویّے، توانائی اور حرکت میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔
اوساکا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مرکب ’’سیریم۔رھوڈیم۔ٹن‘‘ کا مطالعہ کیا، جس کی جالی نما ساخت ’’شبکۂ کاغومی‘‘ کہلاتی ہے۔ اس پیچیدہ جیو میٹری میں ایٹم کسی سیدھی لائن میں نہیں بلکہ ایک الجھے ہوئے نظام میں ترتیب پاتے ہیں، جس سے الیکٹرانز کے رویّے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
تحقیق سے یہ انکشاف ہوا کہ سی۔رھوڈیم۔ٹن میں موجود بھاری فرمیونز کی زندگی کی مدت انتہائی مختصر ہو کر پلینک لمحے تک پہنچ جاتی ہے، جو طبیعیات میں سب سے بنیادی اور چھوٹا وقت کا پیمانہ ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ اثر کمرے کے درجۂ حرارت پر بھی برقرار رہتا ہے، جبکہ عام طور پر کوانٹم مظاہر انتہائی کم درجہ حرارت پر ہی دیکھے جاتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم نے الیکٹرانز کے توانائیاتی طیف کا مطالعہ کیا اور پایا کہ یہ الیکٹرانز کوانٹم الجھاؤ کی حالت میں ہیں، جس میں دو یا زیادہ ذرات ایک دوسرے سے اس طرح جُڑ جاتے ہیں کہ ایک پر اثر دوسرے پر فوری اثر ڈال دیتا ہے، خواہ وہ فاصلے پر ہوں۔ یہ مظہر جسے آئن اسٹائن نے ’’فاصلہ پر پراسرار عمل‘‘ کہا، اب کوانٹم طبیعیات میں بنیادی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شِن اِیچی کیمورا نے وضاحت کی کہ ان کا مطالعہ دکھاتا ہے کہ بھاری فرمیونز ایک نازک کوانٹم حالت میں الجھے ہوئے ہیں اور یہ الجھاؤ پلینک لمحے کے ذریعے کنٹرول ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ذرات فطرت کے سب سے بنیادی وقت کے پیمانے پر جُڑے ہوئے ہیں۔
یہ دریافت محض نظریاتی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ عملی سطح پر بھی اس کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔ آج کے کمپیوٹر دو حالتوں یعنی صفر اور ایک پر مبنی ہیں، جبکہ کوانٹم کمپیوٹرز کوانٹم خانوں کا استعمال کرتے ہیں جو ایک ہی وقت میں صفر اور ایک دونوں حالتوں میں رہ سکتے ہیں، جس سے حسابی طاقت اور رفتار کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بھاری فرمیونز میں پائے جانے والے مستحکم کوانٹم حالات اگر قابو میں آ جائیں تو یہ کوانٹم کمپیوٹنگ میں انقلابی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
مزید برآں، تحقیق نے غیرفرمی مائع کے رویّے پر بھی روشنی ڈالی، جس میں الیکٹرانز سادہ فرمی مائع نظریہ پر پورا نہیں اترتے بلکہ کوانٹم الجھاؤ کی پیچیدہ حالت میں رہتے ہیں۔ اگر مستقبل میں سائنسدان اس الجھاؤ کو قابو میں لانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ نہ صرف کوانٹم کمپیوٹرز بلکہ کوانٹم مواصلات، معلوماتی عمل کاری اور توانائیاتی ٹیکنالوجی میں بھی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ سی۔رھوڈیم۔ٹن میں بھاری فرمیونز کی دریافت سائنس میں ایک سنگ میل ہے، جو کوانٹم الجھاؤ کو ٹھوس مادّوں میں فعال ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور اس کے ذریعے ٹیکنالوجی کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔
کوانٹم کمپیوٹنگ آج سائنس کی تاریخ میں وہ مقام رکھتی ہے جو کبھی ایٹمی توانائی یا ڈیجیٹل انقلاب کو حاصل تھا۔ یہ ایک نئی سائنسی سرحد ہے جو علم، طاقت اور امکانات کی نئی دنیا کھول رہی ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر رچرڈ فائن مین نے 1981ء میں کہا تھا:قدرت خود کوانٹم انداز میں کام کرتی ہے، لہٰذا اگر ہم اسے سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوانٹم انداز میں سوچنا ہوگا۔
آج یہ فلسفہ حقیقت بن رہا ہے اور انسانیت کے سامنے دو راستے ہیں: یا تو اس طاقت کو اخلاقی اور انسانی خدمت میں استعمال کیا جائے، یا اسے ناپسندیدہ مسابقت کا ذریعہ بنایا جائے۔ کامیابی اسی میں ہے کہ کوانٹم علم کو انسانی فلاح، مساوات اور پائیدار ترقی کے لیے بروئے کار لایا جائے۔